پوسٹ تلاش کریں

پاکستان نے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا کیوں فائدہ نہیں اٹھایا؟، اب بھی تقدیر بدل سکتی ہے

پاکستان نے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا کیوں فائدہ نہیں اٹھایا؟، اب بھی تقدیر بدل سکتی ہے اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان نے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا کیوں فائدہ نہیں اٹھایا؟، اب بھی تقدیر بدل سکتی ہے

سعودی عرب کے پاس تیل کی دولت تھی اور اس کی وجہ سے وہ ہمیں زکوٰة ، خیرات دیتے تھے لیکن اگر ہم ایران سے تیل خریدتے تو جونقصان سودکی مد میں ہم نے اٹھالیا،وہ بہت زیادہ ہے

ہمارے پاس پانی کے بہاؤ کی دولت موجود تھی، جس سے بڑے پیمانے پر بجلی بناسکتے تھے اور اس سے پانی کی دولت میں کمی نہیں بلکہ اتنا اضافہ ہوتا کہ پورے پاکستان کی بنجر زمین آباد ہوتی

جن فوجی جرنیلوں ، سول بیوروکریٹ ،عدلیہ ججوں اور سیاستدانوں کے خاندان اور ان کی دولت ملک سے باہر ہے ،ان کو فوری طور پر ہٹایا جائے اورپینشن ختم کی جائے تو انقلاب آجائیگا!

پاکستان کے پاس پانی کے بہاؤ کی دولت تھی جس سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرکے پوری دنیا میں اس ملک کو بہت طاقتور ملک بنایا جاسکتا تھا۔ تیل وگیس اور سونے چاندی کے ذخائر ختم ہوسکتے ہیں لیکن پانی سے بجلی بنانے کی ترتیب وہ دولت ہے جس سے ایک قطرہ پانی بھی کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے۔ ذخائر سے سمندر میں فالتو پانی گرنے سے بچتا ہے۔ زمین جب زرخیز بنتی ہے تو بارش زیادہ برستی ہے اور جب پانی زیادہ برستا ہے تو سمندر میں گرانے کی گنجائش بھی بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم پانی سے بڑے پیمانے پر بجلی بناتے تو آج دریائے سندھ کا پانی سمندر میں ایسا گرتا کہ سورۂ رحمان کا وہ منظر دکھائی دیتا کہ
مرج البحرین یلتقےٰنoبینھما برزخ لا یبغےٰنoفای اٰلآ ء ربکماتکذبٰنOیخرج منھما اللؤ لؤ والمرجانOفای اٰلآ ء ربکماتکذبٰنOولہ الجوار المنشئٰت فی البحر کالاعلامOفای اٰلآ ء ربکماتکذبٰنOکل من علیھا فانOویبقٰی وجہ ذوالجلٰل و الاکرامOفای اٰلآ ء ربکماتکذبٰنO
ترجمہ :” اسی نے دو دریا رواں کئے ہیں جو آپس میں ملتے ہیں۔ دونوں میں آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کرتے۔ تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟۔دونوں دریاؤں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔ تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟۔اور جہاز بھی اسی کے ہیں جو سمندر میں پہاڑ کی طرح کھڑے ہیں۔ تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟۔ اور ان میں سے ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور تمہارے رب کی وجاہت باقی رہے گی جو عظمت و جلال کا مالک ہے۔ تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟”۔
مسلمان آنکھ کے نہیں دل کے اندھے بن چکے ہیں۔ سورۂ رحمان میں ان تمام نعمتوں کا ذکر ہے جس کا تعلق جنت سے نہیں بلکہ دنیا سے ہے اور فنا ہونے والی ہیں۔ صحابہ کرام کے دور میں سمندر کے اندر پہاڑ جیسے بحری جہازوں کا تصور بھی نہیں تھا۔ حجاز مقدس کو اللہ نے دو ایسے دریاؤں سے نہیں نوازا ہے جیسے برصغیر پاک وہند میں گنگا وجمنا اور پنجاب کے پانچ دریا ہیں۔ اگر پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا تو کراچی میں لیاری اور ملیر ندی خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ قرآن کی ان آیات کا منظر پیش کریںگی۔ اب تو کراچی کے ڈیفنس میں دو دریا کے نام سے بہت زبردست رات کے ہوٹل آباد ہیں لیکن لوگوں میں غربت کی وجہ سے وہاں کھانے کا رحجان کم ہوتا جارہاہے۔ جب یہ ملک ترقی کرے گا تو یہی دو دریا سورۂ رحمان کا منظر پیش کررہاہوگا۔ سمندر میں پہاڑ جیسے جہاز کھڑے نظر آئیںگے۔ لیاری اور ملیر ندی نہ صرف دو دریا کا منظر پیش کررہی ہوں گی بلکہ اس میں ہیرے اور مرجان بھی ملیںگے۔ البتہ یہ سب کچھ فانی ہوگا۔ نوازشریف اور بھٹو کے خاندان نے پنجاب اور سندھ پر ہمیشہ قیامت تک کیلئے اپنے اقتدار کا غلط خواب دیکھا ہے ، ہمیشہ قائم رہنے والی ایک ذات خدا کی ہے۔ کراچی کے مہاجروں نے اسلام کی خاطر پاکستان ہجرت کی تھی اور خواب کی تعبیرملے گی۔
ڈاکٹر تیمور رحمن کے سوشل میڈیا پر بیان کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ پاکستان کی ریاست کو کمزور کرنے کیلئے بینظیر بھٹو کو تیل سے بجلی بنانے کا منصوبہ دیاگیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے میزائل پروگرام پاکستان کو دیا اور سندھ کیلئے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ختم کرنے کو مفید سمجھ لیا لیکن اس سے پاکستان کی معیشت بیٹھ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پرائیویٹ ملوں اور فیکٹریوں کو بھی سرکاری تحویل میں لیا تھا اور بینظیر بھٹو نے سرکاری املاک کو بھی پرائیوٹ کردیا۔ باپ بیٹی میں تضاد کیوں تھا؟۔ نیم ملا خطرہ ایمان نیم حکیم خطرہ جان کی طرح اسلامی سوشلزم بھی کسی کام کا نہیں تھا بلکہ زیادہ خطرناک تھا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھا تو پہلی مرتبہ بلوچ وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے کو ایک ساتھی سمیت اغواء کرکے شہید کیا گیاتھا۔ بلوچ رہنماخیربخش مری سے وسعت اللہ خان نے انٹرویو لیا تھا اور خیربخش مری نے ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کا جن الفاظ میں تذکرہ کیا ہے وہ سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ پھر یہ پالیسی نوازشریف اور عمران خان تک جاری وساری رہی ہے جس سے ہمارے اداروں کی ساکھ بھی خراب ہوئی اور قوم بھی تباہ وبرباد ہوگئی۔ پرویزمشرف کیساتھ کون کون کھڑے تھے اس کو اس وقت کے گروپ فوٹوز میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جب ولی خان کو صدارت کی پیشکش کی گئی تو اس نے کہا تھا کہ ” یہ ایسی کرسی ہے کہ جو بھی اس پر بیٹھا اس کی شلوار ادھر ہی رہ جاتی ہے۔ آخری عمرمیں اپنی عزت نہیں کھونا چاہتا ہوں”۔
سلیم صافی نے جناح سینٹر اسلام آباد میں غفار خان اور ولی خان کی یادگار کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن کی تقریر پر اپنا تجزیہ دیا تھا کہ ” جب مفتی محمود وزیر اعلیٰ بنادئیے گئے تو اب پختونخواہ کی گورنری بھی میاں افتخارحسین سے چھین کر حاجی غلام علی کو دیدی گئی”۔ سلیم صافی کا بنیادی تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور یہ لوگ مولانا مودودی کے بعد حاجی میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق تک کبھی کسی عالم دین کو جماعت اسلامی کا امیر بنانا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں۔ مولانا مودودی بھی پہلے داڑھی منڈا تھا۔ دارالعلوم دیوبندماہنامہ کے ایڈیٹر نے علماء کو دیکھا کہ اسلام جیسے دین کو نکاح ، طلاق، حلالہ ، میت کو غسل دینے اورسودی کاروبار کیلئے حیلے تراشنے تک محدود کررکھا ہے ۔ اسلئے ایک اپنی جماعت بناڈالی اور بڑی چوٹی کے علماء بھی ساتھ میں رکھے جنہوں نے بعد میں اختلاف کے باعث علیحدگی اختیار کرلی اور اس میں علماء ہی نہیں باقی دانشور بھی ان سے جدا ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے اسلام کی خاطر اقتدار تو حاصل نہیں کیا مگر ڈکٹیٹر کی صلیب پر لٹک گئی۔ جنرل ضیاء کا ریفرینڈم ، اسلامی جمہوری اتحاد اور پھر ظالمو! قاضی آرہاہے!۔ تک اپنا سب کچھ کھو دیا ۔اب بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کا لبادہ اوڑھ کر ڈرامے کی آخری قسط ختم ہونے کے قریب لگ رہی ہے اور اس سے پہلے گرگٹ کی طرح بڑے رنگ بدلے ۔ کبھی یکم یوم مئی کے مقابلے میں ”یوم بدر” منانے کی کوشش کی اور پھر وہ وقت آیا کہ سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے لال ٹوپی پہن کر یوم مئی مزدروں کے ساتھ منایا مگر حاصل کیا ہوا؟۔
زیادہ عرصہ کی بات نہیں کہPDMنے آرمی چیف ،DGISIاور فوج سے آزادی کا طبل بجایا۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ اتنی بڑی تحریک کیلئے پھر نوازشریف کو بھی میدان میں آنا چاہیے۔ مریم نواز کو یہ بات اتنی بری لگی کہ اس پر پیپلزپارٹی کوPDMسے باہر پھینک دیا۔ حالانکہ اسی پیپلزپارٹی نے مریم نواز کی گستاخی کرنے پر فوج کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔ جبPDMکا بیانیہ مہنگائی ، فوج کی مداخلت اور نئے الیکشن کا تھا تو وہ موقع بھی ان کے ہاتھ میں آگیا۔ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن سب نے مل کر دی تھی اور عمران خان اتناکہتا تھا کہ ہم ایک پیج پر ہیں کہDGISPRجنرل آصف غفور کو اس وقت وضاحت کرنا پڑی جب نوازشریف اڈیالہ جیل میں تھے اور مولانا فضل الرحمن نے دھرنا دیا تھا کہ” فوج ہر اس سیاسی جماعت کیساتھ ہے جو جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے”۔ تاکہ فوج پر ایک پیج کا دھبہ ختم ہوجائے لیکن پھر سوشل میڈیا کی زرخرید ٹیموں نے معاملات میں مزید غلط فہمیاں پیداکرنے میں کردار ادا کیا اور جب عمران خان کے پاؤں سے آصف زرداری نے زمین نکالی تو اس کو اپنے بندوق کے نشانے پر رکھنے کا اعلان کیا۔ پھر امریکہ مخالف بیانیہ اور اسٹبیلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا۔PDMپھر اپنی تینوں منزلوں کی مہم جوئی سے پیچھے ہٹ گئی اور آئین اور انتخابات سے بھی بھاگ رہی ہے۔ ضمنی الیکشن میں شکست کھائی تو آئندہ ضمنی الیکشن میں حصہ لینے سے بھی انکار کیا اور جب گئی تو شکست ہوئی ۔
سیاسی جماعتوں کے قائدین، رہنما اور کارکن قوم کا عظیم سرمایہ ہیں لیکن وہ اپنی غلطیوں کو سمجھ کر اعلانیہ توبہ کریں۔ اگر زرداری معصوم تھا تو شہباز شریف اپنی الزام تراشیوں پر مرغا بن جائے اور اگر نوازشریف پر پیپلزپارٹی نے ایون فیلڈ کے غلط کیس بنانے تھے تو مریم نواز خالی اپنے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ قوم میں بڑا غصہ ہے۔ عمران خان کی مقبولیت نہیںPDMاور جماعت اسلامی سے نفرت کا نتیجہ ہے کہ لوگPTIکو سپورٹ کررہے ہیں۔ عمران خان اس سے پہلے زیادہ بڑی بڑھکیاں مارتا تھا لیکن کچھ نہیں کرسکا۔ اب کونساتیر مارے گا سب کو پتہ ہے لیکنPDMکے قائدین کی شکلوں سے لوگوں کو نفرت ہوگئی ہے۔
ہم نے نئی سیاسی جماعت کا اعلان بہت مجبوری میں کیا ہے۔ منشور ایسا ہونا چاہیے کہ اقتدار کے بغیر بھی مسئلے حل ہوں۔ نبی کریم ۖ نے اقتدار کے بغیر بھی اسلام کے مسائل حل کردئیے تھے اور اسی کے نتیجے میں مسلمانوں کو طویل اقتدار مل گیا۔ حجاز مقدس میںاسلام سے پہلے جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ، حضرت عمر فاروق اعظم اپنے کردار کی بدولت خلیفہ بن گئے۔ ورنہ پہلے اونٹ چرانے پر بھی مار پڑتی تھی۔ پھر اسلامی منشور کی وجہ سے ان کے سامنے مشرق ومغرب کی سپر طاقتوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ بیت المقدس کی چابی حوالے کی گئی تھی۔
ہم نے جنت جیسے پاکستان، ایران اور افغانستان کو اپنی عوام کیلئے جہنم بنادیا ہے۔ حجاز میں مکہ سے مدینہ تک پانی کا نالہ بھی نہیں تھا لیکن حجازی دنیا میں سب طرف بہترین ممالک کو فتح کرکے جنت کے مالک بن گئے تھے۔خاندانی یزید کے اقتدار کی ہوس یزید کے بیٹے معاویہ میں بھی نہیں تھی اور حضرت معاویہ کے بھائی یزید نے بھی اسلام کی خاطر زبردست کردار ادا کیا۔ دنیائے اسلام اب دونوں یزید اور معاویہ سے بے خبر ہیں جن کو اہل تشیع بھی مان سکتے ہیں۔
بنوا میہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسا ہیرہ بھی نکل آیا تھا جو بنی مروان سے تعلق رکھتا تھا۔ یزیدی لشکر کے سپاہ سالار حضرت حر علیہ السلام کا کرداربہت زبردست تھا۔ سیاسی جماعتوں میں اچھے اچھے قائدین اور رہنماؤں کے کردار کو اپنی قوم کا بہت بڑا اثاثہ سمجھنا چاہیے۔ سب مل جل کر پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالیں۔ آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر اپنے ادارے اور سیاسی جماعتوں کو معروف پر جمع کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین یہ احسان نہ سمجھیں کہ آرمی چیف انہوں نے بنائے اور وہ نمک حرام نکلے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ آرمی چیف کے عہدے تک پہنچنے کیلئے ایک طویل محنت ہوتی ہے ۔ کوئی نامزد کرکے پاتال سے آسمان تک نہیں پہنچاتا ہے بلکہ جس جس میں ایک طرح کی اہلیت ہوتی ہے ان میں سے ایک کو نامزد کرنا پڑتا ہے۔چوہدری نثار اور پھر شاہد خاقان عباسی سے بھی برداشت نہیں ہوا کہ مریم نوازکے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں لیکن آرمی چیف کو سیلیوٹ کرنا پڑتا ہے اسلئے کہ اسکی ساری زندگی اسی ڈسپلن میں گزری ہوتی ہے۔ ظفراللہ جمالی کو ایک ووٹ کی برتری پر مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں وزیراعظم بنایا گیا۔ جمعیت علماء اسلام کی اپنی ذیلی جماعت سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق نے اپنا اکلوتا ووٹ ظفراللہ جمالی کو دیا تھا اور عمران خان نے اپنا اکلوتا ووٹ مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا۔ پھر دشمنی کی کیا اوقات ہے؟۔مولانا فضل الرحمن نے اپنے اتحادی جمعیت علماء اسلام س کی بجائے ٹانک کے دفتر مرکزی مسجد جامع مسجد سفید (سپین جماعت) مولانا فتح خان کو تحریک انصاف کے ایوب خان بیٹنی کیلئے وقف کیا تھا۔ جو مولانا شیخ محمد شفیع ضلعی امیرجمعیت علماء اسلام س امیدوار برائےMPAکا الیکشن لڑرہے تھے۔ جب جنرل ظہیرالاسلام عباسی نے ہمارے سامنے ایوب بیٹنی سے کہا تھا کہ یہودی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تو ہم نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کا مرکز سپین جماعت (سفید جامع مسجد) اس کا دفتر تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے پشاور اورچارسدہ میں غلام احمد بلور اور اپنے مولانا قاسم کو ہارتے دیکھا ہے اسلئے وہ خود اسمبلی میں جانے کیلئے بھی الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ حالانکہ اب تو کوئی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بھی نہیں ہے۔ ہم مولانا فضل الرحمن کو مشورہ دیتے ہیں کہ جن ایشوز کو ہم نے اٹھایا ہے وہ ان کو اپنے منشور میں داخل کردیں اور حلالہ کی لعنت سے اپنے لوگوں کی جان چھڑائیں تو اپنا کھویا ہوا وقار واپس مل سکتا ہے۔ ہندوستان میں پرسنل لاء کے اندر مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا اسلئے ہے کہ علماء نے قرآن وسنت کے درست احکام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور مولانا اس میں اپنا زبردست کردار ادا کرسکتے ہیں جس سے افغان طالبان کو بھی دنیا تسلیم کرے گی اور پاکستان میں بھی اسلام کے مخالف ہمارے ساتھ کھڑے ہونگے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

شہباز شریف کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ محترم آصف زرداری سے ملاقات کریں۔
میری کوئی نیکی نماز روزہ زکوٰة قبول نہیں ہوئی کہا گیا جمعیت کا کارکن ہے اس کے بدلے تجھے جنت دی جاتی ہے۔ کشف
پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے