پوسٹ تلاش کریں

ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟

ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟ اخبار: نوشتہ دیوار

ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟

پاکستان ایک طرف سودی قرضوں میں گھرا ہوا ہے اور دوسری طرف کاروبار زندگی اتنا خراب ہے کہ اپنا وزن نہ سلطنت میں اٹھانے کی صلاحیت ہے اور نہ عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی گنجائش!

اپنے اپنے ذاتی ، سیاسی اور صوبائی مفادات سے بالاتر ہوکر ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچنا ہوگا کہ اگر ملک بحران کا شکار ہوگیا تو پھر عوام میں سے ہر ایک اس کی سزا ضروربھگت لے گا

نوازشریف کے سابق دورِ حکومت میںIMFو چین وغیرہ سے بڑاقرضہ لیا جارہاتھا تو ہم نے شہہ سرخیوں کیساتھ اتنباہ کیا کہ ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی مالی ادارے ہمارے ملک کے مقتدر طبقے سے اختیار اپنے ہاتھ میں لیکر ملک چلانے کی شرط پر قرضہ دیں۔1914میں صحافی امتیاز عالم سے بھی مولانا فضل الرحمن نے کھل کر کہا تھا کہ ”ہماری پارلیمنٹ برائے نام ہے ، سیاسی، فوجی اور معاشی لحاظ سے بیرونی قوتیں جو فیصلہ کرتی ہیں وہی ہم پارلیمنٹ میں بروئے کار لاتے ہیں، ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے”۔ یہ ہم نے شائع بھی کیا ہے۔
اگر مولانا فضل الرحمن کوبھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی طرح اقتدار کا حصہ بلوچستان میں دیا جاتا تو شاید انقلاب کی باتیں نہ ہوتیں۔ بلوچستان سے جمعیت علماء اسلام کے مالی مفادات وابستہ تھے اسلئے پہلے مولانا محمد خان شیرانی کو ہٹایا گیا اور اب وہاں حکومت میں حصہ دار بنانے سے ن لیگ نے بھی معذرت کرلی کہ ”بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے” تویہ محرومی مولانا فضل الرحمن کو ہضم نہیں ہورہی ۔ تحریک انصاف کو پختونخواہ اور ملک بھرمیں مظلومیت کا ووٹ ملا ہے لیکن اس کی نااہلی یہ تھی کہ جب خلائی مخلوق نے اس کو مسلط کیا تو اچھل کود کررہی تھی ۔ اب سہنے کی سکت نہیں رکھتی ۔ قاسم سوری کو بالکل ناجائز طریقے سےPTIسے جتوادیا گیا تھا تو اس کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بنادیا گیا پھر اس نے عمران خان کے کہنے پر تحریک عدم اعتماد سے بچنے کیلئے اسمبلی کو توڑنے کا اعلان کیا۔ حالانکہ عزت اور وقار کا راستہ یہی تھا کہ جب زرداری سے ملکر تحریک انصاف نے بلوچستان باپ پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور باپ کا چئیرمین سینٹ لایا گیا اور پھر جبPDMکی اکثریت کے باوجود اس کو نہیں ہٹایا جاسکا اور جب یوسف رضا گیلانی جنرل سیٹ پر حفیظ شیخ کے مقابلے میں سینیٹر منتخب ہوگئے تو عمران خان اقتدار سے الگ ہوجاتے۔ لیکن حکومت ملی بھی لوٹا کریسی اور بیساکھیوں کے سہارے تھی چلائی بھی خلائی مخلوق کے سہارے اور نوازشریف کے لوگوں کو توڑنے کیلئے محکمہ زراعت کا استعمال ہوا کیونکہ منے کے ابے کا نام لینے کی کسی میں جرأت نہیں تھی۔
پھر جو امریکہ مخالف کارڈ استعمال کرکے سائفر لہرایا تھا تو اسکے نتائج بھگتنے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ امریکہ کو بڑی دلچسپی ہوگی کہ پاکستان میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے والوں کا اقتدار نہ آئے مگر عمران خان کیساتھ ایسا کچھ ہوا یا نہیں ؟ اس کی وجہ مذہبی کارڈ بالکل نہیں تھا۔ جب عمران خان نے روس کا دورہ کیا تھا اور اسکی وجہ سے امریکہ کو ناراض سمجھ رہا تھا تو عمران خان نے واضح کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے باہمی مشاورت کیساتھ روس کا دورہ کیا تھا۔جنرل باجوہ کا اعتراف آیا تھا کہ امریکہ نے ہم سے آنکھیں پھیریں تو ہمیں دوسری قوتوں کی طرف دیکھنا پڑا۔
اگر مولانا فضل الرحمن نے انقلاب برپا کرنا ہے تو اجنبیت کے ماحول میں دین کے معاشرتی اور معاشی معاملات کواُجاگر کریں۔مذہبی بلیک مارکیٹنگ کا راستہ تباہی کا راستہ ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا سسر قادیانی تھا۔ ن لیگی صحافی ابصار عالم نے اسلئے نوازشریف کے ذریعے آرمی چیف تعینات کرایا تھااور ن لیگ نے جنرل باجوہ کو خوش کرنے کیلئے قومی اسمبلی سے قادیانیوں کے حق میں وہی بل پاس کیا جو سینیٹ میں حافظ حمداللہ کی وجہ سے ناکام ہوا ۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے میڈیا پر قاری حنیف جالندھری کی موجودگی میںکہا کہ” شکر ہے کہ سینیٹ سے بل پاس نہیں ہوا تھا ورنہ مجھے ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کی حیثیت سے دستخط بھی کرنے پڑتے اسلئے کہ چئیرمین اس دن موجود نہ تھا۔ حکومت جب کسی بل کو منظور کرنا چاہتی ہے تو اگر قومی اسمبلی یا سینیٹ میں سے کسی ایک میں پاس نہیں ہوتا تو پھر مشترکہ اجلاس میں اس کو لاکر پاس کرتی ہے”۔ پھر مشترکہ اجلاس میں شیخ رشید نے جمعیت علماء اسلام کو پکارا کہ سید عطاء اللہ بخاری کو تم کیا جواب دوگے۔ ختم نبوت کیلئے بڑی قربانیوں کا کیا ہوگا؟۔ شیخ رشید نے کہا کہ علماء مجھے مارنے کیلئے دوڑے تھے البتہ جماعت اسلامی نے شیخ رشید کا ساتھ دیا تھا۔
فیض آباد دھرنا ہوسکتا ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی رحم اللہ نے کسی کے اشارے پر ہی دیا ہو لیکن قصور پارلیمنٹ ہی کا تھا۔ افتخار محمد چوہدری سابق چیف جسٹس نے میڈیا پر بتایا کہ” جب مرزائیوں کیلئے اسمبلی میں بین الاقوامی سازش ہورہی تھی تو اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حافظ حمد اللہ نے آواز حق اٹھائی تھی”۔ مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ ” ہم نے عمران خان پر بیرونی ایجنڈے کیلئے کام کرنے کا الزام لگایا تھا تو وہ مشن پورا نہیں ہوا تھا اور اب آپ نے دیکھا کہ چیف جسٹس نے ایک کیس میں قادیانی کے حق میں کیسے ریمارکس دئیے؟”۔
لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ فیض آباد دھرنا ، عمران خان اور خفیہ طاقتیں اس وقت اس سازش کے خلاف کھڑی تھیں اور ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن جنرل قمر جاوید باجوہ کے سسرال کیلئے ہی دوسری طرف کھڑے تھے۔ اب اگر چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور ن لیگ پھر ایک طرف کھڑے ہوگئے ہیں تو اس کا ادراک بھی مولانا فضل الرحمن کو ہوسکتا ہے لیکن وہ کھل کر بات کرے۔ اس کے پسِ پردہ حقائق اب تک کھل کر سامنے نہیں آسکے ہیں۔
ابصار عالم کو گولی ماری اور اسکے بیٹے کو اپاہج بنادیا تھا تواس کا الزام کسی اور پر لگانے کے بجائے ابصار عالم نے اعتراف جرم کرلیا کہ اگر میں قادیانی سسر کی وجہ سے جنرل باجوہ کوISIاور فوج کی طرف سے مشکلات میں دیکھ کرخود یہ مشورہ نہ دیتا تو نوازشریف اس کو آرمی چیف نہ بناتے۔ پھر مجھے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا تو آرمی چیف نے میری کوئی مدد نہیں کی تھی۔
جب نوازشریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنادیا تھا تو ایک تقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے مولانا فضل الرحمن سے مذاق میں اس خوف کا اظہار کیا کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ فتویٰ نہ لگادیں۔ مفتی محمود نے جنرل ضیاء الحق کو مرزائی قرار دیا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق کی بیگم اور جنرل رحیم الدین کی بیگم دونوں بہنیں تھیں۔ جنرل رحیم الدین مشہور قادیانی مبلغ تھا۔جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ جنرل ضیاء الحق کو آخری وقت تک قادیانی قرار دیتے تھے۔ جس کو بعد میں مولانا فضل الرحمن نے امارت میں شکست دیکر ہٹادیا تھا لیکن اس سے پہلے مولانا سراج احمد دین پوری جمعیت علماء اسلام کی امارت چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔
مفتی تقی عثمانی نے جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق اور جنرل رحیم الدین کی بیٹی کا نکاح پڑھایا تھا۔ مفتی محمود کو پان میں زہر اور دورہ قلب کی گولی کے بہانے شہید کرنے والا مفتی محمد تقی عثمانی اپنے تحریری اور تقریری بیانات میں تضادات سے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے ۔پہلے تحریر میں لکھا تھا کہ ہم بھائیوں نے چائے پینے سے انکار کیا تو مفتی محمود نے کہا کہ میں چائے پیتا ہوں مگر کوئی نہیں پیتا تو اس کو پسند کرتا ہوں تو میں نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمودنے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔اس میں پان کھلانے اور دورہ قلب کی گولی کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا لیکن مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے اس کا ذکر کیا تھا۔ جب ہم نے اپنی کتاب میں یہ لکھا تھا مولانا لدھیانوی شہید نے بتایا کہ اس پر مفتی تقی عثمانی نے ڈانٹ پلائی ہے۔ پھر اب مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ مفتی محمود سے پان کی بڑی بے تکلفی تھی اور مجھے کہتے تھے کہ لاؤ بھیا ہم تمہارا پان کھائیں گے؟۔ اتنا بڑا تضاد؟ واہ جی واہ۔
اوریا مقبول جان ، سلیم بخاری اور علامہ زاہد الراشدی نے جنرل قمر باجوہ کے حق میں گواہی دی تھی کہ ان کا قادیانیوں سے تعلق نہیں ۔ تحریک انصاف نے اسمبلی میں شیخ رشید کا ساتھ نہیں دیا لیکن جب ن لیگ کے خلاف تحریک چلی تو عمران خان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ن لیگ کے احسن اقبال کو گولی لگی تھی۔ وزیرقانون زید حامد کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ عوام اور مذہبی طبقہ ہی نہیں فورسسز کی سپاہیوں اور افسران میں بھی بہت زیادہ مذہبی حساسیت ہے۔ مذہبی و سیاسی بنیادوں پر جس طرح کی مہم جوئی چل رہی ہے اس کا پاکستان بالکل بھی متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
اصل چیز معاشی عدم استحکام ہے ۔جب اس کو سیاسی بنیاد پر مذہبی ٹچ دیا جاتاہے تو معاملات میں بہت بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ فوج اپنے کھیل اور کھلونوں کے ہاتھوں بدنام ہوگئی ہے۔ فوج کے بغیر نوازشریف ، عمران خان، زرداری، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سمیت کوئی بھی اقتدار نہیں چلاسکتا ہے۔ کسی نے دریا میں کمبل دیکھ کر چھلانگ لگا دی اور جب اسکے ساتھیوں نے دیکھا کہ کشمکش کافی دیر سے جاری ہے، کمبل حاصل کرنے کے بجائے اسکی جان کو خطرہ ہے تو آواز لگائی کہ ”کمبل کو چھوڑ دواور تم سلامت نکل آؤ” ۔ اس نے کہا کہ ” میں کمبل کو چھوڑ رہاہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہاہے ”۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ کمبل نہیں ریچھ تھا۔ فوج نے بھی سیاسی جماعتوں کو کمبل سمجھ کر دریا میں چھلانگ لگا دی لیکن وہ ریچھ نکلے۔ جنرل ایو ب نے ڈیڈی بن کر ذوالفقار علی بھٹو کو کمبل سمجھ لیا۔پھر جنرل ضیاء الحق و جنرل حمید گل نے نوازشریف کو پالا پھر عمران خان کمبل آگیا۔ پھرPDMکو اور اب نوازشریف اور زرداری کی پارٹنر شپ کو ڈبل کمبل سمجھ لیا لیکن کمبلوں سے جان چھڑانی مشکل ہوگئی ہے۔
پاکستان کے معاشی حالات اس قدر گھمبیر ہیں کہ کسی وقت بھی ملک ڈیفالٹ کی طرف جاسکتا ہے۔ جب2008میں نواز شریف،قاضی حسین احمد ، محمود خان اچکزئی، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ودیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی دنگل میں شرکت کا بائیکاٹ کیا کہ جنر ل پرویزمشرف وردی اتار یں اور جب تک وردی نہیں اتاریں گے تو ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو پیپلزپارٹی نے نوازشریف کو منوالیا اور دوسری جماعتوں کو نوازشریف نے چھوڑ دیا۔بینظیر بھٹو بلٹ پروف گاڑی سے باہر نہ نکلتی تو قتل نہ ہوتی اسلئے کہ ساتھ بیٹھنے والے تمام افراد بھی محفوظ رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اداروں نے منع کیا تھا کہ رسک ہے لیکن محترمہ نے کہا تھا کہ مجھے جن سے خطرہ ہے ان کو روک لو ۔ اداروں نے کہا تھا کہ ”ہم اپنے بڑے نیٹ ورک کو خراب کرکے کافی لوگوں کی جانوں کو خطرات میں نہیں ڈال سکتے”۔
مولانافضل الرحمن نے اب کہا ہے کہ ” ایک وڈیرے کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس پر بڑا تشدد ہوا ہے کہ وہ ہمارے حق میں فیصلہ کرلے”۔ سندھ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ”اس مرتبہ پیپلزپارٹی کو صوبائی حکومت میں نہیں آنے دیا جائیگا ، اسلئے کہ وہNFCایوارڈ اور پانی وغیرہ کے مسئلہ پر تعاون نہیں کرتی ہے”۔ اگر تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت قائم ہوجاتی اور ن لیگ وپیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہی رہنے کا فیصلہ کرتیں تو تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں مل کر عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادنے کی طرح صوبہ سندھ کیلئے بھی فنڈز میں کمی کرتیں اور پختونخواہ کی طرف سے بھی اپنا حق طلب کرنے کا کوئی معاملہ پیش نہ آتا۔ آصف زردای نے صدر کی پوزیشن سنبھال کر شہباز شریف کی حکومت کو سہارا دیا ہے مگر ساتھ ساتھ اس کی گردن بھی اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔
ایک طرف تحریک انصاف کا عوامی دباؤ اور سوشل میڈیا کی طاقت اور دوسری طرف پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی مفادات پر مبنی پارٹنر شپ اور تیسری طرف مولانا فضل الرحمن کی تھریٹ اور چوتھی طرف ملک کی معاشی بدحالی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور اس میں ذرا سی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ریاست کو موج مستی کا نشہ نہیں بلکہ اس ریچھ سے جان نہیں چھوٹ رہی ہے۔ عمران خان کو وزیراعظم بننے کا بڑا شوق تھا بن گیا نوازشریف کو ایک موقع ملنے کا شوق تھا مل گیا اور زرداری کو صدر مملکت بننے کا شوق تھا بن گیا۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی صدر بننے کا شوق تھا لیکن وہ نہیں ہوا۔ محسن جگنو سے اپنے انٹرویو میں اعتراف بھی کرالیا کہ امریکہ سے کہا تھا کہ ” مجھے شدت پسند نہیں ترقی پسند مولوی سمجھا جائے لیکن امریکہ نے اس پر اعتماد نہیں کیا ”۔
ساری دنیا کو پتہ تھا کہ امریکہ نے ملا عمر کی طالبان حکومت کو بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کے ذریعے اسلئے میدان میں اتارا تھا کہ ازبکستان کی گیس پائپ لائن ہندوستان تک امریکی کمپنی نے پہنچانی تھی ۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو روس سے آزاد ہونے والے نئے مسلم ممالک کے گیس کا وسیع ذخیرہ بھارت و چین اور دنیابھرکو بیچنے میں امریکہ کی اجارہ داری قائم ہوجاتی۔ لیکن اس کو اسلامی رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ طالبان نے اپنے افغان صدر نجیب اللہ کا کیا حشر کیا تھا؟۔ اسلئے کہ وہ امریکہ کے کیمپ میں نہیں تھا۔ جبکہ دوسری طرف غیر ملکی صحافی پکڑے بھی جاتے تو حسنِ سلوک سے مسلمان بن کر جاتے تھے؟۔
دوسری طرف شیعہ اگر ایرانی انقلاب کو اسلامی مانتے ہیں تو آیت اللہ خمینی کو ”امام ” ماننے والے امیر معاویہ کیلئے امیر شام کا لقب کیوں اختیار کرتے ہیں؟۔ امیر شام تو وہ اس وقت تھے جب حضرت علی اور حضرت حسن سے جنگ لڑرہے تھے۔ جب امام حسن ان کے حق میں دستبردار ہوگئے اور20سال تک اس نے حضرت امام حسن وامام حسین کی تائید سے حکومت کی تو پھر ان کی حیثیت واقعی ایک خلیفہ راشد کی بالکل بھی نہیں تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے دور میں بڑی فتوحات کا دروازہ کھل گیا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نعرے لگانے سے تو کچھ نہیں ہوتا جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا جس پر شیعہ نے سنیوں کو طعنہ بھی دیا تھا لیکن جب عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو ایران اور شیعہ نے کس کا ساتھ دیا؟۔ افغانستان میں بھی ایران نے شمالی اتحاد کا ساتھ دیا جو امریکہ کیلئے طالبان کے خلاف لڑرہاتھا۔ اگر اس وقت احمد شاہ مسعود زندہ ہوتے تو شاید امریکہ کا ساتھ نہ دیتے۔
حسن الہ یاری اپنی بیوقوفی کی وجہ سے نہ صرف شیعہ سنی کے اندر تفرقہ ،شدت پسندی اور منافرت کے بیچ بورہاہے بلکہ اب وہ شیعہ کیلئے بھی درد سر بن گیا ہے۔ حسن الہ یاری کو علم کی زبان میں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ دنیا کیلئے امریکہ میں جا بیٹھا ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے اہل تشیع کے درمیان اجتہاد کے مسئلے پر حسن الہ یاری کی سخت سرزنش کی ہے۔ لیکن یہ حسن الہ یاری کا معاملہ نہیں ہے بلکہ شیعہ فرقے کو یہ مسئلہ درپیش ہے اور اس کا اگر صحیح حل نہیںنکالا گیا تو پھر فرقہ واریت کی آگ میں سبھی ایک دن بالکل اندھے ہوجائیں گے۔
حسن الہ یاری نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے کفر کیلئے یہ دلیل دی ہے کہ ” قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جنابت اور پاخانہ کی صورت میں تیمم سے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور حضرت عمر نے اس حکم سے کھلم کھلا انحراف کرکے کفر کا ارتکاب کیا ہے”۔
علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب ” تدوین فقہ ” میں بحث کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ کی تشویش کا حوالہ دیا کہ جب حضرت عمار سے نبی ۖ نے فرمایا کہ” تیمم کرکے نماز پڑھ لو ” تو حضرت عمر نے اس پر عمل کیوں نہ کیا؟۔ اور نبی ۖ نے خود حضرت عمر سے کیوں نہیں فرمایا کہ ”تیمم کرکے نماز پڑھ لو”۔
حضرت شاہ ولی اللہ ایک دیندار اور مذہبی شخصیت تھے اور نماز قضاء کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اسلئے حضرت عمر کیلئے تعجب کا اظہار کیا لیکن حضرت عمر نے قرآن کی تفسیر کو بھی سمجھ لیا تھا اور نبی ۖ نے اس پر عمل کرنے کی تائید بھی کردی تھی تو اس بات کو شاہ ولی اللہ نے کیوں نہیں سمجھا؟ ،اس پر تعجب کرنا تھا اور علامہ مناظر احسن گیلانی نے کیوں نہیں سمجھا ؟،یہ بات تعجب کی ہے۔میرے دادا سیدامیر شاہ سے زندگی میں ایک نماز قضا ء ہوگئی تھی جس کا ساری زندگی خوف اور دکھ تھاکہ اگر اس پر پکڑ ہوگئی تو کیا ہوگا؟۔ میرے والد علماء کے بہت قدردان تھے اور مسجد بھی بغیر چندہ اپنے پیسوں سے عالیشان تعمیر کرلی لیکن ہم نے دیکھا کہ جون کے مہینے میں لمباروزہ رکھتے تھے لیکن مغرب کی نماز قضاء کرلیتے تھے اور پھر تراویح پڑھنے جاتے۔ جہاں پر ایک دن میں6،6پاروں کا ختم ہوتا تھا۔ اوروہ کہتے تھے کہ نماز پڑھ لی تو بہت اچھاکیا ، ثواب بھی مل گیا اور فائدہ بھی ہوا لیکن اگر نہیں پڑھی تو اس کا اللہ کو کوئی نقصان نہیں ہے اور نہ اللہ کو اس کا کوئی فائدہ ہے البتہ اگر کوئی غریب بھوکا ہواتو پھر اللہ معاف نہیں کرے گا۔ حضرت عمر ایک طرف تیمم میں نماز نہ پڑھنے کا فائدہ اٹھاتے تھے یا کراہت کی وجہ سے اللہ کے حضوراس کے دربار میں حاضری دینا مناسب نہیں سمجھتے تھے اسلئے کہ بدبودار منی کے مواد سے لتھڑے ہوئے انسان کو اللہ پاک کے حضور حاضری دینے میں بوجھ لگتا ہے۔ تو دوسری طرف کہتے تھے کہ اگر دریائے نیل کے کنارے کتا بھی پیاس سے مرجائے تو اس کی پوچھ گچھ یا بازپرس مجھ سے اللہ تعالیٰ ضرور کرے گا۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی نے حضرت عمر کی وفات کے بعد بڑی تعریف کی تھی۔ اہل تشیع غلط سمجھتے ہیں کہ حضرت علی حضرت عمر سے خوفزدہ ہوکر تقیہ کرکے گھر میں بیٹھ گئے ۔ حسن الہ یاری کہتا ہے کہ ابوبکر وعمر نے اسلام قبول کیا ہی نہیں تھا بلکہ منافقت سے لبادہ اوڑ ھ لیا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر حضرت علی نے خوف کے مارے تین خلفاء کی حکومت قبول کرلی اور امام حسن نے بھی امیرمعاویہ کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ خوف سے کیا۔ حضرت امام حسین نے اپنے شیعوں سے دھوکہ کھایا اور پھر ان کو یزید کے لشکر نے راستہ نہیں دیا اور اس کے بعد باقی ائمہ اہلبیت نے بھی ساری زندگی خوف میں گزاری اور آخری امام غائب ہوئے اور ایرانی حکومت بھی جبر واستبداد کا نتیجہ ہے؟۔ جب ائمہ اہل بیت نے کسی ایک شیعہ پر بھی اعتماد کرکے بقول علامہ شبیہ الرضا نجفی کے دین کی مکمل کتاب سپرد نہیں کی تو پھر صحابہ پر شیعہ کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اگر امام کا ہونا کوئی بڑی انوکھی چیز ہوتی تو کم ازکم گھر کے افراد میں چھٹے امام کے بعد کیوں اختلاف پیدا ہوتا؟۔ خمینی نے انقلاب برپا کرکے اچھاکیا لیکن ابھی باہمی اعتماد کیساتھ معاملات حل کرنا دانشمندی کا تقاضاہے۔پاکستان میں ایک اچھی فضاء قائم کریں تو معاشی صورتحال آج باہمی تعاون سے ہی بہتر ہوسکتی ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”حکومت وریاست IMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟