یہ کیسی آزادی ہے ہماری بیٹیاں بہنیں بک رہی ہیں ہماری ماؤں سے لونڈی بن رہی ہیں
جون 4, 2018
اسلام نے بڑاکارنامہ انجام دیا کہ خواتین کو انکے حقوق کا تحفظ دیا۔عرب قبائل تھے جبکہ پاکستان میں بھی قبائلی معاشرہ ہے۔ 40ایف سی آر کا خاتمہ کردیا گیا۔ یہ قوانین بنیادی طور پر قبائلی رسم ورواج کے ہی مطابق تھے۔ آزاد قبائل اس آزادی پر فخر کرتے تھے۔ انگریزدور میں پورے ہندوستان پر غلامانہ قوانین مسلط تھے۔ انگریز کے جانے کے بعد جب پاکستان بن گیا تو آزاد ریاست کو آزادقبائل نے دل وجان سے قبول کیاتھا اور یہ احساس اُبھرا تھاکہ پاکستان میں اسلامی قوانین کے مطابق آئین سازی ہوگی اور غلامانہ دور کے قوانین بالکل ختم ہوجائیں گے لیکن آزادی کے ہیرو مرزاعلی خان نے کہا تھا کہ ’’ گدھا وہی ہے صرف اسکی پالان بدل گئی‘‘ یعنی پاکستان بننے کے بعد بھی کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے بس نام بدل گیا۔
منظور پاشتین نے محسود تحفظ موومنٹ کو پھر پشتون تحفظ موومنٹ میں بدل دیا ۔جس کا ایک ہی پیغام تھا کہ ریاستی عناصر کی طرف سے ہونیوالے مظالم کا راستہ رک جائے۔ مظلوموں کی آواز سے ریاست میں ایک خوف پیدا ہوا اور اس خوف کے بعد 40ایف سی آر کا بھی خاتمہ کردیا گیا۔ پاک فوج چاہتی تو اپنے مختلف ادوار میں یا اپنے کٹھ پتلیوں کے ادوار میں اس قانون کا خاتمہ کرسکتی تھی۔ قبائل کو اپنے رسم ورواج کے قوانین سے کوئی تکلیف نہیں تھی اور نہ ہی وہ پاکستان کے سست و بدترین عدالتی نظام کے تحت انصاف کو قابلِ رشک سمجھتے تھے جو بدترین غلامی کی یاد گار ہے۔ البتہ امریکہ سے درآمد عبوری وزیراعظم معین قریشی نے یہ فیصلہ کیا کہ قبائل سے پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیا جائے۔ ورنہ پہلے مخصوص قبائلی ملکان کی رائے سے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوتا تھا۔قریشی کے فیصلے نے پاکستان کے کرتے دھرتوں کا منہ کالا کیا۔آج عبوری حکومت بھی بہت کچھ کرسکتی ہے۔
قرآن میں ملاء القوم کا ذکر ہے جو انقلابی ابنیاء کرام ؑ کا راستہ روکتے تھے۔ یہ مذہبی پیشواء اور قبائلی ملکان انقلاب کا راستہ روکنے کیلئے شاہی دربار والی خدمت کر تے تھے۔ اسلام کی نشاۃ اول میں سردارانِ قریش اور بتوں کی مذہبی عبادت کے خوگروں نے انقلاب کا راستہ اسلئے روکا تھا کہ وہ غلامی کا نظام ختم کرنے اور انسانیت کو برابری کا درجہ دینا نہیں چاہتے تھے۔ مشرکینِ مکہ کا کوئی فرد یا چند افراد اپنے مذہب کو تبدیل کرکے عیسائی وغیرہ بننا چاہتے تو ان پر کوئی پابندی نہیں تھی، اسلام سے نہ صرف ان کی سرداری کو خطرہ تھا بلکہ یہودونصاریٰ کے مذہبی پیشواء بھی اپنی بے تاج اور لامتناہی اختیارات کی بادشاہی کو خطرات لاحق سمجھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے آخری خطبۂ حجۃالوداع میں اعلان فرمایا کہ’’ کالے گورے، عرب عجم اور کسی کو کسی پر فوقیت نہیں، سب آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدم ؑ کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا، فضلیت کا معیارصرف تقویٰ ( کردار) ہے‘‘۔ یہ خطبہ نسلی اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر باطل زعم رکھنے والوں کے افکارپر کاری ضرب تھا۔ خلفاء راشدینؓ کے دور میں اسلام کا دنیا میں چرچا ہوا۔ اس وقت کی سپر طاقتیں قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو اس کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ رسول اللہﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ’’ اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا، یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائیگا پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے ‘‘۔ پھربنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کی خاندانی بادشاہتوں کے ادوار میں اسلام بتدریج اجنبیت کی منزلیں طے کرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے کہ مذہب کے نام پر جاہلوں کا چوپٹ راج ہے۔قبائل کا پڑھا لکھانوجوان طبقہ صرف ریاست سے نہیں بلکہ اسلام سے بھی بدظن ہوچکا ہے۔ریاست اور طالبان نے قبائل کا کلچر تباہ کیا اور اسکے بہت خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی کے کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ قبائلی نوجوان کہتے ہیں کہ پوری دنیا میں ہمارا قبائلی کلچر اعلیٰ و ارفع ہے۔ جنوبی وزیرستان وزیر علاقے کا ایک ہجڑہ عام انسانوں کی طرح عزتدار ہے، تجارت کرتا ہے، دیگرقبائلی عمائدین کی طرح جرگوں میں شریک ہوکر فیصلے کرتا ہے، کوئی اس کو نیچ نگاہ سے دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا ۔ آج ہجڑوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ مغرب میں بھی گراؤٹ کی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔ انگریز کی ریاست نے یہاں قابض ہوکر ہمارا کلچر ایک سازش سے متأثر کیا ہے۔ اسلام اور ملاؤں نے بھی قبائل پر اثر انداز ہوکر اچھا نہیں کیا ہے۔ پختونوں کو اپنے حقوق، کلچر، تہذیب وتمدن اور قبائلی معاشرے کی آبیاری کیلئے اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ باچا خان کے بعدپشتون تحفظ موومنٹ پہلی شعوری کوشش ہے اور اس کیلئے ہمیں ہر قسم کی قربانی دینی ہوگی۔ ریاست کے زور پر ملائیت نے قبائلی نظام کو خراب کرنے پرنقب ڈالا، پھر فرنگیوں اور اب پنجابیوں نے ریاست کے ذریعے ہمارا نظام تباہ کردیا ۔
قبائلی جوانوں کا مدعا یہ تھا کہ حلالہ جیسی لعنت کو بھی اسلئے قبول کیا گیا کہ ملائیت کے پیچھے ریاست کی طاقت تھی اور ان تمام بکھیڑوں سے ہم نے اپنی جان چھڑانی ہوگی۔ کسی عالم کو خوب کھلانے پلانے کے بعد جس قسم کی حدودوقیود سے ماوراء گالیاں دو تو وہ ہنسی خوشی برداشت کرلیتا ہے۔
قرآن وسنت میں نکاح اور ایگریمنٹ کا ذکر ہے۔مجھ سے فون پرمولانا مفتی عبدالصمد اور مولانا ذی الشان نے بات کی تو وہ کہہ رہے تھے کہ ملکت ایمانکم کا مطلب لونڈی ہے اور لونڈی کا رواج ختم ہوگیا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ مترجمیں اور مفسرین نے لونڈی مراد لیا ہے لیکن الف سے ی تک اسلام کے واضح احکام کو اجنبی بنادیا گیا ہے، اسی طرح ملکت ایمانکم کے جملے کا بھی قرآن میں مختلف پیرائے میں ذکر ہے اور اس کا مفہوم بھی ایگریمنٹ بنتا ہے۔ غلام اور لونڈی کیلئے قرآن میں عبد و اَمۃ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن نے جاہلیت کی غلامی کا خاتمہ کرنے میں بتدریج اور زبردست کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب میں مسیار اور ایران میں جس متعہ کے نام سے ایگریمنٹ کیا جاتا ہے وہ دراصل قرآن وحدیث ہی کا تصور ہے۔ محسود مفتی عبدالصمد اور اسکے بھائی ذیشان کا اصرار تھا کہ آپ واضح اور مختصر الفاظ میں بتادیں کہ چکلے میں چلنی عورتوں پر ایگریمنٹ کا اطلاق ہوتاہے یا نہیں؟، اور اسلام میں اسکا جواز ہے یا نہیں؟۔ میں نے بتایا کہ کھلم کھلا اس بدکاری پرزنا کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ اگریمنٹ نہیں ہے۔ کورٹ میرج کے نکاح کی بھی ملاؤں نے غلط اجازت دیدی ہے اور بخاری کی حدیث میں یہ واضح ہے کہ باپ بیٹی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو نکاح نہیں ہوتا ہے ۔ جس پر محسودمفتی صاحب نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’’ پھر تو مجھ سمیت ہم سب حرامی ہیں،اسلئے کہ ہمارا یہی کلچر ہے کہ بہن بیٹی پر پیسہ لیکراس کی مرضی کے بغیر اسکا نکاح کردیتے ہیں، میری ماں کا بھی یہی نکاح ہوا تھا‘‘۔
میں نے کہا کہ ’’ میں اس پر حرامی کا فتویٰ نہیں لگاتا ہوں البتہ جن خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر پیسہ لیکر بیچا جائے تو ان پر لونڈی کا اطلاق ہوتا ہے۔ میرے دوست مفتی زین العابدین محسود کوٹکئی جنوبی وزیر ستان کے مشہور علماء گھرانہ سے تعلق رکھنے والے نے بتایا کہ ایک محسود لڑکی لاہور ہیرہ منڈی سے میرے کزن نے چھڑائی جس کو اسکے والد نے نکاح کے نام پرکسی کو بیچ دیا تھا اور اس نے پھر چکلے کو بیچا تھا۔ خواتین کیساتھ بہت بڑی زیادتی ہے کہ والد اور بھائیوں اسکا حق مہر بھی کھا جائیں۔ ایگریمنٹ سے پہلے نکاح کا تصور بھی درست کرنا ہوگا۔ ورنہ کوئی اصلاح نہ ہوگی‘‘۔
محسود ، وزیراور پختون قوم میں ہزاروں خوبیاں ہیں جو کسی اور قوم میں نہیں لیکن جس طرح مشرکینِ مکہ جاہلیت میں بھی بہت سی خوبیوں سے مالامال ہونے کیساتھ ساتھ بہت سی خامیوں اور بے غیرتی والی صفات سے بھی آلودہ تھے ، اسی طرح وزیر ، محسود اور پختونوں میں بہت خامیاں ہیں۔ کسی قوم میں انقلاب برپا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی خامیوں کو دور کرنے اور اچھی صفات کو اجاگر اور مستحکم کرنے کی تحریک چلائی جائے۔ رسول اللہﷺ کی طرف سے قریشِ مکہ اور عرب کی جہالت کو ختم کرنے کی کوشش شروع ہوئی تو وہ لوگ دنیا بھر میں واحد سپر طاقت بن گئے۔ رسول اللہﷺ نے آخری خطبے میں دورِ جاہلیت کے حلف الفضول میں شمولیت کو سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب قرار دیا ۔ حلف الفضول کیطرح قبائل معاشرتی اقدار قابلِ فخر قرار دیں تو یہ سنت رسول ﷺ کا فطری تقاضہ ہے۔ لیکن اپنی قوم سے ان خامیوں کو دور کرنے کی پُر زور تحریک چلانے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے بیٹیاں اور بہنیں بک رہی ہیں اور مائیں لونڈیاں بن رہی ہیں۔ جس دن قبائل نے رسمِ بد کا خاتمہ کرنے کیلئے اقدامات اُٹھائے تو خواتین کی دعاؤں سے قبائل نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیائے انسانیت پر امامت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونگے۔ بصورت دیگر امریکہ و طالبان داعش یا پاکستانی ریاست کا نیا دور بہت کچھ نیا لیکر آئیگا۔ قبائل خواتین کو حق مہر سے بھی محروم کرنے کی کوشش کرینگے اور اپنی مرضی سے نکاح میں رکاوٹ بنیں گے اور ریاست ان کو تحفظ دیگی جس سے وہ اپنے معاشرتی اقداراور مذہب سمیت سب چیزیں بھول جائیں گے۔ اب تو وردی پر دہشتگردی کا الزام لگانے میں کامیاب ہوگئے ، پھر ملاگردی کا نعرہ بھی لگے گامگر کامیابی پھر بھی نہ ملے گی اورمزید بھی ذلت سے دوچار ہونگے۔
اب تو پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوان گانے گاتے ہیں کہ یہ کسی آزادی ہے۔ ہمارے گھر ویران ہورہے ہیں اور ہمارے نوجوان قتل ہورہے ہیں ۔گھروں کی تباہی جوانوں کے قتل کے بعد آخری چیز رہ گئی ہے،وہ عزت کی تباہی ہے اور اسکا سامنا بھی کرنا پڑیگا۔ بہن بیٹی کورٹ میرج کرے گی اور بیوی عدالت سے خلع لے گی۔ داعش، امریکہ اور طالبان نے قابو پالیا تو بھی عزتوں کی آزمائش کا سامنا ہی کرنا پڑیگا۔ قائداعظم یونیورسٹی کے محسود اسٹوڈنٹ نے یہ اعتراف کیا کہ ’’ہمارے ہاں بہن بیٹیوں کو اسکا حق مہر نہیں دیا جاتا ہے بلکہ بھائی اور باپ اس سے اپنے لئے چیزیں خرید لیتے ہیں‘‘ ۔ ایک مہمند نے بتایا کہ ہمارے ہاں بالکل رضامندی سے رشتہ ناطہ ہوتا ہے، حق مہر کے پیسے کھانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہ مہمند اپنے گاؤں میں ہماری کچھ کتابیں لیکر گیا جن میں حلالہ کے بغیر رجوع کا حکم واضح تھا اور وہاں کے کچھ علماء نے اس کی تائید کی اور کچھ مخالفت پر آمادہ ہوگئے، یہاں تک کہ مارکٹائی بھی آپس میں ہوئی۔ اس کتاب پر وہاں پابندی لگادی گئی۔ ایک شخص نے بیوی کا حلالہ اپنے بھائی سے وہاں کروایا تھا، اس نے کتاب کو پڑھ کر سمجھ لیا تو وہ کہہ رہا تھا کہ میں بھائی، بھابی اور بیوی سے آنکھیں ملانے کے قابل نہیں رہا ہوں۔ گھر سے مجھے جانا ہوگا یا بھائی کو گھر چھوڑنا ہوگا۔ جو مہمند قبیلہ کتا ب سے اتفاق رکھنے کے باوجود حلالہ کی لعنت کو روکنے پر اتفاق نہ کرسکتا ہو، وہ تو حق مہر کھانے والوں سے بھی زیادہ غیرت سے عاری ہے۔ محسودقوم کو پتہ چل جائے کہ حلالہ کے بغیر بھی رجوع ہوسکتا ہے تو وہ اس پر عمل درآمد روک دینگے۔
پاکستان اسلام کے نام پربنا مگرملاکو اسلام کا پتہ نہ تھا اسلئے انگریز کے قوانین اورقبائلی رسم و رواج سے ہمیں خاص طور پر خواتین کو آج بھی چھٹکارا نہیں مل سکا۔
ملاؤں کی قدامت پسندی اب مستقل مزاجی نہیں بلکہ ڈھیٹ پن میں بدل چکی ۔ مولانا فضل الرحمن جشنِ دیوبند کے نام پر بہت بڑے اجتماع کے پروگرام میں سلیم صافی کے سوال کا جواب دے کہ ’’ تصویر حرام اور قطعی حرام ہے مگر کیمرے کی تصویر کے بارے میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے اور ہم یہ موبائل پر ویڈیو بنانے والے اسی کا فائدہ اٹھارہے ہیں‘‘۔ مولانا اپنی اس حاضر جوابی پر وہ خود بھی دم بخود قہقہ لگاتا ہے اور دوسرے حاضرین بھی داد دیتے ہیں۔ عوام اس ڈھیٹ پن کے ویڈیو کلپ کو شغل کے طور پرایکدوسرے کوبھیجتے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں کہ علماء ومفتیان کا تو آوے کا آوا ہی بگڑ چکاہے۔
اتمامِ حجت کے بغیر کسی پر ڈھیٹ پن کا اطلاق نہیں ہوتا اور بفضل تعالیٰ قرآن وسنت کی روشنی سے دینِ فطرت کی فضا عام ہورہی ہے۔ بہت سے علماء ومفتیان کھل کر حمایت کررہے ہیں اور بہت سوں میں ہمت نہیں مگر چھپ کر تائید کررہے ہیں اوروہ دن دور نہیں کہ مدارس ومساجد سے دینِ فطرت کی صدا بلند ہوگی اور پاکستان میں ایک خوشگوار تأثر ابھرے گا۔ فرقہ واریت کا بھوت دفن ہوگا، علماء حق کا بول بالا ہوگا۔ تمام لسانی و مذہبی، سیاسی و عسکری قوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر حقائق کی طرف رجوع کریں گی۔ پاکستان سے ابھرنے والا انقلاب اسرائیل وامریکہ اور بھارت سمیت پوری دنیا عرب وعجم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ پختون قوم کا اس انقلاب میں بہت ہی بنیادی کردار ہوگا۔ بلوچ، سندھی، مہاجر اور پنجابی سب ہمارے شانہ بشانہ ہونگے۔ جب تک حق اور قانون کا پتہ نہ ہو اسوقت تک فضاؤں میں اندھوں کی طرح لاٹھی گھمانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ علماء نے پاکستان بنانے سے پہلے پاکستان بنانے کے بعد شریعت اور آزادی کی رٹ لگائی مگر کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ بلوچوں نے قوم پرستی کیلئے قربانیاں دیں مگر نتیجہ کچھ برا نکلا۔ مہاجروں نے اقتدار کی سیڑھی تک رسائی بھی حاصل کرلی لیکن ’’بہت تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات ‘‘ کو نہیں بدل سکے ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اسلام سب کیلئے قابل قبول ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ سے ٹیلی پیتھی نہیں مل رہی تھی مگر اسلام کا فطری پیغام ایک حد تک ان کی سمجھ میں آگیا جس کو وہ سمجھنا بھی نہیں چاہ رہے تھے اسلئے کہ قبائلی اقدار پر ان کو فخر تھا اور اسلام انسانی فطرت کی اچھائی کو جگہ دیتا ہے اور برائی کو ختم کرنے میں مدد کرتا ہے، اسلام جبر کا دین نہیں بلکہ واضح ہے کہ من شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر (جو چاہے مؤمن بنے اور جوچاہے کفر اختیار کرلے)۔اچھا لگے تو یہ عقیدہ اپنالو۔
وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اسلام کا معاشرتی ، سیاسی ، معاشی ، مذہبی ، علاقائی اور بین الاقوامی نظام کو ہمیں بھرپور سمجھنا ہوگا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی
لوگوں کی راۓ