پوسٹ تلاش کریں

جمہوریت ایک بہترین نظام ہے قرآن و سنت میں شوریٰ کا تصور جمہوریت کی بنیاد ہے لیکن ہمارے ہاں کی جمہوریت ڈکٹیٹر شپ سے بھی زیادہ اخلاقیات کی تباہی کا ذریعہ ہے پاکستان میں جمہوریت سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔

جمہوریت ایک بہترین نظام ہے قرآن و سنت میں شوریٰ کا تصور جمہوریت کی بنیاد ہے لیکن ہمارے ہاں کی جمہوریت ڈکٹیٹر شپ سے بھی زیادہ اخلاقیات کی تباہی کا ذریعہ ہے پاکستان میں جمہوریت سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ اخبار: نوشتہ دیوار

جمہوریت ایک بہترین نظام ہے قرآن و سنت میں شوریٰ کا تصور جمہوریت کی بنیاد ہے لیکن ہمارے ہاں کی جمہوریت ڈکٹیٹر شپ سے بھی زیادہ اخلاقیات کی تباہی کا ذریعہ ہے پاکستان میں جمہوریت سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے والوں نے پتھروں سے استقبال، مرغے کی طرح کھال اتارنے کی دھمکی اور قتل کرنے تک بات پہنچائی ہے۔ وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پور نے جلسہ عام میں کہا کہ اگر دوسرے الیکشن جیت بھی جائیں تو حکومت ہماری ہے، ہم بلدیات کے دفتروں میں ان کو گھسنے بھی نہیں دیںگے،صوبائی وزیر بلدیات بھی میرا بھائی ہے۔ اس کے علاوہ علی امین گنڈہ پور نے یہ بھی کہا ہے کہ مریم نواز کو مولانا نے اپنوں کیلئے حلال کیا ہے تو ہمارے لئے بھی اس کو حلال کرلے۔ جمعیت علماء اسلام کے ایک سخت مخالف نے علی امین کی زبان پر بہت سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری طرف علماء کے ایک حامی نے کہا کہ ایک مولوی تقریر کررہاتھا کہ ہم نے علی امین گنڈہ پور سے پوچھا کہ آپ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہو؟۔ اس نے کہا کہ ہاں میں اس کو نبی مانتا ہوں۔ پھر ہم نے کہا کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے تواس نے کہا کہ ہاں اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ گاؤں دیہاتوں کے لوگ ان گمراہیوں سے بچ گئے ہیں لیکن شہروں میں یہ بہت فتنے ہیں۔
ہماری حکومت،ریاست، سیاسی ومذہبی رہنماؤں اورکارکنوں کا یہ حال رہا تو لوگ کبھی اچھے دن نہیں دیکھ سکیں گے۔ جمہوریت میں ایکدوسرے کیخلاف غلیظ پروپیگنڈے کے بجائے شائستگی سے اپنی خوبیاں اور دوسروں کی خامیاں بھی بتائی جاتیں تو بھی مناسب نہیں تھا بلکہ جمہوریت کا اصلی تقاضہ یہ ہے کہ اپنی خامی اور دوسروں کی خوبیا ں بتائی جاتیں تو انتخابات کے ثمرات سے استفادہ ملتا۔ جب حضرت عمرنے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کیلئے پہل کی تھی تو حضرت ابوبکر کیلئے یہ ناگوار تھا اور جب حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی نامزدگی کا اعلان کیا تھا تو حضرت عمر کیلئے یہ بات ناگوار تھی۔ لوگوں کا ایک مزاج ہے کہ کوئی چڑھتے سورج کا پجاری ہوتا ہے اور کوئی قرابتداری کی محبت میں پاگل بنتا ہے اور کوئی خاندانی بنیاد پر ترجیحات میں پہلوان ہوتا ہے۔ کوئی اپنے استحقاق کیلئے زنجیریں توڑتا ہے۔
پیغمبر انقلاب خاتم الانبیاء والمرسلینۖ نے صحابہ کرام کا ہرقسم کی آلائشوں سے تزکیہ فرمایا تھا۔ تاہم انسان پھر بھی اپنی اپنی خصلت کی طرف رحجانات رکھنے سے باز نہیں آتا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”اگر پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو مان لینا لیکن انسان اپنی فطرت سے ہٹ جائے تو نہیں ماننا”۔انسان ایک طرف ” احسن تقویم ” تو دوسری طرف ”خلق الانسان ضعیفا ”ہے۔ ایک طرف انسان مٹی سے پیدا کیا گیا اوردوسری طرف اس میں اللہ نے خود روح پھونک دی ہے۔ اعلیٰ علیین اور اسفل السافلین دونوں مقام انسان مکلف ہونے سے حاصل کرسکتا ہے ۔ لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا ”اللہ مکلف نہیں بناتا ہے کسی نفس کو مگر اس کی وسعت کے مطابق”۔ مکلف ہونے کا مطلب انسان کی استعداد ہے ، اگر انسان میں بہت اچھا کرنے کی صلاحیت ہو اور وہ اس کیلئے جدوجہد نہیں کرتا ہے تو یہ اپنے مکلف ہونے کا حق ادا نہیں کرتا ہے ۔ ایک آدمی میں چوکیدار بننے کی اور دوسرے میں دنیا کو بدلنے کی صلاحیت ہے تو دونوں سے اسکی پوچھ گچھ ہوگی۔
سورۂ بقرہ کی آخری آیت میں ترجمہ کرنے والوں نے اردو کی تکلیف مراد لیا ہے کہ ” اللہ انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے”۔ حالانکہ اس کا کوئی تُک نہیں بنتا ہے اسلئے کہ اللہ نے اس آیت میں ولاتحملنا مالا طاقة لنا کی دعا بھی سکھائی ہے کہ ” ہم پر ایسا بوجھ نہ لاد یں جس کی ہمیں طاقت نہیں”۔ اگر اللہ طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالتا نہیں تو پھر ایسی دعا کیوں سکھاتا ہے؟۔ بوجھ تلے کوئی مرتا ہے، کوئی ذلیل اور خوار ہوتا ہے اور کوئی انتہائی مشقت اٹھاتا ہے۔ پہلی قومیں بھی عذاب کے بوجھ تلے تباہ ہوئیں اور اہل حق پربھی باطل نے بوجھ ڈالاتھا اور میری اماں محترمہ نے میرے بارے میں کہا تھا کہ ” اس کی مثال ایسی ہے جیسے گدھے نے اُونٹ کا بوجھ اٹھایا ہو”۔ وزیرستان اور گومل میں اونٹ اور گدھا بوجھ اُٹھانے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ انگریز نے پانی کی موٹروں کو ہارس پاور کانام دیا ہے اور قرآن میں گدھے اور گھوڑے کو سواری اور زینت کیلئے تخلیق کی بات ہے۔ حدیث میں شہروں کے اندر اتنی کھلی گلی چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا کہ جن میں دومال بردار اونٹ آسانی کیساتھ گزر سکیں۔ ہم آج کی دنیا میں بھی بہت پیچھے ہیں۔
جب نبی کریم ۖ پر قرآن نازل ہوا تو آپ ۖ کا کیا حال ہوا ہوگا اسلئے کہ اللہ نے فرمایا کہ ” اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو اس کوآپ دیکھتے کہ ریزہ ریزہ ہوکر اس میں ہل چل مچ جاتی،اللہ کے خوف سے”۔ بعض لوگ اپنی کم عقلی کے باعث غلام احمد پرویز کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر احادیث صحیحہ کا انکار کررہے ہیں۔ جن میں معروف اور بہت اچھے اہل حدیث عالم دین مولانا اسحاق فیصل آباد والے بھی شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ الم نشرح لک صدر ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک ”کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھولا اور آپ سے وہ بوجھ نہیں اٹھایا؟ جس نے آپ کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی”۔ رحمت للعالمینی کا جتنا بڑا منصب تھا، اتنا زیادہ بوجھ تھا اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف جاہل مشرکینِ مکہ کاتعصب تھا تو دوسری طرف یہوداور منافقین کی ریشہ دوانیاں تھیںاور تیسری طرف اعراب کا دیہاتی ، جاہل پن اور مفاد پرستی تھی اور چوتھی طرف اپنے مہاجرین وانصار کے درمیان توازن برقرار رکھنا اور تعلیم وتربیت ، تزکیہ اور حکمت سکھانے کا مسئلہ تھا۔
جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تو اللہ نے فرمایا کہ انا فتحنا لک فتحًامبینًا لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتأخر ” ہم نے آپ کو کھلی فتح عطاء کردی ہے تاکہ آپ سے وہ بوجھ ہٹ جائے جو آپ کو پہلے اور بعد کے حوالے سے دامن گیر تھا”۔ اردو میں ”معاف کرنا” اور انگلش میں ایکسکیوز کے الفاظ بہت معانی میں استعمال ہوتے ہیں۔ جب کوئی اردو اور انگریزی نہیں سمجھتا ہوتو محاوروں کے ترجمے میں بہت غلطی کرے گا۔ ایک آدمی بھکاری سے کہتا ہے کہ ”مجھے معاف کرنا”۔ اب کوئی کم عقل اس کی توجیہ یہ پیش کرے کہ اس نے کوئی جرم کیا تھا اسلئے بھکاری سے میرے سامنے کھلے الفاظ میں معافی مانگ لی تو یہ اس کی زبان کو نہ سمجھنے کی غلطی ہوگی۔ مغفرت اور ذنب کے الفاظ عربی میں مختلف معانی کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ سیاق وسباق کو دیکھ کر معانی کا تعین ہوتا ہے۔
اللہ نے قرآن میں واضح کیا ہے کہ انا عرضنا الامانة …….. ” بیشک ہم نے امانت کو پیش کیا آسمانوں پراور زمین پر اور پہاڑوں پر تو انہوں نے انکار کیا کہ اس کا بوجھ اٹھائیں تو انسان نے اس کابوجھ اٹھالیا، بیشک وہ بہت اندھیرے اوربہت جہالت میں تھا”۔انسان کو اللہ نے مکلف ہونے کا بوجھ اٹھانے پر نادان قرار دیا ہے۔ مکلف ہونے کو ہی امانت قرار دیا ہے۔ انسان مکلف ہے۔ انسان اپنی فطرت سے ہٹنے والا نہیں ہے، اس کی چاہت ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس کو اختیارات مل جائیں۔ کسی بھی انسان سے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ اس کی خواہش یہ ہو کہ پوری دنیا کے اختیارات اس کو مل جائیں لیکن وہ یہ پرواہ نہیں کرتا ہے کہ ایک معمولی ذمہ داری کا حق ادا نہ کرنے پر بھی اس کی نااہلی ثابت ہوتی ہے تو زیادہ سے زیادہ اختیارات کے ملنے کے بعد وہ اپنی نااہلیت سے جان چھڑاسکے گا؟۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” جو اپنی چاہت سے کوئی عہدہ ومنصب مانگ لیتا ہے تواللہ اس کی مدد نہیں کرتا ہے لیکن اگر اس کو عہدہ ومنصب دیدیا جائے تو پھر اللہ بھی اس کی مدد کرتا ہے”۔ نبیۖ نے انسانی جبلت کو دیکھ کر اسکی اصلاح کیلئے فرمان جاری کیا تاکہ انسان زیادہ اختیارات اور منصب مانگنے کے چکر میں نہ پڑے لیکن جب اس پر کوئی ذمہ داری ڈالی جائے تو اس کو قبول کرنے سے انکار بھی نہ کرے۔ اس نظام زندگی کو اسی طرح سے بہت ہی اچھے انداز میں چلا یاجا سکتا ہے۔
نبیۖ کے وصال کے بعد اختیارات اور منصبِ خلافت کیلئے انصار نے اپنا اجلاس طلب کرلیااور اس طبقاتی تقسیم اور اختیارات کے حوالے سے خطرناک رحجان کو بھانپ کر مہاجرین کے کچھ سرکردہ لوگ بھی وہاں پہنچ گئے۔ ہنگامی اجلاس جس مقصد کیلئے منعقد ہوا تھا تو اس رحجان کا خاتمہ کردیا گیا اور حضرت ابوبکر سے بیعت کیلئے حضرت عمر نے ہاتھ بڑھائے اور پھر انصارومہاجرین نے آپ پر ہی اتفاق کرلیا۔ اہل بیت کے کچھ لوگوں کو اس ہنگامی فیصلے پر تشویش تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ اگر حضرت ابوبکر نے انصار سے بازی اسلئے جیتی کہ نبیۖ نے فرمایا تھا کہ ”ائمہ قریش میں سے ہوں گے” تو نبیۖ نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علی کیلئے فرمایاتھا کہ” جس کامیں مولا ہوں تو یہ علی اس کا مولا ہے”۔اور فرمایا تھا کہ ”میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت”۔ صحیح مسلم میں یہ واضح ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات نہیں ہیں بلکہ نبیۖ کے دادا کے خاندان والے مراد ہیں۔
صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ کرنے اور حکمت سکھانے کی وضاحت قرآن میں ہے وہ ایکدوسرے کی تکریم کرنا جانتے تھے اور حسن ظن رکھتے تھے مگر وقت کیساتھ ساتھ مختلف طرح کے رحجانات رکھنے والوں نے ان کے اختلافات کو اپنے اپنے مزاج کے مطابق مختلف رنگ میں پیش کرنے کی جسارت بھی کی ہے۔ نبی ۖ نے ان نفوس قدسیہ کا یہ نقشہ پیش فرمایا ہے کہ ” ایک زیادہ وجاہت رکھنے والے صحابی کے بیٹے کا دانت کم حیثیت رکھنے والے صحابی کے بیٹے نے توڑ دیاتو اس نے قسم کھائی کہ اس کے بدلے میں اپنے بیٹے کے دانت توڑنے نہیں دوں گا اور پھر دوسرے صحابی نے اس کو معاف بھی کردیا”۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ ”بعض لوگ اللہ کو اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ اگر وہ قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم بھی پوری کردیتا ہے”۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب تک زبردستی سے اس کو بدلہ لینے کی حد تک مجبور نہیں کیا جاتا ہے وہ قانون کے ذریعے اپنے اوپر حد جاری کرنے کا بھی روادار نہیں ہوتا ہے اور حیثیتوں کے فرق کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتا ہے اور اس سے صحت مند رحجان بھی پیدا ہوتا ہے کہ قصاص اور حدود کے نفاذ سے دوسرے کا قتل یا اس کے اعضاء کو کاٹنے اور توڑنے سے زیادہ اچھی بات معافی ہے۔ غزوہ اُحدپر نبیۖ اور صحابہ نے زیادہ انتقام لینے کا کہا تو اللہ نے معافی کرنے کا حکم دیا۔
نبیۖ نے دانت توڑنے کی سزا سے بھی پرہیز نہیں کرنا تھا بلکہ دوسرے کو زبردستی سے بھی مجبور کرنا تھا لیکن جب معاف کردیا گیا تو انتہائی حسن ظن کا سبق بھی دیا گیا۔ حضرت سعد بن عبادہ نے بھی کہا تھا کہ میں قرآن کے حکم لعان پر عمل نہیں کروں گا بلکہ ایسی فحاشی کی حالت میں دیکھ کر قتل کروں گا۔ اس جذبے کی وجہ سے ان کو کافر ومرتد نہیں قرار دیا گیابلکہ اس کو اپنی رائے رکھنے کی آزادی دی گئی مگر اگر وہ قتل کرتا تو قانون کے مطابق اس کو سزا بھی دی جاتی۔ نبیۖ کی ریاست کا نظام بالکل سرتاپا رحمت تھا۔ کسی نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا تو اس کے خلاف بھی جہادوقتال نہیں کیا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے ریاست کی طاقت کو منوانا تھا اسلئے مانعین زکوٰة کے خلاف قتال کیا گیا۔ حضرت عمر پہلے بھی متفق نہ تھے جبکہ حضرت عمرنے آخر میں بھی اس بات کا اظہار کیا کہ ” کاش ! نبی ۖ سے ہم تین باتوں کاپوچھتے ۔ ایک یہ کہ زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال ہے، دوسرا کہ آپ کے بعد کس کس کو خلیفہ بنایا جائے اور تیسرا کلالہ کی میراث کی مزیدتفصیل ”۔
حضرت عثمان کے خلاف بغاوت ہوئی۔ حضرت علی نے دارالخلافہ کوفہ منتقل کیا مگر وہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا گیا۔ حضرت حسن امہ کے مفاد میں خلافت سے دستبردارہوئے جس کیلئے نبیۖ نے خوشخبری دی تھی۔ تیس سالہ خلافت کے بعد امارت قائم ہوئی اور آج پاکستان میں74سال بعد بھی اپنی اپنی پارسائی کے دعویدار سب ہیں لیکن ہمیں حقائق اور اپنی کمزوری کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں۔
جمہوریت کے نام پر مفادپرستی، گری ہوئی اخلاقیات ، نظریہ ضرورت اور قسم قسم کے ہتھکنڈے معاشرے ، حکومت اور ریاست کی مشکلات میں دن بہ دن اضافے کا موجب ہیں۔انسان ہونے کے ناطے ، ایک ملک سے تعلق رکھنے کے ناطے ، مسلمان ہونے کے ناطے، پڑوسی اور ایک خطے سے تعلق رکھنے کے ناطے ہمارا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ قرون اولیٰ کی تاریخ کو پھر سے دُہرادیں۔ قرآن اور سنت کی تعلیمات آج کے دور میں سمجھنے کی زیادہ آسانی ہے اسلئے کہ دنیا نے اب انسانیت کا سبق سیکھ لیا ہے اور ہمارے اپنے لوگ وحشیانہ پن کے شکار ہوگئے ہیں اور اس کے نتائج دنیا سے زیادہ ہم خود بھگت رہے ہیں۔ فرقہ پرستی، لسانی تعصبات اور گروہی مفادات نے انسانیت ، مسلمانوںاور اسلام کا دنیا میں تماشا بنادیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟