دومختلف، متضاد، متفرق کردار، ملا فضل اللہ اور ملالہ یوسفزئی: تحریر سید عتیق الرحمن گیلانی
اپریل 3, 2018
سوات پختونخواہ کے دو متضاد کردار ملافضل اللہ ، ملالہ یوسفزئی ہیں۔ ملافضل اللہ کی شریعت کے سامنے ہماری ریاست اور سیاست دونوں سجدہ ریز تھیں۔ مینگورہ میں مسلکی اختلاف کے سبب ایک مذہبی شخصیت کو قتل کیا گیا اور پھر قبر سے نکال کر کئی روز تک اس کی لاش کو چوک پر لٹکادیا گیا، یہ ایک واقعہ نہ تھا بلکہ اس واقعہ سے صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ اس ذہنیت اور ریاست کو اسکے آگے لیٹ جانے کی مخالفت کرتے تھے تو ان کو امریکی ایجنٹ کہا جاتا تھا۔ اے این پی کی حکومت آئی تو میاں افتخار حسین جیسے بہادروں نے بھی طالبانِ سوات سے شریعت کے نفاذ پر معاہدہ کیا تھا اور جب سوات کے طالبان کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی توجہ دلائی کہ طالبان اسلام آباد کے قریب پہنچ چکے ہیں تو ن لیگ کے مقبول ترین رہنما سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ ’’ مولانا فضل الرحمن امریکہ کا ایجنٹ ہے اور طالبان کیخلاف بول رہاہے‘‘۔ آپریشن کا آغاز ہوا تو کلثوم نواز واحد مسلم لیگی رہنما تھی جس نے کھل کر کہا کہ ’’ یہ وہ طالبان نہیں جس کی ہم نے حمایت کی تھی‘‘، آپریشن کے بعد حالات بہتر ہوئے تو ملالہ کے سر میں سکول جاتے ہوئے گولی ماری گئی۔ فوج نے اس کو ہیلی کاپٹر سے پشاور پہنچادیا اور اس کو زندگی مل گئی پھر فوج نے معذوری سے بچانے کیلئے بیرون ملک بھیجا۔
کسی اور کی بات نہیں کرتا، میرا اپنا ایک بیٹا شاہین ائر میں کام کرتا ہے، وہ پہلے میرے دوست کے آفس میں تھا۔ ایک دن مجھے کہا کہ اورنگی ٹاؤن میں مہاجر پٹھانوں کے ناک کاٹ رہے ہیں، لانڈھی میں پٹھان مہاجروں کے ناک کان کاٹ رہے ہیں۔ میں نے بہت ڈانٹا کہ ’’اس طرح کی افواہوں پر موبائل فون اور تیز رفتار میڈیا کے دور میں بہت بری بات ہے، آئندہ کسی ایسی سرگرمی کا حصہ نہیں بننا‘‘۔ پھر جب ملالہ یوسف زئی کا واقعہ ہوا تو میرے بیٹے نے کہا کہ ’’ اس کو گولی نہیں لگی ،یہ بہت بڑی سازش ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ ’’پہلے تجھے ڈانٹا تھا۔ اب پھر وہی بکواس کررہے ہو؟‘‘۔ اس نے کہا کہ میڈیا پر بات چل رہی ہے۔ میں نے غصہ میں کہا کہ میڈیا بھی بکواس کرتا ہے۔ پھر جب ملالہ یوسف زئی کا زخمی چہرہ میڈیا پر نظر آتا تھا تو میں اس سے کہتا تھا کہ اب یقین آیا ہے کہ گولی لگی ہے؟‘‘، جب واقعہ ہوا تھا تو میرے بھائی نے بھی کہا کہ ’’سازش سے ایک چھوٹی سی گولی ماری گئی ہے تاکہ اس کو آئندہ استعمال کیا جاسکے‘‘۔ میں نے اس سے بھی عرض کیا کہ یہاں بدگمانی کی ایک فضاء ہے جو ماحول میں پروان چڑھ گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ جرم تھا۔ مولانا عبدالستار خان نیازیؒ نے داڑھی اس تحریک میں شمولیت کی وجہ سے ہی مونڈھ ڈالی تھی۔ بریلوی مکتبۂ فکر کا جو رہنما حصہ لیتا تھا اس کو اپنے مکتب کی طرف سے بھی ملامت کا نشانہ ہی بنایا جاتا تھا کہ دیوبندی گستاخان رسول قادیانیوں سے بدتر ہیں انکے ساتھ مل کر تم گمراہوں کے خلاف تحریک کیوں چلارہے ہو؟۔ جب فوج نے طالبان سوات پر تشدد کیا، ان کو ہیلی کاپٹروں سے گرانے کی خبریں آئیں تو عاصمہ جہانگیر نے طالبان کیساتھ غیر انسانی سلوک کی شدید مذمت کی۔ جب عاصمہ جہانگیر سے سوال کیا گیا کہ آپ اتنی بہادری سے حق کہتی ہیں تو ملالہ کو آپ کیوں مشورہ نہیں دیتیں کہ وہ خدمت کیلئے آئے؟ جس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ’’ میں اپنی عمر گزار چکی ، مجھے گولی لگے بھی تو مسئلہ نہیں لیکن ملالہ کو نہیں آناچاہیے اس کو زندگی گزارنی ہے اور یہاں اس کو مخصوص ذہنیت کی طرف سے خطرہ ہے‘‘۔ ایک طرف وسعت اللہ خان، مبشر زیدی، ضرار کھوڑو، ماریہ میمن جیسے دیانتدار صحافی تو دوسری طرف طارق پیرزادہ جیسے لوگ میڈیا کے ٹاکشوز میں اپناخیال پیش کرتے ہیں بلکہ مسلط ہوجاتے ہیں۔
وہ لوگ بھی ہیں جو نوازشریف کی طرح زندگی بھر خود اسٹیبلیشمنٹ کے گھٹنوں نے نیچے سر کے تمام بال گراتے ہیں اور انڈے جیسے سر سے یہ بات نکلتی ہے کہ ریاست نے 70سال سے سازش کی ہے۔ پاکستان بن رہا تھا تو کچھ لوگ ہندوستان کی محبت میں تقسیم ہند کے مخالف تھے۔ ہندو بھی وطن کو ماتا سمجھ کر پوجتے ہیں، وہ بھی ہندو سے متأثر تھے بلکہ وطن سے محبت کا جذبہ فطری ہوتاہے لیکن ان پر ہندوؤں کے ایجنٹ کا الزام لگایا گیا۔ علامہ اقبال نے جمعیت علماء ہند ، دارالعلوم دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کی سوچ کو ابولہب کا دین قرار دیا۔ آج یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ وطن دشمنی کا سہرا بانیان پاکستان کے سر نہ باندھا جائے۔ فوج اپنا کوئی دماغ نہیں رکھتی۔ 1940میں پاکستان کے قرار داد مقاصد پیش نہ ہوتے تو پاکستان نہ بنتا۔ ایک ٹھوس لائحہ عمل کے ذریعے سے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم اُمہ کو ایک کرنیکی ضرورت ہے
لوگوں کی راۓ