پوسٹ تلاش کریں

پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے

پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے اخبار: نوشتہ دیوار

پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے

جب ہم نے ان کیلئے آواز نہیں اٹھائی تو آج ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا ، کل ہمارا نظام اور ہمارا آئین چوری ہوگا اسلئے سب کو فیصلہ کرنا ہوگا
بھٹو، عمران خان اور نواز شریف کے جیالے کم از کم اکھٹے ہوتے کبھی ایک کو پھانسی دی کبھی ایک اذیت میں اور کبھی دوسرا اذیت میں ہے

ANPکے سینیٹر عمر فاروق کا سینیٹ میں خطاب: آج تمام دوستوں کی باتیں سن کر جو جیتے ہیں جو ہارے ہیں سب مایوس کن نظر آرہا ہے لیکن اصل بات آج بھی کوئی نہیں کررہا ہے۔ ہم اپنے مینڈیٹ کی بات کر رہے ہیں آج چار چار مہینے ہم پہ جو گزری ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہہ رہا کوئی کہ یہ کر کون رہا ہے؟۔ یہ ہوا کیسے؟۔تو ان چیزوں کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے کہ آج ہمارا نظام کس کے ہاتھوں میں ہے؟۔ ایک پریزائڈنگ افسر یا کمشنر ہمارے ساتھ یہ کر رہا ہے؟۔ ہم تو آج اس پہ بحث کرنا چاہ رہے تھے کہ سینٹ میں بیٹھ کے ہم اس پہ بات کریں کہ ہم نے اپنا تمام نظام، تمام جمہوری ادارے، سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کسی اور کے ہاتھوں میں دے دیے ہیں۔ یہ کسی اور کے رحم و کرم پہ چل رہے ہیں۔ اور اسکے خلاف جب تک ہم سیاسی پارٹیاں آپس میں ون ایجنڈا کے تحت بات نہیں کریں گے اس کو آپ کیسے آزاد کرو گے؟۔ ہم بات کر رہے ہیں مینڈیٹ کی تو یہ کس نے چرایا ہے ؟۔ آپ کو90،93دیے یا کسی کو ایک بھی نہیں دیا تویہ کس نے کیا ؟۔ یہ کسی سیاسی پارٹی نے تو نہیں کیا۔ پہلے دن سے یہی طریقہ کار چل رہا ہے کہ ہماری جو بڑی پارٹیاں ہیں جو وزیراعظم بننے کے خواب دیکھتے اور خواہش رکھتے ہیں ان کو کبھی یہی ادارے ملک بدر کر دیتے ہیں لیکن بعد میں وہ ان کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں اقتدار کیلئے۔ ان کی بڑی لیڈرشپ کو پھانسی دی جاتی ہے لیکن آج وہ انکے رحم و کرم پہ اپنی سیاست کر رہے ہوتے ہیں۔ آج جو عمران خان کیساتھ کر رہے ہیں کیا عمران خان سے ان کا تعلق نہیں تھا؟۔ پھر بھی ہم سبق نہیں سیکھ رہے ہمیں مسئلہ اس چیز سے ہے۔ آج تو کم سے کم بھٹو، عمران خان، نواز شریف کے جو جیالے ہیں یہ تو کم سے کم ایک ساتھ بیٹھیں کہ ہمارے ساتھ کیا کس نے ہے؟۔ ہم ایک ایجنڈا پہ کیوں نہیں اکھٹے ہو سکتے کہ ہم اس سے جان چھڑائیں۔ ہم اپنی فارن پالیسی ان سے چھڑائیں۔ کس آئین میں یہ اختیار ملا ہے کہ کسی فوجی افسر کے پاس سیاستدان جائیگا پیسے جمع کرے گا تو اس کو سیٹ ملے گی؟۔ یہ کس نظام کی طرف ہم اپنے بچوں کو لے جا رہے ہیں۔ کل ہماری جگہ پہ ہماری آنے والی نسلیں اس سینٹ میں آئیں گی تو کس حساب سے آئیں گی؟۔ ہر کسی کے پاس اربوں روپے ہوں گے تو وہ آئیگا؟۔ ایک سیاسی کارکن تو یہاں نہیں آ سکتا نہ آپ کا کوئی سیاسی کارکن پاکستان میںMNAبن سکتا ہے نہ آپ کا کوئی سیاسی کارکنMPAبن سکتا ہے، نہ نمائندہ نہ سینٹر بن سکتا ہے جناب چیئرمین صاحب۔ آج آپ کا نظام ایسی نہج پہ پہنچا ہے اگر اس کو آج بھی آپ لوگوں نے سیریس کور نہیں کیا آج بھی آپ نے اپنی آنے والی نسلوں کیلئے اس کو ٹھیک نہیں کیا تو آپ یقین مانیں کہ پاکستان ایک ایسے راستے پہ جا رہا ہے جو ختم ہونے والا راستہ ہے۔ یہاں پہ ہمارے سینیٹر صاحب نے بات کی کہ تین چار مہینے میں کیا گزرا۔(ایک سینیٹر نے اپنی آپ بیتی بیان کی وہ زندہ لاش ہے۔اس کو بہت تشدد کا نشانہ بنایا گیا ) میں اس ہاؤس سے پوچھتا ہوںکہ یہاں پہ مسنگ پرسنز کی جو ہماری بچیاں آئیں۔ پانچ پانچ چھ چھ سال سے ان کا بیٹا یا شوہر یا والد مسنگ ہے ۔ دکھ اس بات پرہے کہ آپ سوچیں کہ ان کو کتنی تکلیف ہوگی کہ ڈیلی بیسز پہ ان کو فون آتا ہے کہ کوئی لاش کسی پہاڑ سے ملی ہے تو جتنے لوگوں کے ورثہ کو مسنگ کیا گیا ہوتا ہے وہ سارے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں لائن میں کھڑے رہتے ہیں تین تین چار چار گھنٹے لائنوں میں دو دو دن اسکے انتظار میں کہ میرا بیٹا تو نہ ہوگا، میرا والد تو نہ ہوگا۔جب سے پاکستان بنا ہے اتنی اذیت سے ہمیں اور بلوچستان کو گزارا جارہا ہے ۔اس کیلئے کسی نے بات کی؟۔مسنگ پرسنز پہ آنکھیں بند کیں تو آج آپ کے مینڈیٹس مسنگ ہوئے کل باقی چیزیں مسنگ ہوں گی۔کل آپ کا نظام آپ کا آئین مسنگ ہوگا۔ ہمارے بڑے باچاخان بابا مخالفت کرتے تھے اس پاکستان کی وہ اس پاکستان کی مخالفت نہیں کرتے تھے کہ آپ پاکستان مت بنائیں ۔یہ والا پاکستان مت بنائیں اس کا یہ مؤقف تھا کہ یہ آج جو یہ قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر ہم نے لگائی ہے کیا آج یہ اسی قائد اعظم محمد علی جناح کا نظام ہے؟۔ آج پاکستان اس نظام سے چل رہا ہے؟۔ جس مقصد کے لیے انہوں نے بنایا تھا اس مقصد کے لیے چل رہا ہے؟۔آج آپ کےAPSکے جو بچوں کے قاتل ہیں وہGHQسے چھڑائے گئے ہیں۔ آپ کا سارا نظام آج یہی فوجی نظام چلا رہے ہیں۔ آج ہم کیا کر رہے ہیں جناب چیئرمین صاحب؟۔ ایک طرف ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور ایک طرف اسکے خلاف ہم کھڑے نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ آپ کھڑے ہوں گے تو آپ کے بچے کو مار دیا جائے گا۔ آپ نے اگر حق بات کی آپ سے سیٹ لی جائے گی۔ ہم سارے یہاں پہ مسلمان ایماندار لوگ ہیں ایک دن آپ نے پیدا ہونا ہے ایک دن مرنا ہے کم سے کم یہ جب آپ سوچیں گے اس حساب سے آپ آئیں گے تو آپ بات کر سکیں گے آج بھی ہم یہاں رو رہے ہیں کہ ہم الیکشن کمیشن کے خلاف جائیں گے۔ کیوں بھائی!انکے کیخلاف کیوں جائیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا ہے؟۔ جس ادارے نے یہ کروایا ہے اسکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ جن اداروں کی وائس نوٹ صوبوں میں نکلے ہیں پیسے لیتے ہوئے انکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ ہمیں تو انکے اوریجنل نام نہیں معلوم، جو فیک نام انہوں نے رکھے ہیں اور بولیاں لگائی ہوئی ہیں20،20کروڑ کی اسکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ مجھے تو سمجھ نہیں آرہا جناب چیئرمین صاحب کہ ہم کس نظام اور کس آئین کی طرف جا رہے ہیں؟۔ یہاں پارلیمنٹ لاجس سے باہر نکلتے ہوئے پارک میں کچھ بن رہا ہے تو میں نے پوچھا کیا بن رہا ہے کہتا ہے آئین۔ میں نے کہا کون سا آئین جو ہمارے ٹیبل پہ پڑا ہوتا ہے وہ یا جو اس ملک کے حقیقی جو چلا رہے ہیں وہ والا آئین لگائیں گے ؟۔ ایک آئین سلیکٹ کر لیں ہم وہیں پہ چلے جائیں گے لیکن ہمیں ایک آئین کی کتاب کچھ اور دکھاتے ہو اور پاکستان کسی اورطریقے سے چلا رہے ہو۔ ان چیزوں کے خلاف ہم سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا اس نظام کو اگر آپ اس طرح نہیں بدلو گے تو آپ کا مینڈیٹ تو چھوڑیں آپ اپنے ساتھیوں کو پیدا نہیں کر سکیں گے جو بلوچستان کے ساتھ ہوا ہے وہ مسنگ ہر صوبے میں آپ کے پولیٹیکل لوگوں کے ساتھ ہوگا ۔ہمارا تو یہی مؤقف ہے اس پارلیمان میں ہمیں پارٹی کی حیثیت سے بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ کولیگز کی حیثیت سے یہاں پہ ہمیں ایک نظام لانا چاہیے۔ ہمیں ایسے بلز لانے چاہئیں کہ ہم ایک ساتھ ہوں اور اس پاکستان کو اب ریزولوشن کی ضرورت میرے خیال سے نہیں کہ آج ایک موشن پہ ہم بات کر رہے ہیں ریوولوشن کی ضرورت ہے ایک ریوولوشن جس پہ ہم تمام پارٹیاں مل کر اس کیلئے جدوجہد کریں اور اس پاکستان کو ان لوگوں سے آزاد کرائیں تو تب ہمارا پارلیمانی نظام بہتر ہوگا ۔

PTIکے رہنما عون عباس کی رونگٹے کھڑے کرواددینے والی روداد
سینیٹر عون عباس نے سینٹ میں کہا کہ مجھے لاہور ڈیفنس سے اٹھالیا گیا۔14دن میں جو بھی چلہ کاٹا واپسی پر ایک اسٹیٹمنٹ دے دی تھی کہ میں جنوبی پنجاب تحریک انصاف کی صدارت سے استعفیٰ دیتا ہوںاور9مئی کی مذمت کرتا ہوں اور مجھے آزاد کردیا گیا۔ آزاد تو ہوگیا لیکن ایک زندہ لاش ہوں ایک ایسی زندہ لاش جو نہ سوچ سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے نہ بول سکتا ہے۔ مجھے نفرت ہوتی جارہی ہے اس ایوان میں بیٹھ کر اس تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے جو مجھے اس چیز کا یقین دلاتی ہے کہ میں آزاد ہوں، میں آزاد نہیں ہوں۔ اگر مجھے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت یہ ریاست نہیں دے سکتی تو میرا یہاں جینے کا حق بھی نہیں بنتا۔ کون ہوتا ہے کہ جو مجھے ڈکٹیٹ کرے کہ میں کیا ہوں اور کیا سوچ سکتا ہوں؟۔ آپ کو اندازہ نہیںکہ پچھلے6،8مہینے کتنے کرب میں گزارے ہیں۔ سارے لوگ یہاں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے تھے سینٹ کا سیشن میں دیکھ رہا ہوتا تھا جب میں گھر میں چھپا ہوتا تھا۔ یہ باتیں کرنا آسان ہے آج آپ رگنگ کی باتیں کررہے ہیں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے مجھے آج تک ایک پلیٹ فارم نہیں دیا گیا۔ افسوس ہوتا ہے کہ یہاں بیٹھ کر سارے باتیں کررہے ہیں رگنگ پر لیکن ان بیچارے ورکروں کے ساتھ ہمارے دوستوں اور پی ٹی آئی کے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے آج تک کسی نے اس پر بات نہیں کی۔ یقین جانیں اگر میں ایک روداد سنا دوں تو آپ پریشان ہوجائیں گے۔ ان4مہینوں میں جب چھپا ہوا تھا میرا گھر گرادیا گیا ۔ میری فیکٹری میرے کاروبار بند کردئیے گئے۔ ایک چھوٹا سا زمیندار ہوں۔ آموں کے باغ پر جو باغ سنبھالتے ہیں ان کو اٹھاکر لے گئے باغ بھی برباد ہوگئے سر۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟