پوسٹ تلاش کریں

مشال خان کے قاتلوں کا جذبہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ کیسے بن سکتا ہے؟ عتیق گیلانی

مشال خان کے قاتلوں کا جذبہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ کیسے بن سکتا ہے؟ عتیق گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

میں (عتیق گیلانی) نے لاہور ، اوکاڑہ ، گوجرانوالہ ، اسلام آباد ، پشاور ، نوشہرہ، مردان اور صوابی کا مختصر دورہ کیا ، اتحاد العلماء جماعت اسلامی نے جو پشاور میں علماء و مشائخ کانفرنس منعقد کی اس میں بھی مختصر شرکت کی۔ مشال خان کے والد سے بھی معلومات لیں۔ اسکے والد نے بتایا کہ ’’پورا گاؤں زیدہ صوابی گواہ ہے کہ میرے بیٹے نے کبھی کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کیا ، عام آدمی کو بھی کبھی گالی نہیں دی۔ رسول اللہ ﷺ کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پانچ وقت کا نمازی اور روزانہ قرآن کی تلاوت کرتا تھا۔ بس ایک غریب کا بیٹا تھا ، اسکی قابلیت کی اسکو سزا دی گئی۔ میرے بیٹے کیساتھ جو ہوا سو ہوا مگر کسی اور غریب کے بیٹے کیساتھ ایسا نہ ہو۔ اسلئے میں برسر اقتدار طبقہ سے انصاف چاہتا ہوں، مولانا فضل الرحمن نے ٹھیک بات کہی، البتہ کچھ علماء اسکی پارٹی کے شرپسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے شریف علماء بھی دباؤ کا شکار ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ہم اور مولانا فضل الرحمن اکھٹے تھے، میں نے مفتی محمودؒ کے پیچھے بھی نماز پڑھی ہے، اس واقعہ پر بہت لوگ دور دور سے افسوس کا اظہار کرنے آئے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن کی ویڈیو یو ٹیوب پر ہے ، مولانا شجاع الملک کا بیان بھی موجود ہے۔ دونوں بیانات میں تضادات ہیں اور ان تضادات کو سنجیدگی سے ختم کرنے کا تہیہ کیا جائے تو اسلام و پاکستان کا پوری دنیا میں بول بالا ہوسکتا ہے ، علماء کرام کسی کا دُم چھلہ نہ بھی بنیں تو عوام کا جم غفیر انکو اقتدار میں لائیگا، پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام ہی کی بنیاد پر پاکستان رہیگا۔
مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ’’ اس پارٹی کو بیرونی ایجنڈے کے تحت پاکستان میں سازش کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اس نے سب سے پہلے قادیانیوں سے مدد لی۔ اس واقعہ میں مشال خان کو یونیورسٹی کے ساتھیوں نے الزام کی بنیاد پر قتل کیا ، اگر تحقیق کے بعد ثابت ہوجائے کہ الزام غلط تھا تو ہم اسکے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر ثابت ہوجائے کہ الزام درست تھا تب بھی قاتلوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا حق نہیں تھا۔ یہ ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے۔ اسمبلی میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ توہین رسالت کا قانون درست ہے مگر اسکا غلط استعمال روکا جائے۔ حالانکہ یہ اسوقت کہا جاسکتا ہے کہ جب قانون کا غلط استعمال ہو جبکہ یہاں تو قانون کا استعمال ہوتا ہی نہیں اگر ہوتا تو اس قسم کے واقعات بھی پیش نہ آتے‘‘۔
مولانا فضل الرحمن ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور اپنی بات کو گول مول پیش کرنے میں بڑی مہارت کی شہرت رکھتے ہیں۔ اگر وہ اسلام کی خاطر نہیں اپنے سیاسی مخالف کو ٹھکانے لگانے کی خاطر بھی یہ کہتے کہ ’’عبد الولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ، جب مشال خان نے انتظامیہ کیخلاف کرپشن پر آواز اٹھائی تو اس پر توہین رسالت کے حوالے سے جھوٹا الزام ایک تیر سے دو شکار تھے، ایک اپنے کرپشن کو چھپانا اور دوسرا توہین رسالت کے حوالے سے طالب علموں کے جذبات کو غلط استعمال کرکے دنیا بھر میں اسلام کو بدنام کرنا تھا تاکہ اس قانون کی پاکستان سے چھٹی کرائی جائے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن مشال خان کے والد سے تعزیت کرنے پہنچ جاتے اور ان کو پورا پورا انصاف دلانے کی یقین دہانی کراتے تو بڑی تعداد میں عوام کے دل جیت لیتے۔ ایک طرف موم بتی گروپ علماء سے نفرت کا اظہار کرے اور دوسری طرف علماء اپنے اقدام کے سبب لوگوں کی نظر میں انتہائی گراوٹ کا شکار ہوں تو یہ ملک و قوم کیلئے بہت بڑا المیہ ہے۔
مولانا شجاع الملک نے اپنے جلسہ میں مذہبی طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا بیانیہ بہت اچھے انداز میں پیش کیا کہ ’’دنیا بھر میں قتل ہوتے ہیں ، ظلم و جبر کا بازار گرم ہوتا ہے مگر اقوام متحدہ، بیرونی ممالک اور ہمارے حکمران طبقات اور میڈیا ٹس سے مس نہیں ہوتا لیکن جب توہین رسالت کے مرتکب کو سزا دینے کی بات ہوتی ہے تو سب ایک زباں ہوکر شور مچاتے ہیں۔ جب اصلاحات کے حوالے سے مجھے ہری پور جیل جانا پڑا ،تو پھانسی کی چکیوں میں مردانیوں کی اکثریت تھی، 134 میں سے 128پھانسی کے منتظر مردانی تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کہ تم نے ماں کو گالی دی ہے اور میرے کتے کی توہین کی ہے اسلئے قتل کرتا ہوں۔ جب رسول اللہ ﷺ کی توہین پر ایک قتل ہوا تو یہ دنیا کھڑی ہوگئی کہ بڑا جرم ہوگیا ہے۔ حالانکہ اگر مشال مجرم نہ بھی تھا تو چھوڑ دیتے کہ چلو اچھا ہوا کہ ایمان اور اسلام کیلئے مردانیوں نے یہ قربانی دی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی شلوار نکل گئی مگر بہت سوں کی نکلی ہے تو ایک اسکی بھی نکل گئی تو کیا ہوا؟۔ کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ہمارے بہت محترم شخصیت مسجد کے امام نے اس کو لوگوں سے بچا کر پولیس کے حوالے کیا۔ لوگوں نے مولانا کی گاڑی بھی جلادی اور وہ اب تک عوام کے خوف سے مفرور ہیں۔ اس ملک میں قانون کسی اور کیلئے نہیں ہے صرف مولوی کیلئے ہے اور مولوی پاسداری بھی کرے تو بھی اس کو ٹھکانہ نہیں ملتا۔ ہم اس کارنامے پر مشال خان کے قاتل غازیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اگر مشال خان کے جرم کا کوئی گواہ نہیں تو حاضرین تم سب اسکے گواہ ہو ، سب نے کہا کہ ہاں ہم گواہ ہیں‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا شجاع الملک نے اپنے ایمانی جذبات کا بہت بہادری کے ساتھ اس وقت اظہار کیا کہ جب قانون نافذ کرنے والے مشال خان کے قاتلوں اور انکو اشتعال دلانے والوں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف تھے۔ ایک طرف میڈیا نے وہ مناظر دکھائے جب تحریک انصاف کے جلسوں میں کارکن کسی لڑکی کو بھنبھوڑ رہے تھے تو دوسری طرف تحریک انصاف کا نمائندہ کونسلر ، یونیورسٹی انتظامیہ اور کالج کے لڑکے مشال خان کو مذہبی جذبے کے تحت قتل کرکے تشدد کا نشانہ بنارہے تھے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے دونوں مظلوموں سے ہمدردی کا اظہار کیا لیکن ایک میں انصاف کے تقاضے پورے ہوئے یا نہیں دوسرے کا بھی پتہ چل جائیگا۔ مولانا شجاع الملک نے اپنے قائد مولانا فضل الرحمن کی طرح اس موضوع پر اپنی سیاست چمکانے کے بجائے صرف اور صرف مذہبی جوش و خروش اور جاہ و جلال کا مظاہرہ کیا ہے جو خوش آئند ہے۔
سورہ فاتحہ کے بعد اللہ نے سورہ بقرہ کی ابتداء میں بسم اللہ کے بعد فرمایا: ذٰلک الکتٰب لاریب فیہ ہدی للمتقین ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں شک نہیں ہدایت دیتی ہے متقیوں کو‘‘ ۔ حضرت عمرفاروق اعظمؓ کیلئے رسول اللہ ﷺ نے ہدایت کی دعا فرمائی۔ اس دعا میں عمرو بن ہشام ابوجہل بھی شامل تھا۔ ابو جہل ایک سیاسی و مذہبی قائد تھا۔ اس نے ایک اجتماع میں عوام کو بھڑکایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے معبودوں کی توہین کی ہے ، بھائی کا بھائی سے جھگڑا ہے اور بیٹے کا باپ سے۔ اس فتنے کو ختم کرنے پر قوم کی طرف سے 100اونٹوں کا انعام دیا جائیگا‘‘۔ حضرت عمرؓ ایک جذباتی انسان تھے مگر ان کے دل میں لالچ نہیں تھی۔ تلوار نیام سے نکال کر رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کی غرض سے روانہ ہوئے تو راستے میں کسی نے خبر دی کہ تمہارا بہنوئی بھی اسلام قبول کرچکا ہے۔ حضرت عمرؓ نے رُخ موڑا ، بہنوئی اور بہن کی پٹائی لگانی شروع کی ، جب استقامت کا مظاہرہ دیکھا تو کہا کہ مجھے بھی قرآن کے اوراق دکھادو ، بہن نے کہا کہ تم پہلے غسل کرلو۔ قرآن کا پڑھنا تھا کہ حضرت عمرؓ کی کیفیت بدل گئی اور اسلام قبول کیا۔ پھر حضرت عمرؓ کے ذریعے سے اسلام کو کھلم کھلا وہ تقویت ملی جس کی وجہ سے آپ کو فاروق اعظم کا خطاب مل گیا تھا۔
سید الشہداء حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کرکے کلیجہ نکالنے والے وحشیؓ اور کلیجہ چبانے والی ہندہؓ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق دی، جن کا چہرہ بھی رسول اللہ ﷺ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ اس مشال خان کے واقعہ کا جو بھی پس منظر ہے ، قاتلوں کیساتھ اسکے کوئی ذاتیات نہیں تھے ، جن لوگوں نے قتل کے بعد بھی انتہائی سلوک کیا ان میں بہر حال دین ، مذہب اور رسول اللہ ﷺ سے محبت ہی کا جذبہ کار فرما تھا۔ مولانا شجاع الملک کی سوچ مردان کے حوالے سے ماحول کا حصہ ہوسکتی ہے مگر قرآن کسی ایک بے گناہ کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ اگر کسی مخالف مکتبہ فکر کی عوام یہ غلط پروپیگنڈہ کریں کہ مولانا شجاع الملک توہین رسالت کا مرتکب ہے اور اسکے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے جو مشال خان کیساتھ روا رکھا گیا تو مولانا شجاع الملک کے لواحقین بھی ہمدردی کے لائق ہونگے۔ اسلام میں لاش کیساتھ مسخ کرنے کا سلوک ناجائز ہے تو کوئی مولانا اس کو جواز نہیں بخش سکتا۔ شلوار کا نکلنا اس کیلئے بہت بڑی توہین ہے جس کی عادت نہیں بگڑی ہو۔ جس کی عادت رہی ہو اس کیلئے واقعتا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ مشال خان بے گناہ تھا یا مجرم تھا، سوال یہ ہے کہ قاتلوں نے جس جذبے کے تحت اسکے ساتھ یہ سلوک کیا ہے وہ جذبہ ٹھیک تھا یا غلط؟۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ درست جذبے کواجاگر کرکے اسکا غلط استعمال روکا جائے، مولانا فضل الرحمن کی یہ بات درست ہے کہ توہین رسالت کے قانون کیخلاف سازش ہورہی ہے، مگر بات قانون کے درست یا غلط استعمال کی نہیں بلکہ اس جذبے کو غلط استعمال کرنے کی ہے، اگر مشال خان نے توہین نہیں کی تھی اور مولانا فضل الرحمن اسکے ساتھ کھڑے ہیں اور قاتلوں کو مجرم ہی سمجھتے ہیں تو مولانا شجاع الملک اور مولانا فضل الرحمن کے تضادات کو کیسے دور کیا جائیگا؟۔
ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت وحشیؓ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے ہدایت دیدی مگر علماء اور مذہبی طبقات کی اکثریت ہدایت پانے کی توفیق سے کیوں محروم ہیں؟۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اقتدار اور دولت کی لالچ نے ان کو ہدایت سے محروم کیا ہے۔ حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کرنے والے وحشیؓ نے بھی لالچ میں کارنامہ انجام دیا تھا مگر پھر بھی ان کو ہدایت مل گئی۔ دولت اور اقتدار کی لالچ تو بہت لوگوں کو ہوتی ہے۔ انصارؓ و مہاجرینؓ ، عشرہ مبشرہ کے صحابہؓ کے بعد بنو اُمیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ کے ادوار میں بڑے اور اچھے لوگ بھی دولت اور اقتدار کی لالچ میں مبتلا ہونے کے باوجود ہدایت سے محروم نہیں رہے۔ جبتک اتمام حجت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کو عذاب نہیں دیتا وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً ’’اور ہم کسی کو عذاب نہیں دیتے مگر جب کسی رسول کو مبعوث کردیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد رسالت کا سلسلہ ختم ہوچکا اور اب عوام و خواص کی اکثریت کسی امام ہدایت یا امام مہدی کیلئے چشم براہ کھڑی ہے۔
میں نے جمعیت علماء اسلام کے سابقہ ضلعی امیر ، سرپرست اعلیٰ اور صوبائی نائب امیر مولانا فتح خان مرحوم کے سامنے یہ بات رکھی کہ اجتہاد کی تعریف کیا ہے؟۔ انہوں نے فرمایا کہ جو قرآن و حدیث میں نہ ہو۔ میں نے عرض کیا کہ بسم اللہ قرآن و حدیث میں ہے اور اس پر اجتہاد کی گنجائش ہے؟۔ فرمایا کہ بسم اللہ قرآن و حدیث میں ہے اور اس پر اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ مساجد میں جہری نمازوں میں بسم اللہ کو جہر کیساتھ نہیں پڑھا جاتا ہے ، درس نظامی میں ہے کہ درست بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگر اس میں شبہ ہے ۔ تو کیا پھر ذٰلک الکتاب لاریب فیہ پر ایمان باقی رہتاہے؟۔ مولانا فتح خان نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ امام مالک کے نزدیک بسم اللہ قرآن کا جز نہیں اسلئے فرض نماز میں اس کا پڑھنا جائز نہیں، امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کا بھی جز ہے اسلئے اسکے بغیر نماز نہیں ہوگی جبکہ حنفی مسلک میں یہ مشکوک ہے تو کیا بسم اللہ پر اجتہاد کی گنجائش ہے؟۔ مولانا فتح خان نے کہا کہ جو بات آپ کررہے ہیں اگر میں یہ بات کروں تو مسجد میں ہی مجھے مار دیا جائیگا۔ چھوٹے مولوی قرآن پر ایمان رکھتے ہیں مگر درس نظامی کو نہیں سمجھتے اور جو بڑے سمجھتے ہیں وہ چھوٹوں سے گھبرارہے ہیں۔
مشال خان کا والد مضبوط اعصاب کا مالک ہے ، اگر وہ قاتلوں کو فی سبیل اللہ معاف کرکے صرف یہ مکالمہ کرلے کہ ہمارا قرآن پر ایمان ہے ، جو مولوی حضرات اپنے نصاب میں قرآن کے بارے میں یہ پڑھاتے ہیں کہ المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلاً متواترا بلا شبہ ’’جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے ، آپ ﷺ سے تواتر کیساتھ بغیر کسی شبہ کے نقل ہوا ہے۔‘‘ سے مراد قرآن کے لکھے ہوئے نسخے نہیں ۔ فتاویٰ قاضی خان ، فتاویٰ شامیہ میں صاحب ہدایہ کی طرف منسوب ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے اور قرآن کی کچھ آیات موجودہ قرآن میں شامل نہیں جو غیر متواتر ہیں ۔ قرآن کی توہین پر مشال کے قاتل یہ سبق پڑھانے والے علماء کو بھی سزا دینگے ؟ ۔ اگر درس نظامی سے یہ تعلیم نکالی جائے تو علماء کو بھی ہدایت مل جائے گی۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟