سینٹ الیکشن سے جمہوریت ناکام ہوئی ہے مولانا فضل الرحمن کے بیان پر فیروز چھیپا کا تبصرہ
مارچ 16, 2018
ڈائریکٹر فنانس نوشتۂ دیوار فیروز چھیپا نے مولانا فضل الرحمن کے بیان پر تبصرہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھیوں نے وقت پر احتجاج کیا کہ ہمیں ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر نظر انداز کیا گیا اسلئے سینٹ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ تین مولانا کے نام پکارے گئے لیکن وہ غیر حاضر تھے، جس پر ن لیگی رہنما پریشان ہوکر تلاش میں نکلے اور فون کرنے لگے، پھر مولانا صاحبان تشریف لائے اور اپنا ووٹ بھی کاسٹ کیا۔ جب زیادہ تعداد میں اپوزیشن کے نامزد چیئر مین کو ووٹ مل گئے تو یہ چہ مگوئیاں شروع ہوئیں کہ کس نے دغا کیا ہے؟۔ کچھ لوگ ن لیگ کے اپنے ارکان کی طرف انگلی اٹھانے لگے اور کچھ نے مولانا کی عزت افزائی کی۔ مولانا نے کہا کہ ’’میں بھی حیران ہوا کہ یہ کیسے ہوا؟۔ میں اپنے ارکان کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔ گرچہ مولانا فضل الرحمن اپنی حکمت عملی اور طریقہ کار کے مطابق سرخیوں میں رہتے ہیں اور میڈیا ان سے بغض رکھتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے بغیر پاکستان کی سیاست کا باب نہیں کھلتا ہے۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں بہت زیادہ قربانیاں مولانا نے دیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ علماء کرام کے فتوؤں کی زد میں بھی رہتے تھے۔ جب 1988ء کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو پہلے مولانا ان کے اتحادی تھے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنیوالے موسم لیگی تھے۔ نواز شریف نے چھانگا مانگا میں منڈی لگائی تھی اور اپنے جانوروں کو حصار میں بند کیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے اپنے ممبروں کو بچانے کیلئے سوات میں قید کیا تھا۔ عمران خان کی موجودہ بیگم کا سسر غلام محمد مانیکا اور ایک دوسرا لیگی پیپلز پارٹی والوں کا شکار ہوا جسکی وجہ سے تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا سو فیصد درست تھا کہ ان کے ممبروں کی کوئی قیمت نہیں لگا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے جانشین غلام اسحاق خان کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کے مقابلے میں جتوایا۔ جس کی وجہ سے دونوں کے منہ کو اسٹیبلشمنٹ کی تاریخی کالک لگ گئی، لیکن مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت کی کمان سنبھالی رکھی تھی۔
جب متحدہ مجلس عمل کے تحت ڈھیر سارے علماء جیت گئے تو اکرم خان درانی کوداڑھی رکھوا کروزیر اعلیٰ کا منصب دیا گیاتھا ۔ جس میں پیسہ بنانے کی صلاحیت زیادہ تھی۔ پھر علماء نے بھی یہ صلاحیت پیدا کرلی اور تحریک انصاف کے موجودہ رہنما اعظم سواتی کو اپنا ووٹ بیچ کر سینیٹر منتخب کروایا۔ اعظم سواتی کو تجارت لن تبور کا پتہ چلا تو وہ جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوا۔ مولانا کو اپنی تاریخ کا اتنا بھی پتہ نہیں تو یہ بڑھاپے کی وجہ سے حافظے کی کمزوری ہے یا دولت گنتی سے باہر ہوگئی ہے؟۔ مولانا فضل خود قومی اسمبلی کے ممبر ہیں ، ایک بھائی سینیٹر اور دوسرا صوبائی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن ۔ بیٹے کو بھی ٹکٹ دیا تھا مگر کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایک بھائی ٹیلیفون کے محکمے میں بھرتی ہوا جو نیم سرکاری ادارہ تھا ، پھر کونسے اصول کی چھڑی چلائی کہ پی ایم ایس کے افسروں میں شامل کیا گیا۔ پھر سی ایس ایس کے افسروں میں شامل ہوکر میرٹ کو روندتا ہوا کمشنر تک پہنچ گیا۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو بلیک میل کرنے کیلئے سینٹ کے انتخابات کے عین موقع پر ڈرامہ رچایا اور شاید پھر مسلم لیگیوں کی طرف سے بلیک میلنگ میں آنے کے بجائے چٹہ بٹہ کھولنے کی دھمکی سے اپنے مقام پر آگیا۔ اسلئے مولانا کی حیرت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔
سیاستدانوں کی ان حرکات کی وجہ سے سیاست بدنام ہوگئی ہے، سینٹ کے ڈپٹی چیئر مین سلیم مانڈی والا نے اسلامی آئین کا حلف اٹھایا تو شیریں رحمان نے مبارکبادی کیلئے اس سے بغل گیر ہوگئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ شیریں رحمن کا سلیم مانڈی والا سے کیا رشتہ ہے؟۔ اور ان کی رسم و روایت کیا ہے؟ لیکن یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر سلیم مانڈی والا کے بجائے تھر کی ہندو سینٹر کرشنا کماری ہوتی تو وہ کسی مرد کو اس طرح بغل غیر نہ ہوتی، بلکہ ہاتھ بھی نہ ملاتی۔ ہمارے ہاں تو گوہ کا نام لو حلوہ رکھ دو اور شراب کا زم زم ، سودکا زکوٰۃ یا سودی بینکاری کا اسلامی بینکاری تو سب کچھ اسلام کے نام پر جائز بن جاتا ہے۔ فضل الرحمن نہ جانے کیوں یہ بات کہہ رہے ہیں کہ جو زرداری پر بھاری ہے، اس نے صادق سنجرانی کو منتخب کروایا۔ اگر اپنے ارکان پر شبہ نہیں تو بلوچستان کی حکومت کو بدلنے میں مرکزی کردار انہی کا تھا؟۔
لوگوں کی راۓ