پوسٹ تلاش کریں

نواز شریف نے آئی ایم ایف سے اتنا قرضہ لیا کہ سود کی مد میں ادا کی جانی والی رقم ہمارے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔

نواز شریف نے آئی ایم ایف سے اتنا قرضہ لیا کہ سود کی مد میں ادا کی جانی والی رقم ہمارے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ اخبار: نوشتہ دیوار

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ دسمبر2021۔ سوشل میڈیا پوسٹ
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کے اسلامی اسکالرکو انٹرویو میں کہا ہے کہ ریاست مدینہ کی فلاحی ریاست کا ماڈل بنانے کیلئے میں نے سیاست میں قدم رکھا۔آج امت مسلمہ کے قائدین میں طاقت و دولت کی دوڑ لگی ہوئی ہے، ان میں آزادی اور غیرت کا فقدان ہے، ہم نے جو جدوجہد کی ہے اس کے اثرات ہزاروں سال بعدتک مرتب ہوںگے، میرے سامنے مافیاز تھے،جنہوں نے میری20سال تک کردار کشی کی مگر آخر کار وہ ناکام ہوگئے !

وزیراعظم عمران خان ! اگر ایک طرف گردشی قرضوں کے سود کی رقم ہمارے ٹیکس کے محصولات سے بھی زیاہ ہو جس کا سارا بوجھ عوام پر مہنگائی کی صورت میں پڑے اور دوسری طرف لنگر خانے کھولے جائیں تو یہ ریاستِ مدینہ ہے؟

وزیراعظم عمران خان ! پاکستان کو مدینہ کی ریاست کا ماڈل بنانے کیلئے جس طرح بیٹنگ اور بالنگ آپ کررہے ہیں، اس پرذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔
جب نوازشریف نےIMFسے اتنے قرضے لے لئے کہ ہمارے دفاعی بجٹ سے زیادہ سود میں دی جانے والی رقم تھی تو ہم نے جلی حروف سے نشاندہی کردی تھی کہ نوازشریف بڑے سودی قرضے لیکر ملک میں خوشحالی نہیں بدحالی کے مرتکب بن رہے ہیںلیکن ہماری بات کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ جب رونا رویا جارہاتھا کہ دفاعی بجٹ نے پاکستان کو غریب اور بدحال بنادیا ہے تو ہم نے بتادیا کہ اصل تباہی گردشی سودی رقم کی ہے جس کا ہمیں بہت جلد خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ دفاعی بجٹ کا تعلق اپنے دشمن کا سامنا کرنے کیلئے ہوتا ہے اور گھر میں بھی جس طرح کے حالات ہوتے ہیں ،اسی طرح سے اسلحہ وغیرہ کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک آدمی کو اپنے دشمن سے اپنی جان اور اپنی عزت کے خطرات کا سامنا ہو اور دوسری طرف وہ اسلحہ رکھنے کے بجائے قیام وطعام اور حلوے مانڈے کھانے پر بہت سارا مال خرچ کرے اور اپنے پاس بندوق پِسٹل نہیں رکھے۔ یہ غیرفطری بات ہوگی۔ جب مشرقی پاکستان میں ہماری فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان کے اہل اقتدار نے ایٹم بم بنانے کا ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔
اگر ایک گھر کا سربراہ یا تجارتی کمپنی کا چیف اپنے اثاثے پر سود لینے کا سودا کرے اور وہ نقصان ہی نقصان میں جارہا ہو تو ایک دن اپنے سارے اثاثوں سے بھی ہاتھ دھو لے گا۔ یہ بہت خسارے ، شرمندگی اور بوجھ کی تجارت ہوگی۔ ہمارے اصحابِ اقتدار اپنے ملک میں یہی تجارت کررہے ہیں۔پہلے اپنے ملک کو چلانے کیلئے سودی قرضے لینے پڑتے تھے کیونکہ ٹیکس چوری کی وجہ سے ملک کا نظام نہیں چل سکتا تھا۔ کسٹم اور انکم ٹیکس کے محکموں میں نوکریاں سب سے زیادہ فائدہ مند اسلئے سمجھی جاتی تھیں کہ ان میں چوری کا پیسہ بہت زیادہ ہوتاتھا۔ سیاسی خاندان بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔ بڑے تاجروں نے بھی ٹیکس چوری کرنے کے طریقۂ واردات کا پورا پورا فائدہ اٹھانا سیکھ لیا تھا۔ ٹیکسوں پر مملکت کا نظام چلتا تھا۔ ریاست چلانے کیلئے ٹیکس ناکافی تھا تو سودی قرضہ مجبوری تھا۔
جب سودی قرضے لینا شروع ہوئے تو پھر منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بڑی بڑی رقم کی منتقلی اور جائیدادوں کی خریداری بھی سامنے آگئی۔ بہت بڑے پیمانے پر سیاستدانوں ،سول وملٹری بیوروکریسی کے اہم اہلکاروں اور ان کے آلۂ کار تاجروں نے بلیک منی سے اپنے منہ کالے کرلئے تو اچھائی اور برائی کی تمیز بھی ختم ہوگئی۔ اشرافیہ کو قرآن میں مترفین کہا گیا ہے جن کو خوشحال لوگ سمجھا جاتا ہے۔ ہردور میں اہل حق کی مخالفت اور اہل باطل کی حمایت ان لوگوں کا محبوب مشغلہ رہاہے۔ جب ہم نے مولانا فضل الرحمن، کراچی کے اکابر علماء اور بہت سارے لوگوں کو دیکھا تھا تو خوشحالوں کی فہرست میں شامل نہ تھے۔ مولانا فضل الرحمن ، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا عبداللہ درخواستی،مفتی محمد نعیم، مفتی رشیداحمد لدھیانوی، مولانا یوسف لدھیانوی، مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا مفتی احمد الرحمن، مولانا اسفندیار خان،مفتی زرولی خان،مولانا حق نواز جھنگوی ،مولانا مسعود اظہر، مولانا اعظم طارق اور بہت سارے مذہبی لوگ غریبوں کی فہرست کا حصہ تھے لیکن آج یہ لوگ اور ان کی اولاد اور جماعتوں کے رہنما خوشحال ہیں۔ خوشحال سے مراد روحانی اور ذہنی خوشحالی نہیں ہے بلکہ مال واسباب کی خوشحالی ہے ۔
ججوں، بیوروکریٹوں، جرنیلوں ، سیاستدانوں اور تاجروں اور مذہبی طبقات کی غربت کم ہوگئی ہے اور یہ خوش آئند ہے لیکن ملک وقوم کی بدحالی کے ذمہ دار کون ہیں؟۔سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیںاور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے غریب عوام بدحال ہیں اور یہ لوگ خوشحال ہیں یا معاملہ کچھ دوسرا بھی ہے؟۔ کسی نے کسی کے منہ سے روٹی کا نوالہ نہیں چھینا ہے مگرپھر بھی مڈل کلاس ختم ہوگئی ہے ۔ایک طرف امیر طبقات ہیں جو ساتویں آسمان تک پہنچ چکے ہیں اور دوسری طرف غریب غرباء ہیں جو زمین کے ساتویں طبق میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ جب مڈل کلاس کا گزارہ مشکل ہوگیا ہے تو غریب کس حال پر پہنچے ہوں گے؟۔ آنے والے حالات زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔
اس سے پہلے پہلے کہ عدالت، فوج، سیاستدانوں، سول انتظامیہ، پولیس، بدمعاشوں اور غنڈوں کے ہاتھوں سے تمام حالات نکل جائیں اور غریب بہت بڑا طوفان برپا کردیں جس سے ایسی افراتفری پھیل جائے کہ سب کا سکون بھی غارت ہوجائے ،کوئی ایسا فارمولہ قوم وملک اور سلطنت کو دیا جائے جس سے ہم ایک اچھے نتیجے پر پہنچنے کی امید کرسکیں۔ اب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہمارا تمام ٹیکس تقریباً سود کے مد میں جاتا ہے اور ریاست وحکومت کو چلانے کیلئے مزید سودی قرضے بھی لینے پڑتے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی طرف سے ایک کروڑ نوکری کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو بے روگاز کیا جائے گا۔
کامریڈ لعل خان نے کہا تھا کہ ” ہماری فوج میں اب یہ صلاحیت باقی نہیں رہی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کیلئے لڑسکے۔ اس میں مارشل لاء لگانے کی صلاحیت بھی ختم ہوچکی ہے اسلئے کہ اس کا کردار پٹواری، آڑھتی اور دلالوں کی طرح ہے۔ یہ انتہائی کرپٹ ہوچکی ہے۔ کرپٹ لوگوں میں عزت کی خاطر لڑنے مرنے کا کوئی جذبہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اب یہ پیسے بنانے میں لگ چکی ہے”۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں اسلامی سکالر کے سامنے علامہ اقبال کے شاہین کا ذکر کیاہے ۔ ہمارے وزیرستان میں ایک طرف ہماری فوج اور طالبان کے لوگ سرکاری کاموں میں بھتے وصول کرنے میں مصروف ہیں اور دوسری طرف چیک پوسٹوں پر فوجی جوان دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان بہت بڑا سانحہ تھا لیکن اس وقت بھی غیرت کا مظاہرہ ہماری فوج نے اسلئے نہیں کیا تھا کہ اپنے بنگالی بھائیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے پیپلزپارٹی اور سیاسی جماعتوں کو غیر مؤثر بنانے کیلئے لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کیلئے راہ ہموار کردی اور کٹھ پتلی سیاستدان متعارف کرائے تھے۔ جنرل حمیدگل نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر انتقامی جرنیلی انتشار تشکیل دیا تھا اور عمران خان کی تحریک انصاف کے بانی بھی وہی تھے۔
نوازشریف اور عمران خان ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ دونوں نے پاک فوج کا بیڑہ غرق کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس ”خشکی وسمندر میں فساد برپا ہوگیا بسبب لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے”۔یہ سب کرتوت ہماری ایجنسیوں کے ہی اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے جنہوں نے بنگلہ دیش کھو دیا۔ کشمیر کو آزاد نہیں کراسکے مگر روس اور امریکہ کو شکست دینے سے لوگوں کو ورغلارہے ہیں۔ ایک طرف میڈیا کا ایک مافیا نوازشریف کو سپورٹ کرنے کیلئے جھوٹ کے طوفان کھڑے کرتا ہے اور دوسری طرف کا میڈیا مافیا پاک فوج کے سر پر جھوٹ کے ہما بٹھا رہاہے۔
لعنت اللہ علی الکاذبین ” جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو” کا جملہ قرآن کی تلاوت میں مسلمان بڑے پیمانے پر پڑھتے ہیں اور اللہ کے فرشتے دن رات جھوٹوں پر لعنت بھیج کر ان کو اپنے انجام تک پہنچانے کا انتظار کررہے ہیں۔
پاکستان کے ہر طبقے میں اچھے لوگوں کی بالکل بھی کمی نہیں ہے۔ جنہوں نے ملک وقوم کا بیڑہ غرق کیا ہے اس میں کوئی خاص طبقہ سول وملٹری بیوروکریسی اور سیاستدان ملوث نہیں ہے بلکہ سب کو اللہ تعالیٰ نے مواقع دئیے ہیں اور سب میں اچھے اور برے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔سب کو اپنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ عمران خان ایک کرکٹر ہے اسلئے فلسفے جھاڑنا اس کی فیلڈ نہیں ہے۔
قوم کو سودی قرضے بڑھانے اور لنگر خانے کھولنے سے غیرتمند نہیں بنایا جاسکتا ہے۔جاوید ہاشمی سینئر سیاستدان ہیں ۔ جماعت اسلامی سے مسلم لیگ اور پھر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئے۔ ہاشمی صاحب کہتے تھے کہ ہم اپنے سیاسی قائدین کے مزارع نہیں ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایک مزدور ، نوکر اور مزارع میں کیا فرق ہوتا ہے۔ افغانی ایک دوسرے کو طعنہ دیتے ہیں کہ” تم پنجاب کے مزدور ہو”۔ ” امریکہ کے نوکر ہو”۔ اپنے ملک وقوم کی مزدوری اور نوکری میں ہر کوئی فخر محسوس کرتا ہے لیکن اغیار کی مزدوری ونوکری میں عار محسوس کرتا ہے۔ پاکستان کے بعض مردہ ضمیر لوگوں کی بات میں نہیں کرتا ہوں جو ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم نے نیٹو کو شکست دی ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے نیٹو کیلئے صف اول کی خدمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن میں منافقوں کیلئے فرمایا ہے کہ ” نہ یہ ادھر کے ہیں ،نہ ادھر کے۔ بس درمیاں میںتذبذب کا شکار ہیں”۔ لیکن مزارعت گھناؤنا فعل ہے جو بہت زیادہ مجبور نہ ہو تو وہ کسی کا مزارع نہیں بن سکتا ہے۔ اسلام نے مزارعت کو ختم کیا تھا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟