سراج الحق، سعد رضوی، مولانا فضل الرحمن بمقابلہ زرداری، نواز شریف، عمران خان: اوریا مقبول جان - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

سراج الحق، سعد رضوی، مولانا فضل الرحمن بمقابلہ زرداری، نواز شریف، عمران خان: اوریا مقبول جان

سراج الحق، سعد رضوی، مولانا فضل الرحمن بمقابلہ زرداری، نواز شریف، عمران خان: اوریا مقبول جان اخبار: نوشتہ دیوار

سراج الحق، سعد رضوی، مولانا فضل الرحمن بمقابلہ زرداری، نواز شریف، عمران خان: اوریا مقبول جان

سیاسی جماعتیں بمقابلہ مذہبی جماعتیں کس نے بدترین گالی بریگیڈ پالا ہے؟ اوریا مقبول جان اور عرفان صدیقی

پاکستان کی سیاسی زندگی گذشتہ50سال سے اس قدر تلخ ہو چکی کہ یہاں اپنا نقطہ نظر بیان کرنا خود کو خوفناک جنگل میں اتارنا ہے۔ طعن و تشنیع، گالی گلوچ، ذاتیات ، اہلِ خانہ تک کی کردار کشی جیسی بلائوں کا سامنا کرنا پڑیگا، عرفان صدیقی جیسے صاحبِ علم اور حسنِ کردار سے آراستہ شخص کو سراج الحق کے بیان پر مخالفانہ تبصرہ کرنا پڑا، تو انہوں نے کالم کے آغاز میں ہی سراج الحق کی تعریف و توصیف کر کے خوبصورت پیش بندی کی، انیس کے شعر کو نثری قالب میں ڈھالا۔
خیالِ خاطر احباب چاہئے ہر دم انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
سراج الحق کی درویشی اور قلندری کا تذکرہ کرکے انہیں ”عالی مقام”کے منصب پر سرفراز کرنے کے بعد ہی اپنے لئے ان سے اختلاف کی گنجائش نکالی۔ عرفان صدیقی کیساتھ میرا احترام و محبت کا رشتہ ہے،ان کی نفاستِ طبع کا مداح ہوں۔مجھے مکمل ادراک ہے کہ سراج الحق خود نہ بھی چاہیں، مگر انکے بیان سے اگر کوئی اختلاف کی جرات کرے تو پھر جماعتِ اسلامی کی ”جدید سوشل میڈیائی ذریت”اس ”ناہنجار”کے ساتھ ”ہولناک”سلوک کرتی ہے۔جماعتِ اسلامی کی سوشل میڈیا ٹیم تو ایک ”لفظ ”بھی زبان سے نکالنے کی معافی نہیں دیتی۔ آپ نے خواہ انکے حق میں لکھتے ہوئے ایک عمر گزاری ہو مگر وہ ایکدم آپ کے گذشتہ کئی دہائیوں کے تعلق پر پانی پھیرتے ہوئے، سیدھا سیدھا ”منافق”، بِکائو اور گمراہ کے القابات سے نواز دینگے۔ ان کی دشنام طرازی کی ”لغت”میں جو فصاحت و بلاغت ہے پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اورن لیگ کے جدید”لونڈوں”کو یہ ”دولتِ علم” میسر ہی نہیں ۔ عبداللہ بن ابی کے نقشِ جدید تک یہ سب کچھ کہہ ڈالتے ہیں۔یہ المیہ صرف جماعتِ اسلامی کو درپیش نہیں بلکہ ہر وہ مذہبی سیاسی جماعت درجہ بدرجہ اس مرض کا شکار ہے جو انتخابی سیاست کی ”غلاظت نگری” میں اتر چکی۔ سب سے کم عمر جماعت تحریکِ لبیک پاکستان ہے۔ آپ انکے سوشل میڈیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں تو آپ کو اور کچھ نیا ملے نہ ملے، مگر آپ کی گالیوں کے ذخیرہ الفاظ میں خاطر خواہ اضافہ ضرور ہوگا۔
یہی عالم مولانا فضل الرحمن کے عقیدت مندوں کا ہے۔ ان ”علما ء و فضلائ” کی گالیوں کا ذخیرہ الفاظ تو عربی و فارسی لغت سے ”مرصع” ہے۔ ن لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی والوں کو ایسی ”علمی بصیرت”واقعی میسر نہیں جس میں یہ تمام مذہبی جماعتیں بدرجہ اتم کمال رکھتی ہیں۔ یہ”مذہبی سیاسی میڈیا ماہرین” انتہائی آسانی سے کسی پر کافر، قادیانی، یہودیوں کا ایجنٹ، کے فتوے لگا سکتے ہیں۔اس طرح کے فتوے پی ٹی آئی، ن لیگ یا پیپلز پارٹی کے ”کارندے” لگانے کی جرات نہیں کر پاتے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر ایسا فتوی لگایا تو مقابلے میں ان تمام مذہبی جماعتوں کے دارالافتاء کھل جائیں گے، جسکے نتیجے میں کئی”سرفروش” اگر جوش میں آ کر ان کی جانب بندوقیں تان لیں، تو پھر موت یقینی ہے۔
عرفان صدیقی کے کالم کا پہلا پیرا انکے اسی خوف کی عملی تصویر نظر آتا ہے۔ میں نے منور حسن امیر جماعتِ اسلامی سے دست بستہ کہا تھا کہ جماعتِ اسلامی کو کم از کم 5سال کیلئے تمام تر سیاسی سرگرمیاں ترک کر کے صرف اپنے اراکین کے تزکیہ پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے تاکہ جماعتِ اسلامی کا سنہرادور لوٹ آئے کہ جب خلقِ خدا کہتی تھی کہ ہم جماعتِ اسلامی والوں کو ووٹ دیں یا نہ دیں ہم ان کے اخلاق، حسنِ سیرت، کردار اور ایمانداری کی گواہی ضرور دے سکتے ہیں۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا جنگجوئوں کا عالم اس قدر غضب ناک ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن، سراج الحق یا سعد رضوی کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالیں، ان کی پالیسیوں پر بھی تنقید نہ کریں، بالکل خاموش رہیں، مگر ایک غلطی سرزد ہو جائے کہ آپ ان کے انتخابی مخالف مثلا ”عمران خان”کے ہی کسی موقف کے حق میں کوئی بات کہہ دیں تو پھر دیکھیں”میڈیا کے مذہبی جرنیل” فوراً آپ پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دینگے، کردار کشی شروع کر دینگے اور پھر ان کا ہر کارکن ثواب سمجھ کر اس میں شریک ہو جائیگا۔ان سے پوچھو کہ میں نے کیا آپ کے اکابرین کو کچھ کہا، کیا آپ کی کسی پالیسی پر تنقید کی تو یہ ایک دم آگ بگولا ہو کر بولیں گے تم نے”فلاں ابن فلاں”کا ساتھ دیا، اس لئے اب ہمارے نزدیک تم بھی ”فلاں ابن فلاں”ہو۔ کاش!یہ تمام مذہبی جماعتیں اپنے تمام سوشل میڈیا محبان کو اپنے ”پیجز”اور اکائونٹس پر رسول اکرم ۖ کی یہ حدیث اور قرآنِ پاک کی یہ آیت لکھنے کا حکم دیں تو عین ممکن ہے یہ سدھر جائیں۔
رسول اکرم ۖ نے فرمایا،”مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے”(صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔ اس کے ساتھ ہی اگر قرآنِ پاک کی یہ آیت بھی تحریر ہو جائے، ”بے شک اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا”(المنافقون:6)۔ یعنی آپ گالی دینے سے فاسق ہو جاتے ہیں تو پھر آپ ہدایت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے لئے یہ آیت اور حدیث کافی ہے۔
اس موضوع پر بہت کچھ ہے جو ضبطِ تحریر میں لانا لازمی ہے۔ فساد خلق سے ڈر کر اگر مذہبی سیاسی جماعتوں کی نسلوں کی غلطیوں کی طرف اشارہ نہ کیا تو روزِ حشر ہم سب لکھنے والے جواب دہ ہونگے، یہ وبا زہر کی طرح تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کے نوجوانوں میں سرایت کر چکی ہے۔ لیکن اس دفعہ میری مشکل بہت آسان ہے کیونکہ مجھے سراج الحق کے بیان اور اسکے جواب میں عرفان صدیقی کے کالم دونوں میں سے مجھے سراج الحق کے بیان کا دفاع کرنا ہے، اس لئے عین ممکن ہے اس دفعہ میں جماعتِ اسلامی کی گولہ باری سے بچ جائوں گا۔
رہا عرفان صدیقی کا معاملہ تو انکے نہ تو پروانے اور فروزانے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی سوشل میڈیا سیل ہے، جسکا ”گالی بریگیڈ” ان کے دفاع پر مامور ہو۔ اسلئے مجھے کوئی خوف نہیں۔ ویسے بھی ان جیسے وسیع القب اور عالی ظرف لوگ تو پاکستانی معاشرے کا جھومر ہیں۔ شریف خاندان سے تمام محبتوں اور وابستگیوں کے باوجود ان کی مجھ سے محبت میں کمی نہیں آئی۔ بلکہ عین ان ایام میں جب میں شہباز شریف کے زیرِ عتاب تھا تو ان کے حج کے سفر نامے کی کتاب شائع ہوئی، جس پر پاکستان ٹیلی ویژن نے ان سے انٹرویو کا اہتمام کرنا تھا۔عرفان صدیقی نے ٹیلی ویژن والوں کو ہدایات دیں کہ اس کتاب پر صرف اوریا مقبول جان کو انٹرویو دوں گا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ارباب حل و عقد مشکل میں پڑ گئے کہ مجھے کیسے بلائیں؟، تو انہوں نے کہاکہ اوپر والوں کی ناراضگی کی فکر مت کرو، میں سنبھال لوں گا۔ اس رشتے اور تعلق کی نزاکت اور عرفان صدیقی کی محبتوں کے احترام کیساتھ میں ان سے اختلاف اور سراج الحق کے بیان کی حمایت کی جسارت کر رہا ہوں، جو خالصتاً علمی، تاریخی اور نظریاتی ہے۔
سراج الحق نے ایک اساسی اور بنیادی نوعیت کا مشورہ دیا، جس میں مملکتِ خداداد پاکستان کی لاتعداد سیاسی و انتظامی بیماریوں کا علاج پوشیدہ ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ آرمی چیف کی تقرری کیلئے وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ختم ہونا چاہئے اور یہ تقرری چیف جسٹس آف پاکستان کی طرح (سنیارٹی کی بنیاد)پر ہونی چاہئے۔میں نے آغاز میں ہی سراج الحق کے اس بیان کی مکمل حمایت کر دی تاکہ کالم میں دلائل کی یکسوئی قائم رہے۔ مکمل حمایت کے باوجود مجھے اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ سراج الحق کی یہ خواہش کم از کم موجودہ عالمی اور ملکی حالات کے تناظر میں پوری نہیں ہو سکتی مگر اچھی خواہش امید کو سینوں میں پروان چڑھانے میں کیا حرج ہے۔75سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ”قانوناً” پاکستانی فوج کے سربراہ کو تعینات کرنے کا اختیار بظاہر گورنر جنرل، صدر یا وزیر اعظم کو حاصل رہا ہے لیکن یہ اختیار کچھ ”ناقابلِ بیان” عوامل کی رسیوں میں ہمیشہ جکڑا رہا۔
لیاقت علی خان26مئی کو امریکہ کے ڈھائی ماہ کے دورے سے واپس لوٹے تو ان کی”زنبیل” میں لاتعداد وعدوں کے کھلونے تھے، جن کی قیمت ملک نے آہستہ آہستہ ادا کرنا تھی۔ امریکی اس دوران منظورِ نظر کا انتخاب کر چکے تھے جس نے آئندہ حقیقت میں(De’-fecto) سربراہ بننا تھا۔ ”حقیقت میں حکمران” اسلئے لکھا کہ تمام امریکی صدور خفیہ خط و کتابت میں پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کو ہی اصل حکمران لکھتے رہے اور اب تو یہ تمام خط و کتابت امریکی سکیورٹی آرکائیوز نے طشت ازبام کر دی ہے۔ اس بڑے عالمی کردار کے علاوہ گزشتہ کافی عرصے سے کچھ دوست و مربی ممالک کا کردار بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہ گیا۔ ان ممالک سے ہم مصیبت کی گھڑی میں مدد حاصل کرتے ہیں۔
ویسے بھی جدید سیاسیات میں ریاست کا اہم ترین جزو”اقتدارِ اعلی” ہوتا ہے اور دنیا متفق ہے کہ کمزور ریاستوں کا کوئی”اقتدارِ اعلی” نہیں ہوتا،پاکستان ان میں ایک ہے۔ اسی لئے جو بھی مقتدر یا ”حقیقت میں حکمران”ہوتا ہے، اسے مسند پر بٹھانے اور اتارنے دونوں صورتوں میں عالمی طاقتیں خصوصا امریکہ ضرور شریک ہوتا ہے۔اس عالمی جکڑ بندیوں کے اندر رہتے ہوئے اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ پاکستان کی فوج کا سربراہ ان کی ”رینک اینڈ فائل” سے ویسے ہی آئے گا، جیسے تمام لیفٹیننٹ جنرل ترقی کرتے ہوئے پہنچتے ہیں اور ان ترقیوں کا کسی سیاسی سربراہ کو علم تک نہیں ہوتا، تو پھر شاید یہ مسئلہ عمر بھر کیلئے حل ہو جائے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ایسی ہی شفاف تعیناتی خود سپریم کورٹ نے اپنے مشہور” ججز سنیارٹی کیس”کے فیصلے سے حاصل کر لی۔ الجہاد ٹرسٹ کیس والا یہ فیصلہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ، اجمل میاں، فضل الٰہی خان، منظور حسین سیال اور جسٹس میر ہزار خان کھوسہ نے دیا۔ جس میں یہ اصول طے کر دیا کہ جو جج سینئر ہوگا، وہی چیف جسٹس بننے کا حق دار ہوگا۔ بینچ کے سربراہ خود سجاد علی شاہ کو بینظیر بھٹو نے جونیئر ہونے کے باوجود اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے چیف جسٹس لگایا تھا۔ بہت معرکہ خیز دور تھا۔ اسی سجاد علی شاہ کے خلاف نواز شریف کی مسلم لیگ سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑی تھی اور ججوں کو جان بچانے کیلئے چیمبرز میں گھسنا پڑا تھا۔ ججز سنیارٹی کیس کو بنیاد بنا کر کوئٹہ میں سپریم کورٹ رجسٹری کے تین ججوں ناصر اسلم زاہد، خلیل الرحمن اور ارشاد حسن نے اپنے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو سنیارٹی کی بنیاد پر نااہل قرار دیا تھا۔ اسی دوران ناراض نواز شریف نے فاروق لغاری سے سجاد علی شاہ کو برطرف کر کے قائمقام چیف جسٹس لگانے کیلئے کہا لیکن شریف النفس فاروق لغاری عزت سمیٹے مستعفی ہو گئے۔ رفیق تارڑ صدر منتخب کر لئے گئے جنہوں نے سپریم کورٹ رجسٹری کوئٹہ کے فیصلے کے مطابق سجاد علی شاہ کو23دسمبر1997کو برطرف کر کے اجمل میاں کو چیف جسٹس لگا دیا۔آج پچیس سال گزرنے کے بعد قوم کم از کم دوبارہ کبھی اس بحران سے نہیں گزری کہ آئندہ چیف جسٹس کون ہوگا اور وہ کس کا منظورِ نظر ہوگا۔ عرفان صدیقی نے عدلیہ کے متنازعہ فیصلوں کو جواز بنایا ہے۔ کاش وہ ان تمام ججوں کے کیریئر پر ایک نظر دوڑائیں اور پھر ان کو ہائی کورٹ کا جج لگانے والے ایسے تمام وزرائے اعظم کے دستخط ملاحظہ فرمائیں تو انہیں اپنے ممدوح نواز شریف کے دستخط سب سے زیادہ ملیں گے۔
تمام وزرائے اعظم نے اپنی پارٹیوں سے سیاسی وابستگی رکھنے والے وکلا کو جج لگایا اور پھر ان سے جیسی توقعات وابستہ کی تھیں، اگر انہوں نے اسکے برعکس کام کیا تو انہی کو مطعون کر دیا جیسے کوئی غلام حکم عدولی کرے تو بہت غصہ آتا ہے۔ ججوں کی تقرری کی خشتِ اول اقربا پروری، سفارش اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر نہ رکھی جاتی تو آج آپ یہ گلہ کبھی نہ کرتے۔ آج بھی اگر ججوں کی تعیناتی کا نظام سول سروس کی طرح براہِ راست میرٹ پر ہو اور اعلی عدالتوں میں وکلا کا کوٹہ مکمل ختم کر دیا جائے تو پاکستان کی عدلیہ میں ایک سنہرا دور لایا جا سکتا ہے۔
سیاسی مداخلت اور وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیار نے ملک کے سب سے قابل ادارے سول سروس کو جس طرح تباہ و برباد کیا، اس کی کہانی المناک ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر1973تک ملک پر جو بھی سیاسی افتاد آئی، حکومتیں بدلیں مارشل لاء آئے لیکن سول سروس کے مضبوط ڈھانچے نے ملک کو جو1947میں پسماندہ اور بے یار و مددگار تھا، دنیا میں ایسے مقام پر کھڑا کیا کہ انگلینڈ کی گریجویشن میں ترقیاتی معاشیات (Development Economics)کے کورس کی کتاب میں پاکستان صنعتی اور زرعی ترقی کو مثال کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ چودہ اگست1947کو سول سرونٹ جو کامن پن نہ ہونے کی وجہ سے جھاڑیوں سے کانٹے چن کر فائلیں مرتب کیا کرتے تھے انہی کی شبانہ روز محنتوں نے صرف25سال میں پاکستان کو دنیا بھر میں صنعتی، زرعی اور اقتصادی شعبے میں روشن مثال بنا دیا اور پاکستان پر کل قرضہ صرف3.5ارب ڈالر تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے1973میں جو متفقہ آئین دیا اس میں وہ تمام آئینی ضمانتیں ( Guarantees)ختم کر دیں جو ایک سول سرونٹ کو حاصل تھیں جس کی وجہ سے وہ اپنی ایمانداری کو برقرار رکھ سکتا تھا۔ ۔بھٹو کے آئین نے سول سرونٹس کو سیاسی آقائوں کے رحم و کرم پر ڈال کر انہیں ان کا غلام بنا دیا ۔ آج ادارے کی تباہی بربادی سب کے سامنے واضح ہے۔ ناکام، ناکارہ، سیاسی آقائوں کے اشارے پر چلنے والی سول سروس جس میں نہ ایمانداری ہے اور نہ اخلاق، نہ خود پر یقین ہے اور نہ ہی اپنے مستقبل پر بھروسہ۔پاکستان کی افواج ابھی تک صرف ایک آرمی چیف کی تعیناتی کے علاوہ باقی ہر معاملے میں کسی بھی قسم کے تنازعے سے پاک ہیں۔ یہ عہدہ بھی اس لئے متنازعہ ہوا کیونکہ طالع آزما جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کر کے متنازعہ بنایا۔75 سال انکی نرسری میں سیاستدان دانا دنکا چگتے رہے۔ یہ خود برسراقتدار نہیں ہوتے تو جسکے سر پر انکا ”ہما”بیٹھ جاتا وہ اقتدار میں آ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں گزشتہ50سالوں میں ایک ایسی تباہی پھیلی، ایسا زوال آیا کہ اب چاروں اور ماتم برپا ہے۔
جب تک سیاستدان اس مرکز طاقت کو رام کرنے کے چکر میں رہیں گے، یہ وہ خواہ اس کا سربراہ لگا کر کریں یا ان سے مدد کی بھیک مانگ کر، اور جب تک سول بیوروکریسی کبھی سیاستدانوں اور کبھی فوجی سربراہوں کی دستِ نگر، زیرِ سایہ اور محتاجِ محض رہے گی یہ ملک نہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی پرامن رہ سکتا ہے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ کی تعیناتی ویسا معمول کا عمل ہونا چاہئے جیسے چیف جسٹس کی تعیناتی ہے ورنہ ہر تین سال بعد رونق تو خوب لگتی رہے گی۔

__اوریا مقبول جان کی تحریر پر تبصرہ__
پہلے تو اوریا مقبول جان سے معذرت کہ صاحب کا لفظ اور کچھ جملے کو مختصر کرنے کی وجہ سے کاٹنا پڑگیا۔ دوسرا یہ کہ جب تحریر یا تقریر سے جان جاتی ہو توپھر خود کش اور بندوق وپستول کے حملوں سے کتنی جان جاتی ہوگی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اوریامقبول جان طالبان ، تحریک لبیک، تحریک ختم نبوت، ناموس رسالت اور مذہب کے نام پر چلنے والی جماعتوں کے واقعی بڑے ہمدرد بلکہ نجأت کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن اب معلوم ہواکہ معاملہ کچھ اور ہے۔ آرمی چیف کے معاملے کو متنازعہ بنانے کا دکھ اچھی بات ہے لیکن اس میں اوریا مقبول جان اور ان چہیتی سیاسی جماعتوں نے کتنا کردار ادا کیا اور مذہبی جماعتوں کا کتنا کردار تھا؟۔ جبکہ عمران خان نے سب سے پہلے سینئر موسٹ کو لگانے کی بات کی تھی ۔نوازشریف نے کسی خاص کی نفی کرتے ہوئے سب کو یکساں قرار دیا مگرتماشا تو اوریامقبول جان جیسے لوگوں نے ہی لگایا تھا۔ آرمی چیف کی تقدیر کا فیصلہ وزیراعظم کا اختیار ہے لیکن کوئی آرمی چیف اس بنیاد پر کسی کا داماد تو نہیں بن جاتا ہے۔ اس کی ایک سروس ہوتی ہے اور اپنا ادارہ اور اس کی خیرخواہی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
پہلے اوریامقبول جان نے ایک بہت سنسنی پھیلائی تھی کہ حافظ سید عاصم منیر شاہ کسی صورت بھی آرمی چیف نہیں بن سکتے۔ اب جب بن گئے تو سراج الحق کو ٹوپی سے پکڑلیا کہ ” سنیارٹی کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی ہونی چاہیے” تاکہ یہ تأثر پھیل جائے کہ موجودہ سینارٹی لسٹ کے مطابق تعیناتی پر اور یا مقبول بھی بہت خوش اور متفق ہیں۔ عرفان صدیقی کے دامن کو پیچھے سے پکڑلیا کیونکہ اب آرمی چیف ن لیگ کی خواہش کے مطابق تعینات ہوا ہے اور عرفان صدیقی بھی اس ٹیم کا ایک حصہ ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ عرفان صدیقی کی تجویز پر منتخب کیا گیا تھا لیکن عرفان صدیقی کو اسی کے دور میں جیل کی ہوا کھانی پڑگئی تھی اور جنرل باجوہ کی تائید میں اوریا مقبول جان نے ایک خواب بھی میڈیا پر بتایا تھا۔ لوگوں کو اس کے مشرف دور کے پروگرام یاد ہیں کہ فوج کے حق میں کہتا تھا کہ” بڑے معصوم فوجی جرنیل ہمیشہ اچھے رہے اور سول بیوروکریسی تمام خرابیوں کی جڑ رہی ہے”۔ اب فوج بری لگ رہی ہے اور بیوروکریسی کا کردار زبردست ہوگیا؟۔
عرفان صدیقی اپنے لہجے میں مٹھاس اور نزاکت خیزی کی جگہ حق کی خاطر بہت کڑوے بلکہ گالی برگیڈ بن جائیں لیکن معاشرے میں زہر گھولنے کیلئے کوئی جھوٹ مت بولیں۔ جب عرفان صدیقی نے کہا کہ ”رفیق تارڑ پر پانچ جرنیلوں نے بندوق تان کر دباؤ ڈالا کہ استعفیٰ دو لیکن رفیق تارڑ ڈٹ گئے ”۔ جس پر حامد میر نے بڑے مذاحیہ لہجے میں کہا کہ ” رفیق تارڑ نے ”۔ محترم قاری اللہ داد صاحب سے کہا کہ ” قرآن نے زانیوں پر لعنت نہیں بھیجی لیکن جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجی ہے”۔ عرفان صدیقی لال کرتی کے بدنام مکانات میں جاتے مگر نواز شریف کیلئے جھوٹ نہ بولتے ۔ ن لیگ جماعت اسلامی ،سپاہ صحابہ، مولانا سمیع الحق اورطالبان کیساتھ کھڑی ہوتی تھی اور اب مولانا فضل الرحمن کیساتھ کھڑی ہوگئی لیکن جونہی پیپلزپارٹی سے اتحاد ناگزیر ہوگیا اور تحریک لبیک سے خطرہ پیدا ہوگیا تو عرفان صدیقی نے بہت باریکی سے مذہبی طبقے پر وار کیا۔ اوریا مقبول جان کو مذہبی اسٹیج پر بولنے کا موقع ملتاتھا لیکن مرد کے بچے نے نصیحت نہیںکی؟۔
آخرت کو سنوارنے کیلئے اسلام کے بنیادی معاشرتی معاملات پر علمی گفتگو کرنی چاہیے تاکہ حلالہ کی لعنت اور عورت کی حق تلفی کے مسائل کا خاتمہ ہو۔ اگر مذہبی طبقہ طاقت میں آتا تواوریا مقبول اور عرفان صدیقی کو طالبان بنتے دیکھا ۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟