پاکستان کا مطلب کیا ؟لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ!
جنوری 7, 2024
پاکستان کا مطلب کیا ؟لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ!
دنیا کی محفلوں سے اکتاگیا ہوں یارب !
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سُرخی لئے سنہری ہر پھول کی قباء ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
اُمید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھادے
جب آسماں پر ہر سُو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی مؤذن
میں اس کا ہمنوا ہوں وہ میرا ہمنوا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلوں کو میری صدا درا ہو
ہر درد مند کو رونا مرا رلا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ ۔ اقبال سے آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر تک عوام کے کانوں نے یہ گونج سنی ہے لیکن اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی قابلیت میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ریاست کے بیانیہ کو اسنے صحافیوں کے سامنے پیش کردیا ہے اور دوسری طرف ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی پہلی مرتبہ اپنا بیانیہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے میں بھرپور طریقے سے کامیاب ہوئی ہے۔ اگر ہماری ریاست اب تک اپنا عدالتی نظام درست نہیں کرسکی ہے تو اس سے ریاست کا بیانیہ کمزور ثابت ہوتا ہے۔ جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ہرطرح کے تشدد کی مذمت کرتی ہیں اور معصوم لوگوں کو مارنے کا رونا روتی ہیں اور کہتی ہیں کہ میڈیا پر وہ خبریں بھی نہیں آتی ہیں جن میں معصوم عورتوں ، بچوں اور طالب علموں کو شہید کیا جاتا ہے تو ان کا گلہ بجا ہے۔ اگر کوئٹہ اور بلوچستان سے معصوم لوگوں کے قتل کی خبریں شائع نہ ہوں اور اسلام آباد میں آتے وقت بھی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جائیں تو یہ ریاست پر سوالیہ نشان بنتے ہیں۔ اگر نگران وزیراعظم کا کام نہیں ہے کہ عدالتی نظام کو اس نے ٹھیک کرنا ہے اور عدالتی نظام قابل اعتماد نہیں ہے تو پھر قصور کس کا ہے؟۔ کیا طالبان یاBLAکے لوگ قانون سازی کرکے دیںگے؟۔ پاکستان کی معروف تین قومی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ آصف علی زرداری کہتا ہے کہ جیل میں دن رات دونوں شمار ہوتے ہیں اور مجھے محض الزام پر11سال جیل میں رکھا جو22سال بنتے ہیں لیکن عدالتوں نے باعزت بری کردیا۔ نوازشریف کو دو بار عدالتوں نے سزا دینے کے باوجود بری کردیا اور اب عمران خان کیساتھ جو کچھ ہورہاہے اس سے پہلے کبھی کسی کیساتھ ایسا نہیں ہوا ہے اور اگر ہوا ہے توبھی شرمناک ہے۔
اگر جمہوریت والے، مذہبی پارٹیاں، جہادی تنظیمیں اور قوم پرست پارٹیاں سب کی سب پاک فوج کے خلاف ہوں اور عدالتی نظام بھی درست نہ ہو تو پھر کیا اس ملک کے بقاء کی امید ہوسکتی ہے؟۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جو مقدمہ لڑرہی ہے وہ اس کا اپنا مسئلہ ہے لیکن جب مسلم لیگ ن کے راشد مرادMRTVلندن یہ پنجابی اور اردو میں کہتا ہے کہ پشاور آرمی پبلک سکول کے بچوں کو فوج نے خود ہی مارا ہے تو اس کا بیانیہ زیادہ خطرناک ہے جس کو اقتدار میں لانے کیلئے سہولت کار بن گئے ہیں ؟یا ڈاکٹر ماہ رنگ کا یہ مطالبہ زیادہ خطرناک ہے کہ بالاچ بلوچ کو جج نے ریمانڈ کیلئےCTDپولیس کے حوالے کیا۔ جس نے جعلی مقابلے میں قتل کیا اور تربت میں7دنوں تک اس کی لاش کو احتجاجاً رکھا گیا اور پھر جس دن عدالت میں بالاچ بلوچ کوCTDپولیس نے پیش کرنا تھا تو اس دن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ماما قدیر وغیرہ نے اس کی لاش کو جج کے سامنے پیش کیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ درست کہتی ہیں کہ ہمیں اسلام آباد تک لانگ مارچ کے بجائے اس عمارت کے باہرہڑتال کرنا تھی جسے آپ عدالت کہتے ہیں ،جس نے ریمانڈ کیلئے پولیس کو ملزم حوالے کیا اور پولیس نے اس کو جعلی مقابلے میں ماردیا۔ اگر وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کہتا ہے کہ ریاست کو اپنی عدالت پر اعتماد نہیں ہے ملزموں کو چھوڑ دیتی ہے تو پھر قصور نگران وزیراعظم کا نہیں ، ریاست کا بھی نہیں تو پھرکس کا ہے؟
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ درست کہتی ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ریاست طاقت کا استعمال نہ کرے۔ ریاست طاقت کا استعمال ضرور کرے لیکن اس کا احتساب بھی ہونا چاہیے اور اگر وہ طاقت کا غلط استعمال کرتی ہے تو اس کی گرفت بھی ہو۔ اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ ۔ طوطے کی طرح رٹ اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک پہاڑ ہے جس سے جو بھی سر ٹکراتا ہے تو اپنا سر توڑتا ہے۔ فوجی آمر، عدالت کا جج، طالبان، قوم پرست اورسیاستدان کسی کے پاس اس لاعلاج کینسر کی کوئی دوا نہیں ہے۔ بنگلہ دیش بن گیا تو وہ یتیم اور بے سہارا نہیں ہوا بلکہ ہم سے زیادہ خوشحال ہے۔ سندھی، بلوچ اور پشتون میں بھی یہ سوچ پختہ ہوگئی ہے کہ اس مصیبت سے جان چھوٹ جائے تو ہوسکتا ہے کہ خوشحالی آجائے۔ قرضوں اور کرپشن کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا ڈیٹا لیک کرنے پر صحافی شاہد کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کئی صحافی ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ارشد شریف کو آواز اٹھانے پر شہید کیاگیا اور عمران ریاض خان کو لاپتہ کرکے اس کی زبان خراب کردی گئی ہے۔ قرآن تو ایک انسان کے بیگناہ قتل کو ایسا قرار دیتا ہے جیسے تمام انسانوں کو قتل کیا ہو۔
ریاست بھی ظالم ہے اور مذہبی وقوم پرست تنظیمیں بھی ظالم ہیں ۔ فرعون کا ظلم قرآن میں ہے اور بنی اسرائیل کے کرتوت بھی قرآن میں ہیں۔ فرعون کے ہاتھ سے جو بچتا تو قرآن میں ہے کہ خضر علیہ السلام نے بھی بچے کو قتل کیاتھا۔ ان معصوم لوگوں کے قتل اور آپس کی لڑائی میں بھی بسا اوقات خیر ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو سر اور داڑھی سے پکڑلیا تو اسکے پیچھے ایک بڑے فلسفے کا سبق قرآن میں قیامت تک عوام کو مل گیا۔ حضرت موسیٰ شرک کے خلاف تھے اور حضرت ہارون نے تفریق کو شرک سے بڑا جرم سمجھ لیا۔
اگر ہماری قوم پر سختیاں نہ آتیں تو ہم بھی یورپ اور ترقی یافتہ دنیا کی طرح فحاشی کے سیلاب میں غرق ہوجاتے اور پھر اس سے نکلنا زیادہ مشکل ہوتا۔ تھوڑی بہت آزمائش سے ہماری قومیں بڑی مصیبت سے بچ گئی ہیں۔
اگر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو آزمائش کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو اس کی صلاحیتوں میں کبھی ایسا نکھار نہیں آسکتا تھا۔ باپ پر تشدد اور مسخ شدہ لاش نے دل چھنی کردیا لیکن رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” اللہ کو ٹوٹے ہوئے دلوں میں تلاش کرو”۔ ماہ رنگ بلوچ کی وجہ سے لاکھوں خواتین اور بچیوں کے رحجانات ، جذبات اور کردار کا رُخ زندگی میں مقصد اور انقلاب کی طرف مڑ گیا ہے۔ تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی ، مدارس اور جماعت اسلامی بہت زیادہ عملی صلاحیتوں اور خیرات ،زکوٰة، صدقات اور چندوں کی رقم خرچ کرکے بھی ایک ماحول تو دے سکے ہیںلیکن ان کو مقصدیت کی طرف نہیں لاسکے ہیں۔ ایک نظریہ انسان کو مقصدیت دیتا ہے۔ جب عورت مارچ کے خلاف پوری ریاست کھڑی تھی۔ سیاسی جماعتیں، جامعہ حفصہ و لال مسجد والے اور مذہبی شدت پسند تنظیموں کو حکومت نے سڑک کی ایک طرف اشتعال انگیز جلسے کی اجازت دی تھی اور دوسری طرف عورت مارچ نے وہاں سے گزرنا تھا تو بیچ میں کنٹینر بھی کھڑے ہوتے تو پاک فوج کے جرنیلوں کی بھی اتنی جرأت نہ ہوتی کہ وہاں سے گزرتے لیکن پولیس کوچھوٹی اسٹک دے کر ٹینٹ کے کپڑے کی دیوار کیساتھ کھڑا کیا گیا تھا۔ تاکہ آسانی سے عورت مارچ کی خواتین کو ہدف بنائیں۔ جب خواتین پر حملہ کیا گیا تو ٹرک میں وہ اپنے تحفظ کی خاطر اپنے سروں کو بھی کپڑوں سے بچانے کی کوشش کررہی تھیں اور ہنس بھی رہی تھیں۔ جس خوف پر انہوں نے کنٹرول کیا تھا وہ ان کی نظریاتی پختگی کا کمال تھا۔ ان کے خلاف جس طرح کا غلیظ پروپیگنڈہ کیا گیا وہ بھی شرمناک تھا۔
اگر ہدی بھرگڑی ، فرزانہ باری ، عصمت شاہ جہان اور دوسری بہادر خواتین اس مارچ کی قیادت کرکے کامیاب نہ بناتیں تو شاید بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت بھی آج ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی جگہ کسی جوانمرد کے ہاتھ میں ہی ہوتی۔ میرے خیال میں آصف علی زرداری کی خواہش پرPDMکی حکومت بننے کیلئے سب سے بڑی ڈیمانڈ یہ رکھی گئی تھی کہ بلاول بھٹو8مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہوگا اور عورت مارچ کی کہانی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا اسلئے کہ باقی پارٹیاں تحریک انصاف، ن لیگ، جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی اور سب جماعتوں کے قائدین نے عورت مارچ کی بہت کھل کر مخالفت کی تھی لیکن بلاول بھٹو زرداری کی پیپلزپارٹی نے اس کو زبان کی حد تک سپورٹ کیا تھا اور اس کا پھر پیپلزپارٹی نے جب کفارہ ادا کیا توPDMکے دورمیں وزیرخارجہ بن گئے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو پتہ نہیں کہ پختون بے غیرت اپنی بہن بیٹی کا حق مہر بھی کھا جاتا ہے۔سندھی وراثت کے ڈر سے اس کی قرآن سے شادی کراتاہے اور پنجابی بے غیرت حق مہر تو دور کی بات جہیز بھی مانگتا ہے۔ بلوچی سماج الحمدللہ ان برائیوں سے پاک ہے اسلئے انگریز نے اس کو سب سے زیادہ عزتدار قرار دیا ہے۔ جب اپنی بہن بیٹی اور بیوی کے معاملات میں عزت نہ ہو تو پھرکہاں سے عزت آئے گی؟۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ریاست سے پہلے سماج کی جنگ لڑے۔ سماج سے زیادہ مذہبی طبقات نے عورت کو اپنے حقوق سے محروم کیا ہے۔ اگرچہ ریاست نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے لیکن مولوی اس حق کو شرعی نہیں مانتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا بلوچ قوم پاکستان سے آزادی چاہتی ہے؟۔ یہ بہت بڑا سوال ہے اور اس پر بلوچ قوم تقسیم ہوسکتی ہے اور متفق بھی ہوسکتی ہے ۔ لیکن کیا عورت اپنے شوہر سے خلع لے سکتی ہے؟۔ بالکل لے سکتی ہے۔ ریاست نے بھی اس کو خلع کا حق دیا ہے اور شریعت نے بھی دیا ہے لیکن مولوی اس حق کو نہیں مانتا ہے۔ اگر عورت عدالت سے خلع لے لیتی ہے تو مولوی کا فتویٰ ہے کہ یہ خلع معتبر نہیں ہے۔ جب تک شوہر راضی نہ ہو تو عورت کو عدالت خلع نہیں دے سکتی ہے۔ بالفرض ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ریاست شوہر ہے اور عوام اس کی بیوی ہے اور بیوی کو عدالت پورا پورا حق دیتی ہے کہ وہ جدا ہوجائے ۔ لیکن ریاست نہیں مانتی ہے تو اس کو اپنا حق حاصل کرنے کیلئے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، بلوچ یکجہتی کمیٹی اورBLAوغیرہ مذہبی لوگ نہیں مگر بلوچ، پشتون، سندھی اور پنجابی تو مذہبی طبقات ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیاہے؟ لاالہ الا اللہ ! ۔ آرمی چیف سید عاصم منیر آج بھی یہی کہتا ہے لیکن یہ ایک فرد سے تو معاملہ نہیں بن سکتا ہے۔ آرمی چیف بدل جائے لیکن باقی ساری مشینری کھڑی ہو تو جس طرح ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بدل جانے سے بھی بلوچ نہیں بدلے گا اسی طرح ریاست کے ایک دوافراد کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔
جس دن بلوچ قوم نے قرآن کی بنیاد پر مولوی کو بدل دیا تو نہ صرف اپنے پاکستان میں بلکہ ایران وافغانستان میں بھی بلوچ کو حقیقی آزادی مل جائے گی۔ جس کے اثرات پوری دنیا کے مسلمانوں اور عالم انسانیت پر بھی پڑیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گولی اور گالی سے زیادہ افہام وتفہیم سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
پاکستان اور دنیا کی سطح پر ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان کے مرید جن میں کورکمانڈر سندھ جنرل نصیراختر اور آرمی چیف جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ کے علاوہ بہت سارے فوجی افسران شامل تھے ۔ مفتی تقی عثمانی کے استاذ ، دارالعلوم دیوبند کے فضلاء اور بڑے مدارس کے اساتذہ اور ائمہ مساجد کے علاوہ تبلیغی اور بہت بڑی تعداد میں مختلف طبقات کے لوگ شامل تھے۔ پشتون، پنجابی، سندھی، بلوچ اور مہاجر سب قومیتوں کے لوگ بھی تھے۔ لیکن آزمائش کے وقت سب کی اوقات کا پتہ چل گیامگر کچھ لوگ تمام قوموں میں ایسے نکلے جنہوں نے حالات کا مقابلہ کیا۔ فوجی ٹرکوں میں ہمارے ساتھیوں کو پکڑ کر پولیس تھانے لے جاتی تھی پھر تمام قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ایک انقلاب برپا کیا ہے۔
جب ایک مسجد پر قبضہ ہورہاتھا تو جن لوگوں نے ہم پر فتوے لگائے تھے اس مسجد کے امام سے ہمارا کہا گیا کہ ”اگر یہ لوگ ساتھ دیں تو یہ مسجد بچ سکتی ہے”۔ جب وہ ہمارے پاس آیا تو ہم نے نہیں کہا کہ جنہوں نے بیہودہ فتوے دئیے ہیں اب مدد مانگنے کیلئے آگئے؟۔ البتہ ان کو جماعت کی بنیاد پر نہیں ذاتی طور سے مد د کا وعدہ دیا۔ وہاں پہنچے تو مسجد میں تقریر کی اور لوگوں سے کہا کہ کچھ غیرت کرو۔ مسجد کے امام اور اپنی مسجد کو بچاؤ۔ اس دوران ایک فوجی کیپٹن اور اس کے ساتھ سنی تحریک کے معروف کردار وحید قادری آگئے۔ کیپٹن نے بھی ہری پگڑی پہن رکھی تھی۔ پھر اس نے کہا کہ میں کیپٹن ہوں اور ہمیں اپنے ساتھ لے گیا۔ جب ان سے بات ہوئی تو میں نے کہا کہ ” یہ سار ا فساد ہماری ریاست اورحکومت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک مسلک کے لوگ مسجد بنالیتے ہیں اور پھر دوسرے مسلک کے لوگ حکومت وریاست کی طاقت سے یا اپنی اکثریت اور طاقت سے قبضہ کرلیتے ہیں۔ جس میں فتنہ وفساد برپا ہوتا ہے اور حقدار بھی اپنے حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اگر ریاست کی یہ پالیسی ہو کہ جہاں جس مسلک کی اقلیت ہو تو وہاں پر اس کو مسجد کی تعمیر کی اجازت نہ ہو یا پھر اس کی رجسٹریش ہو اور دوسرے اس پر قبضہ نہ کرسکیں تو یہ معاملات نہیں بگڑیں گے”۔ اس دوران فولڈنگ والی کرسی میرے نیچے بیٹھ گئی اور میری ایک ہاتھ کی انگلی بھی کچل گئی۔ فوجی نے مرہم پٹی کی اور ہمیں عزت کیساتھ چھوڑدیا اور پھر کراچی میںمساجد کی رجسٹریشن بھی ہونے لگی اور فسادات کا مسئلہ حل ہوگیا۔ اگر لاٹھیوں اور گولی کا سلسلہ چلتا رہتا تو کراچی کی مساجد میں ایک نہ رکنے والے فساد کی وجہ سے نقصان جاری رہتا۔
ہم مسلک ، قوم اور ملک کی بنیاد پر کسی کا ساتھ دینے کے قائل نہیں ہیں بلکہ حق اور باطل ، ظالم اور مظلوم ، طاقتور اور کمزور کو دیکھ کر اپنی فطرت کے مطابق ہی ساتھ دیتے ہیں۔ باطل ، ظالم اور طاقتور کا ساتھ دینا بہت فضول سی بات ہے۔
جب عورت مارچ کی سبھی مخالفت کررہے تھے تو بھی ہم نے اپنی اوقات کے مطابق ساتھ دیا۔MNAعلی وزیر کی طرح تقریر کرکے رفو چکر نہیں ہوئے بلکہ میڈیا اور میدان میں بھرپور ساتھ دینے کیلئے آخری وقت تک ساتھ دیا۔ ان پر پریس کلب سےDچوک جاتے ہوئے حملہ ہوا تو بھی ہمارے ساتھی ساتھ تھے اور جب واپسی گاڑی اٹھانے کیلئے جارہے تھے تو بھی ان کے ساتھ رہے۔
اپنے اخبار اور کتاب میں بھی ان کو بھرپور کوریج دی۔ اگر وہ ہمارا مشن لیتے تو عورت کے حقوق کی حقیقی جنگ بھی جیت چکے ہوتے مگر انکے شاید این جی اوز کے بھی کچھ اپنے مسائل ہیں۔ ان کوسنجیدہ حقوق سے زیادہ کچھ اور آزادی چاہیے لیکن وہ کمزور اور مظلوم تھیں اسلئے ہم نے بھرپور ساتھ دیا تھا۔PTMکے مشکل وقت میں بھی ہم نے میدان میں اخبار میں بھرپور ساتھ دیا مگر تعصبات کو ہوا دینا اچھا نہیں لگتا ہے۔ لوگوں کو اپنی قوم ، اپنے علاقہ اور اپنی زبان سے محبت ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور اسلام بھی اس کی ترویج کرنے کاحکم دیتا ہے مگر اپنی قوم سے محبت اور دوسرے سے نفرت غلط ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان چلنا دنیا میں پل صراط اور کان کے پردے سے زیادہ باریک ہے۔
میرا بھائی ذوالفقار علی بھٹو سے بڑی محبت رکھتا تھا ،لیہ پنجاب میںSDOواپڈا اور پھر ایکسین کے عہدے پر ترقی ہوئی تو اپنے آفس میں تین نوکریوں پر وہاں محسود قوم کے افرادواپڈا دفتر لیہ پنجاب میں لگائے۔باپ عبدالرحیم (ادرامی)چوکیدار،ایک بیٹا جلات خان چپڑاسی، دوسرا سٹور چوکیدارلگادیاتھا۔ لیکن جب ٹانک شہر میں تبادلہ ہو ا تھا تو ایک سرائیکی بھی بہت مشکل سے لگایا تھا جس کی اوپر سے سفارش تھی مگرسفارش کا لحاظ نہیں رکھنا تھا بلکہ حافظ قرآن ہونے کی وجہ سے چپڑاسی لگادیا۔ وہMSCکیمسٹری تھا اور اس کا دوسرا بھائیMSCفزکس تھا جو میرے سکول میں ٹیچر تھا ۔حالانکہ ٹانک شہر اور اس کے آس پاس کا علاقہ بھی اصل میں سرائیکیوں کا ہے۔ میرے بھائی نے کہا کہ کالے سرائیکی کی جگہ سرخ وسفید پشتون کو لگاتا لیکن حافظ تھا اسلئے اس کو نوکری دے دی۔ ہمارے خاندان کا تعلق قوم پرست جماعتوں سے بھی نہیں رہاہے لیکن پھر بھی یہ ہوگیا۔
قرآن میں انصار ومہاجرین کی تعریف ہے لیکن خلافت کے مسئلے پر انکے اختلاف کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انصار میں اوس و خزرج اور قریش میں بنوامیہ اور بنی ہاشم میں ٹھن گئی تھی۔ بنوامیہ و بنوعباس کی خلافت کا سلسلہ تعصبات کا نتیجہ تھا۔ شیعہ اور سنی فرقوں کے مستقل اپنے اپنے عقائد اور نظریات ہیں۔
حامد میر کو اللہ خوش رکھے۔ بلوچ خواتین کیلئے بہت بڑا سہارا بن گئے ۔جس کی وجہ سے لسانی نفرتوں پر مثبت اثر پڑا ہے۔ بلوچ کی نفسیات کو سمجھے بغیر اس کی سپورٹ اچھی بات ہے لیکن اس کی نفسیات کو سمجھ کر پھر سپورٹ کرنے کا مسئلہ ہی کچھ اور ہے۔ حامد میر نے کہا کہ جب مجھے گولیاں ماری گئیں تو میرا گارڈ بلوچ تھا اور ڈرائیور پٹھان تھا۔ پٹھان نے کہا کہ لیاقت ہسپتال لے جاتے ہیں وہ قریب ہے اور بلوچ نے کہا کہ یہ وہاں بھی پیچھا کریںگے۔ میں نے کہا کہ پھر آغا خان لے جاؤ۔ جب میری گاڑی یوٹرن لے رہی تھی تو مجھے ٹوٹے ہوئے شیشہ کی وجہ سے قریب سے پیٹ میں گولی ماری گئی ”۔ حامد میر کو معلوم نہیں کہ لیاقت نیشنل بھی آغا خان کیساتھ بالکل لگاہوا ہے۔ پٹھانوں اور بلوچوں کو خوش کرنا اچھا ہے۔
حامد میر نے کہا ”خیر بخش مری فاطمہ جناح کے چیف سکیورٹی گارڈ تھے” اور اس خیر بخش مری کو ہی ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ اپنا آئیڈل سمجھ رہی ہے۔ خیر بخش مری ایک نواب تھا ۔ سردارسے بڑا درجہ نواب کا ہوتا ہے اور نواب سے بڑا درجہ خان کا ہوتا ہے۔ رحمن ڈکیٹ بینظیر بھٹو کا چیف سکیورٹی گارڈ تھا اورپیپلزپارٹی نے اس کو ”سردار عبدالرحمان بلوچ” کا سٹیٹس دیا تھا۔ بلوچ اس کو سردار تو نہیں سمجھتے تھے مگر بینظیر بھٹو کو سکیورٹی فراہم کرنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ ڈکیت اورنواب میں بڑا فرق ہے۔ نواب خیر بخش مری کا دادا بھی نواب خیر بخش مری اول تھا اور اس نے انگریزکی فوج کے خلاف تحریک اٹھائی تھی کہ بلوچ بھرتی نہیں ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ خان آف قلات نے اس کے خلاف بغاوت کے مقدمات قائم کئے۔ انگریز اور خان آف قلات کی قربتیں تھیں۔ نواب خیر بخش مری کے دادا خیربخش مری انگریز کے باغی تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کو نواب آف قلات نے اپنا ملازم لیگل ایڈوائزر رکھا تھا۔ جنرل ایوب خان وردی میں فاطمہ جناح کیخلاف الیکشن لڑرہاتھا تو بلوچ ،پشتون، پنجابی، سندھی اور بنگالیوں کی مشترکہ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور نواب خیربخش مری پارٹی کے بڑے اہم رہنما تھے اور فاطمہ جناح کو فوج سے تحفظ دیا تھا ۔ اس کو چیف سکیورٹی گارڈ کا نام دینا ان کی توہین ہے۔ ایک دوسرے بلوچ اہم رہنما غوث بخش بزنجو بابائے جمہوریت کہلاتے تھے۔ عبدالقدوس بلوچ کے رشتہ دار یوسف نسکندی ان سے کہتے تھے کہ جمہوریت چھوڑ دو اور بندوق اٹھاؤ۔ شیر محمد مری بندوق اٹھانے سے مایوس ہوکر بیٹھ گئے تھے جس کا سن 1980میںBBCپر انٹرویو موجود ہے۔ اور اس نے کہا تھا کہ ایک دن پوری بلوچ قوم پاکستان کے خلاف اٹھے گی۔
ہمارے اخبار اور کتابوں میں پروفیسر غفور احمد، ڈاکٹر اسرار، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف ، صوبائی امیر مولانا امان اللہ ، جمعیت علماء پاکستان شاہ فرید الحق ، علامہ طالب جوہری سے لے کر بڑے چھوٹے مدارس ، ضلع ٹانک کے اکابر علماء ، چیف سیکرٹری سندھ ، آئی جی پولیس ، ڈی آئی جی اور تمام مکاتب فکر اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کا بیان چھپتا تھا لیکن جب یوسف نسکندی کا بیان چھپ گیا تو میرے بھائی پیرنثار نے کہا کہ صرف اسی شخص نے تمہاری تحریک کو سمجھ لیا ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ بلوچ کو سادہ مت سمجھو ۔ ان کی تحریک بہت مضبوط اور نظریاتی بنیادوں پر کھڑی ہے اور یہ چیف سکیورٹی گارڈ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ پاکستان کی ریاست نے جبری غلام بنایا ہے اور جان چھڑانی ہے۔
ہمارے قریب میں جو شیرانی قبیلہ ہے وہ کان کو ہاتھ لگانے کو برا سمجھتا ہے۔ پنجابی کھلے عام پدو مارنے کو برا نہیں سمجھتے اور دوسرے سمجھتے ہیں لیکن ان چیزوں کو تعصبات کا رنگ بھی نہیں دینا چاہیے اور ایک دوسرے کی نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو یتیم کی طرح رل نہیں گیا بلکہ خوشحال ہوگیا۔ بلوچ اور سندھی انگریز کی فوج میں بھرتی کے خلاف تھے۔ یوسف مستی خان سندھی بلوچ اتحاد کے حامی اور خیربخش مری کے ساتھی تھے۔تربت و بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پنجابی اور پشتون اسلئے مارے گئے کہ قوم پرست سمجھتے تھے کہ یہ جاسوس کا کام کرتے ہیں۔ پٹھان اور پنجابی انگریز کی فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ اگر اسلام کی بنیاد پر کچھ معاشرتی مسائل حل ہوجائیں تو پھر قوموں اور ریاست کی تمام مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔ کسی کو شوق نہیں ہے کہ حلالہ کی لعنت سے اپنی بیگم کی عزت خراب کرے لیکن جب مذہب مجبور کرتا ہے توپھر پٹھان، بلوچ، پنجابی ، سندھی اور مہاجر سب بے غیرتی پر مجبور ہوتے ہیں۔
قرآن وسنت میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے ۔ گھر کا ماحول ایک چھوٹی ریاست کا ہوتا ہے اور جب صنف نازک عورت کو تحفظ قرآن نے دیا ہے مگر ہمارا مولوی اور ہمارامعاشرہ عورت کے حق کو نہیں مانتا۔ شوہر عورت کو چھوڑنے کے بعد ماں کا لخت جگر چھین لیتا ہے۔ جب تک سماج کو مردوں کی غلط بالادستی سے عورتوں کو تحفظ نہیں ملتا ہے تو قرآن کے مطابق معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا ہے ۔
عورت صنف نازک ہے مگر مضبوط اعصاب کی مالک بھی ہے اور اس سے مردوں کے مقابلے نرمی اور عزت سے پیش آنے کا معاملہ بھی فطری ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچ قومی تحریک کا رخ بدل دیا ہے۔ اگر حضرت عائشہ نے حضرت علی کے خلاف حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لینے کا مطالبہ نہیں کیا ہوتا تو لوگ حضرت عثمان کی مظلومیت کے بجائے اس کے فسادی ہونے پر یقین کرتے اور اگر کربلا کے بعد حضرت زینب حسین کی مظلومیت پر آواز نہ اٹھاتیں تو امام حسین پر بھی فسادی کے الزام لگتے ،اسلئے کہ حضرت علی ، حسن اور بعد کے ائمہ اہل بیت نے وہ اقدام نہیں اٹھایا جو حسین نے اٹھایا۔ علماء نے باغی قرار دینا تھا۔
اہل سنت کے امام ابوحنیفہ ، مالک، شافعی اور ابن حنبل نے مقتدر طبقے سے مار کھائی لیکن شاگردوں نے اسلام کو بگاڑ دیا۔ جب تک نظام درست نہیں ہوگا تو قربانیاں تاریخ کا حصہ بن سکتی ہیں لیکن معاشرے کو ظلم وجبر سے نکالنا مشکل ہے اور جب نظام کو بنیاد سے ٹھیک کیا جائے تو پوری دنیا میں انقلاب آسکتا ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ