پوسٹ تلاش کریں

ریاست والدین کی طرح ہے مردانہ اولاد قبائل نے اُف تک نہیں کی: عتیق گیلانی کا اسلام آباد دھرنے سے خطاب

ریاست والدین کی طرح ہے مردانہ اولاد قبائل نے اُف تک نہیں کی: عتیق گیلانی کا اسلام آباد دھرنے سے خطاب اخبار: نوشتہ دیوار

naqeebullah-mehsud-all-pakhtoon-jirga-islamabad-sham-e-ghariban-pir-roshan-south-waziristan-raja-ranjit-singh-asp-police-tank-dera-ismail-khan

(عبدالواحد : اسلام آباد) سید عتیق گیلانی نے آل پختون جرگہ کی شامِ غریباں سے کہا:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یابندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی
میں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں(پیچھے سے پشتوکاکہاگیا،اکثر سلیمان خیل تھے جواردو نہیں سمجھتے) دھرنے کے لوگ میں شعور دیکھ رہا ہوں۔ان پر جو ظلم ہوا ، جو جبر ہواہے، ان میں درد بھی ہے اور تعصب نہیں۔ تم لوگ آج یہ کہتے ہو کہ ’’ یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘، یہ تمہارا نیا جنم ہے لیکن میں شروع سے یہی کہتا ہوں ۔ اٹھو! نعرہ لگاؤ یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے۔ مجھ پر جب فائرنگ ہوئی تھی تو ایس پی پولیس ٹانک بدمعاش نہیں عتیق اللہ وزیر شریف آدمی تھا، میں نے اسے کہاتھا کہ تمہارے بس کی بات نہیں، ریاست نے اسلحہ برداروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے،میں ریاست کے تھانے میں ریاست کے خلاف کوئی ایف آئی آر کیوں درج کروں؟،تو ایس پی نے کہا کہ ’’میں ذاتی طور پر کیا خدمت کرسکتا ہوں‘‘۔( پیچھے سے کسی بزدل محسود کی پشتو میں آواز آئی کہ ’’ یہ قوم کی بدنامی کررہا ہے‘‘۔ بعد میں پتہ چلا کہ الیکشن میں حصہ لینے کے خواہشمند یہ آواز میناباغ کے بھتیجے بادشاہی کی تھی۔ عتیق گیلانی کا وجود اس دھرنے میں احتجاج کرنیوالوں کیخلاف ایک ایٹم بم تھا اسلئے کہ اپنا واقعہ ہی بیان کردیتا تو لوگ فوج و ریاست کے کردار پر شیم شیم کے بجائے اُلٹا ہی دھرنا دینے والوں کی ملامت کرتے ۔ پھر تقریر پشتو میں بدل گئی ،ایک طرف دھرنے کے انتطامیہ کی خوف سے ہوا خارج ہونے لگی تو دوسری طرف بہت جلدی میں کچھ اہم نکات پیش کردئیے گئے جس سے دھرنے کے انقلابی ترانے میں زنانہ مرثیہ پڑھنے کو دھچکا پہنچا)
میں قوم کی بدنامی نہیں کررہا ،قوم کی پگڑی اونچی کر رہا ہوں۔ لوگوں میں دوقسم کے افراد ہوتے ہیں۔ میں پہلے قبائل کی تاریخ بتاتا ہوں۔جب مغل اعظم اکبر بادشاہ کا ہندوستان میں اقتدار تھا ،تب جنوبی وزیرستان کے پیرروشان نے اکبر کی حکومت اور اس کا دین تسلیم کرنے سے انکار کیاتھا۔ قبائل اور پٹھانوں میں بغاوت برپا کی تھی۔ پھر راجہ رنجیت سنگھ آیا تو بھی آزاد قبائل کی یہی حیثیت تھی، پھر انگریز آیا تب قبائل اسی پوزیشن میں تھے جو آج ہیں۔ انگریز کے جانے کے بھی آزادی فوج و ریاست کوملی تھی ،ہم پہلے سے آزاد تھے۔ جب انگریز کے جانے کے بعد پاکستان اور بھارت آزاد ممالک بن گئے تو قبائل نے بھارت سے آئی ہوئی سیاسی قیادت قائداعظم کو حکمران تسلیم کرلیا، جب کشمیر کیلئے پاک فوج کے انگریزسربراہ میں لڑنے کی جرأت نہ تھی تو قائداعظم نے قبائل سے کشمیر کے جہاد کیلئے کہہ دیا، قبائل گئے کہ نہیں گئے؟۔ (حاضرین نے کہاکہ گئے) جب لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تو پاکستان میں حکمرانی کیلئے کوئی شخص نہ تھا۔ محمد علی بوگرا کو امریکہ سے اقتدار سنبھالنے کیلئے لایا گیا،ریاست والدین کی طرح ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایاہے کہ والدین کے سامنے اُف تک نہ کرو۔ قبائل نے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا لیکن آج تک اُف بھی نہ کی۔ آج بھی یہ یہاں اُف کرنے کیلئے نہیں آئے ہیں۔ اولاد کی دوقسمیں ہوتی ہیں، ایک مردانہ اور دوسری زنانہ۔ بیٹے پر کتنی سختی کی جائے اور سزا دیجائے ، ذلیل ورسوا کیا جائے لیکن وہ اُف اسلئے نہیں کرتا کہ ان مشکلات کو برداشت کرنے کی وجہ سے اس میں اہلیت و صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنے باپ کی جگہ گھر کا کاروبار سنبھالنے کے قابل بن جاتا ہے اور اپنے باپ کا منصب لے لیتا ہے۔ قبائل ریاست کے مرد بچے ہیں یہ وہ نہیں ہیں جو کہتے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ (حاضرین نے بڑی داد دیدی) ، بیٹی کو جب لاڈ پیار سے پالا جائے تو وہ بھاگ کر کورٹ میرج کرلیتی ہے۔ ریاست نے جن لاڈلی بیٹیوں کو پالا تھا، بھٹو، نواز شریف اور عمران خان یہ کورٹ میرج والی ہیں۔ معاملہ صرف نقیب اللہ اور راؤ انوار کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے ۔ میڈیا نے کتنے اور مظالم سے پردہ اٹھایا ہے۔ حاضرین تم مجھ سے وعدہ کرو کہ اب اس وقت تک تحریک جارہی رہے گی جب تک عوام کو ریاست کا فائدہ نہیں پہنچتا اور ظلم وجبر کے نظام کا خاتمہ نہیں ہوتا ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟