سینٹ الیکشن میں تحریک انصاف و پیپلز پارٹی کا اتحاد بالکل فطری تھا. حنیف عباسی
مارچ 16, 2018
منتظم خصوصی نوشتہ دیوارحنیف عباسی نے کہا : مجھے حیرت ہوتی ہے کہ صحافی و سیاستدان اتنی موٹی بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں بھی دونوں جماعتوں نے ہی اصل اپوزیشن کا کردار ادا کرنا تھا۔ اگر دونوں جماعتیں رضا ربانی پر متحد ہوجاتی تھیں تو اس کو نوازشریف اور حکومت کی کامیابی قرار دیا جاتا لیکن دونوں نے مل کر حکومت کی سازش ناکام بنادی۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا تحریک انصاف نے سینٹ میں پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا اور خود کو بدنام کردیا ہے۔ حالانکہ ن لیگ خود تو پیپلزپارٹی کی دُم کو بھی اپنی پگ بنانے کیلئے تیار بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ خود پیپلزپارٹی سے اتحاد کیلئے مررہے ہوں اور تحریک انصاف کو اتحاد کے طعنے دیں؟، مگر سچ کہا تھا کہ کوئی شرم بھی ہوتی ہے کوئی حیا بھی ہوتی۔جبکہ پکار تھی کہ ہمیں تحریک انصاف نہیں پیپلزپارٹی سے ہی گلہ ہے۔
ن لیگ نے نااہلی کے خاتمے کیلئے اسمبلی میں ترمیمی بل ایک سازش سے منظور کروایا تھا جس میں صرف ایک ووٹ کی برتری تھی ۔ وہ بھی ایم کیوایم کے میاں عتیق نے کہا تھا کہ ’’ خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ فاروق بھائی سے بات ہوگئی ہے۔ مجھے دھوکہ نہ دیا جاتا تو اپنی جماعت کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرتا‘‘۔ اس ترمیم کو پھر سینٹ نے بھاری اکثریت سے مسترد بھی کیا تھاجس کے بعد اصولی طور پر حکومت کو چاہیے تھا کہ ترمیم کو واپس لیتی۔ لیکن ن لیگ نے سازش میں کمال کرکے جمہوری نظام کو چت کردیا تھا۔ سینٹ میں اقلیت ہوتے ہوئے بھی اپنے مقصد کی ترمیم پاس کر ڈالی تھی۔ رضاربانی کے جمہوری اقدامات سے ن لیگ کو پیار ہوتا تو اپنی پارٹی میں بھی کسی صاحبِ کردار کو تلاش کرتے لیکن وہ تو پرویز رشید کو بے گناہ سمجھ کر بھی ڈان لیکس میں قربانی کی بھینٹ چڑھا چکے تھے۔ رضاربانی کی یہی ادا ان کو بھاگئی تھی کہ ترمیمی بل پاس کرنے میں اپنے بڑھاپے کیوجہ سے کوئی فعال کردار ادا نہیں کرسکے۔ جمہوریت کا تقاضہ تھا کہ اس ترمیم سے پہلے حکومت اخبارات میں اشہتار شائع کرتی۔پھر سب پارٹیوں کو اعتماد میں لیکر اپنا گول کرنے کی کوشش کرتی۔
ایسی سازش تو ڈکٹیٹر شپ کے لبادے میں بھی نہیں ہوتی کہ ووٹ ڈالنے والوں کو بھی پتہ نہ ہو کہ اس کی جماعت کا کیا حکم تھا اور اس بھونڈے طریقے سے سینٹ ترمیمی بل منظور کردے جو سینٹ کی بھاری اکثریت کیلئے قابلِ قبول ہی نہ ہو۔ رضا ربانی کو اپنی اس کمزوری کا کھل کر اعتراف کرنا چاہیے ۔ نوشتہ دیوار کا پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے سے بروقت ہم نہ پہنچاتے تو ممکن بھی نہ ہوتا کہ پیپلزپارٹی رضا ربانی کو چیئرمین بنانے کی پیشکش کو مسترد کرتی۔ اخبار آنے میں دیر تھی اسلئے ایک صفحہ کے ذریعہ پیغام کو ہم نے پہنچادیا ۔ جب خواجہ آصف جیسے نااہل انسان بھی وزیرخارجہ بن گیا ہے تو خفیہ ایجنسیوں کا کونسا کردار باقی رہ جاتا ہے؟۔ خواجہ آصف نے درست کہا کہ ’’ جنرل ضیاء الحق نے جعلی جہادکے ذریعے قوم کو دھوکہ دیا تھا‘‘ لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ’’ جنرل ضیاء الحق نے جعلی سیاست کے ذریعے بھی ریاست کا بیڑہ غرق کیا۔ نوازشریف کے جھڑے ہوئے بالوں کو چھوڑ کر کیونکہ وہ شروع میں تحریکِ استقلال اصغر خان کے کارکن تھے، باقی سراپا نوازشریف جنرل ضیاء کا رہین منت تھا، خواجہ آصف کا والد جنرل ضیاء کی شوریٰ کا چیئرمین تھا جبکہ احسن اقبال کی والدہ محترمہ جنرل ضیاء الحق کے محافل کی نعت خواں تھی اور جنرل ضیاء الحق کے علاوہ پرویزمشرف کی باقیات بھی اب نااہل لیگ کا حصہ ہیں۔خواجہ آصف کی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ جیو ٹی وی چینل پر حامد میر سے کہا کہ ’’ برما کے لاکھوں پناہ گزین مسلمانوں کو بنگلہ دیش سے پاکستان لانے کیلئے ہماری طرف سے طیارے تیار کھڑے ہیں بس صرف اجازت مل جائے‘‘۔ یہ بات جیو نیوز پر کسی اور وزیرخارجہ کی طرف سے ہوتی تو خوب مہم جوئی کی جاتی مگر زر خرید لونڈی کا کردار ادا کرنے والی اس صحافت نے صحافت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔
زرداری نے ربانی کو مسترد کرکے سلیم مانڈی والا کو ڈپٹی بنایا تو یہ بہت زبردست قدم اٹھایا اور تحریک انصاف نے زبردست قدم اٹھاتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین بھی حکومت کا نہیں آنے دیا تو یہ بالکل فطری جمہوریت کا تقاضہ تھا۔ دونوں لڑتے تو حکومت کو کامیابی ملتی اور دونوں خود ہی مرتے، فطری اتحاد ضروری تھا۔
لوگوں کی راۓ