عاصمہ جہانگیر جنازہ: انٹرویو سمیع ابراہیم: بول ٹی وی چینل: تبصرہ سید عتیق الرحمن گیلانی
فروری 24, 2018
مفتی صاحب! عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں خواتین پہلی صفوں میں ہیں جو انکے قریبی عزیز نہیں وہ بھی دیدار کررہے ہیں۔ یہ آپ نے دیکھا تو ہمارے مذہب میں اس کی اجازت ہے؟۔
مفتی نعیم: اگر عورت کا نماز جنازہ پڑھنے کا ارادہ ہو تو پچھلی صف میں کھڑی ہوسکتی ہے لیکن اس جنازے میں عورتیں مردوں کیساتھ پہلی صف میں کھڑی تھیں تویہ اختلاط ویسے شرعاً ناجائز ہے۔ اور جنہوں نے یہ کیا ہے غلط ہے البتہ جنازے کی نماز ان کی ہوجائے گی۔
سمیع ابراہیم: مفتی صاحب! جس وقت یہ ہورہا تھا ایک جید عالم فاروق مودودی صاحب نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی تو کیا وہاں علماء کا کام نہ تھا کہ آواز اٹھاتے ، روکتے کہ خواتین پچھلی صف میں جائیں۔ اگر اس انداز میں بات کو پروموٹ کریں تو معاشرے میں اسکے کیا اثرات ہونگے۔
مفتی نعیم : مجھے نہیں معلوم کہ علماء جنازے میں تھے ، اور حیدر فاروق کوئی عالم نہیں بلکہ وہ ایک خاص ذہن رکھتے ہیں اسلئے حیدر فاروق کا جنازہ پڑھانا زیادہ مؤثر نہیں ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ علماء اسکے اندر شریک نہیں ہوئے ہونگے اسلئے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم مرے ہوؤں کو برا بھلا مت کہو۔ باقی دینی اعتبار سے ان کی بہت ساری شکایتیں ہیں ، میرے ساتھ چینل میں بیٹھی ہیں، وہ تو بہت ہی خطرناک باتیں کیا کرتی تھیں ، بہر حال حضور ﷺ نے فرمایا کہ مردوں کی برائی نہ کرو۔ اسلئے میں کچھ نہیں کرتا لیکن اتنی بات ضرور کہوں کہ وہ قرآن و حدیث کو مکمل طور پر ماننے والی نہ تھیں بہت سی آیتوں کا اور بہت سی چیزوں کا وہ انکار کرتی تھیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تھے انکے اندر مسائل لیکن اب چلی گئی ہیں دنیا سے تو دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کا معاملہ فرمائے اور اسکے علاوہ کچھ نہیں۔ علماء اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ایک نئی روشن خیالی ہے کہ مرد اور عورتیں دونوں ساتھ نماز.. گویا مرنے کے بعد بھی وہ اپنی روشن خیالی دکھارہی ہیں۔ انکی اولاد بتارہی ہے کہ نمازجنازہ میں گویا مرداور عورت ایک ہی چیز ہے۔شرعاً یہ ناجائز ہے۔حضورﷺ کی ازوج مطہراتؓ سے کہا گیا کہ وقرن فی بتوتکن ’’ اور گھروں میں رہیں‘‘۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ عورت کی نماز گھر میں بہتر ہے اور گھرمیں بھی اندر والے کمرے میں۔ میں سمجھتاہوں کہ ساری میڈیا نے جو دکھایا ہے، ہمارے ملک اور مذہب کیلئے نقصان دہ بات ہے۔ مغرب میں روشن خیال انکو دیکھ لیں گے کہ یہ کرتے ہیں تو نمازہ جنازہ اور دیگر نمازیں اکٹھی پڑھیں گے یہ ایک دین سے دوری کی بات ہے اور یہ کرنا انتہائی ظلم ہے۔
سمیع ابرہیم: آپ نے بڑی اہم بات کہی ہے ، ٹیلیویژن نے دکھایاہمارے حکمران،ہماری سول سوسائٹی کے بڑے اہم لوگ شریک ہوئے لیکن کسی نے روکنے کی بات نہ کی۔یہ جو بڑھتا ہوا رحجان ہے جسطرح نیشنل میڈیا پر ہم ان چیزوں کا پرچا ر کرتے ہیں اور اگر اس حوالے سے کوئی بات کرے تو ایک مخصوص گروپ ہے جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں تو جو اس بات کو ہائی لائٹ کرے تو کبھی ان کوبنیاد پرست کہتے ہیں اور کبھی اور انداز میں چڑھائی کرتے ہیں ، معاشرے میں جو یہ چیزیں آرہی ہیں ان کو روکنے کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ آپ کیا تجاویز دینگے؟۔
مفتی نعیم: میڈیا علماء سے اسی وقت جب جنازہ ہورہا تھا لائیو انٹرویو لیتا تو ہوسکتا ہے کہ ہماری اس آواز سے کافی لوگ پیچھے ہٹ جاتے یا ان عورتوں کو پیچھے کردیتے لیکن میڈیا اب رات کے دس بجے مجھ سے سوال کررہا ہے جبکہ سب کچھ ہوچکا۔ تو میں سمجھتا ہوں اس میں میڈیا قصوروار ہے، بہت زیادہ اس کو کوریج دی بلکہ جب سے انکا انتقال ہوا ہے ان کی تعریف کی جا رہی ہے کہ انہوں نے یہ کیا یہ کیا، تو ایک تو حقوق العباد ہیں انہوں نے بندوں کے کئے ہونگے، غریبوں کی مدد کی ہوگی ، لیکن حقوق اللہ بھی ہیں ، اللہ کے حقوق، وہ اللہ کے حقوق کی کھلے عام مخالفت کرتی تھیں۔ کئی مرتبہ میرے ساتھ ایسا ہوا کہ انہوں نے اس بات پر لڑائی کی کہ میں قرآن کی اس آیت کو نہیں مانتی ، اس آیت کو نہیں مانتی تو آپ بتائیں کہ قرآن تو اللہ کی کتاب ہے اس کو اسکے ماننے نہ ماننے سے کچھ نہیں ہوتا ، لہٰذا اس بارے میں زیادہ بولنا مناسب نہیں ،اس وقت چونکہ ظاہر ہے کہ انکے رشتے داروں کا بھی دل دکھے گا لیکن انکے جنازے کے اندر یہ روشن خیالی دکھادی، یہ انتہائی افسوسناک بات ہے۔
سمیع ابراہیم: بالکل آپ صحیح فرمارہے ہیں، ان کی جو ذات ہے انکے حوالے سے بات نہیں کررہے ہمارا زیادہ فوکس یہ ہے کہ انکے نماز جنازہ میں جو کچھ ہوا اس نے معاشرے میں جو پیغام دیا ، اس میں کیا آپ حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ہیں کہ وہ اس بات کی اجازت دیتے ہیں ؟، یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ، پاکستان کا جو آئین قانون اسلامی ہے ، قرآن پاک سے پاکستان کے لاز، قوانین جنریٹ ہوتے بنتے ہیں۔ تو کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے کہ جہاں اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ مداخلت کرے اور اس چیز کو روکے؟۔
مفتی نعیم: ریاست کے لوگ روشن خیالی پسند کرتے ہیں لہٰذا جب وہ خود ہی پسند کرتے ہیں مرد عورتوں کا ساتھ چلنا پھرنا، مذاق کرنا تو جب ریاست کے لوگوں کا بھی یہی کام ہے تو وہ کیسے ان کی روشن خیالی کی مخالفت کرینگے؟ ۔ علماء فوراً اس پر گرفت کرتے اور اسکے علاوہ قرآن و حدیث سے ان کو ثابت کرتے کہ یہ چیزیں غلط ہیں نہیں ہونی چاہئیں۔ باقی ریاست کے لوگ تو ایسے ہیں کہ ہمارے جو وزیر داخلہ گزرے ہیں ان کو سورہ اخلاص بھی نہیں آتی تو کسی کو سینیٹر بنادیا ہے کسی کو وزیر داخلہ بنادیا ہے اور میں چیلنج سے کہتا ہوں کہ اسمبلی کے اندر اکثریت کو ناظرہ قرآن پڑھنا نہیں آتا ،ہماری ریاست کو سارا جمہوری نظام جو بھی گدھا گھوڑا آجائے اس کو قومی اسمبلی کا ممبر بنادیتے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارا قصور ریاست کا ہے ، البتہ میڈیا کو چاہئے تھا کہ وہ علماء کو اسی وقت لائیو لیتے اور انتظار میں تھا کہ کوئی بات کرے تو میں بات کروں۔ لیکن آ پ حضرا ت کو توفیق اب ہوئی تو اللہ تعالیٰ آپ کو پھر بھی جزائے خیر دے کہ ایک پیغام دنیا تک پہنچارہے ہیں۔ اور دنیا کو پتہ چل رہا ہے کہ کہیں اگلے جنازے میں ایسا نہ ہو۔ اور مغرب کے اندر بھی یہ شروع ہوجائے گا۔ مغرب کے لوگ تو ویسے ہی روشن خیالی کو پسند کرتے ہیں۔ اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ مؤثر انداز میں ان کی تردید ہونی چاہیے تاکہ آئندہ یہ سلسلہ جاری نہ رہے۔
تبصرۂ نوشتۂ دیوار: عتیق گیلانی
محترم سمیع ابراہیم پہلے ARYمیں تھے اور اب بول چینل میں آگئے ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے بھی ARY کے بعد بول چینل میں کام شروع کیا تھا۔ جب بول سے نکالا گیاتو ڈاکٹر عامر لیاقت نے اپنے پیغام میں معافی مانگ لی کہ جس کی دل آزاری ہوئی ہے، مجھے معاف کردے، چینل نے مجھے مجبور کیا تھا، میرے اپنے خیالات یہ نہیں تھے۔ سمیع ابراہیم امریکہ کے آزاد معاشرے میں رہے ہیں اسلئے شاید اسلامی احکامات میں زیادہ حساس ہیں، یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں کا درد بھی پیٹ میں سمایا ہواہے تاکہ کوئی نہ کوئی بہانہ ان پر حملہ آور ہونے کیلئے تلاش کیا جاسکے۔ ملک وقوم اور اداروں کا وقار بلند کرنے میں عاصمہ جہانگیر جیسی آزاد منش شخصیات کا کردار ہوسکتاہے ۔ اس تناظر میں جنرل راحیل شریف ہوتے تو شاید عاصمہ جہانگیرکی نمازِ جنازہ میں بھی شرکت کرتے اور ان کو قومی اعزاز کیساتھ ہی دفن کرنے کا بھی اعلان ہوجاتا۔ پارلیمنٹ، فوج، عدلیہ اور اہم اداروں اورشخصیات کے علاوہ علماء ومفتیان کی بھی بڑی تعداد اس میں شریک ہوتی اور جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق بھی پہنچ جاتے۔ جب مردوں میں جنازہ پڑھنے کی جرأت ہوتو خواتین کیلئے شرکت کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ سیدفاروق حیدر مودودی نے جرأت کرلی ورنہ کسی عورت ہی کو یہ فریضہ ادا کرنا پڑتا۔ جنازہ تو نبیﷺ کا بھی باقاعدہ کسی نے نہیں پڑھایا تھا۔ مولانا طارق جمیل کہتے ہیں کہ ’’ اللہ نے خود ہی نبیﷺ کا جنازہ پڑھایا تھا‘‘۔ شکر ہے کہ جنازے میں سجدہ نہیں۔ جنرل باجوہ کے خلاف بھی عاصمہ جہانگیر کی طرح سے پروپیگنڈہ نہ ہوتا کہ قادیانی ہیں تو شاید وہ جنازے میں شمولیت کی جرأت کرتے۔ جنرل باجوہ کی وجہ سے علماء خاموش رہے۔ عوام کو یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ ’’ مفتی صاحبان وقت آنے پر یہ کہتے ہیں کہ قرآنی آیات کے منکرین کا بھی جنازہ ہوجاتاہے‘‘ حالانکہ قادیانی بھی تو آیت کی غلط تأویل کی وجہ سے کافر ہیں۔ مفتی نعیم صاحب کو شاید مغالطہ ہوا ہے، ورنہ فرزانہ باری نے حلالہ کے حوالہ سے کہا تھا کہ آیت میں بھی ہو تو حلالہ پر عمل کو نہ مانوں گی۔ اگرانصار کے سردارحضرت سعد بن عبادہؓنے لُعان کی آیت پر اپنی غیرت کی وجہ سے انکار کیا اور ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا تو پروفیسر فرزانہ باری پر بھی نہیں لگ سکتاہے۔ مدارس میں حنفی فقہ کے اصول میں جس طرح سے لکھ دیا گیاہے کہ اس آیت سے حدیث متصادم ہے اور جمہور کامسلک متصادم ہے۔ وہ دیکھنے کے قابل ہے۔ سمیع ابراہیم صاحب کو پتہ چلے تو کبھی علماء ومفتیان نادانوں کو حکمرانوں کیخلاف اکسانے کی کوشش نہ کریں۔ قرآن وسنت کا بیڑہ غرق کرنے والے مذہبی طبقے نے اگر قرآن وسنت کی طرف توجہ کی تو عاصمہ جہانگیر دنیا سے چل دی مگر ان جیسی دیگر بہادرخواتین شانہ بشانہ ہوں گی۔
لوگوں کی راۓ