پوسٹ تلاش کریں

مفتی محمد تقی عثمانی چالاک پرندے کی طرح دونوں پیروں سے پھنس گئے

مفتی محمد تقی عثمانی چالاک پرندے کی طرح دونوں پیروں سے پھنس گئے اخبار: نوشتہ دیوار

مفتی محمود کی وفات کا واقعہ
بٹوہ لیتے تھے کہ لاؤ بھئی پان کھائیں گے تمہارا!پھرایکدم یہاں ہاتھ رکھا اور ختم؟
مفتی محمد تقی عثمانی چالاک پرندے کی طرح دونوں پیروں سے پھنس گئے

مفتی تقی عثمانی نے اپنی سابقہ تحریر اور مولانا یوسف لدھیانوی کی تحریر کے برعکس جھوٹ بولا۔زکوٰة کا مسئلہ اسلام کو بدلنا اور غریبوں کا بڑا قتل تھا

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے یوٹیوب کے تازہ آڈیو بیان میں کہا ہے کہ
حضرت مولانا مفتی محمود جوبہت مشہور عالم ہیں اور بڑی شہرت اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے اور بڑا کام کیا انہوںنے، تو ایک مرتبہ زکوٰة کا ایک مسئلہ تھا جس میں ہماری طرف سے جو فتویٰ جاری کیا گیا تھا اس میں اور حضرت مفتی محمود نے جو فتویٰ جاری کیا تھا اس میں کچھ اختلاف ہوگیا کہ ہمارا فتویٰ کچھ اور تھا ان کا کچھ اور تھا۔ حضرت مفتی صاحب سفر کرکے عمرے کیلئے تشریف لے جارہے تھے۔ اور یہاں بنوری ٹاؤن کے مدرسے میں تشریف فرما تھے ، اگلے دن عمرے کو جانا تھا۔ تو انہوں نے اپنی شفقت سے ہمیں بلایا کہ بھئی آکر ذرا اس موضوع پر بات کرلیں آپس میں۔ اور جو تمہارا مؤقف ہے تم بیان کردو جو ہمارا ہے ہم بیان کردیں پھر دیکھیں کوئی راستہ اتباع کرنے کے لائق۔ تو بھائی صاحب حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب اور میں ہم دونوں گئے بنوری ٹاؤن۔ حضرت مفتی صاحب کا معاملہ بڑا شفقت کا تھا۔ اور اتنا پیار تھا یعنی گفتگو میں اور ہر چیز میں تو انہوں نے، وہ بھی پان کھاتے تھے۔ ہم بھی پان کھاتے تھے۔ اور مفتی صاحب بعض اوقات اپنی بے تکلفی میں میرے پاس پان کا وہ ہوتا تھا نا ڈبہ بٹوہ، چھوٹا سا ہوتا تھا ، اب تو وہ کم ہوگیا ہے معاملہ۔ پہلے تو بہت کھاتا تھا میں تو اس وجہ سے اس میں رکھ کر لے جاتا تھا کہیں جانا ہوتا تھا تو۔ تو حضرت مفتی صاحب کی عادت تھی یعنی شفقت کی وجہ سے کہ خود ہی ہاتھ بڑھا کر وہ بٹوہ لے لیتے تھے۔ لاؤ بھئی پان کھائیں گے تمہارا۔ اس طرح بالکل یعنی خوش بخوش اور بہت ہی نشاط طبع کوئی طبیعت میں ادنیٰ بھی کوئی کمزوری نہیں تھی۔ اور پان بھی لیا اور اس کے بعد پھر بات چیت بھی شروع کی۔ اور بات چیت شروع کرتے کرتے ایک دم سے یہاں ہاتھ رکھا اور ختم۔ ایک دم سے یہاں ہاتھ رکھا اور گر گئے۔ ہم لوگ اٹھا کر لے کر گئے ہسپتال تو ہسپتال میں کہا گیا کہ یہ تو ختم ہوچکے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے بات کرتے ہوئے ، عمرے کا سفر تیار اور یعنی آدمی اگر بیمار ہو تو عمرے کا سفر تو نہیں کرے گا نا۔ لیکن کوئی بیماری نہیں تھی کوئی پریشانی نہیں تھی اور بیٹھے بیٹھے ختم ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اب ہم دیکھتے ہی رہ گئے کہ بات کرتے کرتے کرتے اچانک ، ہاتھ یہاں رکھا سر پر بس اور گر گئے۔
مفتی محمود کی وفات پر مشہور تھا کہ مفتی محمود کو علماء نے پان میں زہر دیکر شہید کردیا ۔کراچی جلسۂ عام میں مفتی محمود نے جنرل ضیاء الحق کو رئیس المنافقین قرار دیا تھا۔ قاری شیرافضل خان نے نعرہ لگایا کہ مرزائی نواز مردہ باد۔ تو مفتی محمود نے کہا کہ ”مرزائی نواز مت کہو ،مرزائی کہو”۔ مولانا انس نورانی نے اسلام آبادPDMکے جلسے میں جنرل ضیاء الحق کو رئیس المنافقین قرار دیا ۔جنرل ضیاء الحق نے مفتی تقی عثمانی کو لائبریری کیلئے خطیر رقم اور دارالعلوم کراچی کے مغرب کے سائیڈ کا بہت بڑا پلاٹ دیا ۔ جنرل ضیاء نے بینکوں کے سود سے زکوٰة کی کٹوتی کا حکم جاری کیا تو مفتی محمود سمیت پاکستان بھر کے علماء نے مخالفت کی تھی۔ رئیس المنافقین اور مرزائی قرار دیا لیکن سرکاری مرغوں مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے سود سے زکوٰة کی کٹوتی کو جائز قرار دیا۔اس وقت ان دونوں بھائیوں کی حیثیت مفتی محمود کے سامنے بچوں کی طرح تھی۔ مفتی محمودنے زکوٰة کے مسئلے پر ان کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بلایا اور مسئلے میں کوئی ابہام بھی نہیں تھا۔ اگر دس لاکھ پر سالانہ ایک لاکھ سود ملے ۔ دس لاکھ محفوظ اور75ہزار سود ملے اور25ہزار زکوٰة کے نام پر کٹ جائیں تو زکوٰة کی ادائیگی کہاں سے ہوگی؟۔ مولانا فضل الرحمن جلسوں میںمدارس کیلئے اس زکوٰة کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔ختم نبوت کے نام پر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور ملک بھر کے علماء کرام نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریک چلائی تو جنرل ضیاء کو” امتناع قادیانیت آڈرنینس ”نافذ کرنا پڑا تھا۔جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیر محمد دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا مفتی تقی عثمانی پر برہم رہتے تھے کہ ڈاکٹر عبدالحی سے قادیانی جنرل رحیم الدین کی لڑکی کا جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوارالحق کا نکاح پڑھوایا اور مفتی محمود کو پان میں زہر دیکر قتل کردیا تھا۔ جب البلاغ دارالعلوم کراچی میں مفتی تقی عثمانی کی وہ تحریر پڑھی تھی جو اس نے مفتی محمود کی وفات پر لکھی تھی تو مجھے اپنے استاذ مولانا شیرمحمد سمیت سب لوگوں پر بہت غصہ آیا تھا کہ اتنا بڑا جھوٹ کیسے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی پر لگادیا ہے اسلئے کہ اس تحریر سے پان کھلانے کا شائبہ تک بھی ختم ہوجاتا تھا۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ” جب ہم دونوں بھائی مفتی محمود کے ہاں بنوری ٹاؤن پہنچے تو ہمیں چائے پیش کی گئی ۔ میںنے کہا کہ ہم دونوں بھائی دن بھر میں ایک مرتبہ چائے پیتے ہیں ، پھر سارا دن نہیں پیتے۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم چائے پیتا ہو تو میں اس کو پسند کرتاہوں۔ میں نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بہت بدتر ہے۔ پھر مفتی محمود نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تو تھوڑی دیر بعد ان پر غشی طاری ہوگئی۔ فلاں نے ہاتھ اور فلاں نے پیر ملے اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا تھا”۔ مفتی تقی عثمانی کی اس تحریر کے پڑھنے کے بعد کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے پان کھلایا ہوگا۔ میزبان کی چائے کی دعوت ٹھکرانے ،پان کو علت اور بدتر قرار دینے کے بعد ایک برخودار جیسی حیثیت رکھنے والا مفتی تقی عثمانی کس طرح مفتی محمود جیسے بزرگوار کوپان کھلانے کی پیشکش کرسکتا تھا؟۔ اسلئے پان کھلانے کی ساری کہانی بہت بھونڈی حرکت لگی تھی۔ پہلے یقین اسلئے کیا تھا کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو بھی پان میں زہر کھلایاگیا تھا۔ البتہ جب اقراء ڈائجسٹ مفتی محمود وبنوری نمبر میں نہ صرف مفتی تقی عثمانی کی یہ تحریر چھپ گئی بلکہ مولانا یوسف لدھیانوی کی بھی وہ تحریر شائع ہوئی جو مفتی محمود کی وفات پر انہوں نے لکھی تھی۔ جس کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس میں مفتی تقی عثمانی کا پھر اصرار کرکے پان کھلانے کا بھی لکھ دیا تھا اور ساتھ میں دوسرے بھائی مفتی رفیع عثمانی کادورۂ قلب کی خصوصی گولی حلق میں ڈالنے کا بھی لکھ دیا تھا۔ جب ہم نے اپنی تحریرمیں یہ معلومات شائع کردیں تو مولانا یوسف لدھیانوی نے فرمایا تھا کہ ” مفتی تقی عثمانی سے مجھے ڈانٹ پلوادی ہے کہ کیا ضرورت تھی پان کھلانے اور گولی حلق میں ڈالنے کی بات لکھنے کی ؟۔ مجھے پھنسا دیا ہے”۔ مولانا یوسف لدھیانوی خوش تھے اسلئے کہ حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگانے سے بھی وہ سخت ناراض تھے اور ان کی طرف جھوٹا فتویٰ لکھ کر منسوب کیا گیا تھا۔ حاجی عثمان کے وکیل نے ہتک عزت کا نوٹس بھیجا تو مفتی تقی عثمانی نے سارا جھوٹ اپنے سر لیا تھاکہ ” ہم نے نام سے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے”۔ اب تو اپنے بیان سے بالکل رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔
سودی نظام کو حیلے سے اسلامی قرار دینے پر مدارس کے علماء و مفتیان نے مفتی تقی عثمانی کو انفرادی فتویٰ جاری کرنے سے روکنے کیلئے اپنا اجتماعی کردار ادا کیا لیکن بینکوں سے معاوضے لینے والوں نے اپنے مفاد کی خاطر اپنے اساتذہ اور بڑوں کی سنی ان سنی کردی۔بڑی غلط بیانی شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے یہ کی کہ ”مفتی محمود پان کھاتے تھے اور مجھ سے پان کا بٹوہ لیتے تھے کہ لاؤ بھئی ہم تمہارا پان کھائیںگے”۔حالانکہ پان اور نسوار میں بڑا فرق ہے۔ پان چھپا کر کھانے کی گنجائش نہیں جبکہ نسوار کی گنجائش ہے۔ باپ بیٹا ، استاذ شاگرد اور بڑا چھوٹااکٹھے پان کھائیں تو ان میں شرم و حیاء اور ایکدوسرے سے تکلف نہیں ہوتا۔ نسوار میں ایکدوسرے سے چھپ چھپاکر حیاء وشرم اور لحاظ رکھاجاسکتا ہے۔
پہلے رمضان کے مہینے میں لوگ نماز، روزہ کی طرح زکوٰة کو فرض سمجھ کر اپنی ذمہ داری پوری کرتے تھے۔ بڑے پیمانے پر امیر لوگ غریب ومستحق لوگوں میں زکوٰة کی رقم تقسیم کردیتے تھے۔ جبکہ بعض لوگ سود کی رقم کو بھی بینک سے نکال کر غریبوں میںتقسیم کردیتے تھے اور مولوی حضرات اس سے مساجدو مدارس کے غسلخانے اور لیٹرین بناتے تھے۔ حکومت کے کارندے زکوٰة کی رقم بھی بڑے پیمانے پر کھا جاتے ہیں اور اس کی ذمہ دار ی مفتی تقی عثمانی پر عائد ہوتی ہے۔مفتی تقی عثمانی کے فتوے نے پہلے غریبوں پر زکوٰة کی رقم کا راستہ بند کردیا۔ پھر سودی رقم کیلئے اسلامی منافع کا نام دیکررہی سہی کسر بھی پوری کردی۔جس کی وجہ سے لوگوں میں زکوٰة کی ادائیگی اور سود کی حرمت کا تصور بھی ختم ہوگیا۔ اسلام کو بدل ڈالااور غریبوں کو بھوک کی طرف دھکیل کرانکا معاشی قتل عام کیا۔ پھر لوگوں نے مدارس، فلاحی اداروں ، تنظیموں اور مختلف ذرائع سے زکوٰة، خیرات اور صدقات کے نام سے اپنے لئے منافع بخش کاروبار شروع کردیا۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے پہلے علامہ سید سلیمان ندوی اور مولانا ابوالکلام آزاد کی طرف سے کیمرے کی تصویر کو جائز قرار دینے کے خلاف فتویٰ دیاپھر پاکستان بننے کے بعد ریاست، تجارت اور دیگر معاملات کیلئے جائز قرار دیدیا۔مولانا شیرمحمد دار العلوم کراچی میں پڑھتے تھے تو مفتی شفیع نے مفتی تقی عثمانی اورمفتی رفیع عثمانی کیلئے دارالعلوم کراچی کی وقف شدہ زمین میں مکان خریدے تھے اور مفتی رشید احمد لدھیانوی نے اسکے خلاف فتویٰ دیا تواسکی زبردست پٹائی لگوا دی تھی۔
٭٭٭

مدارس کے نصاب کو تبدیل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کا بیان
مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے تازہ بیان میں مفتی محمود کی وفات پر تبصرے کے علاوہ مدارس کے نصاب کی تبدیلی کی ضرورت پربھی زور دیکر کہا ہے کہ وفاق المدارس پاکستان کے پہلے صدر مولانا شمس الحق افغانی نے تقریباً50یا60سال پہلے کہا تھا کہ مدارس کا موجودہ نصاب مغربیت کا مقابلہ نہیں کرسکتاہے ۔
فاضل دارالعلوم دیوبند پیر مبارک شاہ نے کانیگرم جنوبی وزیرستان میں سکول کھولا۔ اکوڑہ خٹک کا دینی مدرسہ بعد میں بنا۔مولانا عبدالحق نے پہلے سکول کھولا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے1920میں مالٹا کی رہائی کے بعد اپنی وفات سے پہلے حکیم اجمل خان کی یونیورسٹی کا افتتاح کیا۔ جب مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کے وزیر تعلیم تھے تو ملک بھر سے علماء کی میٹنگ بلائی تھی کہ مدارس کے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا ضرور ی ہے ،جس سے علمی استعداد نہیں بنتی، اس نصابِ تعلیم کی وجہ سے ذہین لوگ کوڑھ دماغ بنتے ہیں۔1983میںجو طلبہ فاروق اعظم مسجد ناظم آباد مولانا قمر قاسمی کے ہاں جمعہ کے دن میٹرک پڑھنے جاتے تھے تو دارالعلوم کراچی، جامعہ بنوری ٹاؤن اورجامعہ فاروقیہ شاہ فیصل نے ان کو خارج کردیا تھا۔ دارالعلوم کراچی میں ایک کمر شل سکول بھی موجودہے۔ جامعة الرشید نے یونیورسٹی کے طرز پر بینکاری وغیرہ کی تعلیم شروع کردی ہے اور مفتی تقی عثمانی کے بیٹے بھی میزان بینک کے اسلامی ڈائریکٹر بنے ہوئے ہیں۔
٭٭٭

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی درس نظامی کے نصاب میں تبدیلی کیوں چاہتے ہیں؟

شاہ ولی اللہ نے قرآن وسنت کی طرف امت کو متوجہ کیااور ناجائز تقلیدکی مخالفت کی اور شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو بدعت قرار دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھاکہ ” اصولِ فقہ کی کتابوں میں ایسے نقا ئص ہیں کہ جس دن کسی عقلمند کی اس پر نظر پڑگئی تو سب کچھ ملیا میٹ ہوجائیگا”۔ (تذکرہ : مولانا آزاد)شیخ الہند اورمولانا سندھی نے قرآن پر زور دیا اور آخر میں مولانا کشمیری نے بھی کہا کہ ”میں نے اپنی زندگی فقہی مسالک کی وکالت میں ضائع کردی۔قرآن و سنت کی خدمت نہیں کی”۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے نصاب کی تبدیلی نہیں تسہیل پر زوردیا۔ بہشتی زیور ، حیلہ ناجزہ اور بہت سارے مواعظ اور کتابیں دلیل ہیں۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ اجتہاد اچھا لیکن تمہارے اجتہاد میں تقلیدِ فرنگی کا جذبہ نظرآتا ہے۔مفتی محمد تقی عثمانی نے اکابرین کے برعکس بینک کے سودی نظام کو اسلامی بنانے کا حیلہ ایجاد کرلیا تو کیا یہ مغربیت کا مقابلہ ہے؟۔ مغربیت کے بڑے فتنے میں تو امت مسلمہ کو ڈبودیا اور اب اس کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ مغرب کا دینی مدارس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کا ذکر مولانا فضل الرحمن نے کیا اور مولانا فضل الرحمن کو وفاق المدارس کا صدر بنایا جارہاتھا پھر مفتی تقی عثمانی کو بنایا گیا۔ ٹھیک ٹھاک پیسوں سے علماء ومفتیان کو خریدلیا گیا۔جامعة الرشید اور دارالعلوم کراچی کی تلاشی لی جائے ۔ جامعہ بنوریہ سائٹ کے مہتمم مفتی محمد نعیم کے اکاونٹ میں5ارب ساڑھے34کروڑ روپے تھے۔ صحافی حامد میر نے مفتی نظام الدین شہید سے امریکہ کی طرف سے علماء کو خریدنے کی خبر نقل کی تھی۔ پھر جہاد کے نام پر80ہزار پاکستانی شہید کئے گئے۔ مولانا فضل الرحمن نے نصاب کی تبدیلی پر مثبت بیان دیا لیکن ڈھیٹ علماء ومفتیان اس میںرکاوٹ ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟