پوسٹ تلاش کریں

پاکستان میں انقلاب آئے گا! مولانا طارق جمیل اور مولانا فضل الرحمن دنیا میں کیسے ”حور” بن سکتے ہیں؟۔

پاکستان میں انقلاب آئے گا! مولانا طارق جمیل اور مولانا فضل الرحمن دنیا میں کیسے ”حور” بن سکتے ہیں؟۔ اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان میں انقلاب آئے گا! مولانا طارق جمیل اور مولانا فضل الرحمن دنیا میں کیسے ”حور” بن سکتے ہیں؟۔

کرپٹ اشرافیہ سیاستدان، جرنیل، جج،صحافی، مفتی اور تمام خوشحال طبقہ بدحال ہوکر دنیا ہی میں ”حور” بن سکتا ہے؟

پاکستان میں تمام کرپٹ خانوادے انشاء اللہ عنقریب ”حور” بن جائیںگے اسلئے انہوں نے بڑے بڑے ہاتھ مارے اور غرباء کا خیال نہ رکھااور ملک وقوم کو تباہی کے دھانے پر پہنچادیا ہے

قرآن میں خوشحال لوگوں کے” حور”یعنی بدحال بننے کی نشاندہی ہے اور نبیۖ نے کور بننے کے بعد ”حور” بننے سے اللہ کی پناہ مانگی ۔ سورۂ رحمان، سورۂ واقعہ اور دیگر سورتوں میں ذکرہے!

فکرِشیخ الہند مولانا فضل الرحمن، مولانا شیرانی ، تبلیغی جماعت اور دیوبند ی مدارس کرتے مگر یہ خود گروہ بندی کا شکار ہیں ۔ اپنے مفاد کا تحفظ نہیں بلکہ رجوع الی القرآن مسائل کاحل ہے۔

پاکستان کی اشرافیہ نےIMFاور جنگوں کے نام پر قرضوں اور امداد سے اپنا اُلو سیدھا کیا لیکن مزارعین، بھٹہ خشت مزدوروںاور غریب لوگوں کا کچھ خیال نہیں رکھا۔ ان کی زکوٰة ، خیرات اور صدقات بھی مذہبی طبقہ اور کئی سارے رفاعی اداروں کے مالکان کھا گئے۔ آنے والے رمضان میں سب لوگ اپنے اکاؤنٹ سے زکوٰة نکال کر غریبوں کے ہاتھ میں پہنچائیں جو بھوکے ننگے مررہے ہیں ۔ سیاسی جماعتوںاور مذہبی مدارس کو بھی رحم نہیں آرہاہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو سیلاب متأثرین کی امداد میں کردار ادا کرنے پر ہم نے اپنے اخبار کے صفحہ اول میں بڑی جگہ دی تھی۔ کوئٹہ جلسہ میں اقوام متحدہ کی طرف سے بھیجے گئے ٹینٹ سیلاب زدگان کو دینے کے بجائے چوتڑوں کے نیچے بچھائے گئے تھے”۔ حضرت عمر نے نبی ۖ سے کہا کہ ” ہمیں وصیت کی ضرورت نہیں ، ہمارے لئے قرآن کافی ہے”۔ حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ ” باغ فدک کی وصیت نہیں چلے گی اسلئے کہ انبیاء درہم ودینار کی وراثت نہیں چھوڑتے”۔ ایک عام صحابی نے حضرت عمر سے کہا کہ ” پہلے یہ واضح کردو کہ آپ کا کرتہ کیسے بنا؟، جبکہ ہم اپنے حصے کے کپڑے سے کرتہ نہیں بناسکتے ہیں”۔ عوام کے پاس کرتہ نہیں ہوتا تھا تو اسلام نے حج وعمرے میں احرام کا حکم دیا تاکہ لوگ کرتہ وشلوار بنانے کی استعداد نہیں رکھتے ہوں تو امیر غریب کا ایک لباس ہو۔
مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام تمام مذہبی جماعتوں سے زیادہ تحمل اور برداشت رکھتی ہے لیکن کوئی اُٹھ کر سوال اٹھاتا کہ سیلاب زدگان کے ٹینٹ کا جلسہ گاہ میں کیا حق بنتا ہے؟۔ تو غریب کو ڈنڈوں سے مار کر شہید کرنے کا خطرہ ہوتا۔ پرویزمشرف ساری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کیلئے پاکستان کا صدر مملکت تھا۔ بے تاج بادشاہ نے طالبان کا خون کرکے پاکستان کو ڈالروں سے مالا مال کردیا تھا۔ کراچی سے چترال ، لاہور سے تربت وگوادر تک ریکارڈ ترقیاتی کام بھی کئے تھے لیکن اس کا بیٹا سیدبلال فیکٹریوں، ملوں اوراداروں میں ملازمت کررہاہے۔ بیٹی آرکیٹیکٹ ملازمت کررہی ہے۔ جبکہ ہمارے مذہبی سیاسی خانوادوں کے صاحبزدگان اپنے ہاتھ کے کام اورکسی ملازمت کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان کے بچوں کی کمپنیوں کے ان کے باپ بھی جعلی ملازم بنتے ہیں۔ اقامہ پر نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا تو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ بیٹے سے تنخواہ نہیں لی اسلئے نکال دیا۔” مجھے کیوں نکالا؟ ووٹ کو عزت دو”۔ جس نے نکال دیا تھا تو اسی کو بیرون ملک لندن میں بیٹھ کر کیو ں ایکسٹینشن دی تھی؟۔ جس پر کیپٹن صفدر نے بھی کہہ دیا کہ ”ہمیں اب ووٹ کو عزت دو ،کا کوئی حق نہیں ”۔
حامد میر نے انکشاف کیا کہ ”جنرل قمر جاوید باجوہ نے آخری وقت تک یہ کوشش کی کہ عمران خان کی حکومت قائم رہے ” اور جاوید چوہدری نے اس کے بالکل برعکس انکشاف کیا ہے تو پھر ان دونوں میں سے سچا اور جھوٹا کون ہے؟۔
مذہب ، فرقہ واریت اور سیاسی نفرتوں سے فائدہ کرپٹ عناصر ہی اٹھاتے ہیں اور صحافی بھی کسی نہ کسی کی وکالت کرکے اپنا دانہ حاصل کرتے ہیں مگر غریبوں کا پاکستان میں بیڑہ غرق ہے۔ مذہبی اور سیاسی نفرت کی جگہ محبت وشفقت سے افہام وتفہیم کی فضاء پیدا کرکے فکرو شعور اور احتساب کی سخت ضرورت ہے۔
فوج کے جرنیلوں اور ججوں کا آئین میں احتساب نہیں ۔ سیاسی لوگوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے نیب کے قوانین ختم کردئیے ۔ پہلے بھی مولانا فضل الرحمن نے نیب کی طاقت کو چیلنج کرکے اپنے پاس اور پھر مریم نواز کے پاس بھی نہیں آنے دیا تھا۔ احتساب، کیس اور جیل صرف کمزوروں اور غریبوں کا مقدر ہے اور جنہوں نے ملک کو لوٹ کر کھالیا ہے وہ احتساب سے بالکل بالاتر ہیں۔
قرآن کی سورۂ رحمن میں اللہ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرنے والوں کیلئے دو جنت کا ذکر ہے۔ یہ دنیا کی دو جنتیں ہیں اسلئے کہ آخرت میں سب کیلئے ایک ہی جنت ہوگی ۔ بڑی جنت الفردوس یا چھوٹی جنت۔پھر اللہ نے فرمایا کہ ومن دونھما جنتان ” اور دو کے علاوہ دو جنت اور ہوںگے”۔ یہ بھی دنیا کے دو باغات ہوں گے۔ ایک طرح کے باغات سبقت لے جانے والوں کیلئے اور دوسری طرح کے باغات اصحاب الیمین کیلئے ہوں گے اور تیسری طرح والے مجرم ہوں گے جن کو اصحاب الشمال کہا گیا ہے۔ دو سمندروں کے بیچ میں برزخ یعنی آڑ کا ذکر ہے ،اسی طرح قرآن میں دنیا کے اندر جہنم کی سزا کا ذکر ہے۔ سورہ ٔ رحمن میں دنیاوی جہنم کا ذکر ہے کہ مجرموں کو سزا ملے گی۔ سورۂ واقعہ میں ہے کہ ”یہ گرم ہواؤں و گرمی میں ہوں گے اور سائے میں جو گرمی پہنچائے گا۔ جونہ ٹھنڈاہوگا اور نہ عزت والا ۔بیشک اس سے پہلے یہ خوشحال ہوں گے ۔ بیشک اس سے پہلے یہ بڑے بڑے ہاتھ مارنے (کروڑوں اوراربوں کی کرپشن پر) اصرار کرتے ہوں گے اور ان کا یہ ایمان نہ ہوگا کہ آخرت ہوگی اور سابقہ آباء سے ملاقات پر ان کو بڑا تعجب ہوگا ”۔ (سورہ واقعہ)
جب پاکستان غریبوں اور اچھے لوگوں کیلئے جنت بن جائے گا اور کرپشن کا راستہ رُک جائے گا تو کرپشن میں نہال خاندان انڈسٹریل ایریاکے فیکٹریوں اور ملوں میں اپنا پیٹ پالنے کیلئے محنت مزدوری کریںگے۔جب تک پاکستان میں یہ کرپشن کیلئے بڑے بڑے ہاتھ نہ ماریں تو بیرون ملک ان کا گزارہ نہیں ہوسکتا ۔ مریم نواز نے سچ کہا کہ اسکے پاس کچھ بھی نہیں لیکن جب دوبارہ اقتدار کی یاترا کرلی تو پھر بہت مال بنالیا اسلئے پاکستان آج لڑکھڑا رہاہے۔ان کے پاس2008سے2013تک پنجاب کی حکومت رہی۔مرکز میںIMFاور دنیا بھرسے2013تا2018تک اتنے قرضے لئے کہ عمران خان کوIMFمیں خودکشی کرنے کیلئے مجبوراً جانا پڑگیا تھا۔ ا ب حکومت نے بہت کم مدت میں پھر خزانہ ختم کرکے ملک کو تیزی سے دیوالیہ بنانے کی طرف پہنچادیا ہے۔
اللہ نے فرمایا : انہ ظن ان لن یحور ” بیشک وہ سمجھتا ہے کہ وہ حور نہیں بن سکتاہے”۔ اللہ نے خوشحال سے بدحال بنادیتاہے ۔ نبیۖ نے دعا مانگی تھی کہ ”اللہ کور کے بعد حور نہ بنائے”۔ بنوامیہ، بنوعباس، سلطنت عثمانیہ اور مغلوں کے خاندانوں کیساتھ تاریخ میں کیا ہوا تھا؟۔ یہ کم عبرت ہے؟۔
آج ہمارے سیاسی خانوادے، بعض کرپٹ جج اور جرنیل اور علماء ومفتیان سمجھتے ہیں کہ اب ہم ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ تنزلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ حضرت حاجی محمد عثمان کے خلفاء اور الائنس موٹرز کے مالدار مالکان پہلے غریب تھے اور پھر بہت دولت مند بن گئے اور پھر ان کے دن ایسے بدلے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ مولانا طارق جمیل ایک غریب مولوی تھا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں کبھی کبھی مسجد میں بیان کرنے آجاتا تھا۔ مولانا فضل الرحمن بسوں میں سفر کرتے تو بلانے والے کرایہ دیا کرتے تھے۔مولانا مفتی محمود کے ٹین کا دروازہ اور کچا مکان مشہور تھا کہ وزیراعلیٰ رہنے کے باوجود فقیرانہ زندگی کا شعار اپنائے ہوئے ہیں۔ جن نوابوں ، خانوں اور سرمایہ داروں کے مقابلے میں مفتی محمود اور پھر مولانا فضل الرحمن الیکشن لڑتے تھے آج وہ مولانا کے ساتھی ہیں اور مولانا ان سے زیادہ بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار کا روپ دھار چکے ہیں۔
عمران خان نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن جونہی پرانے حکمرانوں کی شکلیں اور کارکردگی دیکھ لی تو لوگوں میں نفرت کی آگ بھڑک اُٹھی ہے۔ جاوید چوہدری جیسے صحافی نوازشریف کیخلاف ایک لفظ نہیں بولتے۔
جاوید چوہدری نے اپنے ایک تازہ ویلاگ میں کہا ہے کہ” اسلام آبادF9پارک کے واقعہ میں پشتو اسپیکنگ ملوث ہیں۔افغانستان اور پختونخواہ سے آنے والوں کی بڑی تعداد اسلام آباد کسی ایڈریس کے بغیر رہتے ہیں۔ اگر ان کو جیل میں ڈالا جائے تو وہ خوش ہوں گے کہ کھانا، رہائش اور پنکھا بھی مفت کا ملے گا۔ رپورٹ یہ ہے کہ5،6ماہ بعد ان لوگوں کے ہاتھوں اسلام آباد میں جینا دوبھر ہوجائے گا۔ کسی بھی معاشرے میں جرائم اس وقت ہوتے ہیں کہ جب ان کو سزا نہیں ملتی ۔ قصور کے زینب کیس میں مجرم کو پھانسی کی سزا مل گئی تو جرائم بہت عرصہ تک رُک گئے تھے۔ اسی طرح موٹر وے پر واقعہ ہواتو جب ریاست نے پکڑنے کی کوشش کی تو مجرموں کو پکڑ لیا اور اس کے بعد پھر آج تک موٹر وے پر واقعہ نہیں ہوا ”۔
جاوید چوہدری نے اپنے ویلاگ میں بتایا کہ اس کا پروڈیوسر کوئی اور ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ جاوید چوہدری اپنے ذہن سے پروگرام تشکیل دیتاہے لیکن جب اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی ہے تو یہ قوم پر واضح ہونا چاہیے کہ طوطے نے اپنی نہیں کسی اور کی زباں بولنی ہے۔ یہ اور کون ہے؟۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور سب کیخلاف کسی نہ کسی ایشو پر بات کرنے دیتا ہے مگر ن لیگ کیخلاف نہیں ۔
عمران خان کے لونڈوں اور لپاڑوں کی کوئی زیادہ حیثیت بھی نہیں ہے لیکن نوازشریف نے سارے اچھے لکھاری اور گفتار کے غازی بھرتی کرلئے ہیں۔ ہم سیاست سے زیادہ دینی معاملات کی اصلاح کے درپے ہیں لیکن دین بھی سیاسی معاملے سے زیادہ جدا نہیں ہے۔ قرآن وسنت کے احکام دین ہیں ۔ اولی الامر کی اطاعت بھی قرآن کا حکم ہے لیکن تنازعہ ہوجائے تواس کو اللہ اور رسولۖ کی طرف لوٹانے کا حکم ہے۔ اولی الامر کی حیثیت سے خلفاء راشدین بلکہ رسول پاک ۖ سے بھی قرآن وسنت میں اختلاف کی گنجائش تھی۔ سورۂ مجادلہ، غزوۂ بدرکے قیدیوں پر فدیہ،حدیث قرطاس، صلح حدیبیہ میں حضرت علی کارسول اللہ کے لفظ کونہ کاٹنا وغیرہ بہت سارے معاملات کی مثالیں موجود ہیں۔ قرآنی احکام بھی مسخ کئے گئے ہیں، سیاست کا توآوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
جاوید چوہدری نے اپنے پروڈیوسر کاانکشاف اسلئے کیا کہ زینب کے واقعے کے بعد بھی بہت سارے واقعات کا تسلسل رہاہے۔ بس کے ائیر ہوسٹس کیساتھ تو کنڈیکٹر اور ڈرائیور نے زیادتی کی ہے جو پختونخواہ اور جنوبی پنجاب سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ شمالی پنجاب میں کس کس قسم کے مظالم نہیں ہوتے ہیں؟۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے لیکن جرائم کے رُخ کو کسی ایک جانب سے موڑ کر دوسری جانب کردینا انصاف کا تقاضا نہیں ۔ پختونخواہ اور بلوچستان میں پولیس سے زیادہ پاک فوج کا عمل دخل ہے۔ جب وزیرستان اور سوات سے نقل مکانی کروائی گئی تو نوازشریف کے دور میںAPSکاواقعہ ہوا تھا۔ عمران خان نے بھی دھرنا چھوڑ دیا تھا۔ نوازشریف کی جان صحافی راشد مراد کھریاں کھریاںMRTVلندن نے اردو اور پنجابی میں ویلاگ کیا کہ ” پشاور آرمی پبلک سکول کا واقعہ پاک فوج نے اسلئے کروایا کہ عمران خان کی ضرورت پوری کی جائے اور دھرنے کی شرمندگی سے بچنے کیلئے فیس سیو ایگزٹ مل جائے”۔ اب پشاور پولیس کا واقعہ ہوا تو عمران خانی کہتے ہیں کہ الیکشن کو التوا میں ڈالنے کیلئے پھر قتل کی سنچری پوری کی گئی ہے۔ نوازشریف کے دور میںقومی ایکشن پلان بن گیا اور پھرAPSکے واقعہ میں جن لوگوں کو پھانسی کے پھندہ پر لٹکایا گیا ،ان میں منظور پشتین نے اپنا ایک بے گناہ ذاتی دوست بھی بتایا تھا کہ چند سال قبل اس کو لاپتہ کیا گیا تھا اور پھر اس کوAPSکے واقعہ میں ملوث قرار دیا گیا۔ سوات سے مولانا فضل اللہ بھاگ گئے ۔ مسلم خان، محمود خان گرفتار تھے اورتین تین مرتبہ پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی مگر نوازشریف نے یہ ترکہ عمران خان کیلئے چھوڑ دیا تھا اور پھر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چھوڑ دیا ۔
بیوورکریسی تو ویسے بھی تباہ ہے۔ عدالت مُنّی بھی شروع سے بدنام ہے اور فوج کا بھرکس بھی نکل گیا ہے۔ سیاستدان اور مولوی سے بھی اعتماد اُٹھ چکا ہے اور انقلاب کیلئے کوئی منظم جماعت بھی تیار نہیں۔ دہشت گردی بھی سر پر منڈلا رہی ہے۔مفتی اعظم پاکستان شیخ الحدیث مولانا مفتی زرولی خاننے کہا تھا کہ ”علامہ سید محمد یوسف بنوری نے الاستاذ مودودی لکھی تو جماعت اسلامی نے ان کا سامان ضبط کرانے کا سرکاری بندوبست کرلیا کیونکہ سعودی عرب میں ان کے اچھے تعلقات تھے لیکن حرم کے امام کیساتھ مولانا بنوری کی ذاتی دوستی تھی اسلئے وہ تفتیش اور تلاشی ختم کی گئی۔ علامہ بنوری اپنی کتاب پہنچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن عرب سید قطب اور سید مودودی سے بہت متأثر تھے۔ مولانا بنوری نے کہا تھا کہ کتاب کا نام یہ رکھوں گا کہ صنمان یعبدان فی الجزیرة ” دو بت جن کو جزیرة العرب میں پوجا جاتا ہے”۔ لیکن وہ یہ کتاب نہیں لکھ سکے۔ بنوری نے فرمایاتھا کہ سید قطب اور سید مودودی دونوں ناصبیت کی جدید شکل ہیں۔ جن کے مضر اثرات سے عرب بالکل بے خبر ہیں”۔
آج جدیدناصبیت کے اثرات نے خوارج جدید کی طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور دیوبندی ، بریلوی ، اہلحدیث اور شیعہ بھی اس سے متاثر ہیں۔ اس کا علاج تعصبات کو ہوا دینا نہیں ہے۔ اگر رسول اللہ ۖ فتح مکہ کے بعد سب کو معاف کرسکتے ہیں اور حضرت علی نے حضرت ابوسفیان کے کہنے پر حضرت ابوبکر کو خلافت سے اتارنے کیلئے تحریک کا آغاز نہیں کیا تو ہمیں بھی حضرت نبیۖ اور علی کی سنت پر چلتے ہوئے تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں کہ حضرت ابوطالب کے خلاف سنیوں کے دل صاف ہوں گے اور حضرت عمر کے خلاف شیعوں کے دل صاف ہوں گے۔ اسلام کیلئے اولین مسلمانوں نے جو خدمات انجام دیں ان کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قرآن کی درست تفسیر کیلئے باہمی اعتماد کا رشتہ قائم کرنا ضروری ہے۔
عربی کا ایک عام قاعدہ یہ ہے کہ پہلے موصوف اور پھر صفات کا ذکر ہوتا ہے۔ سورۂ رحمان میں باغات اور ان کی صفات کا ذکر ہے۔ مردان میں ہمارے ایک مہربان پیر شکیل صاحب کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر سے ہے اور جمعیت علماء اسلام میں بھی انہوں نے شرکت کا اعلان کیا تھا۔ سفید جامع مسجد کے امام ہیں۔ پشاور اور ٹانک کی طرح مردان میں بھی سفید مسجد کی تاریخی حیثیت ہے۔ پیر شکیل صاحب نے ہمارے لئے نیک تمناؤں اور ہر طرح سے تعاون کا اظہار کیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی فرمایا ہے کہ ”حور کی تفسیر سے وہ متفق نہیں ہیں”۔ سچی بات ہے کہ مجھے اس بات سے اتنی خوشی نہ ہوتی کہ وہ اتفاق کا اظہار کرتے جتنی خوشی اس بات سے ہوئی ہے کہ وہ اس سے متفق نہیں ہیں”۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان،ذواتا افنان، فیھا عینان تجرےٰن ، فیھا من کل فاکھة زوجٰن، متکئین علی فرشٍ بطائنھا من استبرقٍ و جنا الجنتین دان ، فیھن قٰصٰرت الطرف لم یطمثھن انس قبلھم ولا جان ، ھل الجزاء الاحسان الا الاحسان ” اور اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے دو باغات ہوں گے۔ جس میں دوچشمے جاری ہوںگے۔ اس میں ہر پھل کی دوقسمیں ہوں گی۔وہ بیٹھے ہوں گے تکیہ لگائے جنکے استراطلس کے ہوںگے۔ اور دونوں باغ کے پھل قریب لٹک رہے ہوںگے۔ ان کے اطراف چھوٹے قامت کے ہوںگے۔ اس سے پہلے ان کوانسان اور جن نے نہیں چھوا ہوگا۔ جیسے وہ یاقوت اور مرجان ہوں۔ کیا اچھائی کا بدلا اس کے سوا کیا ہے کہ اچھائی ہو؟”۔
ان آیا ت میں صرف مردوں کیلئے خوشخبری نہیں بلکہ خواتین بھی شامل ہیں۔ ان میں دو باغات کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ جن میں دوچشمے بہتے ہوںگے ۔ ہرقسم کے پھل کی دودو قسمیں ہوں گی۔ ایک شوگر والی اور دوسری شوگر فری ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان میں فنکاری کا خوب استعمال ہوگا۔ آج کل ویڈیوز پر باغات کی نئی اقسام دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے باغات کا پہلے تصور بھی نہیں تھا جن کے پھلوں کے رنگ یاقوت اور مرجان کی طرح خوش منظر ہوتے ہیں۔ اسلئے فرمایا گیا کہ” اس سے پہلے انسان اور جن نے ان کو چھوا نہیں ہوگا”۔ جنتی خواتین اور مردوں کو اللہ نے ویسے بھی الطیبون اور الطیبات کہا ہے۔اگر حوروں کو انسانوں اور جنات نے نہیں چھوا ہے تو جنت کی خواتین بھی چکلوں سے تو نہیں نکالی گئیں ہیں؟۔ اس طرح تو انسان نیک طینت خواتین کی توہین واہانت ہوجاتی ہے۔ جب انقلاب آئے گا تو نیک لوگوں کو ایسے دوباغات انعام میں مل جائیںگے جو ترقی یافتہ دور کی وجہ سے پہلے دنیا میں ایسے پھل اور باغات کا وجود نہیں ہوگا۔ اسلئے جن وانس نے ان کو اس سے پہلے چھوا نہیں ہوگا لیکن جب وجود میں آئیں گے تو چھوا بھی ہوگا اور کھایا بھی ہوگا۔ پہلے چھونے کی نفی ہے اوربعد میں چھونے کی خبر ہے۔
ان آیات میں باغات اور پھل موصوف اور ان کی صفات ہیں۔ اور اللہ سے ڈرنے والے موصوف ہیں اور اطلس کے غلاف والے تکیہ پر ٹیک لگاکر بیٹھنے کی حالت ہے اور پھر دونوں باغات اور پھل موصوف اور ان کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ تمام مکاتبِ فکر والے قرآن کا درست ترجمہ کریں۔ وزیرمذہبی امورمولانا عبدالشکور بیٹنی اور وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے اعلان بھی کیا ہے۔ہماری قوم کو رہنمائی کایہ سب سے بہترین تحفہ مل جائے گا۔
ومن دونھما جنتٰن، مدھآمتٰن،فیھا عینان نضاحتٰن ، فیھمافاکھة و نخل ورمان ، فیھن خیرٰت حسان ، حور مقصورٰت فی الخیام ، لم یطمثھن انس قبلھم ولاجان ، متکین رفرف خضرٍ و عبقریٍ ”اور ان دونوں کے علاوہ دوباغ اور ہوں گے۔ جو گہرے سیاہ مائل سبز رنگ کے ہوں گے۔ ان میں دو اُبلتے چشمے( فوارے) ہوںگے۔ ان میں پھل ہوں گے، کھجور اور انار ہوں گے۔ جو بہترین ذائقے اور خوشنما شکل والے ہوں گے۔ ( یہ پھلوں کی صفات ہیں اور جب عورتوں کا تذکرہ نہیں توان کی صفات کہاں سے آئیںگی؟) جدت والے پودے خیموں میں بند ہوں گے۔ ان کو پہلے انسان نے چھوا ہوگا اور نہ جن نے ۔ (اللہ سے ڈرنے والا دوسرا طبقہ اصحاب الیمین والے) سبز قالینوں اور نفیس مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے”۔ سورہ رحمن کی آیات کا انشاء اللہ عنقریب دنیا مشاہدہ کرے گی۔
سورہ رحمن کے بعد سورہ واقعہ میں بھی ان کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ صحابہ کرام میں السابقون السابقوں اور مقربوں کی بڑی جماعت تھی لیکن دوبارہ طرزِ نبوت کی خلافت قائم ہوگی تو یہ بہت چھوٹی جماعت ہوگی۔ البتہ اصحاب الیمین میں پہلوں کی بھی بہت بڑی جماعت تھی اور آخر میں بھی بہت بڑی جماعت ہوگی ۔ تیسرے مجرموں کی جماعت ہوگی جن کو اصحاب الشمال قرار دیا گیا ہے۔
حجاز مقدس میں مکہ سے مدینہ تک کوئی نہر ،پانی کا نالا اور چشمہ نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مشرق کی سپر طاقت فارس اور مغرب کی سپر طاقت روم کو شکست سے دوچار کرکے صحابہ کرام کیلئے دنیا میں باغات کے انبار لگادئیے تھے۔ دنیا ہی میں ان کو جنت بھی مل گئی تھی۔ دنیا کے تخت وتاج ان کے قدموں میں تھے۔
جب دوبارہ طرز نبوت کی خلافت قائم ہوگی تو دنیا میں جتنی جدت سے ترقی ہوئی ہے تو آخری دور والوں کو اس طرح کے باغات ملیںگے۔ ایک انقلاب عظیم کی خبر آخری دور کیلئے ہے جو درمیانہ زمانے سے شروع ہوگا۔ سورہ الحدید میں امت کے دو حصوں کا ذکر ہے ۔ کفلین میں نصف اول گزر چکاہے اور نصف آخر ابھی شروع ہونے والا ہے۔ دجال اکبر، مہدی آخری امیر امت سے قبل بھی قرآن کی بنیاد پر انقلابات آئیں گے اور دنیا قرآن سے مستفید ہوگی۔
یاایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ واٰمنوا برسولہ یؤتکم کفلین من رحمتہ ویجعل لکم نورًا تمشون بہ ویغفرلکم واللہ غفور رحیم O”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ۔ وہ تمہیں رحمت کے دو حصے عطا فرمائے گا،اپنی رحمت سے۔اور تمہارے لئے نور بنادے گا ، جس سے تم چل سکوگے اور تمہاری مغفرت کرے گا اور اللہ غفور رحیم ہے”۔
پہلا حصہ نبوت ورحمت سے اللہ نے شروع کیا تھا۔ خلافت راشدہ، امارت اور سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت تک اقتدار تھا۔ پھر دوسرے حصے میں دوبارہ طرزنبوت کی خلافت سے معاملہ شروع ہوگا اور بارہ ائمہ کے آخری امام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک چلے گا۔ آج یہودونصاریٰ سمجھ رہے ہیں کہ ان کا اقتدار اب کبھی ختم نہیں ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ نے خبردار کردیا ہے کہ
لئلا یعلم اھل الکتٰب الا یقدرون علی شئٍ من فضل اللہ وان فضل بیداللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم O ” اسلئے تاکہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے جب تک اللہ کا فضل میسر نہ ہو۔ اور یہ بھی جان لیں کہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے۔اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے”۔ سورہ الحدید سورہ رحمن اور سورہ واقعہ کے بعد ہے اور یہ اس کی آخری آیات ہیں۔ اس سورہ میں اللہ نے حدید کا ذکرکیا ہے جس میں نفع بخش چیزیں ہیں اور جنگ کے سخت الآت بھی۔ کافروں نے اس کو دنیا میں فسادات پھیلانے کیلئے استعمال کیا اورمسلمانوں کا مشن یہ ہوگا کہ اس کو صرف ترقی وعروج اور نفع بخش معاملات کیلئے استعمال کیا جائے گا۔
پاکستان میں حنفی مسلک کی ایک شاخ دیوبندی مکتب ہے ۔دوسری بریلوی ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور حاجی محمد عثمان کے علاوہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اللہ نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے، مفتی محمود، علامہ یوسف بنوری اور خواجہ خان محمدتک خدمت لی اور دوسری طرف مولانا ابوالحسنات احمد قادری، مولاناشاہ احمد نورانی ،مولانا مفتی خالد حسن مجددی اور علامہ خادم حسین رضوی تک سب نے قربانیاں دی ہیں۔ہماری تحریک میں بھی دیوبندی اکابر، بریلوی اکابر، اہلحدیث اکابر ، جماعت اسلامی اکابر ، ڈاکٹر اسراراور اہل تشیع اکابر سب کا بھرپور حصہ ہے۔ تائیدی بیانات سامنے آئیںگے تو نئی نسل حیران ہوگی ۔
سورہ واقعہ میں دنیا کے اندر مجرموں کا الگ سے ذکر ہے اور آخرت میں ان کا الگ سے ذکر ہے۔ دنیا میں سب سے بڑا جرم کرپشن کے ذریعے عیش کرنے کا معاملہ بیان ہوا ہے اور محنت کش انہی کی وجہ سے خوار اور پریشان ہیں۔ آج کا ماحول بھی ایسا ہے کہ سب سے بڑا گناہ کرپشن کو سمجھا جاتا ہے۔ کیپٹن صفدر نے کہا کہ عمران خان کی نجی زندگی پر بات کرنا میری غلطی ہے ،اس سے دوسرے بھی محفوظ نہیں ہوں گے۔ صحافیوں کو چاہیے کہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں۔
خلع کی عدت شریعت میں ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔ عمران خان نے جب بشری بی بی سے نکاح کیا تھا تو عدت پوری ہوچکی تھی لیکن شاید انہوں نے تاریخ کا حساب کتاب نکال کر وزیراعظم بننے کیلئے اس غلطی کا ارتکاب کر ڈالا کہ عدت سمجھتے ہوئے بھی نکاح کیا۔ اسلام سے پہلے راجہ داہر کی حکومت تھی۔ نوازشریف اور بینظیر بھٹو نے بھی ننگے بابا سے ڈنڈیاں کھاکر اقتدار حاصل کرنے کی عقیدت رکھی تھی۔ راجا داہرکی ایک سوتیلی بہن تھی اور نجومیوں سے اس کو معلوم ہواتھا کہ اس کا شوہر سندھ کا راجہ بنے گا۔ وزیر نے کہا کہ لوگ بادشاہ بننے کیلئے بھائیوں کو قتل کرتے ہیں،آپ بہن سے نکاح کرلوگے تو کونسی بڑی بات ہے؟۔ راجہ داہر نے کہا کہ بہت بدنامی ہوجائے گی۔ بہر حال راجہ داہر نے آخر کار اس کے ساتھ ہندوانہ رسم کے مطابق نکاح کرلیا۔ اس سے ملے بغیر اس کو گھر بھیج دیا اور دل میں خوش تھا کہ اب سندھ کا راجہ کوئی اور نہیں بنے گا۔
راجہ داہر، نوازشریف ، بینظیر بھٹو، کالے بکرے صدقے کرنیوالا زرداری تک سب ایک ہی طرح کے توہمات میں مبتلاء تھے اور عمران خان نے بھی بشریٰ بی بی کے عملیات کے مطابق بابا فرید کے مزار کی راہداری کو بوسہ دیا اور خاص قسم کے کلمات ہدایات کے مطابق پڑھے، جس کے ویڈیوز دکھائے گئے تھے۔
سعودی عرب کے بادشاہ کو اگر پنجابی میں بہن کی خاص گالی دی ہے تو اس سے زیادہ بڑا معاملہ بابا فرید کے مزار کو سجدہ کرنا تھا۔ دارالعلوم دیوبند اور جمعیت علماء اسلام کے صدر مولانا حسین احمد مدنی نے بھی کہا تھا کہ پاکستان کو کچھ اولیاء بنانا چاہتے تھے اور کچھ اس کا نقشہ مٹانا چاہتے تھے۔ آخر میں بنانے والے کامیاب ہوگئے۔ قاری محمد طیب کے بیٹے کودارالعلوم دیوبندکا مہتمم نہیں بننے دیا گیا تو وہ نعت پڑھی جس میں بریلوی دیوبند ی میں فرق نہیں رہتا ہے اور اب دونوں کو قرآن وسنت کے احکام کی طرف توجہ کرکے انقلاب لانا چاہیے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

شہباز شریف کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ محترم آصف زرداری سے ملاقات کریں۔
میری کوئی نیکی نماز روزہ زکوٰة قبول نہیں ہوئی کہا گیا جمعیت کا کارکن ہے اس کے بدلے تجھے جنت دی جاتی ہے۔ کشف
پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے