شپیزمائی خان اور منظور پشتین اپنی سوچ اور فکر کو بدلیں! (اداریہ نوشتہ دیوار، شمارہ مارچ 2019)
مارچ 9, 2019
کانیگرم جنوبی وزیرستان کے پیرمبارک شاہ نے 1920ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پبلک سکول بنایا جو آج بھی موجود ہے۔ قبائلی علاقہ جات کو تعلیم کے نام سے جتنے فنڈز ملتے ہیں وہ قبائل عوام پر خرچ کرنے کے بجائے کھا لئے جاتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد اسکے احتساب کی بات کی جائے تو پختون ہی گلٹی ہونگے، اسی طرح سندھ و بلوچستان کی کیفیت ہے۔ ریاست دشمن نہیں بلکہ قوم کے بڑے اپنی قوم سے دشمنی کے مرتکب ہیں۔ علی وزیر اور محسن داوڑ نے ایک میڈیا بیان میں وضاحت کی کہ ’’ہم عدمِ تشدد کی پالیسی پر آخری دم تک گامزن رہیں گے‘‘۔جبکہ منظور پشتین نے کہا کہ ’’میں اس مٹی کا بیٹا ہوں، مٹی عدم تشدد کی بات کریگی تو عدم تشدد کرینگے اور مٹی تشدد کی بات کریگی تو تشدد کرینگے‘‘۔حضرت علیؓ ابن تراب نہیں ابوتراب تھے۔ مٹی کے بیٹے اور مٹی کے باپ میں اتنانظریاتی فرق ہے جتناہندواور مسلم میں ہوتا ہے۔ ہندو پر جس کی حکومت بھی آئی وہ اپنی جگہ پر غلام کی طرح کھڑا رہاتھا۔ ابوجہل وابولہب مٹی کے بیٹے تھے ،وہ اپنا سر کٹا گئے لیکن اسلام قبول نہیں کیا۔ مسلمانوں نے مکہ سے حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت کی۔ حضرت علیؓ نے مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا تھا۔ انگریز نے لکھ دیا کہ’’ محسود بھیڑیے، وزیر چیتے اور بیٹنی قبائل گیڈر کی طرح ہیں‘‘۔ ادریس شہید کی شہادت پر اور وانا میں ایک جھڑپ کے دوران وزیروں نے ثابت کردیا کہ وہ چیتے ہیں۔ بیت اللہ بیٹنی نے PTM سے پہلے PTIکے پلیٹ فارم سے جو بیان ریکارڈ کرایا ہے اور PTI میں ایک معمولی احتجاج پر جیل میں دل کا دورہ پڑا تھا تو اپنے تضادات سے گیدڑ کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ بھیڑیے کی صفت یہ ہے کہ جب تک تحفظ کا یقین نہیں ہوتا تو وہ شکار پر حملے کی جرأت نہیں کرتا ۔ اسلئے لوگ شیر اور چیتے کہلانا چاہتے ہیں۔ محسودقبائل کی تین شاخوں میں بہلول زئی اور منزئی کی بہادری اور شمن خیل کی سیاسی صلاحیت تھی۔ سردار امان الدین نے قومی لشکر بنایا تو پہلے اپنے چچازاد کاگھر گرایا، پھر دوسری قوموں سے لڑائی مول لی تو اپناقومی لشکر بھی گرفتار کرادیا۔ اگر منظور پشتین مٹی کا بیٹا ہے تو وزیرستان کی مٹی پر زیادہ عرصے کی بات نہیں ماضی قریب کا قصہ ہے ۔ پہلے پوری قوم ایک ڈاکوگو خان کی قیادت پر اکٹھی ہوگئی۔ رضا گو خان اور TTFکا آج نام لینے والا بھی کوئی نہیں ۔ پھر قوم میں بدمعاشی عروج پر پہنچ گئی تو گلساخان کی قیادت میں بدمعاشوں کیخلاف لشکر تشکیل دیاگیا۔ گلسا خان امریکہ اور بیٹنی قبائل کو چیلنج کررہاتھا۔ پھر طالبان آگئے تو مٹی کی اولاد طالبان بنی۔ محسود نے طالبان کی قوت سے فائدہ اٹھاکر بیٹنی کا ستیاناس کردیا۔ پھر قاری زین الدین کی قیادت میں شمن خیل اوربیٹنی نے دوسرے محسودوں اور طالبان گروپ کیخلاف ترکستان کی قیادت میں قتل وغارتگری کا بازار گرم کردیا۔ آج پھر ترکستان بیٹنی گیدڑ کی آواز نکال رہاہے کہ پاکستان اور اسلام کے نام پر 186افراد کو اپنے ہاتھوں سے شہید کیا ۔ مٹی کا بیٹا ہر دور میں ہواؤں کے رخ پر چلتا ہے تو مختلف انداز میں استنجوں کے ڈھیلے کی طرح استعمال ہوجاتا ہے۔ ژوب اور وانہ سے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان آنے والی گاڑیاں شمن خیل کے علاقہ میں بارشوں کے فلڈ سے راستے میں کئی گھنٹوں تک رُک جاتی تھیں تویہ ایک دو دن یا مہینہ دو مہینے کی بات نہیں ہوتی تھی۔ بھوکے مسافروں کیلئے ہوٹل بھی نہیں تھے، آس پاس کے گھر والے اتنے مہمانوں کو پہنچ نہیں سکتے تھے، بچوں نے وہاں مسافروں کو روٹیاں بیچنی شروع کردیں تو ایکدوسرے کی ضرورت تھی۔ اس وجہ سے وہاں کے شمن خیل برادری پر کوئی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ محسود کی روایات سے ہٹ گئے لیکن جن محسودوں کے گھر سڑک سے میلوں دور تھے ،ان کو اس حرکت پر یہ لوگ اچھے نہ لگتے تھے۔ شمن خیل لدھا و مکین کی طرف بھی رہتے ہیں۔ ایک پاگل محسود جام دین سے کسی نے پوچھا کہ ’’ محسود قوم میں مرد زیادہ ہیں یا خواتین؟‘‘۔ جام دین نے کہا کہ ’’ شاعر کے شمن خیلوں کو مردوں میں شمار کریں تو مرد زیادہ ہیں اور عورتوں میں شمار کریں تو عورتیں زیادہ ہیں‘‘۔اقبال سے محمد علی جوہر نے کہا کہ تم میدان میں قربانی کیوں نہیں دیتے؟۔ اقبال نے کہا کہ ’’اگر قوال وجد میں آگیا تو قوالی کون گائے گا‘‘ ۔عقلمندوں کیلئے اشارہ کافی ہوتاہے۔ شپیزمائی خان نے میرے ویڈیو بیان پر واضح کیا کہ ’’ اس نے افغانستان کو امریکہ سے فائدہ اٹھانے کی بات کی تھی جسطرح آئی ایس آئی نے افغان وار سے فائدہ اٹھایا‘‘۔ یہ بات PTMکے جوانوں سے نہیں افغانستان کے حکمران سے کرنی چاہیے تھی تو بات واضح ہوتی۔ شپزمائی خان نے کہا کہ ہمارا اصل مقابلہ امریکہ سے ہے ، استعمار کیخلاف افغانستان کے وہ علاقے زیادہ مفید ہیں جہاں نیٹ کام نہیں کرتا۔ ایک طرف امریکہ سے مدد اور دوسری طرف اس کا نیٹ سے مقابلہ اپنے اندر بڑا تضاد رکھتا ہے۔ شپیزمائی خان نے کہا کہ چاند میاں لاہور اور کراچی میں تنقید کا نشانہ بنتا ہے ۔ ہم شپیزمائی کہتے ہیں جو مذکر ہے ،دوسرے اس کو شپیزمئی کہتے ہیں جو مؤنث ہے۔ میںیہ واضح کردیتا ہوں کہ اگر شپیزمائی خان کو میری بات سے دکھ پہنچا ہے تو میں دل کی گہرائی سے معافی مانگتا ہوں۔ توہین کی غرض سے نہیں محبت سے میں نے چاند میاں لکھا تھا، بولٹن مارکیٹ کراچی کے صدر کا نام بھی چاند میاں ہے، گوجرانوالہ میں ایک بہت معزز ، معتبر اور پیارے شخص کا نام خالد ہے لیکن چاند میاں سے مشہور ہے۔ عربی میں سورج اور چاند کو شمس وقمر کہتے ہیں۔ یہ نام ہر زبان میں ہوتے ہیں۔ شمس عربی مؤنث اور قمر مذکر ہے۔ لفظی مذکر ومؤنث کوئی مسئلہ نہیں ۔ طلحہ، موسیٰ ، عیسیٰ کے آخر میں مؤنث ہی کی علامت ہے۔ امامہ مؤنث ہے اور مردو عورت دونوں کیلئے نام ہے۔ ایک صحابیؓ کا نام بھی امامہ تھا۔ شپیزمائی خان کا بہت اچھا ذہن ، مطالعہ اور فطرت ہے لیکن ایک ماحول کے ذریعے سے ایکدوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں۔ اگر شپیزمائی خان PTMاور افغانستان کی بجائے پاکستان اور بھارت کوہی مخاطب کریں تو ان کو بہت سے فالورز مل سکتے ہیں۔ آئی ایس آئی کو گالی دینے کا اس سے زیادہ کچھ فائدہ نہیں کہ PTMوالے آپ کی بات سنیں۔ مجھ پر شک کیا گیا ہے کہ میرے رابطے جرنیلوں سے تو نہیں؟۔ میراشپیزمائی خان پر کوئی الزام نہیں کہ وہ امریکہ یا یورپ کیلئے کام کرتے ہیں۔ وہ اچھے انسان ہیں اور اپنے ہی دائرہ کار میں اچھائی کی کوشش کرتے ہیں۔ زبردستی سے شادی کا تصور صرف ہمارا کلچر نہیں بلکہ سندھی، بلوچ، پنجابی اور کراچی کے مہاجروں کے علاوہ ہندوستان کا بھی یہ مسئلہ ہے۔ پختونوں کی جن خامیوں کا ذکر شپیزمائی خان کرتے ہیں تو اسے پتہ ہونا چاہیے کہ تبلیغی جماعت اور علماء کرام کی بدولت ان میں بڑی تبدیلی کے اثرات بھی نمایاں ہوئے ہیں۔ پشتون ایریا میں دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی بنائی جائے اور دنیا بھر سے ماہرین بلاکر اس میں تعینات کئے جائیں تو ہماری ہی نہیں بلکہ عالم اسلام اور انسانیت کی دنیا بھی بدل جائے گی۔علامہ اقبالؒ نے لکھ دیا ہے کہ پشتون فطرت کا ترجمان ہے اور افغان کو کرائے کا قاتل بھی کہا ہے۔
لوگوں کی راۓ