قرون اولیٰ سے عقیدت ہمارا ایمان ہے
اکتوبر 18, 2016
سورۂ واقعہ، سورۂ جمعہ، سورۂ محمداور دیگر سورتوں میں صحابہ کرامؓ اور آخری جماعت کا ذکر ہے۔
السٰبقون السٰبقون اولئک المقربون.. ثلۃ من الاوّلین و قلیل من الآخرین
سبقت لے جانے والے…مقرب ہیں…پہلوں میں سے بڑی جماعت ، آخر میں تھوڑے
سبقت لے جانے میں اولین مہاجر و انصار میں سے اور جو ان کی اتباع احسان کیساتھ کریں
نبی کریم ﷺ نے تعلیم وتربیت اور تزکیہ و حکمت سکھاتے ہوئے صحابہ کرامؓ کی جو جماعت تیار کی، اس کا ذکرقرآن کریم میں ہے ، سورۂ جمعہ میں ان کا بھی ذکر ہے کہ جو آخر میں ہیں اور پہلے والوں سے مل جائیں گے۔ احادیث میں وضاحت ہے کہ سلمان فارسیؓ کی قوم مراد ہے، مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے پارہ عم کی تفسیر میں سورۃ القدر کے ذیل میں لکھا کہ ’’سندھ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر، فرنٹئیراورافغانستان کی قومیں سب امامت کی حقدار ہیں، اسلام کی نشاۃ ثانیہ یہیں سے ہوگی، اگر ہندو پوری دنیا کو بھی ہمارے مقابلہ میں لائیں تو اس سے ہم دستبردار نہیں ہوسکتے، حنفی مسلک کے مطابق قرآن سے رجوع ہوگا، اہل تشیع بھی قبول کرینگے‘‘۔ مولانا سندھیؒ قرآنی انقلاب کے داعی تھے، آپؒ نے فرمایا کہ’’ قرآن کا اصل معجزہ اللہ کی آیات کا وہ مفہوم ہے جس کا کسی بھی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اس کے ذریعہ سے کوئی بھی پستی اور زوال کی شکار قوم عروج وترقی کی منزل پائے، عربوں کو اسی معجزے نے عروج وکمال تک پہنچایا تھا، اسکے اولین مخاطب بھی عرب ہی تھے لیکن قرآن کا ایک خطاب عالمگیر انقلاب اور پوری انسانیت کیلئے بھی ہے، جب اسلام کی نشاۃ اول کا آغاز ہوا تو عربوں کی اچھائیوں کو برقرار رکھا گیا اور ان کے اندر موجود برائیوں کا خاتمہ کیا گیا، پھر نشاۃ ثانیہ ہوگی تو قرآن کا خطاب پوری انسانیت سے ہوگا، پھر دنیا بھر کے انسانوں کی اچھائی برقرار اور برائی کا خاتمہ کیا جائیگا۔یہ قرآن کا عالمگیر انقلاب دنیا تسلیم کریگی‘‘۔
صحابہ کرامؓ سے حسنِ عقیدت کے بغیر قرآن کی بنیاد پر انقلاب کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔ جب اس بات کی نفی ہوگی کہ صحابہؓ کی بڑی جما عت ثلۃ من اولینکی کوئی حیثیت نہ تھی تو قلیل من الاٰخرین کی جماعت کیسے بن سکے گی؟۔ السابقون اولون من المہاجرین و الانصار کو نہ ماننارسول اللہﷺ کی قیادت اور قرآن پر عدمِ اعتماد کا اظہار ہے توپھر والذین اتبعوھم باحسان کے مصداق بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عربوں نے اسلام کی خدمت کی تو نبوت، خلافت، امارت کے ادوار میں دنیا پر چھاگئے۔ ترک کی خلافت عثمانیہ کے بادشاہ غیر عرب تھے، وہ اگر اسلام قبول نہ کرتے تو حکومت چل نہیں سکتی تھی۔ پھر ترکی خلافت کے خلاف بغاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ، اور امت مسلمہ برطانوی سامراج کے زیرنگیں ٹکڑیوں میں بٹ گئی۔ اقوام متحدہ میں قطرہ قطرہ دریا بنا مگر ہم سمندر ہوکر بھی چلو چلو بن گئے ہیں۔عرب وعجم مسلمانوں کو متحد کرنا ہوگا۔
ایک غلط فہمی کو دور کرنا ہوگا جو شیعہ سنی ،بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث میں موجود ہے۔ قرآن و سنت پر سب کی غلط فہمیاں دور کئے بغیر اتحاد واتفاق اور وحدت کا راستہ مصنوعی طور سے خلائی ستارے کی طرح ممکن نہ ہوگا لیکن حقیقی ستاروں تک پہنچنے کیلئے مصنوعی ستاروں کا سہارا لینا ضروری نہیں توبھی برا نہیں ہے۔ معراج کا سفر ہمیں امت مسلمہ کو عروج تک پہنچانے کا درس دیتا ہے۔ پاکستان میں دوسرے اسلامی ممالک کی طرح کسی ایک مسلک و فرقے کا ریاست پر قبضہ نہیں اور یہاں دوسرے ممالک کی طرح فرقہ وارانہ ریاستی دہشت گردی نہیں ہوسکتی ہے۔ ریاست اور عوام کا فرض ہے کہ اتحاد واتفاق اور وحدت کی فضاء پیدا کریں۔شاہ زیب خانزادہ نے تو اتنا بڑا الزام لگادیا ہے کہ’’ اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف کی حکومت کو اسلئے ختم کیا تھا کہ وہ فرقہ وارانہ اور جہادیوں کو ختم کرنا چاہتے تھے ‘‘۔ اگر اس الزام میں کچھ نہ کچھ صداقت ہو ،تب بھی جنرل راحیل اور جنرل رضوان اختر پر یہ بھونڈا الزام لگاناغلط ہے کہ’’ ان کی لڑائی شریف برادران سے دہشتگردوں کو تحفظ دینے کی خاطر ہے ‘‘۔ شاہ زیب کو یہ وضاحت بھی زیب دیتی اگر جیوکے مالکان کی طرف سے اجازت ہو کہ ’’پھر شریف برادران بذات خود جن کے سپوٹر رہے ہیں ، وہ کسی سے ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے اور اگر موجودہ پاک فوج کا کردار نہ ہوتا تو یہ دہشتگردوں کی کاروائیوں پر بھنگڑے ڈال کر دہشت گردوں کے ساتھی بنے رہتے۔آرمی پبلک سکول میں بچے مارے جانے پر بھی نوازشریف کا چہرہ اسلئے خوشی سے دھمک رہا تھا کہ عمران خان نے دھرنے کا بھنگڑہ چھوڑ دیا تھا اور جب باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو بھی سارے میڈیا چینل اسی کی موقع پر کوریج کررہے تھے اور شہباز شریف پی ٹی وی پر قوم سے نہیں کاروباری معاملے پر خطاب کررہے تھے،جس میں قومی جذبہ مفقود تھا‘‘۔
لوگوں کی راۓ