Mullah Zaeef dreamed after 9/11 that his elder brother wanted to slaughter him. He did not understand why he wanted to slaughter him.
اگست 7, 2021
اختر خان کا روحانی اور قوم پرستانہ انکشاف!
ملا ضعیف نے 9/11کے بعد خواب دیکھا کہ بڑا بھائی ان کو ذبح کرنا چاہتا ہے یہ سمجھ نہیں آیا کہ کیوں ذبح کرنا چاہتا ہے؟
اگر افغان طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی سوانح عمری پڑھی ہو تو پاکستان اور افغان طالبان میں تعلقات کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں کا صحیح اندازہ ہو سکے گا ملا ضعیف نے اپنی کتاب میں خواب کا حوالہ دیاکہ بڑا بھائی ان کو ذبح کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ کیوں ذبح کرنا چاہتا ہے۔خواب 9/11کے بعد دیکھا۔ چند دن بعد پاکستان نے امریکی دبا پر ملا ضعیف کو انتہائی ذلت سے امریکہ کے حوالے کیااور گونتانامو جیل میں چند سال رکھا گیا۔ ملا ضعیف نے اپنی کتاب میں خواب کی تعبیر یہ نکالی کہ ذبح کرنیوالا اسکا بڑا بھائی پاکستان تھا،جو ملا ضعیف و طالبان کو اپنے قومی تزویراتی مفادات کیلئے قربان کر رہا تھا۔ ملا ضعیف گوانتانامو سے رہا ہوئے تو جنوبی وزیرستان کے صحافی ابوبکر کو انٹرویو میں کہا کہ انہیں یعنی افغان طالبان کو سمجھ نہیں تھی کہ امریکہ اسامہ بن لادن کے پیچھے کیوں پڑ گیا ؟۔رحیم اللہ یوسفزئی سے میں نے خود سنا کہ انہیں ملا عمر نے کہا کہ اگر چیچنیا تک افغانستان سے کوئی راستہ جاتا ہے تو ہم طالبان انہیں وہاں بھیج دیں گے۔
ملا ضعیف خواب میںافغان طالبان کو پاکستان کا چھوٹا بھائی سمجھتا ہے اوریہ چھوٹا بھائی تاریخ، سیاست ،سائنس، سماجی ارتقا اور جغرافیائی علوم سے کس قدر غافل ہے جبکہ بڑا بھائی پاکستان ان علوم میں کس قدر ماہر ہے؟۔ اندازہ مثالوں سے لگائیں۔ جنرل مشرف نے2000میں صحافیوں سے کہا کہ افغان طالبان ان کی ریزرو فوج ہے، پاکستان کیلئے فسٹ لائن آف افنس کا کردار ہیں۔ وہ جب اورجہاں چاہیں ان کو استعمال کر سکتے ہیں 9/11کے پچیس دن بعد 7 اکتوبر 2001 کو امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ حملے سے ایک دن قبل میرے استاد ڈاکٹر وسیم نے ڈان اخبار میں کالم لکھا جسکا خلاصہ یہ تھا کہ امریکہ سمیت پوری دنیا بھی افغانستان پر حملہ آور ہو تو بھی افغانستان میں پاکستان کی مرضی کے بغیر حکومت قائم نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر وسیم نے لکھا کہ امریکی حملے کے بعد افغانستان میں مرنے مارنے کا غضبناک سلسلہ شروع ہو گا، پاکستان میں طالبان کے حامی شریک ، پاکستان میں کافی خونریزی ہو گی ،پاکستان طالبان کے حامی جنگجوں کو آخرمیں کنٹرول کر لے گا۔ڈاکٹر وسیم کے مطابق پاکستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے جو ریاستی ڈھانچہ وراثت میں ملا ،وہ طالبان اور انکے حامیوں کی کاروائیوں کیخلاف ڈھال کا کردار ادا کرے گا۔یاد رہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں فوج، بیوروکریسی، عدلیہ، پولیس، کسٹم، انکم ٹیکس کیلئے جو ادارے اور قوانین بنائے ،اس کولارڈ میکالے نے 1835میں سٹیل فریم کا نام دیاجن کو توڑنا یا انکے خلاف لڑنا تقریبا ناممکن ہوگا۔ بنگلہ دیش، انڈیا اور پاکستان کے ریاستی ادارے اسی سٹیل فریم کے پرزے ہیں۔جو ان تینوں کی عوام کو ایک نظم میں پروئے ہوئے ہیں۔ پاکستان بننے کے دو سال بعد 1949 میں لارڈ میکالے کے اس سٹیل فریم کو ہم نے قرارداد مقاصد کا تڑکا لگایا اور اسکے بعد سے ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کے عیسائیوں کے اس ادارہ جاتی نظم کو اسلام کا قلعہ کہنے لگے۔
انگریز جب ہندوستان میں قبضہ جما رہاتھا تو اسکے خلاف شاہ ولی اللہ کے خاندان اور پیروکاروں نے سید احمد شہید اورشاہ اسمعیل شہید کی سربراہی میں 1820کی دہائی میں جنگ لڑی لیکن وہ انگریزکی تزویراتی فوجی چال، نظم، آپسی ربط، رسد و ترسیل کے نظام، فوجی قوت جیسے اسلحہ اور بندوقیں اور جغرافیائی عوامل کے بارے میں قدرے بہتر واقفیت کے سامنے ناکام ہوئے۔گو کہ شاہ ولی اللہ کے پیروکار 1857کی جنگ آزادی تک مختلف علاقوں طریقوں سے انگریز کیخلاف لڑتے رہے مگر بالآخر انہوں نے دیوبند میں مدرسہ قائم کیا اور روایتی دینی علوم کے درس و تدریس پر توجہ مرکوز کی۔پہلی جنگ عظیم سے پہلے اور جنگ کے دوران دیوبند سے فارغ یا منسلک طلبا نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی رہنمائی میں سیاسی اور جنگی مزاحمت تحریک ریشمی رومال شروع کی لیکن یہ بھی ناکام ہوگئی۔اسکے بعد علما دیوبند کسی سیاسی لائحہ عمل پر متفق نہ ہو سکے ۔1930کی دہائی کے اواخر تک دو دھڑے بن چکے تھے۔ایک دھڑا مولانا حسین احمد مدنی کی رہنمائی میں متحدہ ہندوستان کیلئے سیاسی جدوجہد کر رہا تھا،دوسرا دھڑا مولانا اشرف علی تھانوی کے خیالات افکار سے متاثر تھا جوقائداعظم کی مسلم لیگ کی سیاسی حکمت عملی کو درست سمجھنے لگاتھا۔ مسلم لیگ دراصل سر سید احمد خان کے پیروکاروں کی تنظیم تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عیسائیوں کے جس انتظامی ڈھانچے کیخلاف شاہ ولی اللہ کے پیروکار لڑنا چاہتے تھے ،سر سید نے اس انتظامی ڈھانچے کو اللہ کی رحمت کہا اور اسکے قوانین کی پاسداری کو عین اسلام کے مطابق کہاسر سید احمد نے روایتی دینی علوم کیساتھ ساتھ جدید سائنسی اور مغربی علوم کو سیکھنا اور سمجھنا ضروری سمجھا، سر سید کے مطابق مسلمان وقت کا دھارا نہ سمجھ سکے ۔ وقت کے تقاضوں کو اس وقت سمجھا جا سکتا ہے کہ جب مسلمان جدید سائنسی اور مغربی علوم حاصل کر لیں۔
قیامِ پاکستان سے لیکر عمران خان کو وزیراعظم بنانے تک مولانا اشرف علی تھانوی کے ہم خیال علما، مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے عیسائیوں سے وراثت میں ملے انتظامی ڈھانچے کے درمیان ملک کو چلانے کے اصولوں پر اگر مکمل ہم آہنگی نہیں رکھتے تو کھلم کھلا اختلاف بھی نہیں رکھتے۔ مولانا تھانوی سے نسبت رکھنے والے علما اور صوفیا مسلم لیگی ذہنیت اور ریاستی اداروں کیخلاف سیاسی طور پر خود کو منظم اور متبادل نظم متعارف کرانے میں لگ جاتے ہیں جبکہ خود کو مولانا حسین احمد مدنی کی جدوجہد کا تسلسل سمجھنے والے دیوبندی علما پچھلے پینتیس سال سے مولانا فضل الرحمان کی رہنمائی میں سیاست کر رہے ہیںاور ایسٹ انڈیا کمپنی کے عیسائیوں کے اس انتظامی ڈھانچے جس کو لارڈ میکالے سٹیل فریم کہتا تھا کو مزید اسلامی بنانا چاہتے ہیںمگراس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ شاہ ولی اللہ کے پیروکار علما کے سیاسی اختلافات ہیں۔مولانا فضل الرحمان جنرل ضیا الحق کیخلاف مزاحمت اور مفتی تقی عثمانی جنرل ضیا الحق کا ہم خیال تھا۔علما اور اسلام کی حالت یہ ہے کہ فلموں میں آدھی ننگی ہو کر ڈانس کرنیوالی مہوش حیات کو اسی دن حسن کارکردگی پر تمغہ امتیاز دیاگیا، جس دن ملک کے سب سے مشہور عالم مولانا طارق جمیل کو مہوش حیات کے ڈانس سے پھیلنے والی بے حیائی کیخلاف وعظ و نصیحت کرنے پر تمغہ امتیاز سے نوازا جاتا ہے۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے کہا کہ شاہ ولی اللہ کے جتنے پیروکار ہندوستان میں تھے اتنے ہی پشتون علاقوں میں تھے جن پر آج پاکستان اور افغانستان بنے ہیں۔ پاکستان کے پشتون علاقوں میں نظم ایسٹ انڈیا کمپنی کے انتظامی ڈھانچہ اور قوانین کا مرہون منت ہے۔ افغانستان ایسے انتظامی ڈھانچے اور قوانین کے بنانے کے ارتقائی عمل سے محروم رہا ہے۔ 40سال قبل افغانستان کے جدید تعلیم یافتہ طبقے نے انتظامی ڈھانچے اور قوانین متعارف کرانے کی جو کوشش کی وہ غیر محتاط ہونے کے باعث خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔اس خانہ جنگی کے بطن سے افغان طالبان نے جنم لیا۔9/11کے بعد ملا عبدالسلام ضعیف کے خواب کے مطابق پاکستان نے اپنے تزویراتی مقاصد کے حصول کیلئے قربان کیا۔امریکہ بیس سال تک پاکستان کے چھوٹے بھائیوں کیساتھ لڑتا رہا اور اب نکل رہا ہے جبکہ ملا عبدالسلام ضعیف اور اسکے بھائی افغان طالبان ایک مرتبہ پھر افغانستان میں بزور قوت اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں،کیا پاکستان کے یہ چھوٹے بھائی افغان طالبان افغانستان میں اجتماعی نظم اور نظام کو چلانے کیلئے بڑے بھائی پاکستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے عیسائیوں سے وراثت میں ملے انتظامی ڈھانچے اور قوانین سے رہنمائی لیں گے یا وہی کچھ کرینگے جو 9/11 سے پہلے کر رہے تھے،اسکا پاکستان پر کیا اثر ہو گا، پاکستان میں افغان طالبان کی حمایت کرینگے اور علاقائی و بین الاقوامی طاقتیں اس سے کس طرح نمٹیں گی؟۔ یہ سوالات آنے والے دنوں اور مہینوں میں ہم سب کی بحث کا مرکز رہیں گے۔
تبصرہ نوشتہ دیوار: بھارت پرقابض انگریزکامدمقابل رنجیت سنگھ تھا۔ اسماعیل شہید نے رنجیت سنگھ کا مقابلہ کیا۔ ڈاکٹر فدا کے پیر مولانا اشرف کے پیرسلیمان ندوی کے استاذ شمس العما شبلی نعمانی تھے، پھر تھانوی کا مریدہوا ۔ سودجائز بن جائے تو نظام پر کیا لڑائی ہوگی؟۔ اختر خان اورعلی وزیر کاروحانی وسیاسی شجرہ الگ الگ ہے۔ سرڈاکٹراقبال نے خود کو مجموعہ اضداد کہا۔ رنجیت سنگھ سے پاکستان مضبوط یاکمزو رہے؟
لوگوں کی راۓ