قرآن پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے عذاب اورکورکمانڈر ز کے گھر نذرِ آتش اورGHQپر حملہ؟
مئی 18, 2023
قرآن پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے عذاب اورکورکمانڈر ز کے گھر نذرِ آتش اورGHQپر حملہ؟
مفتی تقی عثمانی نے سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا جس سے اللہ اور اسکے رسول ۖ سے جنگ کو جواز بخشا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے امت کو حلالہ کی لعنت سے بچانے کیلئے ہمارا شرح صدر کردیا ۔ دیوبندی بریلوی علماء ومفتیان کی سمجھ میں بات آگئی لیکن مقتدر طبقہ عوام کی عزتوں کو بچانے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ عمران خان اور تحریک انصاف تو بہانہ ہے لیکن اصل میں یہ قدرت کا نشانہ ہے۔ مسلم لیگ ن کے صحافیوں نے اردو اور پنجابی زبان میں فوج کو بدنام کرنے کیلئے آخری حدیں عبور کرلیں۔ راشد مراد نے کھریاں کھریاں میں کہا کہ ” فوج نے عمران خان کو دھرنے سے باعزت اٹھانے کیلئے پشاور آرمی پبلک سکول کا واقعہ کرایا۔ لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس کا واقعہ عمران خان اور جرنیلوں کی باہمی رضا مندی سے کتا اور کتی کے جنسی ملاپ کا تماشا ہوا،پھر لوگ پتھر مارتے ہیں”۔
جنرل عاصم منیر قرآن کے پہلے سید حافظ آرمی چیف ہیں اور حدیث میں اس حافظ کی فضلیت ہے کہ جو قرآن کے حلال و حرام کو سمجھ لے اور اس پر عمل کرے۔ آج اُمت عذاب میں مبتلاء ہے ۔ شوہر تین طلاق دیتا ہے تو جاہل مفتی فتویٰ دیتا ہے کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ۔ حلالہ لعنت ہے ۔کچھ ساری زندگی جدائی گوارہ کرلیتے ہیں مگر حلالہ نہیں کرتے۔ کبچھ حرام سمجھ کر بغیر حلالہ رجوع کرلیتے ہیں اور کچھ کسی اہلحدیث یا شیعہ سے فتویٰ لیتے ہیں اور پھر رجوع کرلیتے ہیں لیکن زیادہ تر جاہل مفتی سے فتویٰ لیکر حلالہ کی لعنت کا شکار بنتے ہیں۔
اللہ نے فرمایا: وقل انی انا النذیر المبینOکماانزلنا علی المقتسمینOالذین جعلوا القراٰن عضینOفوربک لنسئلنھم اجمعینOعما کانوا یعملونO” اور کہہ دیجئے کہ بیشک مَیں کھل کر ڈرانے والا ہوں۔ جیسا کہ ہم نے اس کو بٹوارے کرنے والوں پر نازل کیا ۔ جنہوں نے اس قرآن کو ٹکڑے کرڈالا۔ سو قسم ہے تیرے رب کی ہم ان سب سے ضرور پوچھیںگے۔ وہ جو یہ عمل کرتے تھے۔ (الحجر: آیات89سے93)
اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ قرآن کے ٹکڑے کرنے والے حلالہ کیلئے قرآنی آیات کیساتھ کیا سلوک کریںگے؟۔ آیت229کے پہلے حصے کے بعدآخری حصے کو نکال کر کیسے بالکل بلاجواز آیت230کے ساتھ جوڑ دیں گے؟۔ تاکہ حلالہ کی لعنت اور امت مسلمہ کی خواتین کی عزتیں لوٹنے کیلئے راستہ ہموار ہوجائے!۔
آرمی جنرل حافظ سید عاصم منیر اور تمام کور کمانڈرز سے استدعا ہے کہ مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن اور ہمارے درمیان ملاقات کا اہتمام کرائیں۔ ہم حلالہ و سود کی لعنت سے معاشرتی اور معاشی عذاب کا شکارہیں۔ہماری معیشت اور معاشرت دونوں میں قرآن وسنت کی بنیاد پر انقلابی تبدیلی آجائے گی۔
جب اللہ اور اسکے رسول ۖ کے نام پر شادی شدہ خواتین کو عزت لٹانے پر مجبور کیا جائے تو اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے؟۔ بلوچستان، پختونخواہ، پنجاب ، اندرون سندھ اور کراچی میں قرآنی آیات ، احادیث صحیحہ، اصول فقہ اور حنفی مسلک کی درست تشریح وتعبیر سے تعلیم یافتہ اور ان پڑھ لوگوں کے دل دماغ کھولیں جائیں تو پاکستان کی عظیم قوم پوری دنیا کی امامت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھیرکن کانگریس نے تفسیر آخری پارہ المقام المحمود میں سورہ القدر کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” سندھ ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر ، فرنٹیئر اور افغانستان میں جتنی قومیں بستی ہیںیہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ اسلام کی نشاة ثانیہ پوری دنیا میں اس علاقہ سے ہوگی۔ ایران بھی اس انقلاب کو قبول کرلے گا اسلئے کہ امام ابوحنیفہ بہت سارے اہل بیت کے شاگرد تھے”۔
افسوس یہ ہے کہ مولانا عبیداللہ سندھی نے جس مسلک حنفی کی بنیاد پر قرآن کی طرف رجوع کی دعوت دی تھی تو اس پر ذرہ برابر علماء دیوبند بھی عمل نہ کرسکے اور قرآن واسلام کا حیلہ وحلالہ کے ذریعے بیڑہ غرق کرنے والے مفتی تقی عثمانی جیسے لوگ آخرکار سودی بینکاری کو اسلامی قرار دینے میں کامیاب ہوگئے۔
اگر سورہ بقرہ آیات222سے232اور سورہ ٔ طلاق کی پہلی دو آیات میں ان کا خلاصہ سمجھ لیا جائے تو دماغ روشن ہوگا۔ جس کمالِ ہنر سے دورِ جاہلیت کے سارے مسائل کا زبردست حل نکالا ہے اس کے بالکل برعکس فقہاء ومشائخ نے دورِ جاہلیت سے بھی زیادہ تین طلاق اور حلالہ کے عجیب وغریب مسائل نکال کر امت مسلمہ کو جاہلیت میں دھکیل دیا ہے۔ اسلام نے آخرت سنوارنے کا راستہ بتایا تھا اور علماء ومشائخ نے اسلام کو اپنی دنیا سنوارنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔
تبلیغی جماعت کا کام مولانا محمد الیاس نے بہت خلوص سے شروع کیا تھا مگر بستی نظام الدین ہندوستان اور رائیونڈ کے تبلیغی مراکز بھی تقسیم ہوگئے ۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے ایک کام ” قرآن کی طرف رجوع” کا بیڑہ مولانا عبیداللہ سندھی نے اٹھایا تھا۔ دوسرے کام ”اتحادِاُمت اور فرقہ واریت کے خاتمہ” کا بیڑہ مولانا محمد الیاس نے اٹھایا تھا۔ مولانا محمدالیاس کے صاحبزادے مولانا محمد یوسف کی وفات سے 3دن پہلے کی تقریر امت کے اتحاد پر تھی۔ حاجی محمد عثمان نے حضرت شیخ الہند کے اتحاد کا مشن مولانا محمد الیاس اور مولانا یوسف کے توسل سے اٹھایا تھا۔ مسجد الٰہیہ، مدرسہ محمدیہ ، خانقاہ چشتیہ، خدمت گاہ قادریہ، یتیم خانہ سیدنا اصغر بن حسین کے ناموں سے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع کے درمیان توڑ کی جگہ جوڑاتحادواتفاق اور وحدت پیدا کرنے کا پروگرام تھا۔
مولانا عبیداللہ سندھی کے قرآنی انقلاب کی تعلیم بفضل تعالیٰ ہم نے خانقاہ سے شروع کردی تھی۔ شیخ الہند کی تحریک کے اصل وارث حاجی محمد عثمان تھے۔ ہم نے دیوبندیت کا نام استعمال کرنے کو اتحاد امت کے منافی سمجھا تھا۔ تقلید کے خلاف حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے جو کتاب لکھ دی تھی تو اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کے فتوے نے علماء دیوبند کو مجبور کیا تھا کہ وہ تقلید کا اعتراف کریں۔ حالانکہ یہ ایک مجبوری میں لکھی جانے والی کتاب تھی جس میں عبدالوہاب نجدی کی سخت مذمت کی گئی ہے اور جب سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں نے حجاز مقدس پر قبضہ کیا تو دیوبندی اکابر نے اپنامؤقف بدل دیا کہ عبدالوہاب نجدی مقدس ہستی تھے۔ ہم نے غلط فہمی میں مخالفت کی۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت” میں جہالت کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ بہت کم علم اور کم عقل انسان بھی ایسی جہالت کا مظاہرہ نہیں کرسکتا ہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے ” تقلید کو بدعت ” قرار دینے کے خلاف آواز اٹھائی تھی لیکن وہ بھی ” تقلید کے متعلق ” یہ بے سروپا بکواس دیکھ لیتا تو پکار اٹھتا کہ ” یہ کیا گمراہ کن باتیں لکھ ڈالی ہیں”۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” جو احادیث موجودہ دور کے بارے میں درج ہیں وہ مفتی تقی عثمانی نے ائمہ مجتہدین کے دور کے بارے میں بطور دلیل پیش کی ہیں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” علم آسمان پر نہیں اٹھایا جائیگا بلکہ علماء ایک ایک کرکے اٹھتے جائیں گے، جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیںگے ۔ وہ ان سے فتویٰ پوچھیں گے تو وہ بغیر علم کے جواب دیں گے اور وہ گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے”۔ (متفق علیہ)
مفتی تقی عثمانی نے اس حدیث پر یہ بات لکھ دی ہے کہ” ائمہ مجتہدین کے بعد علم اٹھ چکاہے۔ اگر ان کے بعد کوئی اجتہاد کرے گا تو وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور جو اس کی بات پر عمل کریںگے تو وہ خود بھی گمراہ ہوںگے”۔ اگر مفتی تقی عثمانی کی یہ بات مان لی جائے تو سود کو جواز بخشنے پرمفتی تقی اور اس کو ماننے والے گمراہ ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے دوسری بات یہ لکھ دی ہے کہ ” عوام کا کام تقلید کرنا ہے اور اگر علماء غلط فتویٰ بھی دیں گے تو علماء کو غلطی پر ثواب ملے گا اور عوام کو نقصان نہیں پہنچے گا”۔ حالانکہ حدیث میں تو واضح ہے کہ جو ان کی مانے گا وہ بھی گمراہ ہوگا۔
مفتی تقی عثمانی نے قرآنی آیت اطیعواللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والی الرسول ” اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں ۔ اگر کسی بات میں تمہارا تنازع ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو” کے حوالہ سے لکھ دیا ہے کہ ”اس میں اللہ اور اس کے رسول ۖ کے علاوہ بعض لوگوں کے نزدیک حکمرانوں اور بعض کے نزدیک علماء کی اطاعت کا حکم ہے۔ زیادہ راجح یہ ہے کہ علماء ومفتیان کی اطاعت مراد ہے اور علماء ومفتیان سے عوام کو اختلاف کا حق بھی نہیں ہے ، ان کا کام صرف اطاعت ہے۔ آیت میں تنازع سے مراد علماء کے آپس کا اختلاف ہے”۔ تقلید کی شرعی حیثیت میں قرآنی آیت و احادیث کے بارے میں مفتی تقی عثمانی نے جو انتہائی غلط ، خود غرضی اور نفس پرستی پر مبنی باتیں لکھ دی ہیں وہ عوام اور علماء ومفتیان کے سامنے آجائیں تو اس کو گدھا گاڑی چلانے کے علاوہ کسی بھی علمی خدمت کے قابل ہر گز نہیں سمجھیں گے۔
قرآن میں یہودی مذہبی طبقہ کے بارے میں گدھے کی مثال اسلئے دی گئی ہے جن پر کتابیں لاد رکھی ہوں۔جب قرآن کی واضح آیات کو چھوڑ کر تقلیدی مسائل کی جستجو میں اپنا وقت ضائع کیا جائے تو مولانا انور شاہ کشمیری جیسے بڑے مخلص علماء کہیں گے کہ ہم نے قرآن وسنت کی جگہ فقہ کی وکالت میں عمر ضائع کی ہے۔ لیکن مفتی محمد شفیع جیسے لوگ اپنی اولاد کیلئے وقف مال خرید کر دین کی خدمت کو منافع بخش تجارت قرار دیں گے اور ان کی اولاد بھی اسی راستے پر چلے گی۔
مفتی شفیع و مفتی تقی عثمانی نے قرآن کے ترجمہ وتفسیر میں بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ جب تک حکومت ، علماء اور عوام بڑے پیمانے پر اُٹھ کھڑے نہ ہوں تو یہ اپنی غلطیاں اعلانیہ مان کر اپنی کتابوں سے نہیں نکالیں گے۔ہم نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے والی بات کو نکالنے پر مجبور کیا تو ” فتاویٰ عثمانی ” میں فتویٰ ڈال دیا ہے لیکن اس فتوے کی پوری داستان ہے اور اس کے پیچھے بڑے حقائق ہیں۔ جس دن واشگاف انداز میں حقائق سامنے آگئے تو انشاء اللہ دنیا میں مجرم کٹہرے میں الگ نظر آئیںگے۔نبی ۖ نے مختلف ادوار کا ذکر فرمایا:نبوت و رحمت کا دور، خلافت راشدہ کا دور، امارت کا دور ، بادشاہت کا دور، جبری حکومتوں کا دور اورپھر دوبارہ طرزِ نبوت کی خلافت کا دور جس سے آسمان وزمین والے دونوں خوش ہوں گے۔ مولانا آزاد، مولانا مودودی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید نے شیخ عبداللہ ناصح علوان کی کتاب ”مسلمان نوجوان” مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہید، ڈاکٹر اسرار احمد نے خلافت کے قائم ہونے کی پیش گوئی کی ۔
نبی ۖ سے پوچھا گیا ”ہمارے پاس یہ خیر آئی۔کیا اس کے بعد شر ہوگا؟۔ فرمایا: ہاں ۔ عرض ہوا کہ اس شر کے بعد خیر ہوگی؟۔ فرمایا: ہاں مگر اس میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ ہوں گے اور اس میں دھواں ہوگا۔ (یعنی اسلام پر اجنبیت کے آثار نمایاں ہوں گے)۔ عرض ہوا کہ اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟۔ فرمایا: جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوکر دعوت دیں گے جو ہماری زبان اور لبادہ میں ہوں گے جو ان کی دعوت قبول کرے گا تو اس کو جہنم میں جھونک دیں گے۔ عرض کیا : ان سے بچنے کا طریقہ کیا ہوگا؟۔ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے مل جاؤ۔ عرض کیا کہ اگر نہ مسلمانوں کی جماعت ہو اور نہ امام تو پھر؟ فرمایا: سب فرقوں سے الگ ہوجاؤ ، خواہ درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑجائے”۔
شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں لکھ دیا کہ ” تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے اور پہلے تین صدیاں خیر القرون کی ہیں ۔اسلئے تقلید کو چھوڑنا ہوگا”۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے لکھ دیا کہ ” خیرالقرون نبیۖ، حضرت ابوبکر وعمر اور حضرت عثمان کے دور تک تھا۔ حضرت علی کے دور میں فتنہ و فساد کا شر پیدا ہوگیا تھا، وہ بھی پہلے تین ادوار میں شامل نہ تھا”۔ حضرت علی نے کہا تھا کہ ” میں نبی ۖ کے مطابق عمل کا پابند ہوں۔ حضرت ابوبکر وعمر کے نقشِ قدم پر نہیں چلوں گا”۔ حضرت عثمان نے کہا کہ ” میں نبی ۖ ، حضرت ابوبکر وعمر کے مطابق چلوں گا”۔ حضرت عثمان اسلئے شوریٰ کی طرف سے منتخب ہوگئے۔
حضرت عثمان کی شہادت کے بعد خلافت راشدہ میں آپس کی لڑائی سے شر پیدا ہوا تھا جس نے خلافت راشدہ سے امارت تک قتل وغارت گری حضرت علی اورحضرت حسین کی شہادت تک دیکھ لی۔ پھر حکمرانوں اور عوام میں حضرت عمر بن عبدالعزیز اور ائمہ اہل بیت وائمہ مجتہدین جیسے اچھے لوگ بھی تھے۔ یزید اور امام ابویوسف جیسے برے لوگ بھی تھے۔ جس کا سلسلہ امارت کے دور سے جبری حکومتوں کے آخری دور تک بدستور قائم رہاہے۔ اب ایک طرف مذہبی لبادے میں فرقہ واریت اور جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوکر بلانے والوں کا حال ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی جماعت اور امام کے قیام کی ضرورت ہے۔
مفتی تقی ورفیع عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق حاجی محمدعثمان کے مرید وخلیفہ تھے۔ خانقاہ میں واقعہ بتایا کہ پیر نے مریدوں کو ہاتھی کا گوشت کھانے سے منع کیا۔ جنگل میں راشن ختم ہوا۔ کچھ نے ہاتھی کا بچہ ذبح کیا اور پکاکر گوشت کھایا۔ کچھ نے نہیں کھایا۔ رات کو سب سوگئے توہتھنی نے سوتے میں ایک ایک کا منہ سونگھا۔ جنہوں نے گوشت کھایا ، گردن پر پاؤں رکھ کر ماردیا اور جنہوں نے نہیں کھایا تھا تو ان کو چھوڑ دیا”۔ مولانا خانقاہ چھوڑ کر گئے تو ”ہاتھی کا گوشت” نام پڑا تھا۔فوجیوں میں سینئر خواجہ ضیاء الدین بٹ تھا جس کو آرمی چیف بنایا گیا لیکن انتہائی ذلت اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔اسلئے کہ اللہ والے کو دھوکا دیا تھا۔
حکمرانوں کی سختیاںپہنچیں گی مگر جس نے اللہ کا دین پہچانا اور پھر اس کیلئے زبان ،ہاتھ اور دل سے جہاد کیااور جس نے اللہ کا دین پہچانا اور پھر زبان سے تصدیق کی اور جس نے اللہ کا دین پہچانا ،اللہ کیلئے کسی سے دل میں محبت رکھی اور کسی سے بغض رکھا ،اس کے تمام چھپانے کے باوجود وہ نجات پاگیا، اس کے علاوہ کسی میں رائی کے برابر ایمان نہیں”۔( حدیث :عصر حاضر) ایک عالم دین نے خواب دیکھا کہ جنت کے دروازے پر حسن وحسین ہیں اور صرف حاجی عثمان کی حمایت کرنے والوں کو چھوڑ رہے ہیں، مولانا فقیرمحمد کو بتایا تومولانا فقیرمحمد نے کہا کہ ” علماء کے فتوے کو چھوڑ دو۔ اپنا تعلق حاجی محمد عثمان سے قائم رکھو”۔
نبی ۖ نے ام ہانی سے مشرک شوہر کے تعلق کو حرام کاری نہیں قرار دیا تھا مگر ریورس گیر والے مفتی عبدالرحیم اور مفتی تقی عثمانی چند ٹکوں کی خاطر علماء دیوبند کی اکثریت پر کیا فتویٰ لگارہے ہیں؟۔ یہ قادیانیوںاوراسرائیل کے ایجنٹ میرشکیل الرحمن ، ڈاکٹر انوارالحق اور جنرل قمر باجوہ پر فتویٰ کیوں نہیں لگارہے ہیں؟۔
ایک گمراہ لوگ ہوتے ہیں جن کو ہدایت مل سکتی ہے اور دوسرے جن پر اللہ کا غضب ہے۔ سوئے کو نیند سے جگایا جائے توجاگ جاتا ہے لیکن جاگا ہوا جب خود کو سویا ہوا ظاہر کرے تواس کو جگانا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ ایک مذہبی طبقہ گمراہ ہوتا ہے جب اس کو ہدایت کا پتہ چلتا ہے تو راستے پر آجاتا ہے اور دوسرا وہ طبقہ ہوتا ہے جو جان بوجھ کر حق سے منحرف ہوتا ہے۔ مفتی عبدالرحیم اور مفتی تقی عثمانی کا تعلق اس طبقہ سے ہے جس نے جان بوجھ کر حق سے انحراف کیا۔ کوئی ان سے نام لیکر فتویٰ لے کہ جن فوجی افسران یا میڈیا پرسن کی بیویاں قادیانی ہیں تو کیا ان کا تعلق حرام کاری ہے؟۔ انہوں نے ہمیں کمزور سمجھ کر فتوے دئیے لیکن اللہ تعالیٰ کا بہت شکرہے کہ ہمارا مخالف طبقہ ان کو مان کرخود پر فتویٰ لگارہا ہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ