پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین کو وزیر اعظم بنایا جائے، سید عتیق الرحمن گیلانی
مارچ 16, 2018
چیف ایڈیٹر نوشتہ دیوارسید عتیق الرحمن گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں جو قیادتیں ریاست نے پال رکھی ہیں ان کٹھ پتلی قیادتوں نے پوری قوم اور ریاست کو تباہی کے دہانے پہنچادیا ہے۔ جنرل ایوب خان کے بغل سے نکل کر ذو الفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے بغل سے نکل کر نواز شریف قائد بن گئے، یہی وجہ ہے کہ ریاست کے فوائد عوام تک نہیں پہنچے اور آج عوام اور ریاست کے درمیان بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ منظور پشتون نے محسود قبائل کی دہلیز سے نکل کر سوات سے کوئٹہ تک بہت بڑی جگہ اپنے لئے بنالی ہے۔ محسود تحفظ موومنٹ کو پشتون تحفظ موومنٹ سے بدلا ہے اور یہ اب مظلوم تحفظ موومنٹ بھی بن سکتی ہے جس کے پیچھے پاکستان کی تمام قومیں کھڑی ہوں۔ اس میں تعصب نہیں درد ہے۔
عدالت ، فوج ، حکومت اور صحافت سب کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی قیادت کے گرد سب ہی گھوم رہے ہیں لیکن اگر سیاسی قیادت بندوق کی نالی میں گولی کی طرح کسی پر مسلط کی جائے تو قوم کبھی قوم نہیں بن سکتی ہے۔ 70سال سے ہماری تاریخ اسلئے نہیں بدلی کہ جس اسلام کے نام پر پاکستان بنا تھا ، اس اسلام سے سیاسی قیادت خود بھی آشنا نہیں تھی۔ تبلیغی جماعت کا مشہور لطیفہ ہے کہ کسی مولانا نے کہا کہ جس نے ایک ہندو کو مسلمان بنادیا تو اس کو اتنا اتنا اجر ملے گا اور ایک پٹھان نے یہ فضیلت سن لی تو ہندو کو تلوار کے زور پر ہی مسلمان کرنے کیلئے نکل پڑا۔ کہیں اس کو راستے میں ہندو مل گیا تو خوش ہوا کہ فضیلت حاصل کرنے کیلئے شکار مل گیا۔ ہندو کو زمین پر پٹخ کر اس پر تلوار تان لی کہ خو کلمہ پڑھو۔ ہندو نے جب جان کا خطرہ محسوس کیا تو کہا کہ خان صاحب مجھے کلمہ پڑھاؤ ۔ خان صاحب کو خود بھی کلمہ پڑھنا نہیں آتا تھا تو ہندو سے کہہ دیا کہ منحوس جاؤ تم نے مجھ سے بھی بھلادیا۔ یہی حال پاکستان کی تشکیل دینے والوں کا بھی تھا۔ جس اسلام کے نام پر ملک بنایا تھا وہ خود بھی اس اسلام سے واقف نہ تھے۔ جب فوجیوں نے وزیرستان میں پڑاؤ ڈالا تھا تو عوام سے چھ کلمے پوچھتے تھے اور لوگ کہتے کہ اگر ایک کلمہ سے جاں بخشی ہوسکتی ہے تو ایک کلمہ آتا ہے مگر چھ نہیں آتے۔ فوجی سپاہی ماں بہن کی گالیاں بکتے کہ تم اسلام کا نام لیتے ہو اور چھ کلمے پڑھنے بھی نہیں آتے؟۔
اس شرمندگی کے بعد عوام کی بڑی تعداد نے تبلیغی جماعت کا رُخ کرنا شروع کیا۔ وہاں جنرل جاوید ناصر سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور جنرل محمود جیسے لوگ بڑی داڑھیاں رکھ کر طالبان بنانے کی فیکٹریاں بنائے بیٹھے تھے۔ جمال خان لغاری نے یہ منظر نامہ ایک میڈیا ٹاک شو پر پیش کیا تھا۔ اب لوگ اس قدر اعتماد کھو بیٹھے ہیں کہ منظور پشتون پر بھی شک کرتے ہیں کہ کسی سازش کا حصہ تو نہیں جو کھلم کھلا ریاست کیخلاف بول رہے ہیں اور غلطی عوام کی اسلئے نہیں ہے کہ جو فوج کیخلاف لڑ رہے تھے ان کو بھی تعلیم و تربیت دینے والے فوجی ادارے ہی تھے۔
منظور پشتون سے میری ملاقات تک نہیں ہوئی مگر مجھے اس بات کا یقین ہے کہ فوج سیاسی قیادتیں ، مجاہدین جنتے جنتے اور پیدا کرتے کرتے بیزار ہوچکی۔ وہ اب منظور پشتون کو بھی ایک غنیمت سمجھ کر برداشت کررہی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پاک فوج کی تاریخ کے سب سے نرم خو آرمی چیف لگتے ہیں اور یہ منظور پشتون اور اسکے ساتھیوں کی بھی بڑی خوش قسمتی ہے۔ اگر سینٹ کے چیئر مین صادق سنجرانی بن سکتے ہیں جو پھر بھی نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے ہاں گھسے ہوئے ہیں اور ان پر اسٹیبلشمنٹ سے قربت کا الزام سب سے بڑا الزام ہے۔ اس الزام کو عائد کرنے والے بھی وہی لوگ ہیں جو خود اسٹیبلشمنٹ ہی کی پیداوار ہیں۔ سیاست کیلئے سب سے بڑی مصیبت اسکا کٹھ پتلی ہونا ہے۔منظور پشتون کا سب سے بڑا کمال کٹھ پتلی نہ ہونا ہے۔ وہ ایک نوجوان ہے، درد، جذبے اور شعور کیساتھ جو بات کرتاہے اس میں بناوٹ نہیں ہوتی۔ سیاسی قیادتیں بناوٹی انداز سے اپنا وقار، اپنی عزت اور اپنا اعتماد کھو بیٹھی ہیں۔ جب ان کو تکلیف ہوتی ہے تو چوتڑ سے عوام کے درد کی آوازیں نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ جذبات کو اشتعال دلاکر عوام سے روز روز بیوقوف بننے کی توقع رکھتے ہیں، منظور پشتون حقیقی قائد ہے
لوگوں کی راۓ