پوسٹ تلاش کریں

معاونت حضرت مولانا قاری محمد طیب قریشی خطیب تاریخی مسجد مہابت خان پشاور اور پاکستان کا سیاسی و مذہبی منظر نامہ

معاونت حضرت مولانا قاری محمد طیب قریشی خطیب تاریخی مسجد مہابت خان پشاور اور پاکستان کا سیاسی و مذہبی منظر نامہ اخبار: نوشتہ دیوار

حضرت مولانا محمد طیب قریشی خطیب مسجد مہابت خان کی خدمت میں بھی وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ یہ شمارہ محکمہ اوقاف کے چیف خطیب کے توسط سے تمام ائمہ مساجد اور خطباء کے نام ہے اور سب کو سلام

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جنرل ایوب خان کے مارشل لاء سے پہلے سول بیوروکریسی کی حکومت تھی۔ پاک فوج کا اس میں کردار بالکل ضمنی تھا ۔ جنرل ایوب خان نےADاورBDکے انتخابات کے ذریعے پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد رکھ دی۔ جنرل ایوب خان کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے بعد پاکستان میں جمہوریت اور پاک فوج کی قیادت میں کشمکش شروع ہوگئی ۔جنرل ایوب خان کے جانے کے بعدشفاف الیکشن ہوگئے تو مشرقی پاکستان کے مجیب الرحمن کو واضح اکثریت مل گئی لیکن سول اور فوجی قیادت نے سمجھا تھا کہ اگر اقتدار مجیب الرحمن کے حوالے کیا گیا تو مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پارلیمنٹ مغربی پاکستان میں تھا لیکن جمہوریت کی جگہ منافقت کا عمل جاری تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے پاکستان سے صوبہ پنجاب نوازشریف کی وجہ سے بھارت کی مدد سے الگ ہوجائے۔ بنگلہ دیش میں93ہزار کے ہتھیار ڈالنے کے ذمہ دارجنرل نیازی اور ذوالفقارعلی بھٹو تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اتوار کی جگہ جمعہ کی چھٹی دی، اسلامی جمہوری آئین دیا اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ بھٹو ایک عرب بادشاہ کے طرز پر ایک سویلین ڈکٹیٹر حکمران بننے کا زبردست خواہاں تھا۔
قادیانی تعداد میں کم لیکن فوج میںسب سے زیادہ طاقتور تھے۔پھر بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کے طرز پرمگرفوجی امیر المؤمنین بننے کی کوشش کی۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود نے کراچی میں جلسۂ عام سے خطاب میں جب جنرل ضیاء الحق کی مرزائی نوازی کے دلائل دیناشروع کردئیے ،تو قاری شیرافضل خان نے نعرہ لگایا کہ ” مرزائی نواز مردہ باد”۔ مفتی محمود صاحب نے کہا کہ ”مرزائی نواز نہیں مرزائی بولو”۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیرمولانا عبدالکریم بیرشریف نے زندگی بھر جنرل ضیاء الحق کو قادیانی قرار دیا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں مفتی محمود نے مفتی تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی کو بینک کے سودسے زکوٰة کی کٹوتی پر بحث کی دعوت دی۔ دونوں بھائیوں نے مفتی محمود کی طرف سے چائے کے کپ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ہم دن میں ایک بار چائے پیتے ہیں پھر دن بھر نہیں پیتے۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں چائے خود زیادہ ہی پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم پیتا ہے تو مجھے یہ پسند ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے پان کا بٹوا دکھادیا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے پان کھلادیا ۔ تھوڑی دیر بعد مفتی محمود پر غشی طاری ہوگئی اور مفتی محمد رفیع عثمانی نے دورۂ قلب کی خاص گولی حلق میں ڈال دی ۔ پھر مفتی صاحب ہسپتال پہنچنے سے پہلے شہید ہوگئے۔
مفتی محمود کی وفات کے بعد مفتی تقی عثمانی نے ماہنامہ البلاغ دارالعلوم کراچی اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے ماہنامہ البینات جامعہ بنوری ٹاؤن میں جو مضامین لکھے تھے ، ان کو ایک ساتھ اقراء ڈائجسٹ کراچی نے شائع کیاتھا۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے مضامین میں صرف یہ فرق تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے اصرار کیساتھ پان کھلانے اور مفتی رفیع عثمانی نے جو گولی حلق میں ڈالی تھی ،اس کا ذکر نہیں کیا۔ وفاق المدارس پاکستان اور جمعیت علماء اسلام ان دونوں تحریرات کو شائع کرکے مساجد ومدارس میں تقسیم کریں۔
مثلاًایک شخص نے10لاکھ بینک میں رکھے ہیں۔ اس کو سالانہ ایک لاکھ سود اس پر ملتا ہے۔ اس کی کل رقم11لاکھ بن گئی اور اس میں سے27ہزار پانچ سو زکوٰة کے نام پر کٹ گئے۔ جس کے بعد اس کی بینک میں10لاکھ72ہزار پانچ سو روپے بچ گئے۔ پہلے اس کی کل رقم10لاکھ تھی اور اب اس میں ایک لاکھ سود کی جگہ72ہزار پانچ سو کا اضافہ بھی ہوگیا تو پھر زکوٰة کی رقم کیسے ادا ہوگئی؟۔ زکوٰة کے نام پر یہ رقم تو بالکل سود کی ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمودنے کہا تھا کہ” اس سودی رقم سے زکوٰة ادانہیں ہوسکتی ہے۔ زکوٰة ایک فرض ہے اور اس کا ادا کرنا انتہائی اہم ہے۔ عوام کو اس اہم فرض کی ادائیگی سے روکنا بہت بڑا جرم ہے۔ سرکار کی اس حرکت سے سر سجدے میں ہے اور چوتڑ دغا بازی میں ہے”۔
مولانا فضل الرحمن اپنے جلسے جلوسوں میں کہتے تھے کہ ” مدارس زکوٰة کے نام پر سود کھارہے ہیں۔ یہ شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل ہے”۔ پہلے مدارس کی طرف سے یہ حیلہ کیا گیا تھا کہ زکوٰة کے نام پر اس سودی رقم سے لیٹرین بنائے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر انہوں نے پینترا بدل دیا کہ روزی روٹی بھی تو آخر کار معدے میں جاکر لیٹرین میں بدل جاتی ہے۔ حکومت کی سودی زکوٰة کی نحوست سے لوگوں کی زکوٰة کھانے اور اس سے تجارت کرنے کی طرف بھی پھر یہ لوگ بہت زبردست طریقے سے مائل ہوگئے۔ پھر تو جس کا بس چلتا گیا اس نے اپنے پاؤں میں حلال وحرام زکوٰة کے ذریعے اپنے پاؤں میں زنجیر یں ڈالنا شروع کردیں۔ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں کی جگہ پھر تو ہم تو مائل بہ جرم ہیں کوئی پائل ہی نہیں نے لے لی ۔
جب قوم سے کہا جائے کہ تمہارے پاس ایسا فتویٰ آیا ہے کہ سود کی رقم کا بھی اضافہ ہوگیا اور زکوٰة بھی ادا ہوگئی اور عوام کو زکوٰة کے نام پر سود کھلایا جائے تو پھر دونوں کا اپنا اپنا فائدہ نظر آئے گا۔ سرمایہ دار کہے گا کہ سود بھی ملا اور زکوٰة بھی ادا ہوگئی تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ اس سود خور کو ویسے بھی زکوٰة سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟۔ جو سود لیتا ہے وہ زکوٰة کیا دے گا؟۔ دوسری طرف لالچ کی وجہ سے جس کو زکوٰة کے نام پر سود ملتا ہے اس کو بھی اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کیا حلال ہے ؟ اور کیا حرام ہے؟۔ بس اس کو مفت میں پیسہ ملتا ہے تو یہ زیادہ سے زیادہ اپنے مفاد ہی کی بات ہے۔ اور اپنا فائدہ کون چھوڑ تا ہے۔
پہلی بلا پاکستان پر یہ نازل ہوئی کہ زکوٰة کا فریضہ ساکت ہوگیا اور سود خور کو شرف مل گیا کہ سود بھی مل رہاہے اور زکوٰة بھی ادا ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سود کو انسانوں کا اللہ اور اس کے رسول ۖ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ جب ہم نے اللہ کیساتھ جنگ کو بھی زکوٰة کی ادائیگی کا فرض اور اپنی ضرورت کیلئے جائز کہا تو شیطان نے علماء ومشائخ کو لوریاں دیکرخواب غفلت کی بڑی نیند سلانا شروع کردیا۔ تحریک طالبان پاکستان اور تحریک لبیک نے اسلام کے نام پر دہشتگردی اور شدت پسندی کو زبردست فروغ دینا شروع کردیا۔ اللہ اور اسکے رسولۖ سے جنگ کے نتائج ہم مختلف عذاب کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی جلسے جلوسوں میں جتنا تاجروں اور عوام کا نقصان ہوتا ہے اور جو ان پر خرچے ہوتے ہیں ، یہ سب سودی منافع سے زیادہ قوم کے نقصانات ہیں ۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اب قوم کے دونوں بھائی یاجوج ماجوج بن گئے ہیں۔ پہلے سودی زکوٰة کے نام پر مدارس کا بیڑہ غرق کردیااور اخلاق وکردار کی بلندیوں سے مذہبی طبقات کو پستیوں کی جانب دھکیل دیا۔ جمعیت علماء اسلام کے بلند کردار کے مالک اس کے سامنے مضبوط بند ثابت ہونے کے بجائے خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔ پھر دونوں بھائی یاجوج ماجوج نے بینکوں کے سودکو بھی اسلامی قرار دے دیا۔ مدارس کے بلند کردار کے مالکان مولانا سلیم اللہ خان ، مفتی زر ولی خان اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سمیت سارے مدارس کے سارے علماء ومفتیان دونوں بھائیوں یاجوج ماجوج کے سامنے کھڑے ہوگئے لیکن آخر کار مفتی محمد تقی عثمانی نے سب کو شکست دیدی اور پھروفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر بھی بن گئے ہیں۔
پاکستان1947ء سے1988ء تک آئی ایم ایف کے سود کی قید سے آزاد تھا۔ کراچی اور ملک بھر کے جید علماء کرام اور مفتیان عظام حضرت حاجی محمد عثمان کے مرید یا دوست تھے۔ بڑے پیمانے پر فوجی افسران بھی حاجی محمد عثمان کے مرید تھے۔ پھر الائنس موٹرز کے نام پر مضاربة کا کاروبار سود میں بدل گیا تو اپنے مرید و خلفاء کی بغاوت اور معروف علماء ومفتیان کے فتوؤں نے ایک اللہ والے کو نشانہ بنایا۔نبی ۖ نے فرمایا کہ” اللہ کہتاہے کہ جس نے میرے ولی کو اذیت دی تو میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہوں”۔ ایک طرف جنرل ضیاء الحق کا جہاز تباہ ہوا تو دوسری طرف معروف علماء ومفتیان نے حاجی محمد عثمان سے مغالطہ کھاکر شیخ عبدالقادر جیلانی ، شاہ ولی اللہ ، مولانا محمدیوسف بنوریاور شیخ الحدیث مولانا زکریا پر بھی فتوے لگادیئے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی نے پہلے لکھا تھا کہ اس طرح کے عقائد رکھنے والے پیر کی خانقاہ پر حکومت کو پابندی لگانی چاہیے جو سید عتیق الرحمن گیلانی نے ایک مخلص مریدکی حیثیت سے لئے ہیں لیکن جب حقائق کا پتہ چل گیا تو سال بعد ہفت روزہ تکبیر کراچی نے لکھ دیا کہ اگر علماء ومفتیان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو غلط بیانی کے بجائے اپنی غلطی کا کھل کر اعتراف کریں اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن غلط بیانی سے ان کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔
پھر وہ وقت آیا کہ بینظیربھٹو کی حکومت آئی اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر مسلم لیگ کے میاں نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔دو دو باریاں دونوں نے لے لیں لیکن1989ء سے2004ء تک پاکستان کوIMFکے شکنجے میں پھنسادیا۔آصف علی زرداری کے گھوڑوں کو مربے کھلانے ،اسکے سرے محل اور نوازشریف کے ایون فیلڈلندن کے فلیٹ اسی ادوار کی یادگاریں ہیں۔ کرپشن کی زیادہ ابتداء سیاسی قیادتوں نے آئی ایم ایف کے سودی قرضوں سے کی ہے لیکن پرویزمشرف کے دور میں2004ء سے2008ء تک پاکستان نے پھرIMFکے چنگل سے آزادی حاصل کرلی تھی۔پھر کرپٹ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف نے باری باری حکومتیں کرکے پاکستان کو زیادہ سے زیادہIMFکے چنگل میں دیدیا اور جب نوازشریف کے دور میں ہم نے اپنے اخبار میں پورے فیگر لکھ دئیے تھے کہ گردشی سودی قرضہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ دفاعی فنڈز سے سود کی رقم زیادہ ہے لیکن ہماری بات پر کسی ذمہ دار طبقے نے کان نہیں دھرے۔ پھر عمران خان نے اس سے بھی زیادہ سودی قرضے لئے۔ پاکستان میںIMFکی حکومت ہے۔ یہ ہم اللہ اوراسکے رسولۖ سے جنگ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
یاجوج ماجوج کا لشکر جامعة الرشیدکراچی کی طرف سے مدارس کے نئے بورڈ مجمع علوم اسلامی میں بھی تیار ہورہاہے اور وفاق المدارس العربیہ کی چوٹی پر بھی گدھ کی طرح مفتی تقی عثمانی بٹھادئیے گئے ہیں۔ اب یہ ہربلندی سے پستی کی طرف سفر کرکے سب چیزوں کو چٹ کر جائیں گے۔ سود، زکوٰة ، صدقہ، خیرات اور چندے غریبوں سے بھی چھین لینے ہیں۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے جونہی وفاق المدارس پاکستان کی صدارت کا منصب سنبھال لیا تو دارالعلوم کراچی میں بجلی پیدا کرنے کی مشینری کیلئے کروڑوں اور اربوں کے چندے کا اعلان کردیا ہے۔ یاجوج ماجوج نے سب کچھ چٹ کئے بغیر بلندوادیوں سے پھسلتے ہوئے گہری گھاٹیوں میں بہتے ہوئے اپناسفر کرنا ہے اور ہرقسم کا دانہ بھی انہوں نے چگنا ہے اور یہ مظاہرہ انسانوں نے دیکھنا ہے۔ وفاق المدارس پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے جس طرح یاجوج اور ماجوج کے سودی نظام کو اسلامی قرار دینے کی تردید کردی ہے وہ قابل تحسین ہے لیکن مچھلی کی چوکیداری کیلئے بلی کو مقرر کرنا بھی بہت ہی بڑی زیادتی ہے۔
جس دن مساجد کے ائمہ اور خطیب حضرات نے قرآنی آیات اور سنت سے عوام کی رہنمائی کرنا شروع کردی تو بہت زبردست انقلاب میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ بس ہمت وجرأت ، علم وتقویٰ اور ایمان وکردار کی سخت ضرورت ہے۔ یاجوج ماجوج کا مقابلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور مدارس کے نئے بورڈمجمع علوم اسلامی کی سربراہی ان علماء ومفتیان کو دی جائے جو اپنی قدامت پسندی، حق پرستی اور سود کے عدم جواز کی روش پر قائم ہیں۔ جنہوں نے اللہ ، اسکے رسول ۖ ، اپنے اکابرو اسلاف سے بغاوت اور انحراف کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے ان کو ذمہ عہدوں سے سبکدوش کردیا جائے۔ وفاق المدارس کے اجلاس مدعو کرنے کی بات تو بہت دُور کی ہے حق کی آواز اٹھانے والی بہت بڑی اکثریت کو اجلاس میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔ مدارس کی سطح پربھی مجلس شوریٰ کے نام پرایک استحصالی طبقہ مسلط ہوگیا ہے اور مخلص لوگوں کو اجلاس میں برداشت کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتا ہے۔ مفتی عزیزالرحمن اور صابر شاہ کا اسیکنڈل منظر عام پر نہ آتا تو اس قسم کے لوگ ایکدوسرے کے وارث بنتے ہیں اور اس سے پہلے جامعہ امدایہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا نذراحمد کے حوالے سے بھی بڑا بھیانک اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔
یہی دہشت گرد بنتے ہیں تو مساجد ومدارس پربھی خود کش حملے کرنے کروانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ جن کی نظر میں نام نہاد مقدس شخصیات کی فی الواقع کوئی حیثیت بھی نہیں ہوتی ہے ۔مذہبی سیاسی جماعتوں میں ان کو کردار کی وجہ سے نہیں بلکہ بے ضمیری کی وجہ سے کوئی بڑا مقام بھی مل جاتا ہے۔ اسلام انسانیت کے کردار کو درست کرنے کا زبردست ذریعہ ہے لیکن اسلام کی حقیقت کو مفاد پرست ٹولوں نے مختلف ادوار میں ایسا بدل کر رکھ دیا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے فارسی اشعار میں کہا ہے کہ ” علماء ومشائخ کا ہم پر بڑا احسان ہے کہ جن کی وجہ سے اسلام ہم تک پہنچا۔ اگر اللہ، رسول اللہۖ اور جبریل اس اسلام کو دیکھ لیں گے تو حیران ہوں گے کہ کیا یہ وہی اسلام ہے”۔ علماء ومشائخ کو کھویا ہوا مقام پانا ہے تو اسلام کو واپس لانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور علم کو زندہ کرنے پر لگانا ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟