اسلام آباد آل پختون جرگہ کی شامِ غریباں کا احوال :پیرواحدشاہ
فروری 24, 2018
(پیر عبد الواحد شاہ ، اسلام آباد) نقیب اللہ محسود کی شہادت کے سلسلے میں وزیرستان کی عوام کا دھرنا اسلام آباد پہنچا تو کئی دنوں تک یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ قومی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے کوئی توجہ نہ دی۔ پھر عمران خان کی کسی نے دُم ہلائی تو وہ پہنچ گیا، پھر مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے بھی رونق بخشی ، پھر محسود قبائل کے ملکان اور علماء نے بڑا دھوکہ دیدیا۔ عاشورۂ محرم کے آخر میں بڑے بڑے ذاکر اورخطیب جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔ پھر دس محرم کے بعد والی رات انتہائی خاموشی اور اندھیرے میں منائی جاتی ہے۔ جسے شامِ غریباں کہتے ہیں۔ جب سید عتیق گیلانی نے خطاب کیا تو دھرنے میں شامِ غریباں کا منظر تھا ۔ خطاب نے دھرنے میں نئی روح پھونک دی اور پھر سازش ہوگئی۔ لگتا یہ ہے کہ ایک طرف محسود قبائل دہشتگردی کے خلاف کاروائیوں سے بہت تنگ آچکے تھے اور نقیب اللہ محسود کی بے گناہ شہادت سے ایک بہانہ مل گیا۔ اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی پولیس و سیاسی نظام کو مزید سہارا دینے کے موڈ میں نظر نہیں آرہی ہے۔ ایک منصوبے کے تحت پولیس افسرراؤ انوارکیخلاف دھرنے کی اجازت دیدی گئی۔ سارے میڈیا چینل ایک ہی راگ الاپ رہے تھے لیکن اسلام آباد کا دھرنا بالکل مختلف تھا۔ اس میں پولیس کے بجائے فوج کے رویے ، ظلم و جبر اور زیادتی کیخلاف آواز اٹھانا مقصد تھا اور اس میں ایک حد تک کامیابی بھی مل گئی۔ آئی ایس پی آر نے وطن کارڈ کے خاتمے کا اعلان کیا، لاپتہ افراد کو چھوڑ دیاگیا،عوام سے ہمدری کا اظہار کیا گیا۔ زینب قتل کیس کے بعد راؤ انوار کی مخالفت میں کراچی کے دھرنے سے نظام کیخلا ف انقلاب کی امید نے اسوقت دم توڑ دیا جب پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے شہباز شریف کی طرف سے زینب کے والد سے ملنے کی طرح نقیب اللہ کے رشتہ داروں سے ملاقاتیں کیں۔ شاہ زیب کیس کو بھی شاہ رخ جتوئی کیخلاف کس نے نقصان پہنچایا؟، کسی سے یہ ڈھکا چھپا معاملہ بالکل بھی نہیں ۔ بات کوسبھی جانتے ہیں۔
اسلام آباد دھرنے میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن وہ اپنی مخالفت کے باوجود بھی اس دھرنے پر ناراض نہ تھے، اسلئے کہ ختم نبوت پر خادم حسین رضوی، حمیدالدین سیالوی کی ناکامی کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خان اور زرداری کا فارمولہ بھی ناکام ہوا تھا، زینب کے قتل پر بھی قوم کا ضمیر نہیں جاگ سکا تھا تو یہ واحد وسیلہ تھا کہ عوام میں انقلاب کا شعور برپا ہوجانا تھا، عمران خان گیا تاکہ دھرنے والے آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملاقات کا ذہن بنائیں۔ پھر مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی نے آکر دھرنے کا رخ دوسری جانب موڑنے کی کوشش کردی۔
قبائلی ملکان وعلماء کے ذریعے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دھرنے کے اصل محرک منظور پشتون کو طلب کیا، منظور نے عوام کا شکوہ سنایا تو وزیراعظم نے کہا کہ فوج ہمارے ساتھ بھی زیادتی کرتی ہے، نوازشریف کو دوتہائی اکثریت پر بھی ہٹادیا تھا اور پوری فیملی جلاوطن کردی تھی، اب بھی نااہل کیا ہوا ہے۔ اس ترانے کو سن کو منظور پشتون نے بھی قبائلی عمائدین اور علماء سے اتفاق کیا کہ دھرنے کو ختم کیا جائے ۔ منظور نے شرط رکھ دی کہ راتوں رات دھرنا ختم کرنے کے بجائے کل دن12 بجے دھرنے میں شریک سب عوام اور میڈیا کے سامنے حقائق رکھ دئیے جائیں لیکن وزیراعظم کے بیان نے سب کو اتنا خوفزدہ کیا تھا کہ زبردستی سے دھرنا ختم کرنے کا علان کیا، اسٹیج پہلے ہی سے ٹرالر کے کنٹینر پر تھا جس کو افراتفری میں چلاکر لے گئے۔ بعض جوانوں نے مزاحمت بھی کی جن میں کونسلر پیر نعمان شاہ بھی تھا۔
دوسرے دن انور سلیمان خان نے بھی شکستہ دلوں کو جیتنے میں کردار ادا کیا لیکن شامِ غریبان سے عتیق گیلانی کے خطاب نے جذبہ پیدا کیا، جب دودن بعد دھرنا عروج پر پہنچا تو مولانا فضل الرحمن نے دھرنے والوں کو ورغلانے میں خفیہ کردار اداکیا جسکے بعد فارمی بیل امیر مقام کی تحریر پر دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان ہوا۔ عتیق گیلانی کو موقع ملتا تو ایک انقلاب برپا ہوسکتا تھا۔
لوگوں کی راۓ