پوسٹ تلاش کریں

ہمارا ریاستی اور سیاسی نظام اور محمد علی جناح کا دیا ہوا پاکستان

ہمارا ریاستی اور سیاسی نظام اور محمد علی جناح کا دیا ہوا پاکستان اخبار: نوشتہ دیوار

ہمارا ریاستی اور سیاسی نظام اور محمد علی جناح کا دیا ہوا پاکستان

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مغرب کا مقابلہ حقیقی اسلام سے کرنا ہوگا۔ افغانستان، سعودی عرب اور ایران نے جو اسلام سرکاری سطح پر پیش کیا وہ اسلام کی بگڑی ہوئی شکل ہے لیکن پاکستان میں اسلام کی شکل سرکار نے نہیں مولوی نے بگاڑ ی ہے ۔ پاکستان کے آئین میں اقتدار اعلیٰ اللہ کیلئے اور قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کی وضاحت ہے۔ ہم نے75سال میں آزاد خارجہ پالیسی نہیں اپنائی۔ اگر قرآن کے مطابق چور کی سزا ہاتھ کاٹنا قرار دیتے تو بڑے بڑوں کے ہاتھ کٹ جاتے اور وہ اپنی انگلیاں لہرالہرا کر عوام کو ورغلانے کیلئے تقریریں پھر نہیں کرسکتے تھے اوراگردنیا سعودی عرب کو اجازت دیتی ہے توہمیں کیوں نہیں دیتی؟۔اپنا مقتدر طبقہ چور ہے اسلئے پارلیمنٹ میں اسلامی قانون سازی نہیں کرتا۔ جب اسلام دنیا میں نازل ہوا توعیسائی مشرکانہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تین خدا ہیں۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے توہین آمیز نظریہ رکھتے تھے۔ اسلام نے اہل کتاب کی خواتین کیساتھ نکاح کی اجازت دی لیکن آج ہماری جہالتوں کا حال یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میںالجامعة الاسلامیہ الفلاح للبنات کی19سالہ معلمہ کو توہین مذہب، بھونڈے خواب اور مفادات کی بھینٹ چڑھا کر چند خواتین نے چھریاں مارمارکر ذبح کرکے شہید کردیا۔ وفاق المدارس سے ملحق مدرسے کے مہتمم مولانا شفیع اللہ کے بیان کو دیکھ لیا جائے تو وہ معلمہ کا دفاع بھی جرأتمدانہ انداز میں کرنے سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ وفاق المدارس ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء نے چندوں کے تحفظ کی خاطر جو بیان دیا، وہ بھی شرمناک ہے۔ مولانا سیدمحمد بنوری جب گھر میں شہید کئے گئے تھے تو مولانا فضل الرحمن سے استدعا کی تھی کہ مجھے قتل کردیا جائیگا۔مولانا فضل الرحمن مفتی جمیل خان کو ساتھ لئے گھوم رہے تھے جس نے روزنامہ جنگ میں خود کشی کرنے کی جھوٹی خبر چلائی تھی۔ مدارس کے علماء کو چوڑیاں پہنادیں اور خواتین عالمات اپنی کسی رہنما کی قیادت میں اس معلمہ کے بہیمانہ قتل پر ملک گیر احتجاج کا حق ادا کریں۔ایک انسان کا بے گناہ قتل تمام انسانیت کا قتل ہے۔ اگر یہ فتنہ نہیںروکا گیا تو مولانا فضل الرحمن، عمران خان، شہبازشریف، بلاول بھٹو، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، علامہ حافظ سعد رضوی ، اسفندیار ولی ، جنرل قمر باجوہ ، چیف جسٹس عطاء محمد بندیال اور بہت مرد اورخواتین کو بھی خوابوں کی بنیاد پر قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ان خواتین کو ایسی عبرت ناک سزائیں دی جائیں کہ آئندہ کسی دوسرے کو ایسے خواب نظر نہ آئیں۔ اشرافیہ کو غریبوں پر ظلم دکھائی نہیں دیتا ہے۔
قرآن میں توراةکے حوالے سے اللہ نے جان کے بدلے جان، دانت، آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ وغیرہ کے بدلے میں دانت ،آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ وغیرہ کا حکم دیا ہے۔ اگر پاکستان میں اس پر عمل کرنا شروع کریںگے تو دنیا بھر کے مذہبی جنونی یہودی بھی ہمارا ساتھ دیں گے جن کے پنجے میں فرنگیوں کی شہہ رگ ہے۔ عیسائیوں کے انجیل میں شرعی حدود کا ذکر نہیں لیکن وہ تورات کے احکام کو تسلیم کرتے ہیں اسلئے عیسائی بھرپور ساتھ دیں گے۔ جرائم پرقابو پانے اور چوری کا خاتمہ کرنے کیلئے دنیا بھر کے مالیاتی ادارے پاکستان کے اقدامات کو قابلِ تحسین قرار دیںگے۔ جب ہماری عدالتیں چور کو سزائیں دیتی ہیں تو چور قید سے نکل کر اپنی معصومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے میں شرم محسوس نہیں کرتا ہے۔ پارلیمنٹ چوروں کیلئے قرآن کے مطابق ہاتھ کاٹنے کی سزا کو قانونی شکل دیتی تو کتنااچھا ہوتا؟ لیکن بلی کو مچھلی کی چوکیداری سونپ دی گئی ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ زخموں کا قصاص یعنی بدلہ ہے۔ اگر قتل اور اعضاء کاٹنے اور تیزاب پھینکنے کی سزاؤں پر تین دن کے اندر اندر عمل ہو تو جرائم کی شرح زیرو ہوسکتی ہے۔ سالوں سال بعد مظلوم اپنی جان، مال اور عزت پر کھیل کر انصاف حاصل کرنے میں ناکام ہوتا ہے۔ انصاف میں دیر بھی انصاف کا قتل ہے۔ ظالموں کو موقع دینے کیلئے جتنے تاخیری حربوں کو قانون کا حصہ بنایا گیا ہے وہ سب ایک خود مختار پارلیمنٹ کے ذریعے ختم کئے جائیں۔ ہندوؤں کے پاس اپنا کوئی قانونی نظام نہیں ۔ قرآن وسنت کے ٹھوس قوانین کی شکل بگاڑ دی گئی۔ ریمنڈ ڈیوس کیلئے فوج، صوبائی اور مرکزی حکومت نے اسلام کو سہولت کاری کیلئے استعمال کیا تھا۔ بیوہ عورت نے اکلوتے بیٹے کا خون عدالت کی دہلیز پر اسلئے معاف کیا کہ اس کو خطرہ تھا کہ جوان بیٹیوں کی عزت لٹ جائے گی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو اور شارخ جتوئی کے کیس میں فرق و امتیاز نہ ہونے کے باوجود عدالت نے الگ الگ انصاف دیا تھا۔
فائز عیسیٰ کی بیگم کی بیرون ملک جائیداد پر اپنے پیٹی بند جج بھائیوں کو دھمکی ملتی ہے کہ تمہارا بھی بھانڈہ پھوڑ دیں گے تو اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عمران خان کی حکومت کو اس کی بے دریغ حمایت کرنے والے سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے ڈبودیا ہے اور مسلم لیگ ن کا بیڑہ اس کی حمایت کرنے والا میڈیا غرق کررہاہے۔ قطری خط اور دھمکی خط میں دونوں طرف کی میڈیا نے جس طرح کی شرمناک مہم جوئی کی، ان کو صحافت کی جگہ کوئی اورپیشہ اپنانا چاہیے۔ معتدل، سچے اور غیرجانبدار میڈیاہاؤس اور صحافیوں کو بڑا کریڈیٹ جاتا ہے لیکن کرائے پر مہم جوئی کرنے والوں کابھی فائدہ ہے۔ معتدل اس طرح سے جرأتمندی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے جس طرح فواد چوہدری کے سامنے مطیع اللہ جان کھڑے ہوگئے ۔حالانکہ فواد نے مبشر لقمان اور سمیع ابراہیم کو تھپڑ تک رسید کردئیے۔
قراردادمقاصد اور آئین پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ کا حق اللہ اور خلافت کا حق حکمران کاہے۔ آدم کو زمین میں خلیفہ بنایا تھا۔ جس شجر سے اللہ نے روکا ۔ شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ کیا میں ہمیشہ والا شجر بتادوں اور ایسی بادشاہت جونہ ختم ہونیوالی ہو؟۔ حضرت آدم کو شیطان نے ورغلایا۔اقتدار حقیقت میں اللہ کیلئے ہے اور جب کوئی اس کو اپنے لئے دائمی اور خاندانی سمجھنے لگتاہے اور اس کی حرص میں مبتلا ء ہوجاتا ہے تو یہ وہ شیطانی کھیل ہے جس کی وجہ سے آدم وحواء ننگے ہوگئے تھے ۔ قرآن میں اللہ نے بنی آدم سے کہا کہ تمہیں شیطان ننگا نہ کردے کہ جیسے تمہارے آباء کو ننگا کردیا تھا۔ خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ کو زبردستی قیامت تک اپنی دائمی بادشاہت قائم رکھنی تھی ۔پھر عوام نے ان کو ایسے عبرتاک انجام سے دوچارکردیا تھا کہ کربلا کے مظالم بھی لوگ بھول گئے تھے۔ تین سفیانوں کے مقابلے میں تین مہدیوں کا ذکر ہے اوراچھے برے شجرے کی حقیقت آخر کار پھر عوام کے سامنے ضرور آئے گی۔مولانا الیاس گھمن کے ساتھی مفتی رضوان کا نیٹ پر انٹرویو دیکھا ۔اس نے کہا کہ” حضرت حسن و حضرت حسین ہمارے ایمان کا حصہ ہیں اور یزید تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخ کو ہم ایمان پر مقدم نہیں رکھ سکتے۔ یزید واقعہ کربلا میں خود ملوث تھا یا نہیں ؟۔ اس پر ہمارے اکابر نے سکوت اختیار کیا”۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ”ا گر دریائے فرات کے کنارے کتا پیاس سے مرے تو ذمہ دار عمر ہوگا”۔یزید کی حکمرانی میں واقعہ کربلا ، اہلبیت کے بچے ، بیمار اور خواتین کو زنجیروں میں باندھ کر اور امام حسین کے کٹے ہوئے سر کو یزید کے دربار میں پیش کیا اور یزیدنے دانت مبارک اپنی تلوار سے کٹکٹائے کہ مقابل نہ آتا تو یہ انجام نہ ہوتا۔ اور اس پر سکوت اختیار کیا جائے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کا عدل وانصاف نہیں چاہیے بلکہ جن کو شیطان نے اپنے دائمی حکومت کی خوہش سے ننگاکیا تھاوہی اقتدار چاہیے۔ بقیہ صفحہ 2نمبر2

بقیہ : ہمارا سیاسی وریاستی نظام اور محمد علی جناح کا دیا ہوا پاکستان
قرآن میں کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال شجرہ خبیثہ سے دی گئی اور بنوامیہ، بنوعباس، خلافت عثمانیہ، مغل سلطنت، فاطمی خلافت، خاندانِ غلاماں اور ایران، سعودی عرب اور افغانستان کے علاوہ تمام خاندانی بادشاہتیں در اصل شجرہ خبیثہ کی طرح تھیں، ہیں اور رہیں گی جو بھی ان کے نقش قدم پر چلتا رہے گا۔ حضرت علی کے بیٹے حسن نے مسنداقتدار کو چھوڑ کر شجرہ طیبہ کی مثال قائم کردی۔ آدم کے بیٹے قابیل نے شجرہ خبیثہ کی بنیاد رکھ دی اور ہابیل نے شجرہ طیبہ کا نقشہ بتادیا کہ قدرت رکھنے کے باوجود ظالم بننے کی جگہ مظلومیت کو ترجیح دے دی۔ نوازشریف، شہبازشریف سے لوگ اسلئے نالاں تھے کہ ایک بھائی وزیراعظم اور دوسرا پنجاب کا وزیراعلی بنتا تھا اور اب حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ پنجاب اور شہباز شریف کی وزیراعظم کی خواہش نے پھر شجرہ خبیثہ کی یاد تازہ کردی۔ کوئی عقلمند شجرہ خبیثہ سے تعلق رکھتا تو بھی مسلم لیگ ن میں نئی شامل ہونے والی منتخب آزادرکن اسمبلی محسن جگنو کووزیراعلیٰ بناتا مگر حمزہ شہباز کو بنانے سے گریز کرتا۔ اسلئے کہ کسی بھی عوامی جماعت پر خاندان کی اجارہ داری شرمناک ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنے بیٹے کی جگہ جماعت کے کسی سینئر رکن پارلیمنٹ کو آگے نہیں لاسکتا تھا تو سگے بھائی مولانا عطاء الرحمن کوہی آگے لاتا۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں خاندانی اقتدار کا دوام کھلی غلط خواہش ہے جس کی وجہ سے حضرت آدم کو بھی شیطان نے وسوسہ ڈال کر جنت سے نکلوادیا تھا۔ محمود خان اچکزئی کی بات سوفیصد درست تھی کہ ”کم بختو! قیادتیں بنائی نہیں جاتی ہیں بلکہ پیدا ہوتی ہیں”۔ بھٹو، نوازشریف اور عمران خان ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے کالبوت میں رکھ کرہی بنائے گئے تھے اور قیادتوں کیلئے خاندانی کاشت فرعون کی شجرہ خبیثہ ہوسکتی ہے۔ خلافت راشدہ کا معیار خاندانی امتیاز نہیں بلکہ کردار اور عوامی رائے کا معاملہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے بجائے قریش سے نبیۖ کی بعثت ہوئی تو اس میں خاندانی اجارہ داری کی جگہ نبوت کا شجرہ طیبہ کا معاملہ تھا اور نبیۖ کے بعد بنوہاشم کی جگہ بنوتمیم سے حضرت ابوبکر صدیق اکبر کی خلافت بھی شجرہ طیبہ سے تعلق رکھتا تھا۔ حضرت علی بنادئیے جاتے تو قیامت تک خاندانوں کی فرعونیت کا معاملہ اسلام کے گردن میں فٹ کرنے کی کوشش کی جاتی۔
مولانا فضل الرحمن حدیث سناتاہے کہ ”جس حکمران نے عوامی رائے کے بغیر خود کو زبردستی سے مسلط کیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہو”۔ ایک حدیث جمعہ کے خطبات میں پڑھی جاتی ہے کہ ” سلطان زمین پر خدا کا سایہ ہے اور جس نے سلطان کی توہین کی اس نے اللہ کی توہین کی ”۔ اس حدیث کو بھی جمعہ کے خطبے کا حصہ بنادیا جاتا کہ زبردستی سے اقتدار پر قابض ہونے والے پر اللہ کی لعنت ہو۔ جہاں بھی سازشوں، خاندانی قبضہ مافیا اور ڈکٹیٹر شپ سے کسی کو اقتدار ملتا ہے تو مولوی حسنِ قرأت سے آیت پڑھتا ہے کہ ” اللہ ملک کا مالک ہے وہ جس کو چاہتا ہے ملک عطاء کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتاہے اور جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے”۔ اگر فرعون کے زمانے میں حضرت موسیٰ کو بھاگتے اورہمارامولوی موجودہوتا تب یہ آیت پڑھتا۔
قائداعظم محمد علی جناح اور انکے ساتھیوں نے اپنی مادر وطن ہندوستان سے وفاداری نہیں کی تھی بلکہ دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر مادروطن ہندوستان کو تقسیم کرکے قربان کیا تھا اور مولانا حسین احمد مدنی کو وطن پرست ہونے کی بنیاد پر علامہ اقبال نے ابولہب قرار دیا تھا۔ نبیۖ نے مکہ مکرمہ سے یثرب ہجرت کرنے پر ترجیح دی تھی اور حضرت اسماعیل کوبھی حضرت ابراہیم نے بچپن میں ہجرت کی راہ پر ڈالا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلے بھاگ کر جان بچائی تھی ۔پھر اپنی قوم کو دریا پار لے گئے تھے۔ پاکستان بنا تو مہاجرین اور قائدین نے ہجرت کی تھی اور جن علاقوں نے پاکستان اور نظرئیے کو ووٹ دیایہاں تشریف لائے تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن علاقوں نے پاکستان کو ووٹ دیا تھا اور جس میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بھی شامل تھا۔ جب وہاں کی پارٹی جیت گئی تو اس کو ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں نے اقتدار سپرد کرنے میں تاخیری حربے استعمال کئے۔ جس کی وجہ سے ملک ٹوٹ گیا تھا۔
آج بنگلہ دیش کی کرنسی ہماری کرنسی سے زیادہ حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری تمام حکومتوں نے ڈالر کی قیمت کے سامنے اپنے روپیہ کو بے وقعت بناتے بناتے آخر یہاں تک پہنچادیا ہے کہ بنگالی ٹکے نے بھی روپیہ سے سبقت لے لی ہے۔ تیس سال سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی ذمہ دار تھے اور اب پونے چارسال سے تحریک انصاف نے اسی پگڈنڈی پر چل کر تنزلی کا سفر جاری رکھا ۔ صحافی نے شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ کیا بہتری لائیں گے تو اس کا جواب یہ تھاکہ عمران خان سے پوچھ لو جو کہتا تھا کہ ہرچیز کا ذمہ دار وزیراعظم ہوتا ہے۔
ہماری حکومت اور ریاست واقعی اللہ کا سایہ ہے اور اللہ باقی رکھے کیونکہ جس طرح دہشتگردی کا مقابلہ ہماری پاک فوج اور پاک پولیس نے کیا عوام مقابلے کی صلاحیت سے محروم تھی۔ البتہ گڈ طالبان اور بدمعاش بھی ریاست اور حکومت پالتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تمام قسم کے جرائم بھی بڑی ڈھڑلے سے ہوتے ہیں۔ خواتین کے ساتھ جبری جنسی زیادتی اور اغواء برائے تاوان سے لیکر ہیروئن ، چرس ،افیون ،چائے، ایرانی تیل،کپڑے،ادویات اورصاف شفاف پانی تک کی سمگلنگ ہورہی ہے اور ان کے پیچھے کس کس کا ہاتھ ہے؟۔ یہ کسی بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے صدیق کانجو کے بیٹے اور جام عبدالکریم کے ہاں غریبوں کا قتل اور مجبوری میں معافی میڈیا میں بھی زیادہ نہیں اچھالا جاتا ہے اور جب میڈیا مجید اچکزئیMPAکے قتل کو اچھالتی ہے تب بھی ایک غریب ٹریفک پولیس کے اہلکار شہید کو انصاف نہیں ملتا ہے۔
جب بلاول بھٹو زرداری کے والدین کی شادی نہیں ہوئی تھی اور بینظیر بھٹو آنسہ کہلاتی تھی تو میں نے1984میں جمعیة اعلاء کلمة الحق کے نام پر جماعت بنائی تھی اور کوشش کی تھی کہ جماعت کا امیر کسی دوسرے کو بنایا جائے مگر اس میں کامیاب نہیں ہوسکا تھااور جب عمران خان کرکٹ کھیلتا تھا اور ورلڈ کپ بھی نہیں جیتا تھا تو میں نظام کی تبدیلی کیلئے ڈیرہ اسماعیل خان1991میں ایک سال بامشقت جیل کی سزا کاٹ رہا تھا۔ جب نواز شریف جنرل ضیاء الحق کا کٹھ پتلی تھا تو بھی نام نہاد اسلامی جمہوری اتحاد کی جگہ میں نے مولانا فضل الرحمن کو باقاعدہ اپنا شاختی کارڈ بنواکر ووٹ دیا تھا۔ حالانکہ میں نے اپنا شناختی کارڈ تصویر کو جائز نہ سمجھنے کی وجہ سے ضائع بھی کردیا تھا۔ مولانا عبدالکریم بیرشریف نے بھی شناختی کارڈ کیلئے اپنی تصویر نہیں کھچوائی تھی جو جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر تھے اور اس سے پہلے جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا سراج الدین دین پوری نے جمعیت چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن جمعیت میں حیثیت عہدے کی نہیں شخصیت کی ہے اوریہ فطری بات ہے لیکن شخصیت کو اپنے خاندانی تسلط قائم کرکے یزید سے بدتر کردار ادا نہیں کرنا چاہیے ۔یزید کے بیٹے معاویہ نے خاندانی قبضہ کرنے کے بجائے اقتدار کو چھوڑ دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کے کارکن جن لوگوں سے مولانا کیلئے لڑرہے تھے انہی کو مولانا نے کارکنوں پر مسلط کر دیا ہے۔ بہتر ہے کہ جمعیت علماء اسلام عوام سے کھلواڑ کرنے کے بجائے مریم نواز کی جماعت میں باقاعدہ ضم ہوجائے۔ مولانا نے حافظ حسین احمد کے مدِ مقابل مولانا غفور حیدری کو سپورٹ کرکے کٹھ پتلی جنرل سیکرٹری بنادیا تھا اور ابھی تک اپنی نااہلی کے باوجود اسی کی پشت پناہی سے مسلسل منتخب ہورہاہے۔
جب عمران خان کے کارکنوں کی طرف سے ہلڑبازی کا خدشہ تھا تو مریم نواز نےPDMکے پلیٹ فارم کو چھوڑ کر ن لیگ کے کارکنوں کو لاہور میں روک دیا تھا اور مارکٹائی کرنے اور کھانے کیلئے جمعیت علماء اسلام کے کارکن پہنچائے گئے تھے۔ جب ایک جماعت ہوگی تو کم ازکم فرنٹ لائن کا کردار تو ادا نہیں کریںگے اور جب مار کھانی اور کھلانی ہوگی تو سب ایک جگہ جینے مرنے کا دم بھریں گے۔ جب قومی اسمبلی میں ختم نبوت کی شقوں کے خلاف ن لیگ کی حکومت نے بڑی سازش کی تھی تو مولانا فضل الرحمن بھی اس کے اتحادی تھے۔ قومی اسمبلی سے بل پاس ہوگیا تھا اور سینٹ میں حافظ حمداللہ نے اس کی نشاندہی بھی کی تھی لیکن جب اتفاق سے سینٹ میں بل پاس نہ ہوسکا تو سینٹ وقومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں بل پیش کیا گیا۔ شیخ رشید چیخ چیخ کرجمعیت علماء اسلام کو سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی قربانیاں یاد دلاتے رہے لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہاتھا۔ پھر علامہ خادم حسین رضوی نے فیض آباد دھرنہ دیا تھا۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام اور دوسری چھوٹی بڑی پارٹیاں بھی خاموش تھیں۔ صرف اور صرف جماعت اسلامی نے شیخ رشید کی دھائی سن لی تھی اور آواز اٹھائی تھی۔
جمعیت علماء اسلام کی تو سیاست ہی ختم نبوت کا دفاع ہے ۔ مولانا عبدالغفور حیدری اتنا کم عقل ہے کہ جلسے میں قاری محمد حنیف جالندھری کی موجودگی میں کہہ رہاتھا کہ ”میرا دل بیٹھا ہوا تھا کہ اگر سینٹ سے یہ بل پاس ہوجاتا تو مجھے چیئرمین سینٹ کی غیرموجودگی میں چیئرمین کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑتے لیکن شکر ہے کہ بل پاس نہیں ہوسکا تھا”۔ شاید نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو قادیانی سمجھ رکھا تھا اور اس کی خوشنودی کیلئے یہ ترمیم کی جارہی تھی۔ اللہ اور اسکے رسول ۖ کیلئے تو یہ خدمت نہیں ہوسکتی تھی۔یہ بات کرتے ہوئے سادہ لوح ، کم عقل اور بیوقوف انسان اتنا بھی نہیں سوچ رہا تھا کہ رنگے ہاتھوں اعتراف جرم کررہاہوںاور ساتھ ساتھ یہ کہنے پر نہیں شرمارہاتھا کہ” ہم اسمبلیوں میں دین کے تحفظ کیلئے بیٹھے ہیں”۔ تقریب میں قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ ”کورٹ سے خلع لینے کا تصور غلط ہے اور اسکے خلاف ایک ملک گیر تحریک چلائیں گے”۔ کہا جاتا تھاکہ مفتی محمود نے جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپیہ لیکر عائلی قوانین کے خلاف مزاحمت نہیں کی تھی جن میں عدالت سے عورت کو خلع مل گیا ۔ مفتی محمود نے فقہ کے غلط مسائل دیکھ کر عدالتی خلع کی مزاحمت نہیں کی ہوگی۔ مولانا اشرف علی تھانوی جس اسلام کیلئے تقسیم ہند کی حمایت کررہے تھے تو اس کی وجہ خلع کے غیرفطری مسائل فقہ کا حصہ تھے لیکن مولانا حسین احمد مدنی نے ان فقہی مسائل کی تقلید کے مقابلہ میں متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں اور سکھوں کیساتھ مل کر سیکولر ریاست بنانے کو ترجیح دی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اسلامی دنیا نے اسلئے ترجیح دی تھی کہ وہ پاکستان جیسے ملک کا وزیراعظم تھا، بھٹو کی شخصیت سے ملک کابڑا عمل دخل تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی بھی اسلامی دنیا میں بڑی حیثیت تھی۔ عمران خان کو ترکی ، ایران، ملائشیا اور دیگر ممالک نے اہمیت دی لیکن سعودی عرب نے اشارہ کیا تو بیٹھ گیا تھا۔ یہ اسلامی ممالک کو دوبلاکوں میں تقسیم کرنے کاا یجنڈہ تھا۔
اسلام نے پنجاب کے بھانڈ اور سندھ کے مداری پیدا کرکے دنیاکی قیادت نہیں کی تھی بلکہ عملی طور پر مساوات کا راسخ عقیدہ دیا تھا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو بہتان لگانے والوں کیلئے اسی اسی کوڑوں کی سزا کا حکم دیا گیا اوریہ حکم امہات المؤمنین کیساتھ خاص نہیں ہے بلکہ عام درجے کی خاتون پر کوئی بہتان لگائے تو اس کیلئے بھی وہی سزا ہے جو نظریہ ٔ ضرورت کے تحت بدل نہیں سکتاہے۔ جب قیصرو کسریٰ کے شاہی تختوں اور درباروں میں اس انصاف ، قانون اور عقیدے کی گونج پہنچ گئی تو بادشاہ، ملکہ اور درباری ہل کررہ گئے۔
آج مریم نوازجمعیت علماء اسلام کے جن کارکنوں میں اسٹیج کی رونق بنتی ہے وہ کارکن اپنی بیگمات اور ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو کسی قیمت پر اس طرح اسٹیج پر نہیں لائیں گے لیکن عدالت میں معزز خواتین کی ہتک عزت کی کیا قیمت ہے ؟ اور مریم نواز کی ہتک عزت ہوجائے تو اس کی کیا قیمت ہے؟۔ مریم نواز اربوں میں دعویٰ کرے گی اور ان غریب اور عزت دار خواتین کو عدالتوں سے اتنا بھی معاوضہ نہیں ملے گا جتنے معاوضے پر وہ عدالت اور وکیل کی فیس بھر سکیں۔ اگر مریم نواز پر کروڑوں کی ہتک عزت کا دعویٰ ہوجائے تو وہ پل بھر میں ادا کردے گی۔ کیونکہ اس کا شوہر عام کیپٹن نہیں ہے بلکہ شریف خاندان کا داماد ہے جس نے ملک لوٹ لیا ہے لیکن اگر کبھی جمعیت کے غریب کارکنوں کوایک لاکھ کے جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑے تو انکے پاس یہ رقم نہیں ہوگی۔ موجودہ غیر اسلامی اور غیر عوامی ہتک عزت کے قوانین میں انصاف کہاں ہے؟۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کو آئین میں اسلام کی فکر نہیں بلکہ اپنے مفادات کی فکر ہے۔ اگر عوام اور اسلام کا خیال ہوتا تو ہتک عزت میں80،80کوڑوں کی سزاؤں کو نافذ کیا جاتا جو سب کیلئے یکساں ہے اور پاکستان میں اس پر عمل ہوجاتا تو عرب بادشاہوں کی شلواریں بھی گیلی ہوجاتیں۔ اس قانون کے نفاذ سے پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کا ڈنکا بجے گا۔ عزت جان اور مال پر بھی مقدم چیز ہے۔
قرآن میں توراة کے حوالے سے جان کے بدلے جان کی بات ہے لیکن پھر یہودیوں نے توراة سے روگردانی اختیار کرتے ہوئے یہود کے بدلے میں کسی غیر یہودی کو قتل کرنا ٹھیک قرار دیا لیکن یہودی کو غیر یہودی کے بدلے میں قتل کرنا غلط قرار دیا۔ آج اسرائیل میں اللہ نے ان کا اصل چہرہ عوام کو دکھانا تھا اور امریکہ نے گوانتاناموبے میں جو مظالم مسلمانوں کیساتھ روا رکھے وہ بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ مسلک حنفی نے کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کرنے کا اسلام باقی رکھا لیکن باقی تین مشہورفقہی مسالک مالکی، شافعی اورحنبلی کے ہاں کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کرنے کی یہودی تحریف اسلام میں داخل ہوئی۔ پاکستان میں حنفی مسلک کی اکثریت ہے اور اپنے بگڑے ہوئے مذہبی مسائل کو درست کرکے پاکستان کو عالم انسانیت کی قیادت پر پہنچایا جاسکتا ہے۔عربوں اور امریکہ میں تکبر ورعونت کے باعث ابلیس کی صفات داخل ہوگئی ہیں اور ہمارا پاکستانی معاشرہ تکبر ورعونت کی صفات سے پاک ہے اسلئے پاک فوج کا موجودہ سپاہ سالارجنرل قمر جاوید باجوہ بھی تواضع وانکساری کی ایک تصویر نظر آتا ہے۔ البتہ اوریا مقبول جان جیسے لوگوں سے بچ کے رہنا چاہیے۔ غلط اعداد وشمار سے قوم کو دھوکے میں رکھنے سے زیادہ کوئی غلط بات نہیں ہے۔ اصل اسلام کے احیاء سے پاکستان میں ایک انسانیت کا انقلاب آسکتا ہے جو بحرانوں سے نکال دے گا۔
رضاربانی نے روتے ہوئے ووٹ کو پارٹی کی امانت قرار دیکر ضمیر کے خلاف دیا توان کی دیانتداری مانی گئی لیکن حلف میں کہا جاتاہے کہ ”میں ملک اور اسلام کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اپنے ذاتی ، گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر استعمال کروں گا”۔ آئین وحلف اورقول وفعل میں بلا کے تضادات ہیں۔
عمار علی جان اور عروج اورنگزیب با صلاحیت شخصیات ہیں اور ان کے ساتھی بھی جذبات سے بھرپور ہیں۔ اسلام نے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کیا تھا۔ عورت کو زبردست آزادی اور تحفظ فراہم کیا تھالیکن سب کچھ مذہبی طبقات نے اپنے موٹے موٹے پیٹ میں تباہ کردیا۔صحیح احادیث میں ہے کہ جب سود کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو نبیۖ نے پھر زمین کی مزارعت کو بھی سود قرار دیکر پابندی لگادی تھی۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل سب متفق تھے کہ زمین مزارعت پر دینا سود ہے لیکن جس طرح آج کے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے سودی بینکاری کو حیلے سے جواز بخشا ہے ،اسی طرح پہلوں والوں نے مزارعت کو جواز بخش دیا تھا۔ ججوں، سیاستدانوں، جرنیلوں ، علماء ومفتیان ، صحافیوںاور معاشرے کے کسی بھی طبقے اور شخصیات کو برا بھلا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب ایک ماحول کا حصہ ہیں اورمثبت اسلامی اور انسانی معاشرے کو ہرکوئی پسند کرے گا۔ جب گڑ سے اس باطل نظام کی روح ماری جاسکتی ہے تو زہر کھلانے کی کیا ضرورت ہے؟۔ کسی ایک طبقے کو بر ابھلا کہہ کر اپنے نمبر بنانے کی کوشش کا رواج اور رحجان بھی خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ ہوا میں تیر چلانے کا کیا فائدہ ہے؟۔ معاشرے میں افراتفری پھیلانے کی کوئی ضرورت نہیں جسکا بڑا نقصان ہے۔وقت پر تیر نشانے پر مارا جائے تو بات بن جائیگی۔ انشاء اللہ ۔عتیق گیلانی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟