پوسٹ تلاش کریں

پاکستان وافغانستان کی جنگ پر غضب کہانی : وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی بدترین زہر افشانی

پاکستان وافغانستان کی جنگ پر غضب کہانی : وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی بدترین زہر افشانی اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان وافغانستان کی جنگ پر غضب کہانی : وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی بدترین زہر افشانی

پاکستان اور افغانستان میں جنگ سے فائدہ اور نقصان کس کس کا ہوگا؟۔ یہ بات واضح ہے کہ روس افغانیوں کی وجہ سے آیا تو جنگ میں امریکہ ، یورپ ، چین اور دنیا بھر کی قوتیں کود گئیں۔ پاکستان ، ایران ، سعودی عرب اور دنیا بھر کے مسلم اور غیرمسلم ممالک جنگ کا حصہ بن گئے۔ جہاد کو زندہ کرنے والے سب منافقین اور کفار بھی تھے جو مخلص مسلمانوں کو شہادت کے تمغے کیلئے استعمال کررہے تھے۔ مال غنیمت کہیں اوربٹ رہا تھا اور آگ کا ایندھن کوئی اور تھا۔ جنرل ضیاء الحق آرمی چیف صدر پاکستان اور خاموش مجاہدISIچیف جنرل اختر عبدالرحمان اور کئی بڑے فوجی افسر امریکی سفیر سمیت حادثے کا شکار ہوگئے۔ اعجازالحق کو بھی میڈیا میں یہ شکایت رہی ہے کہ” اس کے باپ کیساتھ تحقیقاتی اداروں اور عدلیہ نے انصاف نہیں کیا ہے”۔شہیدملت لیاقت علی خان کی بیوہ کو بھی شکایت تھی کہ اسکے خاوند کو قتل کرنے میں بڑے بڑے ملوث تھے مگر انصاف نہیں ملا۔ بیگم راعنا لیاقت علی خان کیلئے5ہزار ماہانہ وظیفہ رکھا گیا اور پھر اس کو جرمنی میں سفیر بھی بنایا گیا۔ اپنے سٹاف کے ملازم سے کہا کہ ” عصر کے بعد چھٹی کے اوقات میں بھی یہ تیری سرکاری ڈیوٹی ہے کہ میرے ساتھ بیٹھ کروقت گزارو” اور پھر شراب کے نشے میں دھت ہوکر اپنے شوہر قائدملت کی شہادت کا ذمہ دار تمام سول اور فوجی حکمرانوں کو قرار یتی تھی۔ قائد ملت کی زوجہ محترمہ کو مادرِ ملت کا خطاب نہ مل سکا۔
خاموش مجاہدISIچیف جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحبزادگان کبھی اپنے باپ کے قتل کی شکایت زبان پر نہیں لائے لیکن جب دوسری بار پانامہ کی طرح خفیہ رقم کے مالک کا قصہ میڈیا پر آیا تو ان کی بہت دولت نکلی۔ مشہور تھا کہ موصوفان پاکستان میںسب سے زیادہ دولت مند ہیں اور تھے بھی اسلئے کہ نوازشریف اینڈکمپنی کو اسلامی جمہوری اتحاد کیلئےISIنے لاکھوں کے حساب سے روپیہ دیا اور ہارون اختروہمایوں اختر کی دولت اس وقت اربوں میں تھی۔ اگر نوازشریف کروڑ پتی ہوتے تو لاکھوں روپےISIسے لینے کی کیا ضرورت تھی؟۔
زرداری اور بینظیر بھٹو کی شادی کے اخراجات عزیز میمن اور بلاول ہاؤس کو ایک پنجابی بلڈر نے موصوفان کو گفٹ کیا تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد دولت کی لوٹ مار سے سرے محل اور سوئیس اکاؤنٹ کے قصے شہباز شریف اور میڈیاکا نمایاں کردار تھا۔ بابائے اسٹیبلشمنٹ غلام اسحاق خان کو بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان کے مقابلے میں بینظیر بھٹو اور نوازشریف نے مل کر جتوایا تھا ۔ پھر دونوں کی حکومتوں کو کرپشن کی بنیاد پر ہی غلام اسحاق خان نے ختم کردیا تھا۔
نوازشریف کو اقتدار میں لانے اور بینظیر بھٹو کو پچھاڑنے میں افغان مجاہدین اور اسامہ بن لادن کا بھی بڑا کردار تھا۔ نوازشریف کے خلاف بینظیر بھٹو بھی لندن اے ون فیلڈ کے مہنگے فلیٹوں کی کہانی میڈیا پر سامنے لائی۔ جس کے سارے ثبوتARYنیوز پر ارشد شریف نے اپنے لیپ ٹاپ سے چلادئیے۔ نوازشریف نے بینظیر بھٹو پر امریکہ کے ایجنٹ کا الزام لگایا تھا اور بینظیر بھٹو نے نوازشریف پر اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگایا تھا۔ بہت بعد میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ مولانا احمد لاہوری کے صاحبزادے جمعیت علماء اسلام میں اپنے گروپ کی معروف شخصیت مولانا اجمل قادری کو نوازشریف نے تعلقات بنانے کیلئے اس دور میں اسرائیل بھیج دیا تھا اورحامد میر نے بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب زرداری کے پیچھے شہبازشریف، نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے کارندے ہاتھ دھوکر پیچھے پڑے تھے توATVچینل (PTV) پر بتایا تھا کہ ” امریکہ ہی بینظیر بھٹو اور جنرل نصیراللہ بابر کے ذریعے طالبان کو اقتدار میں لایا تھا”۔
صاحبزادہ حامد رضا نے جنرل فیض کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے بعد یہ انکشاف کیا کہ حامد میر، سلیم صافی وغیرہ جو فوج کی مخالفت کرتے ہیں تو ہرتیسرے دنGHQکے گیٹ پر ملتے ہیں اور وہاں سے ہدایت ہوتی ہے کہ کچھ ہمارے خلاف بھی بولیں تاکہ عوام کے اندر معتبر ٹھہر جائیں۔باقی وہاں سے جو بریفنگ ملتی ہے وہی میڈیا پر پھیلاتے ہیں۔ بینظیر بھٹونے افغان کمانڈروں کے خلاف طالبان کو منظم کرکے امیرالمؤمنین ملاعمر کی حکومت بناڈالی۔ نوازشریف پر اسامہ اور اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگادیا۔ افغان جہاد کی ایک آنکھ اسامہ اور دوسری ملاعمرتھے۔9/11ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا امریکہ میں واقعہ ہوا تو اسامہ نے ذمہ داری کو قبول نہیں کیا لیکن اس کو خوش آئند قرار دے دیا۔ امریکہ نے ملا عمر سے اسامہ کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اور ملاعمر نے جرم میں ملوث ہونے کا ثبوت مانگا۔
پرویزمشرف پاکستان کی معیشت کیلئے پریشان تھا، بینظیر بھٹو اورنوازشریف نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ باری باری اقتدار میںIMFسے بڑے سود کا قرضہ لیا تھا۔ بجلی بنانے کو فرنس آئیل اور کوئلہ سے مشروط کرکے پانی سے بجلی بنانے کا راستہ روکا تھا۔ جب امریکہ نے20ارب ڈالر کی پیشکش کردی تو پھر پرویزمشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کا کردار ادا کرنا سب سے پہلے پاکستان کیلئے ضروری سمجھ لیا۔IMFکا قرضہ بھی اتار دیا اور اس ملک میں پہلی مرتبہ متحدہ مجلس عمل اور ق لیگ پہلی اور دوسری پوزیشن پر آئے تھے اور نوازشریف اور بینظیر بھٹو سائیڈ لائن پر کر دئیے گئے۔ دہشت گردوں نے جو بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹایا تھا تو اس کا فائدہ پیپلزپارٹی کو اقتدار کی شکل میں مل گیا۔ عمران کہتا تھا کہ سولی پر چڑھ جاؤں گا لیکنIMFکے پاس نہیں جاؤں گا۔ تحریک طالبان پاکستان نے پیپلزپارٹی کی حکومت سے مذاکرات کیلئے عمران خان اور نوازشریف کو اپنا نمائندہ نامزد کردیا تھا۔ جب نوازشریف نے پنجاب میں ق لیگ کو ساتھ ملایا تو مرکزمیں حکومت سے الگ ہوگئے تھے اور پھر پنجاب سے پیپلزپارٹی کو بھی نکال باہر کیا تھا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ شریف پر قتل کے الزام کا مقدمہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور سلیمان تاثیر پر بنناتھا لیکن پولیس کے ایک سپاہی نے سچ بولا اور یہ کہانی ناکام ہوگئی تھی۔ رؤف کلاسرا نے اس پر ایک کتاب ” ایک قتل جو ہو نہ سکا” لکھ ڈالی تھی۔ نوازشریف کے حامی جیو کے بزرگ صحافی نے اس دور میں انصار عباسی کوTVپر کتے کا بچہ کہا تھا۔
جنگ کراچی نے شہہ سرخی لگائی تھی کہ ”وزیرمذہبی امور مولانا حامد سعیدکاظمی نے حج میں کرپشن کا اعتراف کرلیا ہے”۔ جس کی اسی روز شام کو مولاناکاظمی نے حلفیہ تردید کردی تھی۔ ان دنوں اعظم سواتی اور جیو ٹی وی ایک پیج پر تھے۔پھر وہ وقت آیا کہ ڈاکٹر خالد سومرو کے بیٹے مولانا فضل الرحمن کے تقدس کی قسم کھانے کی جرأت کررہے تھے ۔ انصار عباسی نے حامد میر کے پروگرام میں دستاویز ات دکھانے شروع کردئیے کہ مولانا فضل الرحمن ، اس کے بھائی اور اکرم درانی کے فرنٹ مین، سیکرٹری اورفلاں کے نام پر اتنی اتنی فوجی زمینیں الاٹ ہوئی ہیں۔
جب دہشت گردوں نے پختونخواہ میں خاص اور پاکستان میں عام طور پر خون خرابے کا بازار گرم کررکھاتھا تو انصار عباسی ان کی اس طرح تائید کرتا تھا کہ گویا نذیر ناجی نے اس کے خلاف100%سچی گالی بکی تھی۔صاحبزادہ حامد رضا نے جنرل فیض حمید کے بیٹے کی شادی کے بعد حالیہ انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ ” فضل الرحمن خلیل کے مدرسہ میں خود کش حملہ آور پکڑے گئے تھے جس میں ان مدرسہ کے اساتذہ بھی ملوث تھے اور ڈان نیوز میں یہ رپورٹ چھپ گئی تھی لیکن ہرجگہ خاص میٹنگوں میں اداروں کے افراد کیساتھ یہ بیٹھے نظر آتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ محمود خان اچکزئی کی وجہ سے ہمارے لوگ مارے گئے لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہورہاہے؟”۔
جب انصار عباسی کے سامنے کہا جاتا تھا کہ ” آئین میں صدر زرداری کو تحفظ حاصل ہے تو کہتا تھا کہ اسلام میں یہ جائز نہیں ہے کہ صدر کو آئین میں تحفظ ملے اور جب پاک فوج پر تنقیدکا کہا جاتا تھا تو انصار عباسی کہتا تھا کہ آئین میں ان پر تنقید کی اجازت نہیں ہے”۔ یہ منافقت والا اسلام انصار عباسی کے مفادات میں یوں ہچکولے کھارہاتھا کہ جب پیپلزپارٹی اور اسٹیبلیمشنٹ کی لڑائی سامنے آتی تھی تو موصوف کا ایمان پاک فوج کی طرف جھک جاتا تھا اور جب نوازشریف کے خلاف پاک فوج کا کردار نظر آتا تھا تو اس کا ایمان شریف خاندان کی طرف جھک جاتا تھا۔ پہلی مرتبہ پرویزمشرف کے سب سے جھوٹے وزیر محمد علی درانی نے میڈیا پر انصار عباسی کو واحد ایماندار صحافی قرار دیا تھا۔
جب نوازشریف کے خلاف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنے کی دوسری مرتبہ سیاست کھیلی تھی تو انصار عباسی کہتا تھا کہISIچیف اب آرمی چیف سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ حامد میر پر حملہ ہوا تو جیو ٹی وی نےISIچیف کا چہرہ اسکرین پر دکھایا کہ یہ دہشت گرد ہے۔ فوج پر حملہ کرنے کا کریڈٹ نواز شریف اور اس کے حواریوں کو سب سے پہلے جاتا ہے اور اب عمران خان کو بھی فوج سے لڑانے میں ان کا زبردست کردار ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے پہلے تین سال آرمی کے کھاتے میں جاتے ہیں اور آخری تین سال پارلیمنٹ کے مرہونِ منت ہیں جس میں نوازشریف ، عمران خان اور زرداری سب شامل ہیں لیکن اس کی وجہ سے فوج کو بدنام کرنے کی مہم جوئی بہت طریقے سے جاری ہے اور اس کے نتائج ملک وقوم کیلئے اچھے نہیں نکلیںگے۔ انصار عباسی کو مری کے گھر کیلئے شہبازشریف نے کروڑوں روپے کا سرکاری روڈ بناکر دیا تھا۔ مری کے بازاروں میں یورپ کا منظر تھا لیکن طالبان خود کش نہیں کرتے تھے اور پختونخواہ کے گھر، مساجد، مدارس ، بازار، چوک اور سیاستدان کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔
پشتو کہاوت ہے کہ ”جب سچ کا پتہ چلتا ہے تو جھوٹ گاؤں بہا کر لے جاچکا ہوتا ہے”۔ پاک فوج ضرب عضب آپریشن میں مشغول تھی اور عمران خان نے دھرنے کے اسٹیج سے پنجاب پولیس کے گلوبٹوں کو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کردی تھیں۔ جنرل راحیل شریف نے دو کام کئے تھے ایک دہشت گردوں کے خلاف راست آپریشن اور دوسرا فوج سے کرپشن کا خاتمہ۔ نوازشریف کے خلاف پانامہ کا اعمالنامہ جیو کے صحافی عمر چیمہ نے نکالاتھا لیکن نوازشریف نے جنرل راحیل شریف کو دھائی دینی شروع کردی کہ مجھے بچاؤ۔ پھر جنرل قمر جاوید باجوہ کو لایا لیکن پارلیمنٹ میں جھوٹے بیان اور قطری خط کے حوالے سے عدالت میں کاروائی چل رہی تھی اور نوازشریف بوکھلاہٹ میں اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں مارنے کے وار کر چکا تھا ۔ نااہل ہوا تو مجھے کیوں نکالا کی رٹ شروع ہوگئی۔ صحافی حضرات کی مشکل یہ ہے کہ کرائے پر چلتے ہیں اسلئے پورا سچ کبھی بتانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتے ہیں۔ دودھ کے دھلے ہوئے کون ہیں؟۔
جب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف سعودی عرب کو جھوٹی کہانی گئی یا یونہی یہ بنادی گئی ہے ؟ مگر جنرل قمر جاوید باجوہ کیلئے پہلے ن لیگ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم اس کو ایکسٹینشن نہیں دیںگے۔ جب بھی کہا یہی بولا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتے ہیں۔ نجم سیٹھی قلابازی کھاکھا کر کھا کھاکر ایک طرف عوامی مقبولیت کیلئے یہ بیانیہ پیش کررہاتھا کہ نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے، دوسری طرف کہتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نوازشریف سے ملی ہوئی ہے اور تیسری طرف بیان دیتا تھا کہ عمران خان کیساتھ گٹھ جوڑ ہے اور چوتھی طرف مارشل لاء کی افواہیں چھوڑتا تھا۔ جس طرف چاہتا تھا تو اپنا کلپ نکالنے کا حکم دیتا تھا کہ میں نے فلاں دن یہی بات کی تھی۔ اب حکومت کا حصہ بن گیا۔
ایک دفعہ ٹینشن پیدا ہوئی تو ن لیگ کے قریبی آدمی نے دعویٰ کردیا کہ ارشد شریف کو نوازشریف اور مریم نواز نے مروادیا ہے۔ میڈیا میں لوگوں نے تبصرہ شروع کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف کے خلاف اپنا مہرہ کھڑا کردیا ہے ۔ اب اسٹیبلشمنٹ منظر سے غائب ہے اور وہ شخص اپنی جگہ کھڑا ہے۔ ارشد شریف کی شہادت میں کینیا پولیس اور اس وقت موجود بلیک واٹر کے کارندوں کا کھیل قابلِ ذکر ہے۔ جب بڑے پیمانے پر پاکستان میں بلیک واٹر کے کارندوں کا کھیل جاری تھا تو اس وقت شہبازشریف طالبان کیساتھ کھڑاہوا کرتا تھا۔
القاعدہ ایک نمبر بھی تھا اور دونمبر بھی تھا، طالبان امریکہ کیلئے بھی گڈ اور بیڈ تھے اور پاکستان کیلئے بھی گڈ اور بیڈ تھے۔ امریکہ اور اسرائیل کا کھیل ایک بھی تھا اور الگ الگ بھی۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے کردار میں بھی الگ الگ معاملہ ہوتا تھا۔ آرمی چیف جنرل عاصم باجوہMIاورISIدونوںکے چیف رہے ہیں اور بھروسہ کرنا چاہیے کہ اچھا آدمی ہوگا۔ جنرل جاوید اقبال کو امریکہ کی جاسوسی کے الزام میں پہلے14سال کی ناجائزسزاسنائی گئی اور پھرکم کرکے7سال کردی اب اس کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔ امید ہے کہ فوجی اور عام عدالتوں سے اس کو بالکل بے گناہ ثابت کرکے مراعات بھی بحال کی جائیں گی۔ اس کی سزا کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ جنرل حمیدگل وغیرہ کے کلپ کو بطور دلیل پیش کیا جاتا تھا کہ فوج میں ترقی اور بڑی تعیناتی امریکہ کی ڈکٹیشن پر ہوتی ہے اور اس جھوٹ کا بھانڈہ کھل گیا۔
جب مولانا فضل الرحمن و زرداری کی حکومت تھی تو سی پیک کے مغربی روٹ کا افتتاح ہوگیا تھا۔ پھر نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن اقتدار میں آئے تو اس روٹ کو پنجاب کی طرف موڑ دیا جس میں راستے لمبے ہونے کے علاوہ فوگ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اگر پاکستان مغربی روٹ کو بحال کردے تو ٹول ٹیکس چین کی گاڑیوں سے زیادہ وصول کرکے قرضہ ادا کیا جاسکتا ہے اسلئے کہ اس میں پٹرول اور وقت کیساتھ بہت معاملات کی بچت ہوگی اور فوگ کی تکلیف بھی نہیں ہوگی۔ ناراض بلوچ اور پسماندہ پشتونوں کو کوئٹہ اور پشاور سے کاروبارکا فائدہ ملے گا۔
اوریا مقبول جان اور حمیدگل جیسے لوگوں کی زندگیاں جہاد اور جنت پانے کی تمنا میں گزرگئی مگر خود اور اپنے بچوں کواس سعادت سے محروم رکھا۔ اوریا مقبول جان نے اپنے نئے ویلاگ میں پھر کہا ہے کہ ” جہاد ہند شروع ہونے والا ہے اور پاکستان کا پتہ چل جائے گا کہ کس جانب کھڑا ہے؟”۔ جب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہم افغانستان میں دہشت گردوں کو گھس کر ماریںگے تو طالبان نے اس کے سخت جواب کو مناسب اور اپنا حق سمجھ لیا کہ ” ہم یہاں برطانیہ، روس اور امریکہ کی سپر طاقتوں کو پہلے بھی دفن کرچکے ہیں ایسی غلطی دہرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے”۔ اس پر میڈیا میں بحث مباحثہ تھا کہ افغانستان میں کاروائی کی خبر آئی۔ پاکستان نے اس کی تردید کردی اور افغانستان کے میڈیا نے اس کو اجاگر کردیا۔ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کا کام خارجہ امور پر بیان دینا نہیں تھا کیونکہ یہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو اور اس حناربانی کھر کا کام تھا جس نے کابل کا دورہ بھی کرلیاہے۔
رانا ثناء اللہ نے اسکے بعد زہریلا اور خطرناک چھکا یہ ماردیا۔ صحافی نے پوچھا کہ امریکہ نے ڈرون کے ذریعے تحریک طالبان کو افغانستان میں نشانہ بناکر پاکستان کی مدد کی ہے؟۔ جس پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ” فی الحال میں اس پر بات کرنا ملک کے مفاد کے خلاف سمجھتا ہوں اسلئے بات نہیں کرنا چاہتا ہوں”۔
TTPنے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی۔ پختون دہشتگردی کیخلاف مظاہروں میں کھڑے ہیں ۔TTPکے امیر نور ولی محسود نے علماء سے اپیل کی کہ بندوق رکھنے کا راستہ بتائیں۔ مثبت اقدامات کے بغیرپاکستان اور افغانستان لیبیا اور عراق بننے سے نہیں بچ سکیں گے۔ مل جل کر گریٹ گیم سے نکلنے میں ایکدوسرے کی مدد کریںگے تو معاملہ حل ہوجائیگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟