پوسٹ تلاش کریں

سیاست کاتقاضہ اور دستور کابڑا بنیادی نکتہ!

سیاست کاتقاضہ اور دستور کابڑا بنیادی نکتہ! اخبار: نوشتہ دیوار

سیاست کاتقاضہ اور دستور کابڑا بنیادی نکتہ!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

معراج محمد خان مرحوم تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری تھے تو عمران خان پرویزمشرف کے ریفرینڈم کی حمایت اور معراج محمد خان مخالفت کررہے تھے اور اس دوران یا اس سے پہلے یا بعد میں میری ان سے ایک نشست ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ کہاں آپ اور کہاں عمران خان ؟۔ یہ عجیب اتفاق نہیں ؟۔ جس پر انہوں نے گردش دوران کی اس مجبوری پر اپنا سر سرور سے دھنا تھا۔ پھر وہ تحریک انصاف چھوڑ چکے تھے تو ایک بار پھر ان سے ملاقات کا شرف ملا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میری اماں پٹھان تھیں اور میں علماء حق کے پیروں کا غبار اپنے لئے سعادت سمجھتا ہوں لیکن علماء سو سے میری نہیں بنتی ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں آپ کی پارٹی کیلئے ایک دستور (آئین) لکھ دیتا ہوں۔ تحریک انصاف کا دستور بھی میں نے لکھا ہے اور خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کو میں نے بہت کارکن اور رہنما دئیے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی مہربانی لیکن عمران خان نے بھی شاید اس دستور کو پڑھا اور سمجھا تک بھی نہ ہو۔ میرے پاس قرآن وسنت ہی کے ایسے آئینی نکات ہیں جس کو پڑھ اور سمجھ کر بہت بڑا انقلاب آسکتا ہے۔
جب لوگوں اور لوٹوںکو پیسوں سے خریدا جائے اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر چلنا دشوار ہو تو پھر پنجہ آزمائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کافی عرصہ سے میرے ذہن میں تمام پارٹیوں کیلئے قرآن وسنت کے مشترکہ نکات اٹھانے پر اتفاق رائے کی خواہش تھی لیکن کسی پارٹی نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی ہے۔
عمران خان نے پارٹی اور ادارے بنانے کی بات کی تھی اور لوگ سمجھتے تھے کہ واقعی وہ پاکستان کو پولیس اسٹیٹ اور ایجنسی اسٹیٹس سے نکال کر ایک بہت بڑا صاف شفاف نظام بنائیں گے۔ لیکن پہلے اس نے معراج محمد خان ، جاویدہاشمی، بڑے وکیل رہنما اورجسٹس وجیہہ الدین وغیرہ کو کھودیا اور پھر اپنی نئی ٹیم سے بھی محروم ہوتے گئے۔ اب فوج کو نیوٹرل ہونے کے بعد خصی جانور کہنے کے چرچے ہیں۔ اتحادیوں سے بے نیاز اب اتنے نیاز مند ہوگئے ہیں کہ اتحادیوں کی خاک چاٹ رہے ہیں۔ جمہوریت بہترین انتقام کیساتھ ساتھ تزکیہ نفس کابھی بہت بڑا چارہ بن گیا ہے۔ اسلئے جمہوریت زندہ باد اور اسے برباد کرنے والے مردہ باد۔
جب مولانا فضل الرحمن نے جنرل سیکریٹری کی جگہ جمعیت علماء اسلام کا امیر بننا چاہا تو پہلے امیر کی جماعت میں کوئی زیادہ حیثیت نہیں تھی۔اسلئے کہ جماعت کاقائد جنرل سیکریٹری کہلاتا تھا۔ جیسے پاکستان میں وزیراعظم کی حیثیت ہے اور صدر کی اب کوئی حیثیت نہیں ہے اور جب صدر مضبوط ہوتا تھا تو پھر وزیراعظم کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی۔ جیسے پرویزمشرف اور جنرل ضیاء الحق دور میں۔
قرآن وسنت اور سیرت وتاریخ کی کتابوں کا معالعہ ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم نے نبیۖ کے حوالے سے کئی باتوں میں اپوزیشن جیسا کردار ادا کیا اور نبیۖ نے ان کی حوصلہ شکنی نہیں حوصلہ افزائی فرمائی تھی اور اللہ نے بھی قرآن میں حوصلہ افزائی کی آیات نازل کیں۔ نبیۖ اگر اپنے باصلاحیت ساتھیوں کو کنارے لگادیتے تو قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتوں کو فتح کرنا ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ جب قائد اپنا بیٹا، بیٹی، بھائی ، بہن اور اپنے قریبی عزیز کوکھڑا کردے یا پھر اپنا وزن کسی ایک کٹھ پتلی کے پلڑے میں ڈال دے تو کارکنوں کا برین واش کرنا بھی جمہوریت کی نفی ہے۔ مشاورت کا وسیع میدان ہو اور جس کی اکثریت ثابت ہو، اس میں خفیہ رائے شماری بھی اسلئے ہوتی ہے تاکہ کوئی کسی کا لحاظ رکھنے کے بجائے اپنی مخلصانہ رائے سے کسی کا انتخاب کرے۔
مختلف پارٹیوں میں بہت مخلص سیاسی رہنما اور کارکن ہیں لیکن ان کی کوئی بات چلتی نہیں ہے۔ اگر ایک ایسی پارٹی تشکیل دی جائے جس میں انتخابات کی روح کے مطابق کارکنوں میں الیکشن ہوجائے اور پھر مختلف سطح پر قیادتیں ابھر کر آجائیں تو ایک مضبوط پارٹی وجود میں آسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں مختلف پارٹیاں بھی اپنے رویوں کو درست کرکے میدان میں کھیل سکتی ہیں۔ عوام کو کس قسم کی تکالیف کا سامنا ہے؟۔ روٹی ، کپڑا ، مکان کا نعرہ لگانے اور اسٹیبلشمنٹ کی زیادہ سے زیادہ خدمت اور حمایت کرنے سے بات ابھی کافی آگے نکل چکی ہے اور عوام کو مایوسی سے نکالنے کیلئے ان کے ضمیر خریدکر تسلیاں دینے سے کام بالکل بھی نہیں چلے گا۔ پارٹی بنانے کا طریقۂ کار اور ایک ایسے منشور کی ضرورت ہے کہ جس سے عوام کو حکومت میں آنے سے پہلے بھی بہت زیادہ ریلیف مل جائے۔
حضرت عمر نے جب یہ قانون بنایا کہ عورت کا حق مہر کم ہوگا تو ایک عورت نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تم کون ہوتے ہو۔ ہمارے لئے قانون بنانے والے؟۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کوئی قانون نہیں بنایا۔ حسن نثار معروف صحافی نے کہا کہ” الماس بوبی ( لاہور میںہجڑوں کی معروف شخصیت) کے پیٹ میں رسولی ہوسکتی ہے لیکن بچہ نہیں ہوسکتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد کیا ہوگا؟۔ اگر کامیاب ہوجائے تو اپوزیشن کے آزمائے ہوئے قائدین سے کیا انقلاب کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ سب ایک چیز ہیں۔ جب امریکہ سے واشروم کی سینٹری کا سامان آیا تھا تو بنگال مشرقی پاکستان نے کہا کہ کچھ ہمیں بھی دینا ۔ جس پر ہمارے والے ہنستے تھے کہ تم نے واشروم کی سینٹری کو کیا کرنا ہے؟۔ باتھ روم کی ضرورت صرف ہمیں ہے۔ تمہارے ہاں کھیتی اور جنگلات ہیں وہاں فارغ ہونے کیلئے چلے جایا کرو۔ آج وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔ بہت زیادہ وہ ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ ہمارے پاس ایک فوج کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور ہماری فوج کو دنیا میں نمبر ایک مانا جاتا ہے۔ باقی ہر چیز میں تنزلی ہورہی ہے۔ فوج کو بالکل بھی غیرجانبدار نہیں رہنا چاہیے کیونکہ ابھی ہم اس قابل نہیں ہیں۔ جب ہم اس قابل بن جائیں گے تو پھر اس کو غیرجانبدار بننا چاہیے”۔
حسن نثار ایک جذباتی اور فلاسفر ٹائپ کے اچھے صحافی ہیں۔ کسی دور میں وہ الطاف حسین، آصف علی زردای کی بھی تعریف کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی کیلئے اس نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جیل بھی کاٹی ہے۔ عمران خان کی بہت تعریف اور بڑی مذمت بھی کرچکے ہیں۔ ایک طبقے کا خیال یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش نے اپنی جان اس فوج سے چھڑائی ہے تبھی تو اس نے ترقی کی ہے۔ اگر وہ اپنی کمزور فوج سے ترقی کرسکتے ہیں تو ہم ایک مضبوط فوج کے سائے میں محرومیاں کیوں دیکھتے رہ جائیں۔ بلوچستان، پختونخواہ اور سندھ میں پہلے بھی شعور تھا اور اب تو پنجا ب بھی جاگ چکاہے۔ ایسے صحافیوں کے بارے میں اب لوگوں کی رائے یہ بن رہی ہے کہ الماس بوبی بچہ نہیں جن سکتی ہے لیکن بعض لوگوں کو ان کی ماؤں نے پیچھے کے راستے سے جن لیا ہے۔ یکطرفہ بولنے پر وہ صحافی نہیں رہتا ۔مظہر عباس معروف صحافی نے کہا کہ ” صحافی نظر آنا چاہیے کہ وہ غیرجانبدار ہے”۔
نبیۖ نے سود کے حرام ہونے کی آیات کے نزول کے بعد کاشتکاروں کو بٹائی، کرایہ اور ٹھیکے پر زمین دینے کو سود قرار دے دیا۔ فرمایا کہ مفت زمین دو، یا پھر اپنے پاس فارغ رکھ لو۔ اس سے مدینہ میں بہت بڑا انقلاب برپا ہوگیا ،جس نے مشرق ومغرب کی سپرطاقتوں ایران وروم کو فتح کرنے میں بھرپور کردارا دا کیا تھا۔ مدینہ کے محنت کش غریب لوگوں میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینہ کے بازار عالمی منڈی کا سماں پیش کررہے تھے۔ تاجر کہتے تھے کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو سونا بن جاتا ہے۔ غزوہ بدر میں 70دشمن قیدی بنائے گئے لیکن کسی نے بھی ان کو غلام بنانے کی تجویز پیش نہیں کی۔ اور نہ ہی دشمنوں سے غلام کا کام لیا جاسکتا تھا۔ کلبھوشن اور ابھی نندن کو کون اپنے گھرمیں غلام کی طرح رکھ سکتا تھا؟۔
مزارعت ہی غلام اور لونڈیاں بنانے کا واحد نظام تھا۔ جس کی جڑ ہی اسلام نے کاٹ دی تھی۔ چاروں فقہ کے امام حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل اس بات پر متفق تھے کہ مزارعت سود اور حرام ہے لیکن اپنے اپنے دور کے بعض مفتی اعظم اور شیخ الاسلام نے جس طرح آج سودی نظام کو جائز قرار دیا ہے جس سے کارخانے، فیکٹریاں، ملیں اور کمپنیاں غلام بنائے جاتے ہیں بلکہ پورے پورے ملک بھی غلام بنائے جاتے ہیں اور قرآنی آیات اور دوسرے علماء ومفتیان کے فتوؤں کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اسی طرح سے وقت کیساتھ ساتھ مزارعت کو بھی جوازفراہم کیا گیا تھا۔ اگر قرآن واحادیث اور ائمہ کے متفقہ فتوؤں سے انحراف نہ برتا جاتا تو غلامی کے نظام کو ختم کرنے کاکریڈٹ اسلام کو جاتا۔ آج روس اس پر ہمارے ساتھ کھڑا ہوجائے گا۔جاگیردار اگر کاشتکاروں اور مزارعین کو مفت زمین نہیں دیں تو ان کا ووٹ بھی قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ مجبور اور غلام کی اپنی کوئی رائے بھی نہیں ہوتی ہے۔ جب لوگ خوشحال ہوکر زمینوں کی کاشت کو چھوڑ رہے تھے تو یہ المیہ بن رہاتھا کہ پھر اناج کا کیا بنے گا۔ آخر کار غیر مسلموں کو یہ کام سپرد کردیا گیا تھا۔ مسلمان زکوٰة وعشر کے نام پر حکومت کو کچھ حصہ دیتے تھے اور غیرمسلم ٹیکس وجزیہ کے نام سے وہی کچھ دیتے تھے۔ جاگیردار آج اپنی زمینیں خود کاشت کرنا شروع کریں تو اللہ کے ولی اور حبیب بن جائیں گے۔ نبیۖ نے فرمایا تھا کہ الکاسب حبیب اللہ ”محنت کرنے والا اللہ کا حبیب ہے”۔بہت لوگوں کیلئے کاشتکاری کے ذریعے سے نہ صرف روزی کے دروازے کھل سکتے ہیں بلکہ دنیا کی تقدیر بھی بدلی جاسکتی ہے۔ امیر اور سرمایہ دار تو کام کریں گے نہیں۔
حضرت عمر نے اپنے دور میں پابندی لگائی تھی کہ کوئی اپنا پیشہ نہیں چھوڑے گا تاکہ معاشرے میں کسی چیز کی کمی نہ ہو اور ترقی کا سفر جاری رہے۔ حضرت داؤد بھی زرے بنانے کی صنعت سے وابستہ تھے۔ اگر نوازشریف اور شہبازشریف کو جرنیل سیاست میں لانے کے بجائے اتفاق ٹریکٹر بنانے دیتے تو آج وہ ترقی کرکے پورے ملک میں ریل گاڑی اور جہاز بنانے کے کارخانے بھی بناتے اور ملک وقوم کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں زبردست کردار ادا کرتے۔ اسی طرح آصف زرداری ، عمران خان اور مختلف محکموں سے ریٹائرڈ ہونے والے حضرات بھی سیاست میں آنے کی جگہ اپنی اپنی فیلڈ میں کام کرتے۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے اپنے باصلاحیت کارکنوں کو کنارے لگاکر نالائقوں کیلئے دروازہ کھولنے میں اپنا کردار اداکیا اور طلبہ تنظیموں کی سیاست پر پابندی لگائی گئی۔
اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگادو کاخِ امراء کے درو دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہرخوشہ گندم کو جلادو
مفت میں زمینیں کاشت کیلئے مل جائیں گی تو بڑے بڑے جاگیرداروں کی ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ پانی پر اپنا ناجائز قبضہ جمائیں۔ عدل وانصاف سے پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل ہوگا۔ پھر اتنے باغات اُگائے جائیں گے کہ پاکستان کی تمام زمینیں باغ ہی باغ اور جنت کا منظر پیش کریں گی اور اس میں محنت مزدوری کرنے والوں کو بھی روز گار ملے گا۔ جب کھیت میں پوری پوری محنت کا پوراپورا صلہ مل جائے گا تو مزدور کی دیہاڑی بھی خود بخود دگنی ہوجائے گی۔ پھر سب سے پہلے سودی قرضوں کا خاتمہ ضروری ہوگا کیونکہ ہماری ریاست کی آمدن سے بھی زیادہ پیسے سودکی ادائیگی میں جارہے ہیں۔ جب محنت کشوں کو درست معاوضہ ملے گا تو وہ تعلیم وتربیت کیلئے اپنے بچے بھیجنا شروع کریں گے جن سے بہت ہی لائق قسم کے ڈاکٹر، فوجی، سائنسدان اور ہر شعبے میں مہارت رکھنے والے پیدا ہوںگے۔ نالائق سیاستدانوں ، ججوں، جرنیلوں اور افسروں کے نالائق بچوں کو کھیتی باڑی اور محنت مزدوری میں مزہ بھی آئے گا اور صحت بھی اچھی رہے گی۔
سفارش کی جگہ میرٹ اور افراتفری کی جگہ ڈسپلن اس قوم کا پھر شعار بن سکتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے یہ فلسفہ پیش کیا تھا کہ ” جو قومیں اپنے ان افراد کو محنت مزدروی کے کام پر لگاتی ہیں جن میں ذہنی صلاحیت ہوتی ہے اور جن میں ذہنی صلاحیت نہیں ہوتی ہے ان کو دماغی کام پر لگادیتی ہیں تو وہ تباہ ہوجاتی ہیں۔ اور جو لوگ ذہنی صلاحیتوں سے مالامال لوگوں کو ذہنی صلاحیتوں کی ذمہ داریوں پر لگادیتی ہیں اور ہاتھ پیر کی صلاحیت رکھنے والوں کو مزدوری اور ہاتھ پیروں کے کام پرلگایا جائے تو وہ قوم بہت ترقی کرتی ہے”۔ جب تک قوم کو مواقع فراہم نہ کئے جائیں تو ایسا کرنا اگرچہ ناممکن نہیں ہے مگر بہت ہی مشکل ضرور ہے۔ جب زمینداری کے مسئلے میں اسلام کے اصل حکم کو عملی جامہ پہنایا جائے تو پھر بہت ہی تیزی کیساتھ معاشرے میں محنت کشوں کی کایا پلٹ جائے گی۔ معیشت کیلئے یہ ایک بہت بڑا بنیادی فلسفہ ہے اور پاکستان میں اس پر عمل کرنابڑا آسان ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟