پوسٹ تلاش کریں

پاکستان معاشی، سیاسی ، آئینی ، عدالتی، اخلاقی، صحافتی ، ادارتی اور مذہبی بحرانوں کا شکار ہے!

پاکستان معاشی، سیاسی ، آئینی ، عدالتی، اخلاقی، صحافتی ، ادارتی اور مذہبی بحرانوں کا شکار ہے! اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان معاشی، سیاسی ، آئینی ، عدالتی، اخلاقی، صحافتی ، ادارتی اور مذہبی بحرانوں کا شکار ہے!

رمضان میں بڑے شیطان قید ہوجاتے ہیں لیکن پاکستان میں انسانوں نے شیطانوں کا کردار ادا کرنا شروع کیا ہے۔ لوگ بھوک وافلاس سے مررہے ہیں اور بڑے حکمرانی کیلئے لڑرہے ہیں!

رمضان کے روزے پر بھی مولوی فرقہ واریت اور نااہلیت کی وجہ سے لڑنے میں شرم محسوس نہیں کرتے ہیں،نااہلی اور اپنی اہلیت کو غلط استعمال کرنے کا طوفانِ بدتمیزی ہر طرف برپاہے

پاکستان سودی قرضوں کی وجہ سے مہنگائی کے دلدل میں مسلسل پھنستا جارہا ہے۔ پرویزمشرف نےIMFسے6ارب ڈالر قرضہ لیا تھا۔ زرداری نے10ارب مزید لیکرIMFکا قرضہ16ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ نوازشریف نے14ارب ڈالر لیکرIMFکا قرضہ30ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ سی پیک کیلئے چین کی طرف سے دو پراجیکٹ ایک19ارب ڈالر اور دوسرا35ارب ڈالر پر بھی کام شروع کیا۔ سی پیک کے مغربی روٹ کا رُخ کوئٹہ اور پشاور سے لاہور کی طرف موڑ دیا جس کی وجہ سے سی پیک کا منصوبہ بہت التواء میں پڑگیا اور سودی قرضے کا حجم بھی بہت بڑھ گیا۔ عمران خان کہتا تھا کہ پھانسی پر لٹک جاؤں گا لیکنIMFکے پاس نہیں جاؤں گا۔ پھرIMFکے پاس بھی جانا پڑگیا اور18ارب ڈالر کا مزید قرضہ لیا جس کی وجہ سے48ارب ڈالر تکIMFکا قرضہ پہنچ گیا اور چین و سعودی عرب اور دیگر ممالک اور اپنے بینکوں سے قرضہ الگ تھا۔ ساری سیاسی جماعتوں نے کٹھ پتلی کی طرح پاکستان کو استعمال کرکے بحرانوں میں دھکیل دیا۔ اگر نوازشریف مغربی روٹ کو چھوڑ کر سی پیک کا روٹ لاہور کی طرف منتقل نہ کرتا تو مغربی روٹ سے پاکستان کو بڑی آمدن بھی شروع ہوجاتی۔ پختونخواہ اور بلوچستان میں روزگار کے مواقع فراہم ہوجاتے تو طالبانائزیشن کا خاتمہ ہوجاتا۔ پانامہ لیکس نے نوازشریف کی دولت کو بے نقاب کیا ۔ پارلیمنٹ کاجھوٹا بیانیہ اور قطری خط سے اخلاقی ، قانونی اور سیاسی دیوالیہ بن گیا تو مجھے کیوں نکالا کی رٹ لگانا شروع کردی۔ سارا الزام فوج پر ڈال دیا۔ زرخرید جج اور بیوروکریٹ کے سہارے سے وہ سزا نہ ملی جس کا حقدار تھا اسلئے اقامہ کی سزاپربھی شور مچادیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوازشریف جب اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہواتو پاک فوج نے بھی کھل کر عمران خان کا ساتھ دیا لیکن عوام میں عمران خان کی مقبولیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ عمران خان کی آمد سے قبل ملک معاشی بحران کا شکار تھا۔ کرونا نے سہارا بھی دیا،جس میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے1200ارب یعنی12کھرب کے فنڈز میں کرپشن کی خبر بریک کی تھی۔ ملک ریاض کو500ارب روپے کی رعایت بھی نشر ہوئی۔ نوازشریف کے دور میںجنرل باجوہ نے کہا تھا کہ سی پیک کیلئے20ارب ڈالر میں سے10ارب ڈالر فیلڈ میں نہیں لگے تھے۔ جنرل قمر باجوہ کو نوازشریف ،عمران خان، زرداری سبھی نے ایکسٹینشن دی تھی۔ جنرل قمر باجوہ عمران خان کی نالائقی کی وجہ سے نیوٹرل ہوا تو عمران خان کی حکومت نے گرنا ہی تھااسلئے کہ بیساکھی پرکھڑی تھی۔PDMنے اس کے بعد مزید جو گل کھلائے ہیں وہ بھی عوام کے سامنے ہیں۔ آئین، سپریم کورٹ، الیکشن،سیاست، اخلاق اور مذہب سب کچھ سے بھاگ رہے ہیں لیکن آخر کب تک؟۔سپریم کورٹ اور پاک فوج کی بے توقیری بھی ہوچکی ۔
سیاسی اورمذہبی قیادت میں سے بھی کسی پر قوم کا اتفاق نہیں۔ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ آئین کے مطابق پنجاب اور پختونخواہ میں انتخابات کراؤ لیکن پارلیمنٹ کو اپنی عزت کا بھی احساس نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈر بھی راجہ ریاض کو بنارکھا ہے۔ اگر تحریک انصاف کے ارکان کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے دیا جاتا توپارلیمنٹ اس قابل ہوتی کہ مسئلے پر بات کی جاتی۔ پہلے عمران خان کے خلاف انتخابات کیلئے دھرنے ، جلسے جلوس اور سیاسی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ پھر عمران خان کو اتار دیا گیا۔ پھر عمران خان نے سیاسی تحریک کا آغاز کیا تو اس کو اکسایا گیا کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلیاں توڑ دو۔ جب اسمبلیاں توڑ دیں تو عدالت سے اس کو بچانے کی کوشش ہوئی۔ اس میں ناکامی ہوئی تو پھر اب عدالت اور آئین کے خلاف سازش ہورہی ہے لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟۔
فوج کو پہلےPDMکے قائدین اور ان کے سوشل اور الیکڑانک میڈیانے آخری حد تک پہنچادیاتھا۔ جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گھر پر بلاکر مولانا فضل الرحمن کو ننگی گالیاں دیں تھیں مگر یہ نہیں بتایا کہ کیوں دی تھیں؟۔ جس پر مولانا عبدالغفور حیدری کو شٹ اپ کی کال دینی پڑی۔ مولانا فضل الرحمن کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو حشر مولانا سمیع الحق کا میڈم طاہرہ کے ذریعے نوازشریف نے کیاتھا وہ مریم نواز بھی مریم طاہرہ اورنگزیب کے ذریعے کرسکتی ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے مولانا سمیع الحق کایہ قصور تھا کہ نوازشریف کو اقتدار میں لانے کیلئے اسلام اور جمہوریت کو استعمال کیا تھااور اسی ڈگر اب مولانا فضل الرحمن بھی چل رہے ہیں۔ مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک اب عمران خان کیلئے مولانا فضل الرحمن کے خلاف میدان میں ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دھرنے میں کہا تھا کہ ” عمران خان اور ملالہ یوسف زئی اس ملک وقوم کو ننگا کرنا چاہتے ہیں”۔ اب عمران خان کو قوم کا مسیحا بھی یہی لوگ کہتے ہیں اور مولانا فضل الرحمن کو اسرائیل کا ایجنٹ کہتے ہیں۔
جب صحافی عمران ریاض خان نے مولانا فضل الرحمن پر بے بنیاد اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگایا تھا تو اس وقت پاک فوج اور عمران خان ایک پیج پر تھے۔ اب حامد میر کہتا ہے کہ عمران خان سچ بتائے کہ اسرائیل کااصل ایجنٹ کون تھا؟۔ حالانکہ اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام پہلے بینظیر بھٹو نوازشریف پر لگاتی تھی۔ اس دوران اسامہ بن لادن پر بھی نوازشریف کو امداد فراہم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ اسامہ بن لادن جس کی وجہ سے افغانستان ، پاکستان، عراق، لیبیا اور شام سب تباہ ہوگئے ۔ پشتون قوم کا دیوالیہ ہوگیا مگر اس کا بیٹا اور بہو پیرس فرانس میں رہتے ہیں اور مزے کررہے ہیں۔ کیا پتہ کہ اسامہ بن لادن بھی زندہ سلامت نکلے۔
طالبان کی جیت پر پاکستان نے سب سے زیادہ خوشی منائی تھی لیکن اب
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
کانیگرم جنوبی وزیرستان کے بریگیڈئیر مصطفی کمال کی شہادت ایک سانحہ ہے جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے بھی قبول نہیں کی ہے۔ رحمان بونیری نے وائس آف امریکہ سے سوال اٹھایا کہ اس کا تعلق جنرل فیض حمید سے تھا۔ کہیں فوج کی اندورنی چپلقش کا نتیجہ تو نہیں ہے؟۔ جو سوشل میڈیا میں بہت گردش کررہاہے؟۔ اس کا جواب ایک پشتون ریٹائرڈ بریگیڈئیر نے بڑا اچھا دیا کہ22سال تک کے عمر والے کچی ذہنیت کے ہوتے ہیں اور وہ اس قسم کا ذہن رکھتے ہیں اور اس کو پروموٹ کرتے ہیںلیکن اصل معاملہ ن لیگ کے راشد مراد کھریاں کھریاں لندن، اسد علی طور، شا ہ زیب خانزادہ ،سید شفقت وغیرہ نے ایک طرف سے خراب کیا ہے تو دوسری طرف حیدر مہدی ،میجر عادل ، ملک وقار وغیرہ نے بگاڑ دیا ہے۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا عوام کے ذہنوں پر سوار ہے۔ مغرب میں بھی باقاعدہ لابنگ کیلئے فرم ہائر کئے جاتے ہیں اور یہاں بھی یہی کام ہورہاہے۔ امریکہ اس کا متحمل ہوسکتا ہے لیکن پاکستان میں اتنا دم خم باقی نہیں ہے کہ جھوٹ کے بازارمیں مزید اپنے قدم جماسکے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ومن یشتری لھوالحدیث لیضل عن سبیل اللہ ”اور جو لہو بات خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے ان کو گمراہ کردیں”۔ موجودہ دور میں ان سوشل اورالیکڑانک میڈیا کی ٹیموں پر آیت کا اطلاق ہوتاہے۔ ہروہ بات جس سے غلط فہمیاں جنم لیں، دوسروں کی خوامخواہ کی تذلیل ہو اور سیاسی مقاصد اور منافرت کیلئے قومی بحران کھڑا کرنے کیلئے کیا جائے تو یہ شیطان کی مشین ہے۔ اس سے جان چھڑانے کا نسخہ بھی نبیۖ نے زبردست تجویز فرمایا کہ ” جو شخص منہ پر تعریف کرے تو اسکے منہ پرمٹی ڈال دو”۔ اگرسیاسی ومذہبی جماعتیں اپنی تعریف کیلئے دوسرے کی بے جا مخالفت پر شاباش دینے کے بجائے منہ میں مٹی ڈالنا شروع کردیںگے تو یہ فتنہ ختم ہوجائے گا۔ اس خوشامد کا فائدہ نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو بھی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ عمران خان نے کہاہے کہ سوشل میڈیا پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ اپنے حامیوں کی طرف سے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہونے کا احساس ہورہاہے۔ عمران خان کو درست رہنمائی مل جائے تو اپنے حامیوں کے منہ میںمٹی ڈالنے سے بھی گریز نہیں کریگا۔ نوازشریف نے جب سمجھ لیا تھا کہ بیرون ملک سے معاہدے کی پاسداری توڑتے ہوئے آمد کسی مصیبت کا ذریعہ بن سکتی ہے تو ”نوازشریف زندہ باد” کا نعرہ لگانے پر کارکنوں کو ڈانٹ دیا تھا کہ” چپ کرو۔تم کہتے تھے کہ نوازشریف قدم بڑھاؤ ،ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ جب مجھے پکڑکر لے جایا جارہاتھا تو پیچھے میں نے مڑ کر دیکھا تھا اور کوئی بھی نہیں تھا”۔ اپنے مفاد کی خاطر کارکنوں کے منہ میں مٹی ڈالی تھی تو وسیع تر قومی مفاد کی خاطر بھی بکریوں اور بھیڑوںکی طرح میں میں اور بھیں بھیںکرنے والوں کو لگام ڈال سکتے ہیں۔ میڈیا کا افراتفری پھیلانے میں بڑا کردار ہے۔
مصطفی کمال شہید کے خاندان کیلئے یہ پہلا سانحہ نہیں ہے۔ پہلے بھی اس خاندان کےISIکے بریگیڈئیر کے بھائی گلشاہ عالم برکی کو زندہ غائب کیا تھا جس کی ذمہ داری بھی کسی نے قبول نہیں کی اور آج تک اس کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔ گلشاہ عالم برکی کی قوم نے بیت اللہ محسود کے ہاں لشکر کی صورت میں جاکر پوچھا تھا اور بیت اللہ محسود نے اپنی لاعلمی اور لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت کا طالب آج کے طالب سے زیادہ مضبوط تھا۔ لیکن طالبان کو پتہ تھا کہ اگر وزیر کی طرح ایک قبیلہ بھی کھڑا ہوگیا تو پھر وزیر کے ایریا سے ازبک کی طرح طالبان کو بھی علاقہ سے پوری قوم نکال دے گی۔ طالبان میں اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ وہ قتل کی ذمہ داری کو قبول کریں اسلئے کہ کانیگرم اور وزیرستان کے لوگ جس دن طالبان کے خلاف کھڑے ہوگئے تو ان کی پوری تحریک کے باقیات کا خاتمہ ہوگا اور پھر فوج اور پاکستان کے ریاستی اداروں پولیس وغیرہ سے نہیں لڑسکیںگے۔
پاکستان اسلام کے نام پر بناہے لیکن اسلام کے حوالے سے مذہبی طبقات پر عوام کا کوئی اعتماد نہیں رہاہے۔ مدارس کے نصاب پر علماء ومفتیان کا اعتماد بالکل ختم ہوچکا ہے۔ طالبان بھی علماء ومفتیان پر اعتماد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور بے روزگاری سے بھی لوگ دہشت گرد بن رہے ہیں۔ امریکہ نے انسانیت سوز مظالم کے ذریعے سے لاکھوں افراد لقمہ ٔ اجل بنائے اور گوانتاناموبے کے اندر درندگی سے زیادہ بدترین ذہنی وجسمانی تشددکا مظاہرہ کیاہے جس سے اب انسانیت انسانوں میں دفن ہوچکی ہے۔پاک فوج کو مذہبی دہشتگردوں اور بلوچ قوم پرستوں کی طرف سے تشدد کا سامنا کرنا پڑاہے اور پاک فوج نے بھی بہت بے رحمی سے ان کو نشانہ بنایاہے۔ رؤف کلاسرا نے اپنی کتاب” آخر کیوں ” میں اپنے اخباری کالم (جو2008کے درمیان سے2009کے جون تک ) شائع کئے ہیں۔ جس سے موجودہ دور میں سب کو اپنا عکس بخوبی نظر آتاہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟