پوسٹ تلاش کریں

موٹی موٹی باتوں سے مسلمان اپنے مشکل ترین مسائل سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

موٹی موٹی باتوں سے مسلمان اپنے مشکل ترین مسائل سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اخبار: نوشتہ دیوار

موٹی موٹی باتوں سے مسلمان اپنے مشکل ترین مسائل سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

اسلام کا معاشی نظام ایک طرف مفت کی مزارعت اور دوسری طرف سود سے پاک تجارت، تیسری طرف اپنے وسائل کا صحیح استعمال، چوتھی طرف مٹی کو سونا بنانے کے طرز پر منصوبہ سازی!

جدید تعلیم سے تسخیر کائنات کا قرآنی فلسفہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ سورج، ہوا ، پانی اور ایٹمی پلانٹ سے بجلی پیدا کرنے کے سستے ترین منصوبے وقت کی اہم ضرورت ہیں جس سے انقلاب آئیگا

شاہد خاقان عباسی ، مصطفی نواز کھوکھر، لشکر رئیسانی ، محمود خان اچکزئی ، ڈاکٹر مالک بلوچ اور لطیف ایاز پلیجو اور تمام کے تمام سندھی ، بلوچ، سرائیکی ، پنجابی اور پشتون قیادت سے اہم لوگوں کو لیا جائے۔ ایک بڑی اور ایسی نظریاتی پارٹی بنائی جائے جس سے نظام کا پہیہ درست سمت چلنے لگے۔
پارٹی ایسے جمہوری اصولوں پر ہو ،جس میں عوام کے حق انتخاب کو درست نمائندگی دی جائے۔ جو پہلے لوگوں کو حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن کرنے کے آداب سکھائے اگر پنڈی اسلام آباد کے ریجن سے عوامی الیکشن ہو اور کوئی نئی قیادت عوام نے منتخب کی ہو تو شاہد خاقان عباسی اور مصطفی نواز کھوکھر منصبوں کا چکر چھوڑ کر صحت مند اپوزیشن کے ذریعے نئے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔ جب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ ایک ایک ووٹ سے ہارنے والے بھی نہ صرف ایمانداری سے اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں بلکہ اپنے مدمقابل کو ایک ایسے قائد کی طرح عزت دیتے ہیں جیسے سیاسی پارٹیاں اپنے بانی قائدین کو دیتی ہیں تو ہماری سیاست کی روش پر ا سکا اچھا اثر پڑے گا۔
ایک ایسی فضاء بن جائے کہ کارکن قیادت کریں اور قائد کارکن کی طرح کام کرے تولوگوں میں جمہوریت کی اصلی اور حقیقی روح بیدا ہوگی۔ حضرت خالد بن ولید نے قیادت کا بھی حق ادا کیا اور جب قیادت سے اتارا گیا تو کارکن بن کر بھی وہ کام کیا جو ایک اچھا کارکن کرسکتا ہے۔ قوم اسی سے قوم بنے گی اور ہمیں اپنی قوم کو بنانے کیلئے ایک زبردست کردار ادا کرنا ہوگا۔ امریکہ کے صدر جب اپنے منصب سے ہٹ جاتے ہیں تو بازار میں پھل کی ریڑھی لگانے پر بھی نہیں شرماتے ہیں۔
اگر ٹریفک کا نظام ٹھیک ہوجائے تو بڑے لوگ بھی عوامی بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنے سے نہیں کترائیں گے۔ اب تو پاکستان کی سڑکیں موت کے کنویں کی ٹریننگ کراتی ہیں اور یہ خوف لگارہتا ہے کہ کب ٹریفک کی گاڑیاں ایک دوسرے پر خود کش کرتی ہیں اور انسانوں اور مسافروں کا خون بہتا ہے؟۔
پاک فوج کے اہلکاروں کو ایک دفعہ ٹریفک کے نظام کیلئے استعمال کرنا پڑے گا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور جب بگڑے لوگ سدھر جائیں گے تو ٹریفک کا نظام بہت زبردست ہوجائے گا۔ سب سے پہلےNLCکے ڈرائیوروں کو انسان کا بچہ بنانا ہوگا جن سے لوگ اتنے خوف کھاتے ہیں کہ گویا وہ موت کے شکار کیلئے سڑکوں پر نکل کھڑے ہیں۔ امید ہے کہ پاک فوج اپنے ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئےNLCکودرست ہدایات جاری کرکے ایک بنیاد فراہم کرے گی۔
سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقہ میں دریائے سندھ کا بڑا ڈیم اور پانی کا ذخیرہ بناکر اس میں بڑے پیمانے پر مچھلیاں چھوڑ دیں تو لوگوں کو اتنا روزگار مل جائیگا کہ اغواء برائے تاوان کو چھوڑ کر اپنے بچوں کو تعلیم وہنر پر لگادیں گے۔ پنجاب اور سندھ کے یہ پسماندہ ترین علاقے ہیں اور پسماندہ لوگوں میں بہت صلاحیتیں ہوتی ہیں اور اقدار کے بھی پابند ہوتے ہیں۔
علماء ، ومشائخ اور دعوت اسلامی وتبلیغی جماعت کو وہاں پر تعلیم بالغاں کی خدمات سپرد کی جائے تو یہاں سے ڈکیٹ نہیں اولیاء اللہ اور علماء کرام پیدا ہوں گے۔ اگر ریاست بھی لاتعلق ہو اور لوگ بھی ان سے نفرت کریں گے تو ان کی حالت کبھی بھی نہیں بدلے گی۔ اگر زکوٰة وخیرات میں ان کو بھی ان کا حصہ دیا جاتا تو ڈکیٹ کی جگہ وہاں اچھے کاروباری انسان دوست لوگ بستے۔ اب یہ لوگوں کو سستی گاڑیوں، مرغوں اور لڑکیوں کا روپ دھار کر بلاتے ہیں اور پھر کئی کئی مہینوں تک یرغمال بناتے ہیں۔ غریب ،متوسط طبقے اور امیر لوگوں سے مال کھینچتے ہیں۔
اسی طرح طالبان کو بھی باعزت روزگار دیا جائے اور ان کو لوگوں پر چھوڑنے اور ریاست کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشنا س کرایا جائے۔اسی طرح بلوچ شدت پسندوں کو بھی اس خطے کی تعمیر وترقی کیلئے وہ اطمینان بخش مقام دیا جائے کہ بلوچ عوام کوخود اسٹیک ہولڈر سمجھ لیں اور مثبت سرگرمیوں میں لگ جائیں۔ جب پورا بلوچستان ہم نے سمگلستان بنادیا ہے تو وہاں ایک طرف سمگلر ہوں گے اور دوسری طرف پسماندہ نظریاتی کارکن اپنی آزادی کی جنگ لڑیں گے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو اسمگلنگ سے وہ عزت نہیں مل سکتی ہے جو نظریاتی کارکن ، رہنما اور قائد کی حیثیت سے مل گئی ہے۔ ایک لیڈی ڈاکٹر اپنی باعزت نوکری پر سیاسی کارکن اور مشکل حالات میں سیاسی قیادت کو اسلئے ترجیح دیتی ہے کہ وہ اپنی قوم کی مشکلات کو حل کرنا چاہتی ہے۔ آج بلوچستان کا حال ٹھیک نہیں ہے تو کل سندھ کے حالات اس سے بدتر ہوں گے اور پھر پنجاب میں بھی یہ ساری بیماریاں پھیل جائیں گی۔
محمود خان اچکزئی نے درست کہا ہے کہ ہمیں اپنے بلوچ بھائیوں سے ، سندھی بھائیوں سے ، سرائیکی بھائیوں سے اور پنجابی بھائیوں سے شکوہ ہے کہ ہم پشتون چالیس سالوں سے بارود ، جلاوطنی، ڈرون اور جیٹ جہازوں کی بمباری کے اندر مشکلات کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن انہوں نے ہمارے لئے کبھی احتجاج نہیں کیا ہے۔ لیکن وہ بیچارے تو احتجاج کیا کرتے وہ تو پشتون قوم پر رشک کررہے تھے کہ عالمی قوتوں کو شکست دے رہے ہیں۔ وہ تو سمجھ رہے تھے کہ پشتون امریکی غداروں کو ٹھکانے لگارہے ہیں۔ ان کو کیا پتہ تھا کہ پشتون کو جب موقع ملتا ہے تو وہ اپنے پشتون بھائیوں کو مارنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
محسود قوم نے طالبان کی شکل میں بیٹنی قوم کو مارا اور پھر بیٹنی قوم نے طالبان کی شکل میں محسود قوم کو مارا۔ عزیزواقارب بھی ایک دوسرے کو ماررہے تھے۔دشمن اور عزیز اقارب کے حوالے سے پختون قوم کا ماحول کیسے اچھائی میں بدل سکتے ہیں جب خواتین کے حوالے سے اسلام اور پشتو کے نام پر عورت کو انسانیت اور بنیادی حقوق سے محروم رکھاجائے؟۔ افغانستان کے طالبان سے دنیا اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرتی ہے بلکہ وہ افغان خواتین کیلئے حقوق کا مطالبہ کرتی ہے لیکن طالبان جس اسلام اور جس پشتون ولی کے ماحول میں رہتے ہیں وہ حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں۔ ایک اعلیٰ نسل یا ادنیٰ نسل کے کتے اور جانور کو بھی جب تک ایک خاص تعلیم وتربیت نہیں ملتی ہے تو وہ اچھے چال چلن سے محروم ہوتا ہے اور انسان جب اچھی تعلیم وتربیت سے محروم ہوتا ہے تو وہ جانور سے بدتر ہوتا ہے۔ قرآن نے اس کی نشاندہی بھی کردی ہے۔
پاکستان میں بلوچ، سندھی اور پشتون کے مقابلے میں ہمارے پنجابی بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم وتربیت کا حامل سمجھا جاتا ہے اور پاک فوج اور پنجاب پولیس کو بڑا اعلیٰ مقام حاصل ہے۔
حال ہی میں بہاولنگر پولیس اور پاک فوج کے درمیان جو تنازعہ اور جھگڑا ہوا ہے اس سے معاشرے کی بہترین عکاسی ہوتی ہے۔ پولیس نے عوام الناس کیساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھنے کا وطیرہ بنایا ہوا تھا، پھرSSGفوجی کمانڈو کے گھر کے ساتھ بھی وہی کیا تو پاک فوج نے بہاولنگر تھانوں کی پولیس کیساتھ وہ کیا جس کی تاریخ میں شاید کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
مارکٹائی کیساتھ ساتھ ان کی ویڈیوز بھی وائرل کردی گئیں تاکہ پنجاب اور ملک بھر کی پولیس اور عوام یاد رکھے کہ ایسا بھی ہوتا ہے؟۔ لگتا یہ ہے کہ9مئی کو جناح ہاؤس لاہورکور کمانڈر کے گھر ، میانوالی ،GHQاور کرنل شیر خان شہید سمیت ملک بھر میںPTIکے کارکنوں نے جس طرح کا ردِ عمل دیا تھا اور پاک فوج نے باقاعدہ اظہار بھی کیا تھا کہ آئندہ اس قسم کوئی حرکت برداشت نہیں کی جائے گی۔ پاک فوج نے اس کا بدلہ پنجاب پولیس سے بہاولنگر میں لے لیا ہے۔ پنجاب پولیس کی شاید اس میں غلطی بھی نہ ہو لیکن پنجاب پولیس نے بھی بہت سارے بے گناہوں کو ایسا رگڑادیا تھا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہمیں آگ کو بڑھاوا دینے کے بجائے حقائق کے تناظر میں معاملات کو حل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
جناح ہاؤس لاہور کے ایک قیدی کی ویڈیو واٹس ایپ پر وائرل کی گئی تھی جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ ” میری شلوار نکال کر پیچھے سے ٹیوب ڈالی گئی جس سے بہت شدید جلن ہوئی”۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر1سیاسی کارکن سے بہت لوگوں کو انسانی ہمدردی ہوسکتی ہے لیکن جب کورکمانڈر ہاؤس پر دھاوا بول دیا گیا تھا تو اس کی سزا بھی بنتی تھی۔ اگر لوگوں کو اجازت دی جائے تو پھر یہ حقیقت ہے کہ شرپسند عناصر سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
گناہگاروں کیساتھ جو ہونا تھا وہ ٹھیک ہوا لیکن بے گناہ کیوں رگڑے میں آگئے؟۔ اس کی بھی ایک وجہ تھی کہPTIکا رہنما، کارکن اور ہمدرد پہلے پاک فوج سے جتنی محبت رکھتاتھا تو بھی مثالی تھی اور جب معاملہ الٹ ہوگیا تو بغض بھی مثالی تھا۔ جب مریم نواز کے ہوٹل کا دروازہ توڑا گیا تھا تو سندھ پولیس نے استعفیٰ دینا شروع کردیا۔PTIکے ہمدرد کہہ رہے تھے کہ پاک فوج کو چاہیے کہ سندھ پولیس ہی نہیں پورے پاکستان کی پولیس کی چھٹی کرکے تھانوں میں خود بیٹھ جائے۔ پولیس ظالم ہے اور پاک فوج خود انصاف فراہم کرسکتی ہے۔ پولیس کا رویہ بھی ٹھیک نہیں ہوتا ہے لیکنPTIکے کارکنوں کی پاک فوج سے لازوال محبت دیدنی ہوا کرتی تھی۔ پھر جب اس محبت کا پانسہ پلٹ گیا تو پاک فوج کی ساری اچھائیاں برائیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ عمران خان نے میرجعفر اور میر صادق کا نام لیا اور پھر کہا کہ میری مراد پاک فوج کی قیادت نہیں تھی بلکہ سیاسی قیادت زرداری اور شہباز شریف کو یہ القاب دے رہا تھا لیکن ارشد شریف شہید نے عمران خان کی محبت میں ملک کے کونے کونے سے16مقدمات کا سامنا کیا۔ آخر کار دیار غیر میں وہ جان کی بازی بھی ہارگئے مگر اپنے مؤقف سے باز نہیں آئے ۔
عمران ریاض خان کا پیمانہ بھی الٹ گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے بھی معافی مانگ لی۔ مولانا فضل الرحمن پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جھوٹا الزام لگایا تھا تو مولانا سے بھی معافی طلب کرنی چاہیے۔ جب اسد علی طور نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے انٹرویو لیا تو مسلم لیگ ن کی ہمدردیاں ختم ہوگئیں کہ بلو چ باغی کو اہمیت کیوں دی ؟۔ پھر اسدطور کھڈے لائن لگا دیا ہے۔
محلہ داری سے لیکر قوموں ،قبیلوں اور ملکی سطح پر ایسا ہلا بول دیا جاتا ہے جس طرح پاک فوج کے اہلکاروں نے بہاولنگر میں پنجاب پولیس کیساتھ کیا ہے لیکن اصل معاملہ نظر انداز کرنے کے لائق نہیں ہے۔ صحافی عمر چیمہ نے بتایا کہ پولیس نے ناکہ لگایا تھا اور ایک موٹر سائیکل سوار کو ڈاکو کے خطرناک علاقہ سے پکڑلیا جس سے اسلحہ پکڑا گیا اور دوسرا موٹر سائیکل والافرار ہونے میں کامیاب ہوا جس کا پیچھا کیا تو وہ فوجی افسر کا گھر تھا اور وہاں پولیس کو یرغمال بنالیا گیا۔ پھر پولیس نے اپنا سخت رد عمل دکھایا اور فوجی اہلکاروں کو تھانے میں بند کردیا۔ پھر فوج کی طرف سے ردعمل میں پولیس پر تشدد کیا گیا۔ پولیس کے خلاف پرچہ کٹ گیا لیکن فوجی اہلکاروں کے خلاف پرچہ نہیں کٹا۔
پولیس کی طرف سے یہ آڈیو وائرل ہورہی ہے کہ دو فوجی ڈاکو کیساتھ برا سلوک کرنے پر ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے اور اس بات کی تحقیقات بہت ضروری ہیں۔ جب سکیورٹی اہلکار پولیس اور فوجی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں تو پھر اس ملک کو بچانا بہت مشکل ہے۔ عوام سے لیکر خواص تک ، سپاہیوں سے لیکر افسران تک اور اداروں سے لیکر سیاسی پارٹیوں تک کا ضمیر جب مرجائے تو ایک بڑے انقلاب کی ضرورت پیش آتی ہے اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا اس دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
ہماری مین اسٹریم میڈیا تک رسائی نہیں ہے۔ پولیس اور فوج سے لیکر سرکار کے تمام اداروں میں بہت اچھے لوگ موجود ہیں اور سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں ، رہنماؤں اور قائدین میں اچھے لوگ ہیں۔ سب کی خوبیاں اب خامیوں میں اسلئے بدل رہی ہیں کہ اس نظام میں بہت زیادہ خرابیاں ہیں۔ چاپلوسی کی انتہاء کرنیوالے صحافتی اداروں کو نوازا جائے گا تو اخلاقیات کی تباہی نہیں ہوگی تو پھر کیا ہوگا؟ سارے میڈیا کو ببانگ دہل اس بات کی ضرورت تھی کہ بہاولنگر واقعہ کے حقائق کو عوام الناس کے سامنے لایا جائے اور اصل مجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے۔ مٹی پاؤ کی پالیسی سے یہ ملک تباہی کی طرف جائیگا۔
مذہبی شخصیات ، مسالک اور فرقوں کو ایک دوسرے سے قریب لایا جائے۔ سیاسی پارٹیوں میں دوری کی فضاء ختم کردی جائے۔ غلطیوں کو برملا مانا جائے اور سرعام توبہ کی جائے۔ اس ملک وقوم میں جزا وسزا کا یکساں قانون بنایا جائے۔ رسم رواج اور طاقتوروں کا لحاظ کرنے کے بجائے جس کی زیادہ ذمہ داری ہو تو اس کو زیادہ بڑی سزا دی جائے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے لیکن اسلام کے رکھوالوں نے اسلام کا بیڑہ غرق کیا ہے۔
اگر بیداری کی لہر نہیں دوڑائی گئی تو پھر ملک وقوم کی موت واقع ہوجائے گی۔ اب مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے جب بھی ملک کو قرضہ ملتا ہے تو اشرافیہ کے اللے تللے بڑھ جاتے ہیں اور عوام پر مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ اگر عوام آپے سے باہر ہوگئی تو پھر کوئی سیاسی قیادت، ادارہ اور مذہب اس کو سہارا نہیں دے سکے گا اسلئے ہمیں اصلاحِ احوال کی طرف آنا پڑے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

طالبان اور پاک فوج کے درمیان جنگ کو صلح میں بدلنے کیلئے ایک واقعہ کی تحقیق کی جائے!
چوہے کی بل سے آواز ایک بڑا راز ؟ فیس بک پر انگریزی کی تحریر کا ارود ترجمہ اور اس کاجواب!
پاکیزہ بات کی مثال پاکیزہ درخت کی طرح ہے اس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں ہیں