عالمِ اسلام کو خلافت علی منہاج النبوۃ قائم کرکے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنا ہوگا
اپریل 5, 2019
قرآن وسنت کے منشور سے امت مسلمہ بالکل بہرہ مند نہیں ۔ سودی نظام کو پہلے آئین پاکستان میں بھی تحفظ حاصل تھا اور پھردیوبندی شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی وبریلوی مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے حیلے سے بھاری معاوضے لیکراسلامی مدارس کے ذریعے بھی سودی نظام کو جواز بخشنا شروع کردیا ۔ رسولﷺ نے زمین کی مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ علماء ومفتیان اور شیوخ الاسلام ومفتیانِ اعظم کے حربے کوئی نئے نہیں بہت پرانے ہیں جن سے وہ اپنا اُلو سیدھا کرکے اسلام کو اجنبیت کا شکار بناتے چلے گئے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کراچی میں شادی بیاہ کی رسم میں لفافہ کو سود اور اسکے 70سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم گناہ کو اپنی ماں سے زنا کے برابر قرار دیا۔ ان لوگوں کو حلالہ کی لعنت سمجھانے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اسلئے کہ انکے مصنوعی تقوے کا عالم انتہائی درجہ کے بھیانک تضادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایاتھا کہ فلاتمنن فتکثر ’’اسلئے احسان نہ کرنا کہ زیادہ بڑا بدلہ ملے گا‘‘۔ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ انقلابی قوم کی خیرخواہی کا احسان کرتے ہیں تو انکے بدلنے کی اُمید بھی رکھتے ہیں۔ نبیﷺ کو بھی احسان کے بدلے اچھے کی اُمید تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قوم سے یہ اُمید رکھنے کی توقع سے منع فرمادیا۔ جس طرح آج ہم قوم کو حلالہ سے بچانے کی بات کرکے اچھے کی امید رکھتے ہیں لیکن ڈھیٹ علماء ومفتیان کی ڈھٹائی کا عالم ہم نہیں سمجھتے ہیں۔ اگر علامہ خادم حسین رضوی کو پتہ چل جائے کہ مفتی تقی عثمانی نے اس آیت کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ کی ذات پر سود کا گھناؤنا الزام لگادیا ہے تو بھی حکومت کی پشت پناہی سے ڈر کر عشق رسول ﷺ کا ثبوت نہیں دینگے۔
1: نبیﷺ نے کسی خوف یا لالچ میں صلح حدیبیہ کادس سالہ معاہدہ نہیں کیا تھا بلکہ یہی دین ،ایمان ، اسلام کا تقاضہ تھا۔ منافق جہنم کے نچلے حصہ میں ہوگا۔ اگر کوئی منافق اسلام چھوڑ کر مکہ چلا جاتا تو مسلمانوں کا فائدہ بھی اسی میں تھا۔ وہ منافق بھی نچلے درجے سے نکل کر جہنم میں اوپر آجاتا۔ اگر مسلمان مشرکوں کو واپس کیا جاتا تویہ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں تھا۔ یہ تبلیغ کا زبردست ذریعہ تھا۔ اگر کسی کو کلمۂ کفر پر مجبور کردیا جائے تو قرآن میں اس پر گرفت نہ ہونے کی وضاحت ہے۔ آج عیسائی طاقت کے باوجود جاہل مسلمانوں سے یہی رویہ رکھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو عیسائی نہ بننے دیا جائے اور عیسائیوں کو مسلمان بننے دیا جائے تو مسئلہ نہیں۔
2:اگر مشرکینِ مکہ حدیبیہ کا معاہدہ نہ توڑتے تو مسلمان اس کو دس سال حضرت عمر ؓ کے دور تک قائم رکھتے اور شاید مزید توسیع بھی کردیتے۔ فتح مکہ پراچھائی یہ ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے دشمنوں سے اچھا سلوک کیا اور برا یہ ہوا کہ حضرت خالد بن ولید ؓ نے بعض لوگوں کو قتل کیا ،جس سے نبیﷺ نے برأت کا علان فرمایا۔ جولوگ فتح مکہ کے بعد بھیڑ چال میں مسلمان ہوگئے تو نبیﷺ کے وصال کے بعد گاؤں کے گاؤں مرتد بھی بن گئے اور حضرت ابوبکر ؓ نے مشکل سے ان پر قابو پایا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اسکی بیگم سے عدت میں شادی بھی رچالی، حضرت عمر ؓ نے سنگسار کرنے کا مشورہ دیا لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے تنبیہ کردی۔ یہی وجہ تھی کہ خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عثمان ؓ اور پھر حضرت علی ؓ شہید ہوگئے ، حضرت حسن ؓ کو دستبردار ہونا پڑا۔ سانحہ کربلا برپا ہوگیا۔ خلافت بنوامیہ ، بنوعباس اور پھر ترکی خاندان کی لونڈی بن کے رہ گئی تھی۔
3: مشرکین مکہ سے مسلمانوں کی قرابتداریاں تھیں اسلئے ان سے نکاح کو واضح الفاظ میں منع کیا گیا،جنکے مقابلے میں غلام مرد سے مسلمان عورت اور لونڈی سے مسلمان مرد کو زیادہ قابل ترجیح قرار دیا ۔ نسل سے کردار کو ترجیح دی گئی۔ یہ مذہبی مسئلہ نہیں تھا بلکہ انسان کے اعلیٰ اخلاقی کردار کی بات تھی۔ مشرک تو عیسائی بھی تھے جو تین خداؤں کا عقیدہ رکھتے تھے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں انتہائی گستاخانہ عقیدہ رکھنے والے یہود بھی کافر تھے لیکن ان کی خواتین سے نکاح کی کھلی اجازت دی گئی۔ حضرت علی ؓ کی بہن حضرت ام ہانی ؓ پہلے اسلام کو قبول کرچکی تھیں لیکن ہجرت نہیں کی اور فتح مکہ تک مشرک شوہر کیساتھ رہی۔ نبیﷺ نے اسکے کہنے پر اسکے شوہر کو پناہ بھی دی اور کسی نے اس تعلق پرحرامکاری کا فتویٰ بھی نہیں لگایا تھا۔ علماء ومفتیان کو سمجھانا پڑیگا۔
4: نکاح کیلئے عورت کا راضی ہونا ایک بنیادی حق ہے۔ کوئی باپ بیٹی کا نکاح اسکی مرضی کے بغیر کردے تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔صحیح بخاری کا یہ عنوان ہے۔ اگر معاشرے کو مذہبی تبلیغ کے ذریعے پابند کیاجاتا تو کوئی بچی گھر سے بھاگ کر شادی نہ کرتی۔ جب معاشرے میں بڑی سطح پر اس کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑکیاں بھاگ کر شادیاں کرتی ہیں۔ نبیﷺ نے اس نکاح کو باطل قرار دیا جو ولی کی اجازت کے بغیر ہو۔ نکاح کیلئے دو صالح گواہ ضروری قرار دئیے اور دف بجاکر نکاح کے اعلان کا حکم دیا لیکن علماء ومفتیان نے قرآن وسنت کو نظر انداز کرتے ہوئے غیرفطری معاملات کو مذہب کے نام سے جائز قرار دیا۔ سسرالی رشتہ دار وں کا اللہ نے بطور احسان نسبی رشتہ داروں کی طرح ذکر کیا مگر دشمنی مول لینے کا تماشہ لگایاجاتا ہے۔
5:جب دنیا میں لونڈیوں اور عباد( غلاموں )کی رسم تھی تو اللہ تعالیٰ نے بیوہ وطلاق شدہ کے علاوہ لونڈی اور غلاموں کا نکاح کرانے کا بھی حکم دیدیا۔ جس طرح آزاد مشرک سے غلام اور آزاد مشرکہ لونڈی سے نکاح کو ترجیح قرار دیا،اسی طرح آزاد عورت سے غلام کے نکاح کی صورت بھی بتادی۔ اسکے علاوہ اپنی جوان لڑکیوں کو بھی چھپ کربدکاری یا کھل کر بغاوت پر مجبور نہ کرنیکا حکم دیاجب وہ نکاح کرنا چاہتے ہوں۔ کیونکہ قرآن سے رہنمائی لینے کے بجائے فقہی مسالک کی وکالت پر لکھی جانے والی کتابیں مدارس کے نصاب میں موضوعِ بحث بن گئی اسلئے قرآن کی واضح آیات کے احکام بھی لوگوں سے اوجھل ہوتے چلے گئے۔ علماء کرام نے اگر جرأت سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں بھی برکت عطاء فرمائیگا۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سودی نظام کو جواز بخشنے والے مذہبی قوتوں نے اسلام اور غریب کا دامن چھوڑ کو خود کو بہت کمزور بنادیا۔
6: میاں بیوی کا نکاح ہو تو اسلام نے صرف مردوں پر حق مہر کو فرض کیا ہے۔ جہیز کی رسم ایک لعنت ہے۔ حق مہر اتنا معقول ہونا چاہیے کہ مرد نکاح کو کھلواڑ بنانے سے دریغ کرنے پر مجبور ہو۔ مفت میں عورتیں ملتی ہی رہیں گی تو مرد بڑے مزے لے لے کر عورتوں سے کھلواڑ کرنے کے جرائم بھی کرتے رہیں گے۔ حق مہر لڑکی کا اپنا حق ہوتا ہے۔ پختون قوم کو حق مہر کھانے کی بے غیرتی سے نجات دلانی ہوگی اور پنجابیوں کو جہیزکی لعنت سے چھٹکارا دلانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ پاکستان کی عوام میں خوبیاں زیادہ اور نقائص کم ہیں لیکن وہ اپنے نقائص سے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہ کرینگے تو اپنی خوبیوں کا بھی پھرپور فائدہ نہ اٹھاسکیں گے۔
7: ہاتھ لگانے سے پہلے عورت کو طلاق دی جائے تو نصف حق مہر دینا ہوگا لیکن باہمی رضامندی سے کوئی معاف کرنا چاہے یا پورا دینا چاہے تو بھی آپس میں ایکدوسرے کیساتھ اچھائی کا سلوک نہ بھولیں۔عورت پر ایسی صورت میں کوئی عدت نہیں ۔ جس سے یہ بھی واضح پتہ چلتاہے کہ شوہر عدت کا حقدار ہوتا ہے۔ 3طلاق کی ملکیت کے تصور سے عورت کی حیثیت لونڈی سے بھی بدتر بن جاتی ہے۔ لونڈی کو مذاق میں کہا جائے کہ آزاد ہے تو وہ آزاد ہوجاتی ہے لیکن عورت کو طلاق دی جائے اور پھر اس سے کہا جائے کہ ایک دی ہے تو بھی اس کی جان نہیں چھوٹ سکتی ہے۔ دو مرتبہ طلاق کہنے سے بھی جان نہیں چھوٹ سکتی ہے۔ فقہ نے اس مسئلے کو اتنا پیچیدہ بنادیا ہے کہ اچھے اچھوں کا دماغ بھی گھوم جاتا ہے۔ طلاق سے رجوع کیلئے صلح کی شرط ہے اور یہی معروف رجوع ہے جس کا قرآن میں بار بارعدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے بعد بڑی وضاحتوں کیساتھ سورہ بقرہ اور سورہ طلاق میں زبردست ذکر ہے۔ علماء ومفتیان ان وضاحتوں کے بجائے یا تو فقہ کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں یا حلالے کے چکر میں اپنی جنسی خواہش کی پیاس بجھادیتے ہیں۔
8: عورت کو اللہ تعالیٰ نے خلع کا حق دیا ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت229میں نہیں بلکہ سورہ النساء کی آیت19میں ہے۔ خلع میں حق مہر کے علاوہ شوہر کیطرف سے دی گئی اشیاء زیورات، رقم اور گاڑی وغیرہ سب منقولہ چیزیں لیجانے کا بھی حق ہے۔ شوہر اسلئے نہیں روکے کہ بعض چیزوں سے وہ دستبردار ہوجائے ۔ البتہ فحاشی کی صورت میں بعض اشیاء سے محروم کرسکتا ہے لیکن اس کیلئے کھلی فحاشی میں مبتلاء ہونے کیلئے شوہر کی طرف سے عدالت کے سامنے لعان کے حکم پر عمل کرنا پڑیگا۔خلع میں عورت کی عدت صرف ایک حیض ہے۔
9: شوہر کو طلاق کا حق ہے لیکن طلاق کے بعد حق مہر کے علاوہ تمام منقولہ اور غیرمنقولہ دی ہوئی جائیداد کو بھی واپس نہیں لے سکتا ہے اور حق تلفی کیلئے بہتان لگانا بھی بڑی بے غیرتی ہے۔ سورہ النساء آیت20,21 اگر دنیا میں قرآن کا قانون نافذ کیا جائے کہ مرد طلاق دیگا تو وہ عورت کو گھر سے بے دخل نہیں کرسکتا بلکہ اپنے لئے کوئی متبادل بندوبست کریگا تو پوری دنیا قرآن کے احکام کو من وعن نافذ کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔
10:حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت ہارون ؑ کو سراور داڑھی سے پکڑا کہ سامری کے گوسالہ پر قوم کوشرک سے منع کیوں نہ کیا؟، مسلمان بھائی فرقہ واریت پر ایکدوسرے سے دست وگریبان ہیں، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ نے بریلوی دیوبندی مکاتبِ فکر کو سر اور داڑھی کے بالوں سے باندھنے کی کوشش کی۔ حاجی عثمان ؒ کے مرید نے دل ودماغ سے سب کو باندھنے کا کارنامہ انجام دینا ہے۔ انشاء اللہ العزیز۔ سیدعتیق الرحمن گیلانی
لوگوں کی راۓ