پارلیمنٹ میں بل آسکتا ہے کہ ایک پیر کی جوتی چیف جسٹس ،دوسرے کی آرمی چیف ہو؟ - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

پارلیمنٹ میں بل آسکتا ہے کہ ایک پیر کی جوتی چیف جسٹس ،دوسرے کی آرمی چیف ہو؟

پارلیمنٹ میں بل آسکتا ہے کہ ایک پیر کی جوتی چیف جسٹس ،دوسرے کی آرمی چیف ہو؟ اخبار: نوشتہ دیوار

پارلیمنٹ میں بل آسکتا ہے کہ ایک پیر کی جوتی چیف جسٹس ،دوسرے کی آرمی چیف ہو؟

جیواورحامد میر نے سفید جھوٹ کہا کہ فوج نے عدلیہ کیخلاف فیصلہ دیا ۔ اتوار کا پورا دن گزار دیا اور کوئی فیصلہ اس خوف سے نہیں کیا کہ عدلیہ نا اہل کردے گی۔ یہ ثبوت ہے کہ فوج نے یقین نہیں دلایا

جسٹس اطہر کے اختلافی نوٹ میں سیاست سے دور رہنے کی بات تھی لیکن اس کا ساتھی جسٹس فائز عیسیٰ حیرت انگیز طور پر پارلیمنٹ پہنچ گیا۔ یہ اس نظام کے خاتمے کی نوید لگتی ہے۔

عدلیہ اور پارلیمنٹ نے آئین کو توڑنے کی گولڈن جوبلی منائی ہے۔ پاک فوج کو سیاست سے دور رہ کر اپنے معاملات درست کرنے چاہئیںتاکہ وہ اپنا کھویا ہوا اعتماد عوام میں بحال کرسکیں

پاک فوج واحد ادارہ ہے جس سے پاکستانی ریاست کا استحکام وابستہ ہے۔ اس کے جوان بے لوث قربانی دیکر شہادت کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ اسکے قابل ترین افسروں نے ملک کو مذہبی ، لسانی ، سیاسی اور نظریاتی جنگ وجدل سے محفوظ رکھنے میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ صحافی ، سیاستدان ، حکومت ، اپوزیشن اور سبھی ان کو دعوت دیکر اپنے مخالف کے خلاف اکسانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ آج چیف جسٹس عمرعطابندیال سے پارلیمنٹ ٹکرانے کی ناجائز کوشش کرتی ہے تو قانون کی بالادستی کیلئے طاقت کا استعمال بہت ضروری ہے۔پہلے بھی ایک مرتبہ نوازشریف نے سپریم کورٹ پر اپنے ججوں اور پھر کارکنوں کے ذریعے سے ہلہ بول دیا تھا۔ اگر اس وقت مارشل لاء بھی لگادیا جاتا تو لوگ اس کو احسن قدم کہتے ۔ تحریک انصاف اور ن لیگ نے جن صحافیوں کو لفافوں کی قیمت پر لگایا ہے ،ان کو کٹہرے میں لانے کی سخت ضرورت ہے۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ ہمارے آرمی چیف سید عاصم منیر نے عدالت کے خلاف گرین سگنل دے دیا ہے ، دوسرا اپنی طرف سے ریڈ سگنل کی بات کرتا ہے۔ان کا مقصد آرمی چیف کی حمایت اور مخالفت سے پاک فوج کی مٹی پلید کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پہلی فرصت میں پنجاب کی45ہزار ایکڑ اراضی پنجاب کی حکومت کو نہیں غریب مزارعین کسانوں میں بانٹ دیں۔ ایسا نہ ہوکہ مزارعین کے لبادے میں جاگیردار اور سیاستدان بھی اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے پہنچ جائیں۔ جب اکرم خان درانی اور مولانا فضل الرحمنGHQسے زمین لیتے ہیں تو شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، یوسف رضا گیلانی اور ملک بھر کے دوسرے جاگیردار اور سرمایہ دار بھی ان سے زیادہ بھوکے ہیں۔ آرمی چیف سیدعاصم منیر قرآن کے حفظ اور سادات کی لاج رکھتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھائیں کہ ملک میں کمزور طبقے میں عزت بڑھ جائے۔ ان سیاسی جماعتوں کے زر خرید میڈیا ٹولز سے ہرگز نہیں گھبرائیں۔ انہوں نے عزت نہیں دینی ہے بلکہ اپنے کردار کے ذریعے اللہ نے عزت دینی ہے۔ عمران خانیوں کا جوش جنون واقعی خطرناک حد تک بڑھا ہوا ہے لیکن اس کا مقابلہ طاقت نہیں شعور سے کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب کے لوگوں میں شعور کی بہت کمی ہے اور جن لوگوں میں تھوڑا بہت شعور ہے وہی عمران خان کیساتھ کھڑے ہیں۔ اس باشعور طبقے کو مزید شعور دینے کی سخت ضرورت ہے۔
جب پاک فوج اعلان کرے گی کہ ملک کی خاطر ہم اپنے پر تعیش علاقوں کو اپنے ہم وطنوں پر بیچ رہے ہیں اور خود جنگل میں منگل بنارہے ہیں تو پاکستانی ہی اپنا پرائیوٹ پیسہ باہر سے لاکر انویسٹ کردیںگے۔ ملک کے قرضے بھی تمہاری اس قربانی کی وجہ سے اتر جائیںگے اور قوم میں ایسی عزت بحال ہوگی کہ اللہ تمہیں امر کردے گا۔ سیاستدانوں ، کرپٹ ججوں ، جرنیلوں اور صحافیوں نے مل بیٹھ کر پاکستان کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ معاشی استحکام کی جنگ جب تک فوج خود ہمت نہیں کرے گی تو سیاستدانوں نے کچھ بھی نہیں کرنا اور نہ ان کو کچھ کرنا آتا ہے۔ انہوں نے مال کمانے کے طریقے سیکھ لئے ہیں۔ جرنیلوں اور ججوں میں گنتی کے چند افراد کرپٹ ہوں گے ،انہوں نے تو ٹبر کے ٹبر تیار کر رکھے ہیں۔
زرداری جب الطاف حسین سے بات کرتاہے تو اپنی بیٹی آصفہ اور الطاف کی بیٹی فضا اور ان کی نسلوں تک سلسلہ جاری رکھنے کی بات کرتا ہے۔ پاکستان کو جمہوری ملک بنانے کے بجائے مغل سلطنت کے دور میں راجے مہا راجے کے خواب دیکھے جارہے ہیں۔ عوام بیچاروں کو اقتدار اور اس کے فوائد کی معلومات تک نہیں ہوتی ہیں لیکن سیاستدان فوج کیساتھ مال منڈی کے دلالوں کی طرح انگلیوں کے اشاروں سے عوام اور مال بیچنے والوں کے درمیان سودا طے کرکے اپنے مالی فوائد اٹھاتے ہیں۔ ریاست اور عوام کے درمیان حکومت دلالی کرنے کے بجائے اپنے اصل کردار کو ادا کرے گی تو یہاں سیاستدان کے کپڑے اتریں گے اور نہ فوج کے کوئی کپڑے اتار سکے گا۔ پاکستان سب کا مشترکہ گھر ہے اور یہ قیامت تک اس وقت باقی رہ سکتا ہے کہ جب اس کے مکین عوام ہوں اور عوام ہی سے اُٹھ کر لوگ سیاست اور ریاست کی خدمت کررہے ہوں۔ عوام مرگئے ہیں یا مارے گئے ہیں؟۔اسلئے کہ یہاں کوئی اہل قیادت نہیں ہے۔ فوج میں آرمی چیف تو چند افسران میں سے قسمت پر سلیکٹ ہوجاتا ہے اور اس کی ساری زندگی اس ملازمت میں گزری ہوتی ہے جس میں اپنے افسران بالا کے حکم کی بجا آوری میں اس کے دماغ کی رگیں بہت کمزور ہوجاتی ہیں۔ جب اس کو اچانک بہت بڑا اختیار مل جاتا ہے تو رہی سہی عقل بھی کام نہیں کرتی ہے اسلئے کہ ادارے نے اپنا پریشر ڈالنا ہوتا ہے۔ بیرون واندرون ملک کے مسائل اپنی جگہ ہوتے ہیں اور سیاسی ومذہبی دباؤ کا سامنا الگ ہوتا ہے ۔اس عاشقی میں لیلائے سیاست کی کئی دلہنیں سج دھج کر کھڑی ہوتی ہیں اور بندہ ناچیز کو بھگوان سمجھ کر دیوی کا کردار کی پیشکش کرتی ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ شطرنج کے مہرے کی طرح اس کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے اور بھگوان سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرح ڈائن کے مقام ومرتبہ پر کھڑا کرکے کھایا پیا سب ہضم لیکن بلغم اس کے منہ پر پھینکا جاتا ہے اور ساری برائیوں کی جڑ ریٹائرڈ آرمی افسر بن جاتا ہے اور مغویہ حاملہ اور جبری زیادتی کا شکار نئے الیکشن کی تیاری کرنے والی لیلائے سیاست بن جاتی ہے۔
پاکستانی دو چیزوں کو پسند کرتے ہیں ۔ایک بہادری اور دوسری مظلومیت۔ مولانا عبدالغفور حیدری بھی اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرنے کیلئے کہتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو جنرل باجوہ نے گھر پر بلواکر بہت فحش گالیاں بکیں اور آخر کار میرا پیمانہ صبر لبریز ہوا تو جنرل باجوہ کو شٹ اپ کی کال دی۔ اکرم شیخ ، ابصار عالم اور سارے صحافی اور سیاستدان اپنی کہانیاں بتاتے ہوئے بہادری اور مظلومیت کی داستانیں بتاتے ہیں۔ حامد میر نے خبر دی کہ شہباز گل کو ننگا کرکے مارا گیا لیکن احمد نورانی نے اس خبر کو جھوٹ قرار دے دیا۔ حامد میر نے کپڑے اتارنے کے بعد اپنی چڈی تک بات پہنچادی تھی لیکن یہ ایک واقعہ ہوگا اور اس میدان کا وسیع تجربہ ہوگا یا مظلومیت اور بہادری کے قصوں کا محض شوق؟۔فوجی سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹی بہادری بھی ایک کمال تو ہے؟۔ اگر قرآن وسنت کے ٹھوس احکام کو عوام میں عام نہیں کریںگے تو پاکستان ہاتھ سے ایسا نکل جائیگا جیسا کہ جنگلی درندہ!۔ جو نکلتے وقت زخمی بھی کرسکتا ہے اور جان سے مار بھی سکتا ہے۔
اگر پاکستانی قوم کی حالت دیکھ لی جائے تو ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے ؟، کس کی شامت ہے ؟، کس کی تذلیل ہے؟، کون اچھا ہے؟، کون برا ہے؟، حکومت جائے یا اپوزیشن آئے عوام کی اکثریت اس سے بالکل لا تعلق ہے اور یہ لاتعلقی بہت خطرناک ہے۔ یہ بھی بڑی غنیمت ہے کہ عمران خان کو کچھ چاہنے والے مل گئے ہیں۔ جو میڈیا کو سیاسی سرگرمیاں فراہم کررہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے جتنی نفرت آصف زرداری سے قوم کو دلائی ہے وہ اتنی آسانی سے نکلنے والی نہیں ہے۔ ہر برائی کی جڑ آصف زرداری کو سمجھا جاتا ہے اور اس کا سارا کریڈٹ کھمبوں سے لٹکانے کی دھمکی دینے والے شہباز شریف کو جاتا ہے۔ اب ان کی دوستی پر دنیا پریشان ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف کیس بھی کئے، عدالتوں سے فیصلے بھی لئے اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر خود کو معصوم سمجھنے کی اُمید بھی عوام سے لگائے بیٹھے ہیں۔ کچھ تو عقل کریں۔ عمران خان بڑا دبنگ انسان ہے لیکن جب وزیر اعظم بن گیا تو اس کی ساری دھمکیاں اس وقت ڈھبر ڈوس ہوئیں جب عبوری حکومت کی طرف سے گرفتار کیا گیا نواز شریف اس کی اجازت سے نکل گیا۔ مریم نواز تیمارداری کے غرض سے ضمانت پر رہا ہوئی تھی لیکن بیمار لندن پہنچ گیا اور تیمار دار مریم نواز عمران خان کو ترکی بہ ترکی زبردست جواب دیتی رہتی تھی۔ میلا اب صرف ایک عمران خان نے گرم کرکے رکھا ہے اور دوسری مریم نواز ہے۔ دونوں کچھ کرسکتے ہیں یا نہیں؟۔ لیکن ایک دوسرے پر جملے زبردست کس کر مارسکتے ہیں۔
عوام بھوکی ہے، ننگی ہے ، بیروزگار ہے، جملوں سے ان کا پیٹ نہیں بھرتا ہے اور مریم نواز اور عمران خان جملے بازیوں سے میاں مٹھو کی طرح بولنے والے غریب عوام کو کچھ نہیں دے سکتے تو اب ان کی آواز بھی نہیں نکل رہی ہے۔ میدان ہے اور اس میں عمران خان اور مریم نواز ایک دوسرے کیخلاف میچ کھیل رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی جیتے یا ہارے لیکن عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہے۔
عوام کو جگانے کیلئے ایک ہی طریقہ کار باقی رہ گیا ہے کہ قرآن کی طرف ان کو راغب کیا جائے۔ اور علماء و مفتیان نے دین کا جس طرح سے کباڑہ کرکے رکھا ہے اس سے ہٹ کر واقعی پاکستان سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کیا جائے اور فرقوں ، جماعتوں ، گروہوں، تنظیموں اور پارٹیوں سے ہٹ کر موٹے موٹے احکامات سے لوگوں کو آگاہ کرکے زندگی کے نئے رخ پر انکو ڈالا جائے۔ پاکستان لا الہ الا اللہ کے نام پر بنا تھا اور آئین پاکستان میں بھی قرآن و سنت کی بالادستی ہے لیکن ہمارے ہاں مذہب کا استعمال بھی بلیک میلنگ کیلئے کیا جاتا ہے۔
جماعت اسلامی آج کل اپنے ماضی کے دشمن قوم پرستوں کو خوش کرنے میں لگی ہے۔ جب جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے آرمی کے خلاف کچھ کہا تھا تو جماعت اسلامی نے اسے ہٹا کر سراج الحق کو امیر بنادیا۔ جو بھی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار رہی ہو یا اس کی پیداوار ہو جب تک ان پر پابندی نہ لگائی جائے پاکستان کا ماحول درست نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ سینیٹر مشتاق احمد خان کا مطالبہ ہونا چاہیے۔ اشرافیہ کا تعلق جس جماعت ، جس پارٹی اور جس تنظیم سے ہو اس کو عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بل بھی انگریزی زباں میں پیش کئے جاتے ہیں۔ مدارس کے نصاب ، قرآن کے ترجمے اور تفسیر میں اتنی بڑی بڑی غلطیاں ہیں۔ حلالے کے نام پر عزت دار خواتین کی عزتیں لٹ رہی ہیں لیکن نام نہاد مذہبی جماعتوں کو اس کا کوئی احساس تک نہیں ہے۔ جب کل اس پر کوئی بازار گرم ہوگا تو خطابت کے جوش دکھانے والے میدان میں اتریں گے اور لوگوں کو سمجھ میں آئے گا کہ یہ بیچارہ پتہ نہیں کب سے اس ایشو کیلئے مرا جا رہا تھا؟۔ تقریریں ان کے دل کی گہرائیوں سے نہیں نکلتیں بلکہ یہ انہوں نے اس طرح سے مشق کی ہوئی ہوتی ہے جیسے سکول کی بچیاں تقریریں کرتی ہیں اور کسی اُستاد کی لکھی ہوئی تقریر سے آسمان اور زمین کی قلابیں ملائی جاتی ہیں۔
سنجیدہ بات یہ ہے کہ جب ختم نبوت کے خلاف پارلیمنٹ میں بل پاس ہورہا تھا تو ایک ظفر اللہ جمالی تھا جس نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا کہ میں ایسی اسمبلی کا رکن نہیں رہ سکتا جس میں خاتم الانبیاء رحمت للعالمین ۖ کے خلاف یہ سازش ہو۔ اس ظفر اللہ جمالی پر پوری جماعت اسلامی ، پوری جمعیت علماء اسلام اور پوری مسلم لیگ و پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں کے قائدین ، رہنما اور کارکن قربان ہوں۔ یہ سارے بکواسیہ موقع ملنے پر بک بک کرتے ہیں لیکن کسی نے بھی ناموس رسالت کیلئے اسمبلی اور اپنی جماعت سے استعفیٰ دینے کی جرأت نہیں کی ہے۔ ظفر اللہ جمالی آزاد حیثیت سے رکن پارلیمنٹ بنے تھے اور پھر مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے اور جب ختم نبوت کے خلاف سازش ہوئی تو وہ اسمبلی سے مستعفی ہوگئے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے گھرائیں تھے وہ بتائیں گے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر استعفیٰ دیا تھا یا اپنے ضمیر کے مطابق ایمان کا مظاہرہ کیا تھا؟۔ حافظ سعد حسین رضوی بھی اپنے باپ کی عزت و ناموس کیلئے عدالت میں پیش ہوں اور جسٹس فائز عیسیٰ سے معلومات حاصل کریں کہ کس طرح اس کے باپ نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر لوگوں کو قربانی دینے پر اکسایا تھا؟ ۔ اگر وہ ثابت کردیں تو تحریک لبیک کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جسٹس فائز عیسیٰ کو اپنے فیصلے کی جوابداری کرنی چاہیے۔ نواز شریف نے بڑے بڑوں کو شیشوں میں اتارا ہے ۔ اللہ خیر کرے پارلیمنٹ ، عدلیہ اور فوج کی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟