پوسٹ تلاش کریں

پختونیم کفرنہیں،عورت سے جبری زیادتی ہو تو 2 یا 3 پختون چیخ وپکار پر رُوکیںگے نہیں؟

پختونیم کفرنہیں،عورت سے جبری زیادتی ہو تو 2 یا 3 پختون چیخ وپکار پر رُوکیںگے نہیں؟ اخبار: نوشتہ دیوار

پختونیم کفرنہیں،عورت سے جبری زیادتی ہو تو2یا3پختون چیخ وپکار پر رُوکیںگے نہیں؟

ملا کا اسلام یہ ہے کہ عورت سے جبری زیادتی ہو تو4گواہ ضروری ہیں،دو یاتین گواہ ہوئے تو عورت کو چپ رہنا ہوگا ، اگر شکایت کی تو پھراس پر بہتان لگانے کے80کوڑے لگیں گے

یہ اسلام پشتون، بلوچ، سندھی، پنجابی ، سرائیکی اور مہاجر سب کلچر کے خلاف ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی کا مدرسہ تقوےة الایمان مردان میں نمازیوں اور علماء کرام سے پشتو زبان میں خطاب

مردان ( نمائندہ خصوصی شاہ وزیر ) مردان سپین جماعت (جامع مسجد سفید کے امام وخطیب پیر علامہ شکیل احمد قادری ، رہنما جمعیت علماء اسلام ف کی دعوت پر پیر صاحب کے دارالعلوم تقوےة الایمان کی مسجد میں بعد از نماز مغرب بروز پیر22مارچ2023کو نمازیوں اور علماء سے خطاب کیا جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ افسوس کہ بیان کو ریکارڈ نہیں کیا جاسکا،ورنہ سوشل میڈیا پر سننے کو مل جاتا)
نحمد ونصلی علی رسولہ الکریم : ہمارے ہاں یہ مشہور ہے کہ پشتو نیم کفر ہے لیکن اسلام کیا ہے؟۔ اگر یہاں مسجد میں لوگ اپنے بال بچوں کیساتھ آتے ہوں۔ ہماری خواتین مائیں، بہنیں ، بیگمات اور بیٹیاں مسجد میں نماز پڑھتی ہوں ۔ فجر کی نماز کے وقت کوئی شخص کسی عورت کیساتھ زبردستی جنسی زیادتی کرے تو کیا اس کی چیخ وپکار سن کر لوگ تماشا دیکھیںگے یا اس کو روکیںگے؟۔ پشتون کلچر کیا کہتا ہے؟۔ (مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے کہا کہ اس کو روکیںگے) اس کو روکنا ہی اسلام ہے اور یہی پشتو ن کلچر کا بھی تقاضا ہے۔ پنجابی ، سندھی ، سرائیکی، مہاجر اور بلوچی کلچر کا بھی یہ تقاضاہے۔ لیکن ملا کے اسلام میں یہ ہے کہ چار گواہ ہوں گے تو عدالت اس کو سزا دے گی اور چار سے کم ہوں گے تو عورت چپ رہے گی اور اگر اس نے گواہی دی تو اس پر حد قذف کے80کوڑے بھی لگیں گے۔
جنرل پرویزمشرف کے دور میں جب قومی اسمبلی میں یہ قانون بنانے کی کوشش ہوئی کہ زنا بالجبر میں قانونِ شہادت ختم کرکے تعزیرات کے تحت مجرم کو سزا دی جاسکے لیکن اس کے خلاف شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے فتوی لکھ دیا جو جماعت اسلامی نے کراچی میں شائع کرکے اس کی خوب تشہیر کردی۔ جس کا ہم نے مدلل جواب لکھ کرشائع کردیا۔ اس جواب کی وجہ سے جماعت اسلامی کو پھر یہ ہمت نہیں ہوئی کہ جب پیپلزپارٹی کے دور میں تعزیرات کے تحت زنابالجبر کے مجرم کیلئے سزا کا قانون پاس ہوا کہ جماعت شور کرتی یا مفتی محمد تقی عثمانی پھر اس پر آوازا ٹھانے کی ہمت کرتے۔ حالانکہ صحافیوں کے پوچھنے پر جماعت اسلامی کے سابقہ امیر سید منور حسن نے کہا تھا کہ ” اگر عورت کیساتھ جبری جنسی زیادتی ہوئی ہے اور اس کے پاس چار مرد گواہ نہیں ہیں تو اس کو خاموش رہنا چاہیے۔ اگر وہ اپنے اوپر زیادتی کی آواز اٹھائے گی تو اس کو سزا ملے گی”۔
ہماری مزاحمت کا یہ نتیجہ نکلا کہ جبF9پارک اسلام آباد میں عورت سے زیادتی ہوئی تو جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے اس کو انصاف فراہم کرنے اور مجرم کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ عمران خان نے کرکٹ کا ورلڈ کپ1992میں جیتاتھا اورمجھے تحریک چلانے کی وجہ سے1991میں ایک سال کی سزا دی گئی تھی۔ جب عمران خان کرکٹ کھیل رہا تھا تو میں تحریک چلا رہاتھا۔ پاکستان میں آئین کو قرآن وسنت کا پابند بنایا گیا ہے لیکن قرآن اور سنت کے مطابق کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میںVIPکلچر کا تصور ہے۔ ایک عورت نے حرام کی کمائی سے دولت بنائی ہے ،اگر وہ اپنی عزت کے ہتک کا دعویٰ کرے تو عدالت میں اربوں روپے کا مقدمہ کرتی ہے اور جب غریب عورت کی عزت کامعاملہ ہو تو اس کو اتنی رقم بھی نہیں ملتی ہے جتنی سے کیس میں وکیل اور عدالت کی فیس ادا ہوسکے۔ حالانکہ ایک غریب آدمی کو کروڑوں کی رقم ملے تو بھی اس کی عورت اجنبیوں میں اس طرح جلسے نہ کرے۔ کیا یہی انصاف ہے؟۔ کیا عزت میں یہ تفریق اسلام کا تصور ہوسکتا ہے؟۔
قرآن وسنت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان لگایا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ اول کی صاحبزادی، رسول اللہ ۖ کی گھر والی اہل بیت اور قیامت تک تمام مؤمنوں کی ماں۔ اس سے بڑا مقام ومرتبہ کیا ہوسکتا ہے؟ لیکن آپ پر بہتان لگانے والوں کو بھی80،80کوڑوں کی سزا قرآن میں نازل ہوئی اور کسی عام غریب خاتون پر بھی بہتان لگانے کی سزا80،80کوڑے ہیں۔ اس سے بڑا مساوات دنیا کے کس نظام میں ہوسکتا ہے؟۔ کیا دنیا کیلئے یہ اسلام اور قرآن کا نظام انصاف قبول ہوگا یا نہیں ہوگا؟۔ ( سامعین نے کہا کہ دنیا کیلئے اسلام اور قرآن کا یہ نظام بالکل بھی قبول ہوگا)۔کیا آج تک علماء سے یہ اسلام سنا ہے؟۔ سیاستدانوں سے سنا ہے؟۔ (سامعین نے نفی میں سر ہلایاتھا)
علماء اور سیاستدان جب اسمبلی میں جاتے ہیں تو خود بھی اسVIPکلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایک غریب آدمی عوام کے ووٹوں کی طاقت سے اسمبلی میں پہنچتا ہے لیکن جب اسمبلی میں جاتا ہے تو پھر غریب نہیں رہتا بلکہ امیر بن جاتا ہے ۔ پھر وہ غریب کیلئے کیوں قانون سازی کرے گا۔ ووٹ کی طاقت دنیا بدل سکتی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیں گے۔ اس سے مغرب کی جمہوریت کی تائید ہوتی ہے ۔ خون خرابے کے بغیر عوام کی مرضی سے حکومت کی تبدیلی بہت اچھی بات ہے۔ اسلام میں عام لوگوں کو بدکاری پر جوسزا ہے وہ امہات المؤمنین کیلئے ڈبل ہے۔ نچلے طبقے کی خواتین کیلئے عوام کے مقابلہ میں آدھی سزا ہے۔ جب اسمبلی میں یہ قانون سازی ہوگی کہVVIPکی سزا جرم میں زیادہ ہو۔ عام آدمی کے مقابلے میں ڈبل ہو اور نچلے طبقے کی کم ہوتو عوام ایسی پارٹی کو ووٹ دیںگے یا نہیں؟۔ عزت میں طاقتور اور کمزور برابر ہو اور جرم میں طاقتور کوسزا زیادہ ہو تو یہ فطرت کا بھی تقاضہ ہے۔ لیکن یہاں طاقتور کو سزا دینے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک شخص نے پہاڑی علاقہ میں گاؤں والوں سے کہا کہ ایک مہینے تک مجھے میری مرضی کے کھانے کھلاؤ اور پھر میں یہاں سے اس پہاڑ کو کہیں دور لے جاؤں گا۔ گاؤں والوں نے ایک ماہ تک فرمائشی کھانے کھلائے۔ جب مہینہ پورا ہوگیا تو سب جمع ہوگئے کہ صاحب بہادر پہاڑ یہاں سے اٹھاکر لے جائے گا۔ اس چالاک آدمی نے پہاڑ کے ایک طرف بیٹھ کر سیدھے سادے گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ میں پہاڑ یہاں سے دور لے جانے کیلئے بیٹھا ہوں۔ بس تم سارے مل کر مجھے پیٹھ پر لدوادینا۔ لوگوں نے پہاڑ پر زور لگاکر لدوانے کی کوشش کی اور آخر کار تھک کر کہا کہ آپ تو تیار تھے پہاڑ لے جانے کیلئے لیکن ہم نہیں لدواسکے۔
سیاسی قیادت عوام کیساتھ یہی سیاست کھیل رہی ہے۔ پہلے کہتے ہیں کہ ہم انقلاب لائیںگے۔ اقتدار دلاؤ۔ جب عوام اس کو اقتدار کی دہلیز پر پہنچاتی ہے تو پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اختیار بھی دلادو۔ غلامی کی زنجیریں توڑنے کیلئے ہمارا ساتھ دو۔ عوام سمجھ رہی ہوتی ہے کہ واقعی یہ تبدیلی اور انقلاب چاہتا تھا مگر اسکے پاس اختیار نہیں تھا۔ پہاڑ والے کی طرح اس کو بھی بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔
علماء ومفتیان نے سیاسی اقتدار کے حوالے سے اسلام کی روح کے مطابق آج تک کوئی قانون سازی نہیں کی ۔ بہت سارے معاملات میں علماء ومفتیان نے اسلام کے احکام کو درست بیان بھی نہیں کیا ہے اور ان میں وہ احکام شامل ہیں جن کا اقتدار سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ جب معاذ بن جبل کو نبیۖ نے یمن کا حاکم مقرر کیا تو ان سے پوچھا کہ لوگوں میں فیصلہ کس چیز پر کروگے؟۔ تو اس نے کہا کہ قرآن سے۔ پوچھا کہ قرآن میں نہ ملے تو؟۔ عرض ہوا کہ سنت سے۔ فرمایا کہ سنت میں نہ ملے تو؟۔ عرض کیا کہ پھر میں خود کوشش کروں گا۔
عربی میں کوشش کرنے کو اجتہاد کہتے ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھادیا گیا ہے کہ اجتہاد کوئی مستقل مساوی نظام کا نام ہے۔ مثلًا اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہہ دے کہ تو مجھ پر حرام ہے۔ صحیح بخاری میں حسن بصری نے اس پر علماء سے اجتہاد نقل کیا ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے۔ کھانے پینے کو حرام کہا جائے تو کفارہ ادا کرکے کھانا پینا جائز ہے لیکن بیوی کو حرام کہا جائے تو تیسری طلاق کی وجہ سے حلالہ کے بغیر وہ حلال نہ ہوگی۔ ایک روایت چھوڑ کر اگلی روایت میں ابن عباس نے فرمایا کہ حرام کے لفظ سے کچھ بھی واقع نہیں ہوتا نہ طلاق اور نہ قسم ۔ دونوں کا اتنا بڑا اختلاف اور تضاد؟۔ علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے لفظ حرام پر20اجتہادت نقل کئے ہیں جن میں خلفاء راشدین اور دیگر حضرات کے اجہتاد شامل ہیں۔ حضرت عمر کے نزدیک ایک طلاق، حضرت علی کے نزدیک3طلاق اور حضرت عثمان کے نزدیک ظہار۔ ابن عباس کے نزدیک کچھ بھی نہیںوغیرہ۔
قرآن میں سورۂ تحریم ہے اور تحریم کا معنی حرام قرار دینا ہے۔ نبیۖ نے حضرت ماریہ قبطیہ کے لئے ”حرام” کہہ دیا تو سورۂ تحریم نازل ہوئی ۔ قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے20اجتہادات اور تضادات کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور ہمارا فرض بنتا تھا کہ دیکھ لیتے کہ حضرت علی اور حضرت عمر میں حلال وحرام کا یہ اختلاف ہوسکتا ہے؟۔ قرآن کی موجودگی میں ایسا متضاد اجتہاد کرسکتے تھے؟۔
وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا” اور انکے شوہر عدت میں صلح کی شرط پر ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں”۔(البقرہ228)
حضرت علی سے پوچھا گیا کہ بیوی کو لفظ حرام کہہ دیا ہے ۔ حضرت علی کو تحقیق سے پتہ چل گیا کہ اس کی بیوی صلح کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو فتویٰ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ اس کو کسی نے تیسری طلاق اور کسی نے تین طلاق کا نام دے دیا۔ حضرت عمر نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ بیوی رجوع پر آمادہ ہے اسلئے رجوع کا فتویٰ دے دیا۔ اس کو لوگوں نے ایک طلاق رجعی کا نام دے دیا۔ دونوں کے فتوے میں کوئی تضاد نہیں تھا بلکہ قرآنی آیت کے مطابق صلح کی شرط پر رجوع کی اجازت تھی اور فتوے بھی دونوں نے اسکے مطابق دئیے۔ علماء میں سمجھ نہیں ہے۔
جب مولانا محمد خان شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے تو میں نے ان سے کہا تھا کہ ایک طرف واضح آیت ہے کہ عدت میں صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے، اگر اسکے مقابلے میں صحیح حدیث ہو جس میں رجوع نہ کرنے اور حلالہ کا واضح فتویٰ موجود ہو تو کیا آیت کے مقابلے میں حدیث پر فتویٰ دیا جائیگا ؟ مولانا شیرانی نے مان لیا کہ آیت پر فتویٰ دیا جائیگا۔ قبلہ ایاز موجودہ دور میں چیئرمین ہیں ، انہوں نے خط لکھا اور طلاق کے حوالے سے مسائل کے حل کو سمجھا مگر انہوں نے کہا کہ مولوی شاہ دولہ کے چوہے ہیں ان تک نہیں پہنچ سکتا ہوں۔
آیات میں زبردست وضاحتوں کے باوجود علماء نے مسائل کو الجھادیا ۔ اللہ کہتا ہے کہ ”ہم نے کتاب کو ہر چیز کے واضح کرنے کیلئے نازل کی ”۔ عدت عورت کی ہوتی ہے۔ مرد کیلئے بہت معیوب ہے کہ جب عدت کو بھی اپنا ہی قرار دے۔ آیت226میں اللہ نے4ماہ کی عدت کا ذکر کیا ہے۔ جمہور فقہاء کے نزدیک4ماہ کے بعد بھی طلاق نہیں ہوگی اور احناف کے نزدیک طلا ق ہوگی اور دونوں میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ایک کہتا ہے کہ مرد نے اپنا حق استعمال کرلیا اسلئے طلاق ہوگی اور دوسراطبقہ کہتا ہے کہ مرد نے اپنا حق استعمال نہیں کیا جب تک زبان سے طلاق نہیں دے گا تو عورت طلاق نہیں ہوگی۔ حالانکہ اصل مسئلہ عورت کے حق کا ہے۔ چار ماہ کی عدت اس نے گزاری ہے۔ اب اس نے فیصلہ کرنا ہے لیکن عورت سے اس کی عدت کی اذیت بھی چھین لی گئی ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ بیوہ4ماہ10دن کے بعد اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ اگر وہ اپنے فوت شدہ شوہر سے تعلق باقی رکھنا چاہتی ہے تو قیامت اور جنت تک اس کا نکاح باقی رہے گا۔ نشان حیدر اور فوجی وسول ملازمین کی بیواؤں کو پینش اور مراعات اس وقت ملتی ہیں کہ جب عورت نے دوسری شادی نہیں کی ہو۔ اس بات کو سرکاری لوگ بھی سمجھتے ہیں لیکن میرے رشتہ داروں میں تربت کے بلوچ، شکارپور کے سندھی ، کراچی کے مہاجر اور کشمیر کے کشمیری شامل ہیں اور پشتو رسم کا بھی پتہ ہے کہ مولوی نے خود ساختہ شریعت بنارکھی ہے کہ میاں بیوی میں سے ایک فوت ہوجائے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ حالانکہ حضرت فاطمہ کی میت کو علی نے غسل دیا تھا ۔ حضرت ابوبکر کی میت کو اس کی زوجہ نے غسل دیا تھا۔ کسی مولانا نے کہا کہ (یہ بوقت ضرورت ہے) تو اس کے جواب میں کہا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ مولوی قبر پر تختی لگاتا ہے کہ زوجہ مفتی محمود، زوجہ مفتی شفیع، زوجہ مولانا محمد طاہر پنج پیر۔ جب نکاح باقی نہیں رہاہے تو زوجہ کہاں سے لکھ سکتے ہیں؟۔ ایک مولانا نے کہا: قرآن وحدیث سے دلیل دو کہ فوت ہونے کے بعد نکاح باقی رہتا ہے۔ توکہہ دیا کہ ”اللہ نے قرآن میں بشارت دی ہے کہ جنت میں وہ اور ان کی ازواج ساتھ ہوں گی”۔ مولانا نے کہا :اگر بیوی یاشوہرنیک نہ ہو تو؟۔ جواب دیا: یوم یفر المر ء من اخیہ وامہ وبیہ وصاحبتہ وبنیہ میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ بیوی نیک یا بد ہوگی۔جب مولانا کو پھر بھی تشفی نہیں ہورہی تھی تو اس کو کہہ دیا کہ ”مولانا کو یہ اختیار کس نے دیا کہ گم شدہ شوہرکا نکاح80سال تک برقرار رہتاہے اور جب انگریز کے دور میں عورت مرتد ہوگئی تو پھر یہ مدت4سال کردی؟۔ یہ کتنی بڑی حماقت تھی کہ ہر عمر والے کیلئے80سال کا انتظار تھا۔ جس دن بچی پیدا ہو اور اس کا شوہر گم ہوجائے۔80سال بعد عورت ازدواجی تعلق کے قابل رہے گی؟۔ یہ کونسا نکاح ہے کہ جب شوہر3طلاق دے اور پھر مکر جائے۔ عدالت میں قسم اٹھالے تو عورت خلع لے اور خلع نہ ملے تو پھر وہ حرام کاری پر مجبور ہو؟۔جب دو مرتبہ طلاق دی اور حدیث میں آتاہے کہ اس جملے میں تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے تو اس کے بعد خلع کا تصور کہاں سے آسکتا ہے؟۔ جب تیسری طلاق کا تعلق فدیہ سے ہے تو پھر اس کے بغیر حلالے کا فتویٰ کیوں دیا جاتا ہے؟۔ آخر میں مولانا نے کہا کہ اللہ کے ذکر سے اطمینان نہیں ملتا؟۔توکہہ دیا کہ جہاں اطمینان کا ذکر ہے وہاں ذکر سے قرآن مراد ہے باقی جب جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر استقامت اختیار کریںتو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف اور غم مت کھاؤ۔ نماز میں بھی ذکر ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟