پاکستان کا وجود اسلام کیلئے لیکن سازش کا جال
مارچ 5, 2018
جب دنیا میں برطانوی اقتدار پر سورج غروب نہ ہوتا، برصغیر پاک وہند پر بھی انگریز کی حکومت تھی۔ روس بھی یورپ میں واقع ہے اور ایک دور میں روس کو سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے کہا کہ’’ ماسکو سے آذان کی آواز آئے گی‘‘۔ علامہ اقبال نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ابلیس کو خطرہ کمیونزم نہیں اسلام سے ہے ۔ ’’مزدوکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے‘‘۔ایک بڑے اعلیٰ سطح ابلیسی دماغ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا: انھم یکیدون کیدا واکیدکیدا ’’ بیشک وہ اپنا منصوبہ بناتے ہیں اور میں اپنا منصوبہ تشکیل دیتا ہوں‘‘۔ برصغیر پاک وہند میں گانگریس سے پہلے خلافت کی بحالی کیلئے تحریک چلی تو ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ تھے، پھر آزادی کیلئے گانکریس نے تحریک شروع کردی تو ہندوپیش پیش تھے اور مسلمان بھی شانہ بشانہ تھے۔
مولانا محمد علی جوہر کا اخبار کامریڈ ہو، یا مولانا ظفر علی خان کا اخبارزمیندار ہو، علامہ اقبال کی طرف سے فرشتوں کا گیت ہو’’ جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی ، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو‘‘ یا قائد اعظم محمد علی جناح کی گانگریس سے سیاست کا آغاز ہو، یا مولانا حسرت موہانی جیسے مسلم کمیونسٹ ہوں، سب ہی کی ہمدرددیاں اورتعلق کپٹل ازم کے مخالف سیاسی نظام کے مالک روس سے تھیں انگریز نے ہندو مسلم اتحاد میں منافرت کا بیج بونے کیلئے مشرقی بنگال کو علیحدہ صوبہ بنادیا تو ہندوؤں نے اسکا برامنایا، اگر ہندو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے تو مسلمان ایک الگ جماعت مسلم لیگ نہ بناتے۔ انگریز کے وفادار سر آغا خان اور نواب وقارالملک نے 1906ء مسلم لیگ( مسلم تحفظ موومنٹ)کی بنیاد رکھ دی اور پھر یہی تحریک پاکستان اور تقسیم ہند کا فارمولہ بن گیا۔ ابلیس کا اصل منصوبہ یہ تھا کہ جو برصغیرہندوپاک کے سیاسی زعماء اور علماء دنیا میں ابھرتی ہوئی دو سپر طاقتوں کے درمیان روس سے تعلق رکھتے ہیں وہ آپس میں تقسیم ہوں۔ ایک ٹولہ ایسا ہو جو اس برِ صغیر پاک وہند کو روس کے بلاک میں شامل ہونے سے روک لے۔
اگر اسوقت پاکستان ایک آزاد مملکت نہ بنتا تو برصغرپاک وہند پورے کا پورا روسی بلاک کا حصہ ہوتا۔ یوں امریکہ اور دائیں بازو میں شامل بلاک کیلئے ممکن نہ ہوتا کہ افغانستان کی سر زمین پر روس کو ایسی شکست دیتے کہ وہ سپرطاقت بننے کا خواب بھول کر سمٹنے پر مجبور ہوتا۔ جو اسلام اسلام اور جہاد جہاد کھیل رہے تھے ان کا نمائندہ پاکستان کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ میونخ جرمنی میں برملا کہہ رہا ہے کہ’’ 40سال پہلے روس کیخلاف جہاد کے نام پر جو کچھ ہم نے بویاتھا، اسی کو کاٹ رہے ہیں‘‘۔یہی نہیں بلکہ شروع سے ابلیس کی منصوبہ بندی پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک پاکستان کاآغازاصل میں مشرقی پاکستان کے صوبہ بنگال سے ہوا تھا اور ہندوستان کی ان آبادیوں سے یہ آواز اٹھی تھی جہاں پر مسلمانوں کی اقلیت اور ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ اگربنگال پاکستان نہ بنتا تو بھی ابلیس کو فرق نہ پڑتا تھا اسلئے کہ مغربی پاکستان کی پٹی ہی برصغرپاک وہنداور روس کے درمیان اصل رکاوٹ تھی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بناتو روس کو امریکہ نے مغربی پاکستان کے ذریعے سے شکست سے دوچار کردیا ۔ ابلیس اپنے منصوبہ کو تکمیل تک پہنچنے میں بظاہر کامیاب نظر آتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو ہندوستان کے ذریعے تباہ کرنا چاہتا ہے اور ہماری مدد روس کرے بھی تو کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ اسلام کے نام پر قربانیاں دینے والے مجاہدین کو بھی پاکستان سے کوئی ہمدردی نہیں رہی ہے۔ پاکستان اپنے بال وپر کاٹ چکا ہے۔
ابلیس کی منصوبہ بندی پر ایک تفصیلی بحث ہوسکتی ہے لیکن کچھ ذکر اسکا بھی ہو، جو اللہ نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ کا تعلق کانگریس سے تھا،وہ پاکستان بننے سے پہلے وفات پاگئے ، وہ تفسیر’’ المقام المحمود‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ سندھ، بلوچستان، پنجاب، فرنٹےئر، کشمیر اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں، یہ سب امامت کی حقدار ہیں، اسلام کی نشاۃ ثانیہ اس علاقے سے ہوگی۔ یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے، اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلہ میں لے آئیں تو ہم اس خطے سے تب بھی دستبردار نہ ہونگے‘‘۔ سورہ القدر کے ضمن میں یہ تفسیر لکھ دی ہے۔ اس کو اللہ کی طرف سے منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے آنے والے اردو اسپیکنگ مہاجر یہاں کے رولر کلاس تھے۔ قبائل نے مغل بادشاہ اکبر، راجہ رنجیت سنگھ اورانگریزکی حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن جب پاکستان بن گیا تو قائداعظم کے حکم پر 1948ء میں کشمیر کے اندر بھی جہاد کیا اور مظفر نگر تک فتح کے جھنڈے بھی گاڑھ دئیے تھے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ایک بااختیار فوجی افسر کا اعزاز حاصل تھا اور اس کی ہندوانہ ذہنیت نے ہندوستان سے سازباز کرکے اقوام متحدہ کے بہانے قبائل کو کشمیر سے نکالنے کی چال چلی تھی۔
قبائل پاکستان کے بہت وفادار شہری ہیں۔ طالبان کی حمایت کرنیوالی تمام سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ سمجھا جاتا تھا۔ نوازشریف، شہباز شریف، جماعت اسلامی ، عمران خان وغیرہ وغیرہ کھل کر طالبان کی حمایت کرتے تھے اور قبائل سمجھتے تھے کہ طالبان کو پاکستان کی ریاست کی اشیرباد حاصل ہے۔ طالبان کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان قبائل اور خاص طور پر محسود قبائل نے اٹھایاہے لیکن محسود قبائل نے کبھی اُف تک نہیں کیا۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ فوج کے سپاہی نے ایک محسود کو پکڑ کر کہا کہ سچ بتاؤ کہ تمہاری ہمدردی فوج کیساتھ ہے یاطالبان کیساتھ؟۔ محسود نے کہا کہ سچ بتاؤں گا تو آپ مجھے پیٹھ ڈالوگے، فوجی نے کہا کہ میرا وعدہ کہ بالکل بھی کچھ نہیں کہوں گا۔ محسود نے کہا : ’’صاحب! سچی بات پوچھتے ہو تو اس کا جواب سن لو۔ تم فوجی انبیاء کرام ہو اور طالبان صحابہ کرام ہیں، بس کافر ہم عوام ہیں، جن کو دونوں طرف سے مارپڑ رہی ہے‘‘۔
محسود دقوم میں تین قبیلے بہلول زئی، منزئی اور شمل خیل ہیں۔ بہلول زئی و منزئی بہادر، جرأتمند ، بے باک جبکہ شمن خیل سیاسی تصور ہوتے ہیں۔ طالبان میں بہلول زئی ومنزئی نے بڑا حصہ لیا جبکہ شمن خیل پیچھے رہے۔ طالبان کے عروج میں شمن خیلوں کو لدھا طلب کرکے کہاگیا کہ ’’تم محسود نہیں ہو، تمہارے اندر غیرت اور ایڈونچر کا جذبہ نہیں، سب نے طالبان میں اپنا حصہ ڈالا،اور تم پیچھے رہ گئے، تم پختون بھی نہیں ہو‘‘۔ ایک شمن خیل نے جواب دیا کہ’’ یہ تم غلط کہہ رہے ہو، ہم پختون بھی ہیں محسود بھی ہیں، غیرتمند اور جرأتمند بھی ہیں۔ البتہ ہمارے اندر کوئی چور نہیں ہے‘‘۔مقصد یہ تھا کہ طالبان چوروں کا ایک ٹولہ ہے۔
لوگوں کی راۓ