کلمانٹ دوشیزہ نواز شریف کو فوج نے ہراساں کرکے متضاد بیانات لئے ہیں۔ قدوس بلوچ
جولائی 12, 2017
نوشتۂ دیوارتیز وتند کے معروف کالم نگار قدوس بلوچ نے پامانہ لیکس پر سیاسی جماعتوں کی قیادت ، اے آر وائی نیوز کے عارف حمید بھٹی ،سمیع ابراہیم ،صابر شاکر و دیگر چینلوں کے ان اینکر پرسن کو خراج تحسین پیش کیا ہے جنہوں حکومت کے کرپٹ مافیا کو بے نقاب کرنے میں اپنا پورا پورا زور لگایا۔ نوازشریف سیدھے انداز میں اپنی پوری دولت قوم کے سامنے پیش کرکے اپنی تضاد بیانی، جھوٹ اور کرپشن پر معافی مانگیں توہماری سیاست بدلے گی، قوم بھی بدلے گی، یہ ملک بھی بدل جائے گا اورہماری ریاست بھی بدلے گی۔ زرداری اور کرپٹ حواری سب اس پر مجبور ہونگے۔ بھتہ خوری،چوری ، رشوت خوری سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا۔(بقیہ صفحہ3نمبر11)
اس کنواری عورت کو جس کی شادی کی عمر گزری ہو،بلوچی میں کمانٹ کہتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتاہے کہ فوج کا اس وقت عدلیہ پر کوئی دباؤ ہے کہ نوازشریف کو پانامہ کیس میں ٹنگا دیا جائے۔ جمہوریت کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف عدلیہ بالکل کسی مصلحت ، مصالحت اور نظریۂ ضرورت کو سامنے رکھنے کے بجائے ضمیر سے فیصلہ دے اور جب آزاد عدلیہ اپنا یہ کردار ادا کرے گی تو اس سے جمہوری کلچر کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ فوج کی مخالف سمجھی جانے والی آپا محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بہادری، جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کیلئے جو جدجہد ہے اس کو سلام پیش کرتا ہوں لیکن اگر ان کو نوازشریف کا وکیل بنایا جائے تو کیا وکالت کریں گی؟۔ کیا وہ کہہ سکتی ہیں کہ میڈیا پر فیملی اور دوست سیاسی رہنماؤں کے اتنے سارے متضاد بیانات فوج نے کنپٹی پر بندوق رکھ کر ان سے کہلوائے تھے؟۔ کیا پارلیمنٹ میں لکھی تحریر پھانسی کی کال کوٹھری میں فوج نے زبردستی سے تیار کروائی تھی؟۔ کیا قطری شہزادے کے خط میں سنی سنائی حوالہ جات لکھ کر فوج نے زبردستی مجبور کیا تھا؟۔ کیااس کلمانٹ دوشیزے کا یہ رونا دھونا کوئی مانے گا؟۔ عاصمہ کو میڈیا پر میرے یہ سوالات کوئی پوچھے اور جواب طلب کرے تو بات بن جائے۔
اگر آمریت کو سپورٹ کرنے والے سیاسی جماعتوں اور شخصیات پر قانوناً پابندی لگائی جائے تو سر فہرست نوازشریف و شہباز شریف کے نام آئیں گے۔ پنجاب کی عوام سب سے زیادہ پسماندہ ہے اور اس کے سب سے بڑے ذمہ دار دونوں بھائی اور ان کی فیملی ہے۔ دوسرے لوگوں کو کھلونے بم سے اسلئے مارا جاتاہے کہ بڑے ہوشیار ہوتے ہیں اور بچے شکار بنتے ہیں۔ پنجاب کی عوام اسقدر پسماندہ ہیں کہ کھلے پیٹرول پر جاہلوں کی بھیڑ دیکھ کر بھی ذرا خوف نہیں کھایا۔ بعض یہ بکواس کرتے ہیں کہ چوری کررہے تھے ، ان کو شرم بھی نہیں آتی تھی کہ ٹرائلر گرگیا اور یہ لوٹ مار میں لگے تھے‘‘۔ حالانکہ پیٹرول ضائع ہورہاتھا، یہ چوری تھی، نہ بھتہ تھا، نہ چھینا جھپٹی۔ نقصان دے نہ ہوتا تو بالکل جائز ہوتا کہ زمین میں جانے کے بجائے عوام کے کام آتا۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر دھماکے کا خوف لئے بھاگ گئے ہوں گے کہ یہ انسان ہیں یا کوئی جانور، جو اتنی بڑی تعداد میں آرہے ہیں۔ کوئی ہوشمند اور قابل سیاستدان ہوتا تو اس واقعہ کی وجہ سے سیاست سے ریٹائرمنٹ لیتا کہ جہاں کئی دہائیوں تک حکمرانی کی ہو وہاں لوگوں کا اس طرح سے جہالت کا ارتکاب کرنا حکمران کی بڑی نااہلی ہے۔
شہباز شریف اس موقع پر کرپشن کو نہ بھولا اور زرداری کا نام لئے بغیر حادثے کے شکار ہونے والوں کے لواحقین سے کہا کہ ’’ یہ سب کرپشن کی وجہ سے ہوا ، جسکی وجہ سے تعلیم میں کمی آئی ہے‘‘۔
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
رہزنی ، غارتگری ، بیداد کی تشہیر ہے
عاقبت ہے سر برہنہ آبرو نخچیر ہے
نعرۂ حق و صداقت لائق تعزیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
ایک شب اجڑا کسی بابا کی بیٹی کا سہاگ
اُڑ گئی پھولوں کی خوشبو ڈس گئے کلیوں کو ناگ
ظلمتوں میں سورہے چاندنی راتوں کے بھاگ
آدمیت ان دنوں اک لاشۂ تقدیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
ایک بیچارے نے دم توڑا شفا گھر کے قریب
برق کے جھٹکے سے ٹھنڈا ہوگیا اک بد نصیب
لاریوں کے ٹکر سے مرگئے کتنے غریب
آج ہر مظلوم کی فریاد بے تاثیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
ایک محلہ سے کسی کا لاڈلہ گم ہوگیا
وائے قسمت ایک بورھے کا عصا گم ہوگیا
کارواں سے بانگِ درا گم ہوگیا
یہ سب نظام جبر کی ایک زنجیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
چھن گئی مزدور کی پونجی بھرے بازار میں
اور مجرم ہوگئے مفرور فوراً کار میں
روز چھپتی ہیں بھیانک سرخیاں اخبار میں
دیکھئے اک خود کشی کی داستان تحریر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
زندگی کرتی ہے جرموں کی تجارت آج کل
چیختی ہے شرافت راہگذاروں پر آج کل
علم کے ماتھے پر جہالت آج کل
آج بے نام ونشان اسلاف کی توقیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
ایک نابغہ حاجی عثمانؒ ، ایک فتویٰ، ایک الزام
غم دوراں! اے غم دوراں تجھے میرا سلام
زلف آوارہ ، گریبان چاک ، مستانی نظر
ان دنوں یہ تھا ہماری زندگانی کا نظام
فتوے چھوٹ کر دارالفتویٰ میں بکھر پڑے
میں نے پوچھا جو مشائخ سے اکابرؒ کا مقام
کہہ رہے ہیں چند بچھڑے مریدوں کے نقش پا
ہم کریں گے انقلاب جستجو کا اہتمام
پڑگئیں میرے روشن جبیں پر سلوٹیں
یاد آکر رہ گئی وہ بے خودی کی ایک شام
تیری عزت ہو کہ میری غیرت کی چاندنی
تاریخ کے ادوار میں ہر چیز کے لگے ہیں دام
ہم بنائیں گے یہاں ساغر نئی تصویر شوق
ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام
لوگوں کی راۓ