سینٹ انتخابات کے بعد نااہل نواز شریف کو اسمبلیوں سے اہل قرار دیا جائیگا. اجمل ملک
جنوری 11, 2018
نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر اجمل ملک نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کون لڑ رہا ہے ؟ ۔ جیو رپورٹ کارڈ میں صحافی امتیاز عالم نے کہا کہ ’’شہباز شریف کو ن لیگ نے وزیر اعظم بنا کر غلطی کی ، یہ اب ٹوڈی بن گئی ‘‘۔ مظہر عباس نے کہا کہ ’’مسلم لیگ میں وہ جینز نہیں جسکی آپ توقع رکھ رہے ہیں‘‘۔
جب حدیبیہ مل کافیصلہ ہوا اور عمران خان کو اہل، جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیا اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا : ہم بابے ہیں ،ہمیں بُرا نہ کہو، ہم پر دباؤ ہوتا توپھر حدیبیہ مل کا فیصلہ تمہارے حق میں نہ کرتے۔ دوسرے جج نے اپنے ریمارکس میں یہ لکھا کہ ’’نواز شریف و عمران خان کے کیس میں فرق تھا‘‘۔ نوازشریف نے کہا کہ وہی ہوا،جس کی شکایت ہم کررہے تھے کہ صرف نوازشریف کو ہٹانے کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر کام ہورہا ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ ججوں کواپنی صفائیاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تجزیہ نگار مزاحمت کی سیاست کی توقع کررہے تھے لیکن شہبازشریف کو وزیراعظم نامزد کرنے ، سینٹ سے الیکشن کیلئے بل پاس اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی طرف سے جمہوریت کی حمایت پر فضاء بہت بدلنے پر اتفاق رائے نظر آرہی تھی لیکن ابھی بڑا کھیل باقی ہے۔ عمران خان کی سیاسی بصیرت اور تجربہ زیرو ہے۔ پہلے کہتا رہا کہ این آر او نہیں کرنے دینگے لیکن حدیبیہ پیپر ملز کا سپریم کورٹ میں کھل جانا ہی NRO تھا۔وہ بیوقوف خوشی منارہاتھا کہ اب شہباز شریف بھی جائیگا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے بہت اچھا کیا کہ نیب سے کہا کہ رجسٹرار نے غلطی سے مجھے اس بینچ میں شامل کیا، میں فیصلہ دے چکا ہوں۔ سپریم کورٹ کیس کھولتا توبھی یہ این آر اوتھا کیونکہ پانچ ججوں نے فیصلہ دیاتھا کہ نیب یہ کیس دوبارہ کھول دے۔ نیب لاہورہائیکورٹ و سپریم کورٹ کے چکر لگاگر توہین عدالت کررہاتھا۔ نیب میں اتنی تپڑ ہوتی تو یہ کریمنل کیس سپریم کورٹ میں سننے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ ن لیگ کی قیادت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ نیب کو مردہ لاش قرار دینے والی سپریم کورٹ اب اسی کو تحقیقات کا حکم دے رہی ہے، لاش کیا تحقیق کرے گی؟۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے سماعت شروع کی تو عدالت نے حیران کن پابندی لگائی کہ ’’میڈیا میں یہ کیس زیرِ بحث نہ لایا جائے‘‘ پھر نیب سے کہا کہ مدت گزرگئی یہ کیس نہیں کھولا جاسکتاہے۔ اور اسکا قصہ ختم ہے، بار بار عدالتوں میں گھسیٹنا شریف برادران کیساتھ زیادتی ہے۔ شہازشریف نے اس کو ویلکم کیا اور عدل و انصاف کی جیت قرار دی۔ نوازشریف کومائنس ون ہی لگا۔ عمران خان نے کہا کہ اچھا ہوا،میرا مقابلہ وزیراعظم کے ایک مضبوط امیدوار شہبازشریف سے ہوگا مجھے کمزور کپتان کیساتھ کھیلنے میں مزا نہیںآتا۔ NROقبول نہ کرنیوالے عمران خان کو NRO میں مزہ آنے لگا ۔ دوسری طرف لگتایہ ہے کہ میاں نوازشریف کو باور کرایا گیا کہ ساری زندگی آپ نے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مل کر گزاری، عدلیہ پر پریشر برقرار رکھو۔ فوج کے سپہ سالار اچھے آدمی ہیں۔ فوج کو برا بھلامت کہو، مارچ میں سینٹ کے انتخابات ہونگے تو سینٹ میں اکثریت ہوگی۔ پھر بل پاس کردینگے کہ عدالت کا نااہل پارٹی صدارت کی طرح قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبرز اور وزیراعظم ، وزراء اور وزیراعلیٰ کیلئے نااہل نہیں۔ بھارتی پھولن دیوی نے ڈکیٹی کی تاریخ رقم کر کے جیل سے الیکشن جیتا۔ آمروں نے اپنی بے ایمانی کو چھپانے کیلئے سیاستدانوں پر صادق وامین کی شرط لاگو کی اور عدالتوں سے جس کو چاہا نااہل اوراہل قرار دینے کی سازش کی راہ کھولی۔
جہانگیرترین اہل ہوگاتو عمران خان کوبے انتہا خوشی ہوگی کہ چمک والے لوگ آئے تو میرے ستاروں میں روشنی آ گئی۔ یہ لوگ عدالت سے نااہل ہونگے تو مکھیاں بھی نہ مار سکوں گا۔ پیپلزپارٹی اورباقی سیاسی جماعتیں ترمیم کیخلاف نہ جائیں گی ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار افتخار چوہدری نہیں کہ خود کو بے نقاب کرکے کسی کھیل کا حصہ بنے۔ اسکے بعد جمہوریت کے خلاف سازش ہوئی تو تمام سیاسی کارکن جمہوریت کیلئے کھڑے ہونگے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اشارہ دیا کہ پارلیمنٹ اصلاحات کرے تو عدلیہ سیاست کے چکر میں نہیں پھنسے گی۔
کھیل یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں شہباز شریف اور مرکزی حکومت کو گرانے کی کوشش کی جائے۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں 14افراد کی ہلاکت کا مسئلہ اور ختم نبوت کا معاملہ اہم اہداف ہیں۔ زرداری نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ایک ایسے وقت میں ملاتات کی تھی جب ن لیگ کو ہٹانے کیلئے یہ اہم ذریعہ سمجھا جارہاتھا۔ زرداری کا یہ کہنا بڑا معنی خیز تھا کہ ’’پہلے تو ہماری کوشش ہوگی کہ یہ لوگ الیکشن کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہار مان جائیں‘‘۔ جسکا یہی مقصد ہوسکتا تھا کہ جو قوتیں ن لیگ کی حکومت کو گرانا چاہتی ہیں اب زرداری ان کیساتھ مل گئے ہیں۔ زرداری نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے کہا کہ ’’اب حکومت کو میں گرا کر دکھاتا ہوں۔ کیسے گراتا ہوں ، یہ مجھ پر چھوڑ دو‘‘۔ سیاست نام دورنگی کا ہے۔ زرداری نے سوچا ہوگا کہ جو قوتیں ن لیگ کو گرانا چاہتی ہیں اگر انہوں نے گرانے کا فیصلہ کرلیا تو ن لیگ کی حکومت کو گرانے کاکریڈٹ اسی کو جائیگا، اوراگر حکومت کو گرانے کا پلان نہ رہا تو زرداری نے اپنے بیان کو سیاسی دغا بازی قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ میری سیاست کو سمجھنے کیلئے PHDکی ضرورت ہے۔ حکومت کی طرف سے ختم نبوت کے مسئلہ پر دھرنے والوں سے جو معاہدہ کیا گیا،اس میں سازش کرنیوالوں بے نقاب کرنے کا وعدہ تھا جس کی مدت پوری ہوگئی۔ اسلام آبادہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے ایک طرف دھرنے کا الزام فوج پر لگادیاتو دوسری طرف یہ ریمارکس دئیے کہ انوشہ رحمان کو بچاکر وزیر قانون زاہد حامد کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ حکومت کی طرف سے ن لیگ کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ راجہ ظفر الحق نے کہاکہ ’’بہت ہوشیاری سے سازش کی گئی جس کو پکڑلیاگیا، اور یہ رپوٹ سابق وزیراعظم نوازشریف کو سپرد کردی گئی‘‘۔ حکومت میں شامل مولانا فضل الرحمن نے میڈیا پر بتایاکہ ’’ ہم نے اس سازش کو ناکام بنایا، امریکہ کو سازش کرنے والوں نے اس کی کامیابی کی اطلاع بھی دی تھی‘‘۔ اس کیس کے اہم کردار سینٹرحافظ حمداللہ نے کہا کہ ’’ ہم خود کو بری الذمہ اسلئے نہیں سمجھتے کہ حکومت کا حصہ ہیں مگرحکومت کیساتھ اپوزیشن نے بھی آواز اٹھانے پر ختم نبوت کے مسئلہ پر میرا ساتھ نہیں دیا، راجہ ظفر الحق کے کہنے پر زاہد حامد ختم نبوت کے مسئلہ پر مجھ سے متفق ہوگئے‘‘ حکومت اور اپوزیشن نے جان بوجھ کر یا غفلت کا ارتکاب کیا؟، قومی اسمبلی میں شیخ رشید نے ختم نبوت کیلئے آواز اٹھائی جو تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی کیلئے بالکل بھی توجہ کے قابل نہ تھی۔ جماعت اسلامی کے طارق اللہ نے ساتھ دیا۔ جمعیت علماء اسلام ف حکومت کا حصہ تھی اسلئے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ اگر مذہبی سیاسی جماعتوں کو گھاس ڈالی گئی تو تحریک کا حصہ بنیں گی اور کہیں گی کہ تحریک نظام مصطفی میں قادیانی اصغر خان سے مل کر بابائے جمہوریت ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کو چلتا کردیا تو بابائے اسٹیبلشمنٹ نوازشریف کی حکومت کو چلتا کرنے میں کیا حرج ہے؟۔ مہروں کے علاوہ اور یہ کچھ کرنہیں سکتے ہیں۔
لوگوں کی راۓ