پاکستان کی سیاسی قیادت کی مثال دودھ کی کریم جیسی ہے لیکن یہ حرام جانوروں کے دودھ کی کریمیں ہیں۔
نومبر 18, 2021
گیدڑ شیر کی کھال پہنے سے شیر نہیں بن جاتا، عمران خان نوازشریف بننے کی کوشش نہ کرے،مریم نواز۔ کہنا یہ چاہیے تھا کہ گدھا گیدڑ کی کھال نہیں پہن سکتا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف نے پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی قیادت کا کریم معاشرے کو دیامگر بدقسمت اسٹیبلشمنٹ نے یہ سب مکھن قیادت حلال دودھ سے نہیں بلکہ کتیا،گیدڑ اور گدھی کے دودھ کو مشکیزے میں ڈال کر نکالا ہے جس نے قوم کو تباہ کردیا
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور جمہوریت برائے نام ہے اور اس کا نظام اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار کی وجہ سے پیدا گیری ہے ۔جب تک پیداگیری سے اس کو پاک نہیں کیا جائے یہ اسم بامسمّیٰ پاکستان نہیں بلکہ پلیدستان رہے گا۔ خان، وڈیروں ، نوابوں اور انگریز کے پیداکردہ ملا شوربازاراور پیران شیر آغا نے عوام کو تباہ کیا، سیاستدانوں اور سول وملٹری بیوروکریسی نے آخری حدپارکردی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا ماضی ،حال اور مستقبل سب ڈھینچو ڈھینچو کے سواء کچھ نہیں ہے۔ پہلے خودکار ناکارہ نظام کی وجہ سے آرمی چیف کی مدت توسیع میں جو جگ ہنسائی ہوئی تھی وہ سمجھ میں آتی تھی کہ اس سے پہلے جتنے ڈکیٹیٹر مسلط ہوئے تھے ،وہ سب اس فوجی ایکٹ کے تحت ہوئے تھے کہ ” جب کوئی ریٹائرمنٹ کے بعد مجرم ثابت ہوتا تو اس کو بحال کرکے سزا دی جاتی تھی” لیکن جب کوئی ڈکٹیٹر قبضہ کرتا تھا تو ہمارے سیاستدان اور عدلیہ مل بانٹ کر کہتے تھے کہ ” اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا”۔ کبھی کسی نے قانون کا جائزہ تک لینے کی زحمت نہ کی۔
اب وزیراعظم عمران خان کہتا ہے کہ” مجھ سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت سے کسی کے اچھے تعلقات نہیں ہیں ۔کسی تیکنیکی خرابی کی وجہ سے آئی ایس آئی چیف کی تقرری میں توسیع ہورہی ہے”۔ گدھے کو یہ پتہ نہیں کہ یہ جہانگیر ترین کا جہاز یا پاکستان ریلوے کا انجن تو نہیں ہے کہ اس میں تیکنیکی خرابی کی وجہ سے کوئی تاخیر ہوجائے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سول سپرمیسی کی آواز اٹھانے والیPDMکی قیادت کو بہت بڑی خارش شروع ہوگئی ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کا باعث عمران خان بن رہاہے۔ پرائی شادی میں عبداللہ دیوانے کو اصل مسئلے کا بھی پتہ نہیں کہ فوج کا اندورنی معاملہ ہے یا عمران خان سے چپقلش ہے؟۔ حکومت کے ترجمان بک رہے ہیں کہ اپوزیشن قومی اداروں کے تقدس کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ حالانکہ کونسی ہتھنی کی ڈیلوری کس آپریشن سے ہورہی ہے؟۔ ابھی تویہ بھی معلوم نہیں کہ نوراکشتی ہے یا واقعی کوئی مسئلے مسائل ہیں؟۔
جب بھوک اور اقتدار کی جنگ شروع ہوجائے تو پھر ملک وقوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ مقتدر طبقات طاقت اور بھوک کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ جنرل ایوب خان کو طاقت کا شوق تھا تو اس نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے طاقت کا کھیل اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے سب کچھ کیا لیکن پھر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں شکار ہوگیا۔ جنرل ضیاء الحق نے نوازشریف کو جنم دیا۔ نوازشریف تجارت پیشہ انسان تھا ، اس نے آئی ایس آئی ، اسامہ بن لادن اور جہاں جہاں سے بن پڑا تو اپنی تجارت بڑھائی۔ ملک وقوم میں کرپشن کرپشن کی رٹ لگی تو گہماگہمی میں پیپلزپارٹی اور نوازشریف کی باری باری حکومتوں کا بتدریج خاتمہ کرکے خان صاحب کو لایا گیا۔ بہت ہی معذرت کیساتھ لیکن قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو کتوں اور گدھوں سے بھی تشبیہ دی ہے۔ کتا بڑا کارآمد اور وفادار جانور ہے لیکن اس میں لالچ اور اپنی چوہدراہٹ جمانے کی کمزوری ہوتی ہے۔ گیڈر سے تشبیہ عام طور پربزدلی کی وجہ سے دی جاتی ہے اور گیدڑ کا کام یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت ہنر مندی سے ڈرپوک ہونے کے باوجودبڑی صفائی سے چوری کرتا ہے اورایک ساتھ جمع ہوکرعجیب و غریب آواز نکالنے کی مہارت رکھتا ہے جس کو گیڈر بھپکی کہتے ہیں۔ گدھا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کی آواز سب سے بدترین ہوتی ہے اور کوئی عقل اور عزت بھی نہیں رکھتا ہے۔
جب مشرقی پاکستان میں مجیب نے اکثریت حاصل کرلی اور ذوالفقار علی بھٹو کے پاس مغربی پاکستان میں اکثریت تھی تو بھٹو نے اسٹیلشمنٹ کیساتھ مل کر ہی اس ملک کو دولخت کردیا۔ جب93ہزار فوجی بھارت نے قید کرلئے تو بھٹو نے وفاداری دکھائی اور ان کو چھڑانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء الحق کو اپنا وفادار ،بزدل اور کمزور سمجھ کر آرمی چیف بنایا لیکن جب اپنی چوہدراہٹ کے چکر میں پڑگیا تو اپنے انجام کو جائز یا ناجائز بہرحال پہنچادیا گیا۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ ”کتے میں10صفات ایسی ہیں جو ہر مؤمن میں ہونی چاہئیں” اور ذوالفقار علی بھٹو میں بہت سی خوبیاں تھیں لیکن انسانیت کا کوئی معیار نہیں تھا ۔ جنرل ضیاء الحق نے گیڈر نوازشریف کو پالا ۔ گیدڑ میں انسان بننے کی صلاحیت تو دور کی بات ہے کتا بننے کی صفات بھی نہیں ہے۔جب بینظیر بھٹو نے جمہوریت کیلئے مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کرMRDمیں جدوجہد شروع کی تو نوازشریف جنرل ضیاء الحق کی برسی پر گیڈر کی طرح آوازیں نکالتا تھا کہ ”تم شہید ضیاء الحق سے انگریز کے کتے نہلانے والے بھٹو کا مقابلہ کرتے ہو؟ اور پاک فوج زندہ باد اور جمہوریت مردہ باد ”۔ پھر جب اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر آئی ایس آئی نے پیسہ دیکر اس کو اقتدار میں لایا تو کرپشن کی بنیاد پر ہی صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کردیا۔ رحمن ملک نے اس وقتFIAکے ذریعے تمام ثبوت اکٹھے کرکے ایون فیلڈ لندن کے فلیٹ کا پتہ لگایا تھا۔ پھر جب مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرکے اس کی بہن بینظیر بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ کیا گیا تو آصف علی زرداری کو جیل میں ڈال کر دوبارہ مرکز میں نوازشریف کو لایا گیا۔ بینظیر بھٹو پر بھی کرپشن کے کیس بنائے گئے اور نوازشریف کی گیدڑ بھبکیاں جاری رہیں۔ پھر نوازشریف نے گیڈر کی طرح اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے پرویزمشرف کو ہٹادیا لیکن اس کی چال ناکام ہوگئی۔ پھر گیدڑ سعودیہ کی جلاوطنی پر دستخط کرکے گیا تھا تو اس نے معاہدے کا انکار کیا۔ جب معاہدہ اس کے مطالبے پر سامنے لایا گیا تو اس نے کہا کہ10سال نہیں5سال کا معاہدہ کیا تھا۔ ایون فیلڈ کے کیس دوبارہ اس کے خلاف کھول کر بند کئے گئے۔ سزائیں بھی سنائی گئیں تھیں اور گیدڑ کی بچی مریم نواز نے گیدڑ بھبکی ماری تھی کہ ”میرے پاس بیرون ملک تو کیا ملک کے اندر بھی کوئی جائیداد نہیں ہے اور کچھ بھی میرے پاس نہیں، باپ پال رہا ہے”۔
جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گیا تو شہباز شریف رات کی تاریکیوں میں گیدڑ کی نمائندگی کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کرتا تھا اور گیڈروں نے پھر جمہوریت پر یلغار کردی۔ بجلی کے کھمبوں، چوکوں پر لٹکانے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی بھپکیاں جاری رہتی تھیں۔ پھر جب اقتدار میں آگئے تو اسمبلی میں گیدڑ بھپکیوں سے پرہیز نہیں کیا۔ ایون فیلڈ کے فلیٹوں کا تحریری بیان جاری کیا کہ اللہ کے فضل وکرم سے الحمد للہ2005ء میں سعودیہ کی مل اور وسیع اراضی اور دوبئی کے مل کو بیچ کر اس رقم سے2006ء میں یہ فلیٹ لئے۔ جس کے تمام دستاویزی ثبوت الحمد للہ میرے پاس ہیں جو عدالت کو عند الطلب دکھا سکتا ہوں”۔ پھر جب عدالت میں پیش کرنے کا وقت آیا تو قطری خط سے سب حقائق کو جھٹلادیا تھا اور پھر اس قطری خط سے بھی انکار کردیا تھا۔ یہ سب گیدڑ بھپکیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ نوازشریف شیر نہیں گیدڑ ہے ۔ ووٹ کو عزت دو کے نام پر فوج ہی کو مودرد الزام ٹھہرایا کہ ”مجھے کیوں نکالا” لیکن جب عمران خان کے دور میں بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن کی ضرورت پڑی اور آئینی ترمیم بھی ضروری تھی تو گیدڑ نوازشریف نے لندن سے ترمیم کی حمایت کردی اور پھر آرمی چیف کا نام لیکر بک بک بھی شروع کردی اور پھر خاموشی بھی اختیار کرکے نام لینا بھی چھوڑ دیا۔ اسلئے مریم نوازشریف کو چاہیے کہ عمران خان سے کہے کہ گدھا گیدڑ کی کھال نہیں پہن سکتا ہے۔ شیر کو بدنام کرنا بند کردیا جائے۔
حضرت علی اور حضرت امیر حمزہ جیسے مقدس صحابہ کرام کو شیر کہنا مناسب ہے مگر نوازشریف کی وہ کونسی ادا ہے جس پر اس کو شیر کہا جائے؟۔ اگر پارلیمنٹ میں اس کو زبردستی سے کسی نے ایون فیلڈ کا جھوٹا بیان پڑھنے پر مجبور کیا ہے تو پھر وہ بتائے لیکن اس کی پوری زندگی جھوٹ اور کرپشن سے عبارت ہے۔ ہمارے مولانا فضل الرحمن کوPDMکی قیادت کے نام پر ن لیگ کے دُم چھلے کا کردار ادا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جس طرح آرمی چیف کی مدت توسیع کیلئے پتہ چل گیا کہ جس قانون کے تحت ڈکٹیٹر شپ پر قبضہ کرکے اپنی مدت بڑھاتے تھے تو یہ قانون ہی غلط تھا، اسی طرح سے فقہ کے نام پر جومسلکانہ مسائل بنائے گئے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ غلط ہیں۔ روزنامہ جنگ میں ” آپ کے مسائل اور ان کا حل” میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے رئیس دارالافتاء نے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا کہ ” میاں بیوی میں سے ایک کا انتقال ہوجائے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے اسلئے دونوں ایک دوسرے کیلئے اجنبی بن جاتے ہیں”۔ جس طرح عدلیہ کا قانون فوج کے جرنیلوں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں کیلئے الگ ہے اور غریب عوام کیلئے الگ ہے۔ اسی طرح علماء کی شریعت بھی طاقتور اور کمزوروں کیلئے الگ الگ تھی۔ معاشرے میں کمزور اور طاقتور کیلئے قانون الگ الگ ہے لیکن اسلام نے کمزوروں اور طاقتوروں کیلئے یکساں قانون بنائے تھے۔ ہماری جمہوریت اس وقت کامیاب ہوسکتی ہے کہ جب ہم اسلام کے مطابق کمزور اور طاقتور کیلئے ایک ہی قانون بنائیں۔ مذہبی جماعتیں پاکستان کے آئین سے بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتی ہیں اسلئے کہ انہوں نے خودہی اسلام کو مسخ کردیا ہے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اسلام میں پردے کے تین اقسام کے احکام بتائے۔نمبر1یہ ہے کہ گھر کی چاردیواری سے باہر نہ نکلا جائے اور حجاب کے پیچھے بات کی جائے۔ نمبر2یہ کہ چہرے اوراندر کے کپڑوں سمیت پورے جسم کا نقاب کیا جائے اور نمبر3یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھ کر باقی جسم کا پردہ کیا جائے۔( فقہی مقالات :جلد چہارم )
اسلام میں کوئی ابہام نہیں ہے لیکن نالائق نام نہاد علماء نے ابہام پیدا کیا ہے اور اگر یہ بات کوئی نہیں مانتا ہے تو علماء سے پوچھا جائے کہ تم خود اور تمہارے گھر کی خواتین کس قسم کا پردہ کرتے ہو؟۔ ٹی وی کے اسکرین، جہازوں اور بیرون ملک سفر کرنے والے کی اکثریت نے اپنے گھر والوں کو بھی سیر کروائی ہے۔ ان کے عمل وکردار سے ان کے شرعی پردے کا تصور بھی واضح ہوجائے گا۔ جب ان کی خواتین مساجد اور مدارس کی چاردیواری میں فل پیک ہوکر نکلتی ہیں اور بازار ، مارکیٹ ، شاپنگ مال اور پارک میں جانے سے پہلے اپنا برقعہ اتار دیتی ہیں تووہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ جس طرح سعودیہ اور ایران کی خواتین جہازوں میں بیٹھتے ہی اپنا برقعہ اپنے ہینڈ بیگ میں ڈال دیتی ہیں اسی طرح مدارس کے ماحول سے نکل کر ان علماء کی خواتین بھی وہی کردار ادا کررہی ہیں۔
جب اسلام آباد میں ایک پختون بچے کو اغواء کرکے قتل کیا گیا تھا اور تھانے کا عملہ رپورٹ درج کرنے کی بجائے بچے کے والدین سے جھاڑو لگوارہا تھا تواس وقت معروف فیمنسٹ ہدیٰ بھرگڑی بھی وہاں مجمع اکٹھا ہونے پر پہنچی تھی اور دوپٹہ بھی اوڑھ لیا تھا۔ یہ اسلئے کہ اس ماحول کا تقاضہ تھا۔ اگر وہ مدارس میں داخل ہوتو ہوسکتا ہے کہ اپنے پورے جسم کو ڈھانپ کر آجائے اسلئے کہ وہاں ماحول کا بھی یہ تقاضہ ہوگا۔ عورت جہاں ماحول کو دیکھتی ہے تو اپنے تحفظ کیلئے اس طرح کا قدم بھی خود اٹھالیتی ہے۔ قرآن میں عورتوں کو جہاں جہاں پردے کا جس طرح سے بھی حکم دیا گیا ہے تو وہاں ماحول کے لحاظ کو سامنے رکھ کر حکم دیا گیا ہے۔
پاکستان میں بہت بھکاری عورتیں بھی پھرتی ہیں لیکن کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کہ سرعام کسی عورت نے اپنے بچے کو دودھ پلایا ہو۔ حرم کعبہ کے پاس بھکاری عورتیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے کیلئے اپنی چھاتیوں کو گریبان کے اوپر سے ہی نکال کر دودھ پلادیتی ہیں۔ دبئی کے کتب خانوں میں بسا اوقات برقعہ پوشوں کا منہ چھپا ہوا ہوتا ہے لیکن سینہ کھلا ہوا ہوتا ہے۔ پردہ کے شرعی اور رواجی تصورات میں بہت فرق ہے۔ پختون، بلوچ، پنجابی ، مہاجراور سندھی اپنے اپنے کلچر کے مطابق ہی پردہ کرتے ہیں۔شریعت کی غلط تشریحات کو بہت ٹھیک طریقے سے درست کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” بیوہ کو چار ماہ دس دن کی عدت سے بھی پہلے اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دے سکتے ہیں لیکن اس سے کوئی پکا عہدو پیمان نہیں کرسکتے”۔(سورۂ البقرہ ) سورہ ٔ طلاق میں عورتوں کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے۔ اس پر اختلاف ہے کہ اگر حمل کی عدت چار ماہ دس دن سے کم ہو تو پھر بھی بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے یا نہیں؟۔ حضرت علی کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ کم ازکم چارماہ دس دن اور حمل کی صورت میں اس مدت ہی کو عدت کیلئے ضروری قرار دیتے تھے۔ جبکہ حدیث میں عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد چند روز کے بعد بھی نکاح کی گنجائش دی گئی ہے اور اس پر فقہاء نے فتویٰ بھی دیا ہے۔ اگر چارماہ دس دن کے بعد حمل والی کو بھی نکاح کرنے کی ضرورت پڑتی تو نبیۖ اس کی بھی اجازت دے سکتے تھے۔ خلع کی عدت ایک حیض حدیث صحیحہ میں ہے لیکن بعض فقہاء نے اس کو اسلئے مسترد کیا ہے کہ قرآن میں طلاق کی عدت تین حیض کے یہ منافی ہے، حالانکہ حمل کی صورت میں عدت کی مدت چند لمحات بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن میں عدت کے حوالے سے اعداد و شمار اور احادیث کی رہنمائی پر فقہاء متفق بھی ہوسکتے ہیں۔
اللہ نے بیوہ کو چار ماہ دس دن کی عدت پوری ہونے کے بعد اپنی مرضی کا مالک بنایا ہے۔وہ اپنے مردہ شوہر سے نکاح برقرار رکھ کرقیامت کے دن تک اس کی بیگم رہ سکتی ہے اور عدت کے بعد وہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ فقہاء نے جس طرح انتقال کے فوراً بعد نکاح ٹوٹنے کا تصور بنایا یہ قرآن وسنت کیخلاف ہے۔ حضرت عائشہ سے نبیۖ نے فرمایا کہ آپ مجھ سے پہلے فوت ہوگئیں تو میں غسل دوں گا، حضرت ابوبکر کو ان کی بیگم نے غسل دیا اور حضرت فاطمہ کوحضرت علی نے غسل دیا۔ مفتی طارق مسعوداور علماء کے دل ودماغ سے جہالت نکالنے کی سخت ضرورت ہے۔اگر علماء ومفتیان کی مائیں اپنے شوہروں سے پہلے فوت ہوگئیں یا بعد میں تو نکاح ٹوٹنے کے بعد ان کی قبروں میں فلاں کی زوجہ بھی نہیںلکھنا چاہیے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ