پہلی ہجرت مکہ سے مدینہ کی تھی ،دوسری ہجرت اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے کرنی ہوگی۔عتیق گیلانی
مارچ 7, 2017
مسلم اُمہ نے اسلام کی نشاۃ اوّل کیلئے پہلی ہجرت مکہ سے مدینہ کی تھی ،دوسری ہجرت اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے کرنی ہوگی۔ صلح حدیبیہ کے معاہدہ پرمکہ فتح ہوا، دوسرامعاہدہ پوری دنیا فتح کرنے کیلئے کرنا ہوگا۔ایک میثاقِ مدینہ کیا تھا، دوسرا میثاقِ فلسطین کرنا ہوگا۔
مسلمانوں کی جان، مال اور عزتوں کا بازار لگاہواہے، دنیا میں مسلم ریاستیں تہس نہس کرکے قتل وغارت گری، فتنہ و فساد، لوٹ مار ، تباہی وبربادی اور ہجرتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے لیکن کسی کی آنکھ نہیں کھل رہی ہے۔ اقوام متحدہ یہودی لابی کی لونڈی اور امریکہ اس کا غلام ہے۔ مسلم اُمہ کیخلاف سازشوں کا سلسلہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کعبہ کی تعمیر کا مقصد نبیﷺ کیلئے مرکز تھامگر بہت تلخ ہوئے بندہ مسلماں کے اوقات تو اللہ نے ہجرت کا حکم دیا، بیت المقدس کی تعمیر کا مقصد مسلمانوں کا قبلہ نہ تھا، جب قبلہ تھا تو قبضہ نہ تھا اور جب اپنا رخ موڑا تو قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ 6ھ میں صلح حدیبیہ اور10ھ میں نبیﷺ کا وصال ہوا ، 10سال تک صلح حدیبیہ کے معاہدے میں سخت ترین شرائط کو مسلمانوں نے قبول کیا۔ نبیﷺ کی پوری زندگی، حضرت ابوبکرؓ کا پورا اور حضرت عمرؓ کا آدھا دورِخلافت اسی صلح میں گزرتے۔ صلح حدیبیہ کو مشرکینِ مکہ نے توڑا، مسلمانوں کے حلیف بنوخزاعہ کیخلاف مشرکینِ مکہ نے اپنے حلیف بنوبکر کی مدد کی۔ مسلمان نے کافر حلیف قبیلے کیلئے اس معاہدے کو برقرار رکھنا غلط سمجھا۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ وزارتِ خارجہ کیلئے بہترین مثال ہے۔یہود کیساتھ میثاقِ مدینہ بھی مثالی تھا لیکن یہود اس کی پاسداری نہ کرسکے۔ پھراسی طرز پر میثاق و صلح کی ضرورت ہے جس سے مسلم اُمہ کی معراج ہوگی۔
پہلی نشاۃ پر ہجرت، میثاقِ مدینہ اور صلح حدیبیہ کی طرح موجودہ دور میں یہ اقدامات اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ ہونگے، اسلام سے پہلے حلفِ فضول کے معاہدے پر نبیﷺ بعد میں فخر کرتے تھے اور اس کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ اگر میثاقِ مدینہ اور صلح حدیبیہ دشمن نہ توڑتے تو دنیا کی سطح پر اسلام کی مدد سے ایک جاندار اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آتاتو اس کا کردار موثر بھی ہوتا۔آج فلسطین اور کشمیر سمیت دنیا بھر میں اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم مظلوموں کیلئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ قبلہ اوّل سے عیسائیوں کومسلمانوں سے زیادہ دلچسپی ہے، یہود کی طرح عیسائیوں کا بھی موجودہ مرکز بیت المقدس ہے۔ ہم نے اتنی قربانی تو خانہ کعبہ کیلئے بھی نہیں دی جتنی بیت المقدس کیلئے دے رہے ہیں۔ حقائق کو باہوش وحواس سمجھنا ضروری ہے، کہیں نادانستہ سازشوں کاہم شکار تو نہیں ہورہے ہیں؟۔
مکہ سے حبشہ و یثرب ہجرت کے وقت جتنی ناسازگار حالت مسلمانوں کی تھی ، اب نہیں رہی ۔ اگر بیت المقدس پر حدیبیہ کے طرز کا معاہدہ کیا جائے ۔ تین دن زیارت کی اجازت پر انتظام کو یہود کے حوالے کیا جائے جو مشرکینِ مکہ سے بہرحال بہتر ہیں، بھلے نیام میں تلوار کی اجازت بھی نہ ہو ۔ پوری دنیا سے اتنے لوگ زیارت کرینگے کہ فلسطینیوں کی غربت دور ہوجائیگی۔ سعودی عرب بھی مقابلہ میں عمرہ کیلئے خصوصی سستاپیکج کا اعلان کردیگا۔پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہود کہیں کہ اتنے بے غیرت ہم بھی نہیں، بیت المقدس کا انتظام بھی تم سنبھالواور توراۃ نہیں قرآن کے مطابق ہمارے لئے بھی فیصلے کرو۔پھراس خلافت کی پیش گوئی پوری ہو، جس سے آسمان وزمین والے دونوں خوش ہونگے۔
ہم سے زیادہ یہود کے دشمن وہ عیسائی ہیں جو پسِ پردہ بیٹھ کریہود سے مسلمانوں کو لڑارہے ہیں ، ہٹلر بھی مسلمان نہیں عیسائی تھا ۔مسلمان لڑنے اور مرنے کے بجائے پُرامن ماحول میں اسلام کے بنیادی مقاصد اور نظام کو اُجاگر کریں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ خود اسلام سے ناواقف و بیگانے ہیں اور دنیا میں اسلام کے نفاذ کیلئے سر بکف انجانے ہیں۔ پاکستان اسلامی قومیت کی بنیاد پر بنا تھا، ہم برمی اور بنگالیوں کو پاکستانی قومیت نہ دے سکے جبکہ کینیڈا، برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی، سپین، اٹلی ، ناروے، سویڈن ، ڈنمارک ، آسڑیلیا سمیت دنیا بھر میں پاکستانی اور دیگر مسلمانوں کو وہاں کی قومیت مل گئی ہے۔ عرب ممالک اور خاص طور سے سعودیہ میں انسانی اور کاروباری حقوق کا بھی بڑا المیہ ہے۔
اسلام کا تقاضہ ہے کہ شخصی و انفرادی طور سے انسان اعلیٰ اخلاقی قدروں کامالک بنے، ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم سب سے زیادہ اکرام کے لائق تم میں اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ معاشرتی و اجتماعی طور سے انسان دنیا میں عادلانہ نظام کا پابند ہے جس کا رتبہ انفرادی تقویٰ پر بھاری ہے ۔ اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ عدل قائم کرو، یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے۔ مسلمان اسلام سے نابلد ہونے کی وجہ سے اپنی ساکھ کھوچکا ، مسلم امہ آج مختلف شکلوں میں قربانیوں کے باوجود ترقی و عروج کی منزل کے بجائے زوال و انحطاط کی طرف اسلئے جارہی ہے کہ ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی قرآن وسنت کی نہیں اپنے ماحول، فرقے اور مسلکوں کی تابع بن کر رہ گئی ۔ جب تک ہم خود کو نہ بدلیں، اللہ بھی ہماری حالت نہ بدلے گا ۔صراط مستقیم کی نشاندہی سے منزل کی جانب گامزن ہو نگے۔ فطرت کے حسین شاہکارقرآن و سنت پر چلنے سے کوئی مائی کا لعل انحراف نہیں کرسکتا۔ جاہلانہ تعصبات اور مفاد پرستانہ رویوں کو خیرباد نہ کہا تو کسی کی خیر نہیں ہوگی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اقتدار نہیں ملا، اسلئے حکومت کے مذہبی احکام کا انجیل میں تصور نہیں، مکی زندگی میں اسلام کیلئے بھی قتال اور حکومتی احکام نازل نہیں ہوئے۔ مدنی زندگی میں بھی میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ اسلام کا نمونہ تھے اور آج پھر ہم نے اپنے زنگ آلودہ نظام کو قرآن وسنت سے زندہ کرناہے۔ اسلامی نظام دنیا میں عزت اورجان ومال کا زبرست محافظ ہے۔کوئی کسی خاتون کی عزت پرزبردستی سے ہاتھ ڈالے تو قتل کیاجائیگا۔ چند مجرموں کو سرِ عام سزا دی ہوتو خواتین کی عزت کوپامال کرنے کاکوئی خطرہ نہیں رہے گا ۔ دہشت گرد حملوں سے یہ زیادہ خطرناک اور سنگین مسئلہ ہے۔ فوجی عدالتوں میں ہی اس کی سزاملے مگر کھلے عام چوکوں پر لٹکاکردے۔ کسی پاک دامن خاتون پر بہتان لگایا جائے تو اس کی سزا80کوڑے ہوں۔ کوئی اپنی بیوی کو بھی فحاشی کی مرتکب پائے تو قتل نہیں کرسکتا۔ البتہ گھر سے نکال دے یا عورت خود نکلے۔ اسلام بے غیرتی بھی نہیں سکھاتا اور قانون بھی ہاتھ میں نہیں لینے دیتا۔اگر کوئی کسی کو بھی غیرت کے نام پر قتل کردے تو غیرت کا تقاضہ یہ نہیں کہ دوسرے کو قتل کرکے اپنی زندگی کیلئے بھیک مانگی جائے۔ قرآن کے مطابق قتل کیلئے قتل کے قانون پر عمل کرنا ہوگا۔ جب امیر غریب، طاقتور کمزور اور مرد عورت کی عزت اور جان کو اسلامی معاشرے میں تحفظ مل جائیگا تو امریکہ ، اسرائیل ، بھارت اور روس کے شہری بھی اپنے ہاں اسلامی نظام کا مطالبہ کرینگے اور جمہوری بنیاد پر ہم وہاں جیت سکتے ہیں۔
انفرادی ذہنیت فرقہ واریت کا شکار ،معاشرتی نظام اسلام سے دور، ریاستی ڈھانچہ غلامی کا عکاس اور حکمرانوں نے سیاست کو تجارت بنایا ہو تو دنیا کیلئے اچھا ماڈل پیش کرنے کے بجائے ہم خود ہی دوسروں کیلئے قابلِ رحم ہونگے۔ عظیم انقلاب کیلئے پردۂ غیب سے کوئی نہ آئیگا ،شاہ ولی اللہؒ نے کہا : فک النظام ’’نظام کی کھایہ پلٹ دو‘‘۔اقبال ؒ نے کہا کہ دنیا کو ہے اس مہدئ برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار۔بڑے بڑے اقدامات سے اسلامی نظام کی زنگ آلود مشینری کودوبارہ رواں کرنے کے قابل بنانا ہوگا۔
لوگوں کی راۓ