پوسٹ تلاش کریں

Through the source of king of kohsar, Waziristan, reforms are expected in Afghanistan, pashtoon nation, Pakistan and the entire world.

Through the source of king of kohsar, Waziristan, reforms are expected in Afghanistan, pashtoon nation, Pakistan and the entire world. اخبار: نوشتہ دیوار

بادشاہ کوہسار وزیرستان سے افغانستان ، پختون قوم، پاکستان اور دنیا کی اصلاح ہوسکتی ہے؟

تحریر :سید عتیق الرحمان گیلانی
صحافی انوار ہاشمی (anwaar hashmi)نے وزیرستان (waziristan)پر اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ” جب انگریز پر حملہ کرنے کا افغانستان نے اعلان کیا تو وزیرستان کے لوگ بھاگتے ہوئے انگریز اور اس کی مقامی فوج کو بہت جانی نقصان پہنچاسکتے تھے لیکن مقامی قبائل نے صرف مال ہتھیانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی تھی”۔ یہ اصول ہے کہ انسان میں شر کم اور خیر کا مادہ زیادہ ہے۔ امریکہ سے تختِ لاہور تک دنیا اس دوڑ میں لگی ہے کہ انسانوں کے خون بہانے کے بجائے اپنے مالی مفادات ہی حاصل کئے جائیں۔ غزوۂ بدر کی بنیاد بھی قافلہ لینے سے شروع ہوئی تھی اور مشرکینِ مکہ نے خانہ کعبہ کو پوجا پاٹ سے زیادہ اپنا مرکز تجارت بنالیا تھا۔ اللہ کی طرف سے بھی حج و عمرے میں مالی منافع اُٹھانے کی بات بالکل واضح ہے۔
طالبان دہشتگردوں سے مسلمانوں اور دنیا کو اسلئے نفرت ہوگئی کہ خونی کھیل کا آغاز کردیا گیا۔ امریکہ سے بھی نفرت اسلئے دنیا کررہی ہے کہ عراق اور لیبیا (lebya)کو تیل پر قبضہ کی وجہ سے ہی تباہ کرکے امت مسلمہ کو خون میں نہلا دیا گیا ۔ امریکہ (america)کے افغانستان سے نکلنے کے بعد افغانی اپنے اقتدار کی خاطر خون کی ہولی کھیلنے لگے ہیں جس سے ملحقہ علاقے زیادہ متأثر ہوںگے اور یہ آگ پورے خطے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ سوات سے وزیرستان، بلوچستان اور افغانستان تک کے پختون اس کھیل سے بہت زیادہ متأثر ہوں گے۔
دہشتگردوں سے مسلمانوں اور دنیاکو اسلئے نفرت ہوگئی کہ خونی کھیل کا آغاز کردیا گیا۔ امریکہ سے دنیا نفرت اسلئے کررہی ہے کہ عراق(iraq) اور لیبیا کو تیل کی وجہ سے تباہ کرکے امت مسلمہ کو خون میں نہلادیا گیا۔ امریکہ کے افغانستان (afghanistan)سے نکلنے کے بعدافغانی اپنے اقتدار کی خاطر خون کی ہولی کھیلنے لگے ہیں۔ جس سے ملحقہ علاقے متأثرہونگے اور اب یہ آگ پورے خطے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے
امریکہ نے یہودی کمپنیوں کیلئے اسلحہ کے کاروبار کو فروغ دیناہے اور امریکن فوج نے منشیات (munshiat)کی فیکٹریاں بناکر دنیا میں ہیروئن کا منافع بخش کاروبار کرنا ہے۔
پاکستان کو حکمرانوں نے اپنی اپنی تجوریاں بھرکر کاسہ لیسی پر مجبور کیا ہے۔ بھاری بھرکم سودی قرضے اور بیرون ملک اشرافیہ کی جائیدادیں اس بات کی نشاندہی کیلئے کافی ہیں کہ ملک قوم سلطنت کو کہاں سے کہاں پہنچایا جارہا ہے؟۔ قومی ترانے گانے سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ جس کو ملک سے ہمدردی کا ہی دعویٰ ہو تو وہ اپنے بیرون ملک اثاثہ جات اور بال بچوں کو یہاں پر بلائے۔ ان لوگوں کو عدالتی (court)، سیاسی اور دفاعی وانتظامی عہدوں پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں، جن کی آل اولاد اور جائیدادیں باہر ہوں۔جنرل کیانی(genral kiani)، جسٹس فائز عیسیٰ (julstice faiz essa)، نوازشریف(nawaz sharif)، شہباز شریف(shehbaz sharif) ، عمران خان (imran khan)بھائی، بیوی، بیٹے اور بیٹی سبھی کو پاکستان لے آئیں۔ سارے پختون یہ فیصلہ کرلیں کہ جن کی باہر جائیدادیں ، کاروبار اور آل واولاد ہیں تو ان کو اپنی سیاست سے بے دخل کرنا ہے۔ اسکے اثرات پاکستان بلکہ اس خطے ایران، افغانستان اور ہندوستان پر بھرپور طریقے سے پڑیں گے۔
پختونوں کی تاریخ میں پیرروشان(pir roshan) بایزید انصاری(ba yazeed ansari) کا بڑا نام ہے۔ ہمارے وزیرستان کے سب سے اونچے پہاڑ کا نام ”پیر غر”(pir ghar) یعنی پیر پہاڑ ہے۔ پیروں کیسیاست کا مقام افغانستان سے ہندوستان تک موجود تھا۔ میرے داد سید امیر شاہ(syed ameer shah) کو محسود قبائل(mehsood qabail) نے افغانستان میں وفد کا سربراہ بناکر بھیجا تھا کہ انگریز کے خلاف ہم ایکدوسرے سے تعان کرینگے۔ جسکا ذکر (Emperial Frontiar) کتاب میں کسی انگریز ی جاسوس نے لکھ دیا۔پھر بیٹنی قبائل کا وفد میرے دادا کے بڑے بھائی سیداحمد شاہ (syed ahmed shah)کی قیادت میں کابل پہنچ گیا تھا، جن کو افغانستان کے بادشاہ نے بہت سارے تحائف اورنقدی پیسوں سے بھی نواز دیا تھا۔
محسود قبائل کا وفد عظیم مقصد کی خاطر میرے دادا سیدامیرشاہ کی قیادت میں گیا تھا جس میں انگریز کے خلاف صرف باہمی تعاون تھا۔ پہلے لوگ اقدار کے بڑے پابند ہوتے تھے۔ سید احمد شاہ کے بیٹے سیدا یوب شاہ افغانستان میں اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے اور فقیر اے پی(faqeer ap) مرزا علی خان (mirza ali khan)کے خطوط بھی آپ نے لکھے تھے جس کے بڑے سیاسی لوگ بھی جھوٹے دعویدار بن گئے تھے ۔
پیر بوڑھا، پیر طریقت ، سید ۔ مری ملکہ کوہسار تووزیرستان کوہسار کا شاہ ہے، رنجیت سنگھ(ranjeet singh) سے ابتک یہ ملک تباہ ہوا۔
کسی رافضی نے گدھوں کا نام ابوبکر و عمر رکھا ۔ گدھے نے لات سے ماردیاتو امام ابوحنیفہ نے کہا کہ جسکا نام عمر رکھا تھا اسی نے ماراہوگا،یہ نام کااثر تھا۔(مفتی زرولی خان)(mufti zarwali khan) پریغال(preghal) کے معنی کٹا ہوا چور۔پیر غر کا معنی سردار پہاڑہے۔ پیر غرچوروں کا بسیرا نہیں ہے بلکہ دنیا(world) کی سیادت (tourism)کیلئے ہے
پرے کٹے ہوئے اور غال چور کو کہتے ہیں۔ پیر غر کے نام کو پریغال میں تبدیل کرنے کا محرک زبان کے تلفظ میں غلطی کا نتیجہ ہے۔ نام کا اثر ہوتا ہے۔ کسی رافضی نے اپنے گدھوں کے نام ابوبکر وعمر رکھے تھے۔ جب ایک گدھے نے رافضی کو لات مار کرڈھیر کردیا تو امام ابوحنیفہ نے کہا کہ جس گدھے کا نام عمر رکھا ہوگا اسی نے قتل کیا ہوگا، پھرپتہ چلاکہ بات وہی تھی۔(مفتی زرولی خان)
انگریز دور اور بعدتک پیر غر کے سائے میں بسنے والے محسود ایریا دنیا کاسب سے پر امن علاقہ ہوتا تھا، جہاں پر لوگوں کو چوری، ڈکیتی اور قتل وغارت کا کوئی اندیشہ نہیں تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ اس کی حالت بدلتی گئی۔ چوری اور پھر ڈکیتی کے ادوار نے علاقے کا امن وامان کافی خراب کردیا۔ آخر کار محسود قوم نے لشکر تیار کرکے چور اور ڈکیت کے گھروں کو مسمار کردیا۔
محسود ایریا دنیا کا سب سے پرامن علاقہ ہوتا تھاجہاں پر لوگوں کو چوری،ڈکیتی اور قتل وغارت کاکوئی اندیشہ نہ ہوتا تھا، پھر رفتہ رفتہ اس کی حالت بدلتی گئی،چوروں، ڈکیتوں نے امن وامان کافی خراب کردیا تو قومی لشکر کے ذریعے چور اور ڈکیت کے گھروں کو مسمار کردیا۔امریکہ وپاکستان نے اپنے لئے طالبان بنالئے تو لوگوں نے بھی اپنے بچاؤ کیلئے اپنے طالبان بنائے لیکن اب حالات بدلے ہیں۔
وزیرایریا شمالی وزیرستان میں طالبان نے بڑے بڑے ڈکیتوں کا خاتمہ کردیا اور پھر آخر کار محسود ایریا میں بھی طالبان نے بسیرے ڈال دئیے۔ اس وقت دنیا کے مسلمانوں اور پاکستان کے لوگوں کو طالبان سے بڑا پیار تھا مگر چور اور ڈکیتوں نے طالبان کا روپ دھار لیا اورانہوں نے اپنی کاروائیاں شروع کردیں۔ لوگوں نے اپنے بچاؤ کی خاطر اپنوں کوبھی طالبان بنایا۔ امریکہ اور پاکستان سے لیکر گھروں ، خاندانوں تک ہی اپنے مفادات کی خاطر طالبان بنانے اور سپورٹ کرنے کا سلسلہ چل نکلا تو اس جنگ میں شیطان کو بڑا فائدہ ہوا مگراسلام ، مسلمان، انسانیت اور علاقائی رسم ورواج کا ستیاناس کردیا گیا۔ کچھ لوگ اپنے بچاؤ کی خاطر طالبان کے سپوٹر بن گئے اور کچھ چوروں اور بدمعاشوں نے طالبان کے نام پر بڑے پیمانے پر بھتہ خوری کی مہم چلانی شروع کردی۔ آج بھی ایسے بے غیرت لوگ طالبان کے نام پر ہیں جو بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔ سیٹل ایریا کے بہت لوگ علاقہ گومل کو چھوڑ کر ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی ، پنجاب، پشاور ، اسلام آباد اور بلوچستان تک نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ۔ پاک فوج کو اس بات کے خطرات رہتے ہیں کہ جن بھتہخوروں کی ماؤں کے شناختی کارڈ ہیں اور باپوں کے کارڈ نہیں ہیں ، ان کی تصاویر تک بھی نہیں۔ تو اگر فوج انکے خلاف کوئی کاروائی کرے تو (PTM)والے اٹھتے ہیں کہ مسنگ پرسن کو عدالت کے حوالے کرو۔ (CTD )پولیس چھاپہ مارتی ہے تو بھتہ خور دھمکیاں دیتے ہیں کہ شکایت سے ہمارے گھروں کی بے عزتی کردی۔ اگرکوئی بہادر سامنا کرنے لگتا ہے تو بھتہ خور معافی مانگنے کیلئے بھی آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ایسے بھتہ خور اپنی عورتوں کو چلارہے ہوں تو بھی بعیدازقیاس نہیں ہے۔
محسود قوم قابل اعتماد ہے اگر ان پر بھروسہ کرکے اسلحہ دیا تو اپنے علاقہ کے امن وامان کی صورتحال کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وزیر رسک نہیں لے سکتے اسلئے ان کے ہاں جنگ اور آپریشن کا کوئی معاملہ نہیں ہے جبکہ محسود کسی بڑے مقصد کی خاطر رسک لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکومت وریاست محسود ایریا کے امن وامان کیلئے محسود قوم پر بھرسہ کرکے اسلحہ دینے میں دیر نہ لگائے!
قوم کو یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ فوج کی طرف سے بھتہ خوروں کو کھلی چھوٹ ہے یا فوج واقعی (PTM)کے احتجاج اور عوامی دھرنوں سے ڈرتی ہے یا پھر دونوں آپس میں مل بیٹھ کر عوام کو بیوقوف بنانے کا ملی بھگت سے ڈرامہ کررہے ہیں؟۔ وزیرستان کے قومی وصوبائی اسمبلی کے ممبرز اور سینٹرز بھی صرف فوج اور عوام کے اعتماد کیلئے کچھ مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں لیکن اصل مسائل کا حل کوئی پیش کرنے کو تیار نہیں ہے یا اس کی اہلیت نہیں رکھتا ہے؟۔ محسود قوم سب سے زیادہ مسائل کا شکار اسلئے ہے کہ ان میں بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دہشت گردوں ،فوج اور سیاستدانوں کے سامنے سرنڈر نہیں۔ مقابلہ جاری رکھا ہوا ہے تو حالات کی خرابی کے ذمہ دار بھی وہ خود ہیں۔ جنوبی وزیرستان وزیرایریا میں آپریشن ہوا اور نہ لوگوں کا ماحول ڈسٹرب ہوا۔ فوج اور طالبان کے سامنے وزیرقوم سرنڈر ہے۔ محسودقوم کی خوبی ہے کہ اجتماعی فیصلے کے ذریعے برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جس دن محسود قوم کی طرف سے اجتماعی فیصلہ کیا گیا کہ بھتہ خوروں، دہشت گردوں اور امن ومان کی صورتحال کو خراب کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنی ہے تو فساد کو جڑوں سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ محسود قوم مختلف تنظیموں ، جماعتوں اور گروہ بندیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ جس دن محسود قوم نے اپنی روایت پر عمل کیا تو ان کی دنیا بدل جائے گی۔ محسود قوم کی فطرت میں دھوکہ اور فراڈ نہیں۔ اگر پاکستان کی حکومت اور فوج نے ان کو اسلحہ کی اجازت دیکر علاقے کا امن انکے سپرد کردیا تو وہ اپنے لئے سب سے پہلے قربانی دیں گے۔ البتہ وزیر قوم کا تعلیمی ادارہ واوا زندہ باد اور محسودقوم کا ادارہ ماوا مردہ برباد ہے۔ وزیر قوم کی یہ خامی ہے کہ مولانا نور محمدشہید کو بھٹو دور میں جیل کے اندر ڈال دیا گیا تو ان کے خلاف پروپیگنڈہ کامیاب ہوا۔ محسود قوم کی یہ خامی ہے کہ اگر وہ اپنے چور یا ڈکیٹ کا ذکر کرتے ہیں تو بھی بہت اہمیت دیکر پیش کرتے ہیں۔
تمام پختونوں کے مسائل کا حل یہ ہے کہ علماء اور دانشور طبقہ باہمی طور پر مل بیٹھ کراسلام کے سادہ اور عام فہم مسائل پر ایکدوسرے کا دل ودماغ کھولنے میں مدد کرے۔اسلام کے نام پرقتل ان کابہت بڑا مسئلہ ہے۔ علماء ومفتیان شدت پسندی کے جذبات سے بالکل عاری تھے۔ تصویرسے لیکر گانے بجانے، عورتوں کے شرعی پردے اور داڑھی منڈانے تک منکرات کا کوئی اثر ان پر نہیں پڑتا تھا۔ ملالہ یوسفزئی کہتی ہے کہ دوپٹہ ہمارے پختون کلچر کا حصہ ہے اور(16)سالہ ارفع کریم فخرِ پاکستان مسلمان کی بیٹی تھیں۔ پنجابن پنجابی نہیں بول سکتی تھی مگر امریکن انگلش اچھی بول سکتی تھی۔ ملالہ کو طالبان کی گولی لگ گئی تو نوبل انعام کے باوجود بھی ہمیشہ گالیوں کا شکار تھی ۔اگر وہ ارفع کریم کی طرح ایک فیصل آباد کے فوجی کی بیٹی ہوتی تو شاید اتنی گالیاں نہ کھاتی۔ پشتون قوم کیلئے یہ بہت بڑا اعزاز ہوگا کہ اگر وہ اسلام کی بنیاد پر اپنی زمینوں کو مفت میں مزارعین کو کاشت کیلئے دیں اور جب اپنے مالک کو زمین کی ضرورت ہو تو مالکان خود کاشت کریں یا کسی اورکو دیدیں۔ یہ خوشحالی اور اسلام کی اولین بنیادہے
۔ملالہ بھی مسلمان ہے اور (16)سال کی عمر میں فوت ہونے والی ارفع کریم بھی تھی پنجابی نہیں مگر امریکن انگلش بڑی مہارت سے بولتی تھی ۔جو فیصل آباد کی پنجابن اور کرنل کی بیٹی تھی،دونوں فخرِ پاکستان ہیں لیکن ملالہ کو اسلئے گالیاں کھانا پڑرہی ہیں کہ وہ پنجابی اور کسی فوجی کی بیٹی نہیں ہے! سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں اسلام کے بہت بڑے اور مغرور کھلاڑیوں کو قوم کیساتھ اپنا کھلواڑ بند کرنا پڑے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے آدھا تیتر آدھا بٹیر کی طرح اسلامی سوشلزم کی بنیاد پر ایک نظام کا اعلان کیا تو پختونخواہ کے باشعور علاقوں میں مزارعین نے مالکان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ جس کی وجہ سے مالکان اور مزارعین میں جنگ وجدل کی فضاء شروع ہوگئی۔ آج تک ان ناچاقیوں کو دور نہیں کیا جاسکا۔ غنی خان کا فرزند بھی اس فضاء کی وجہ سے ایک مزارع کے ہاتھوں شہید ہوا۔ اگر اسلام کا قانون ہوتا تو جن خانوں، نوابوں اور اربابوں کی بڑی بڑی زمینیں تھیں ان کو خود ہی کاشت کرنی پڑتیں اور بچی کچی بڑی بڑی زمینیں مزارعین کومفت دینی پڑتیں تو پختون ایک دوسرے کیساتھ اس اعلیٰ قانون کی وجہ سے بہت شیر وشکر ہوجاتے۔
اگر پختون عورت کو اس کا شوہر اسلام کے مطابق اپنی وسعت کے مطابق حق مہر دیتا اور اس حق مہر کی مالکن پشتون عورت خود ہوتی تو پھر ظلم وجبر اور معاشرے کی غلط رسوم ورواج کا خاتمہ کرنے میں دیر نہیں لگتی ۔ غلام اورلونڈی کا نظام تو دورِ جاہلیت اور جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے رائج تھا۔ جنگوں میں لڑاکو مردوں کو پکڑ کر غلام بنانا ممکن نہیں ہوتا ہے اور نہ دشمن پر کوئی اتنا اعتماد کرسکتا ہے کہ گھر کے فرد کی طرح اس کو غلام بناکر رکھا جائے۔ اسلام نے لونڈی اور غلاموں کا نکاح کرانے کا حکم دیا تھا۔ نکاح میں عورتوں کو نان نفقہ سے لیکر انصاف فراہم کرنے تک سب چیزوں کی ذمہ داری مردوں پر رکھی ہے۔ دو دو، تین تین، چار چار تک عورتوں سے قرآن میں نکاح کی اجازت ہے لیکن اگر عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک عورت یا جنکے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ قرآن و سنت کی تفصیلات میں یہ بات طے ہے کہ جہاں لونڈیوں اور غلاموں کو معاہدے کی ملکیت کا تصور دیا تھا وہاں آزاد عورتوں سے بھی معاہدے کی ملکیت کا تصور دیا گیا ہے۔ مغربی ممالک نے باہمی تحفظ کی خاطر ایک طرف قانونی نکاح کی سخت شرائط رکھی ہیں تو دوسری طرف گرل وبوائے فرینڈز کی اجازت دی۔ اگر مسلمان قوم اسلام پر عمل کرکے اپنے معاشرے کو اُجاگر کرتی تو پھر مغربی معاشرہ اس قدر بے راہروی کا شکار نہ ہوتاکیونکہ اسلام نے حق مہر کی صورت میں عورت کو تحفظ دیا ہے۔
ہم مغرب سے جنسی بے راہروی کی بنیاد پربہت نفرت کرتے ہیں جبکہ ہمارا معاشرہ ان کو جنسی بے راہروی کی وجہ سے قابلِ رحم نظر آتا ہے۔ چھوٹے چھوٹیبچوں پر بہت سی ویڈیوز بنائی گئی ہیں۔ کچرہ اُٹھانے والے اور کم عمری میں محنت مزدوری کرنے والے،مدارس ، جہادی تنظیموںاور یتیم خانوں میں بھی جنسی زیادتیوں کی شکایات عام ہیں۔حال ہی میں لاہور کے ملا نے کھلبلی مچائی ہے۔
اسلام بڑا جامع اور مانع معاشرتی نظام دیتا ہے لیکن اسلام کی طرف دنیا نے مذہبی طبقات سمیت کبھی رجوع تک بھی نہیں کیا ہے۔ حضرت آدم و حوا سے اللہ نے کہا تھا کہ ” اس شجر کے قریب مت جاؤ”۔ اس شجر سے مرادشجرہ نسب جنسی تعلق تھا، عربی میں اکل کھانے کو بھی اور گنگھی کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ قرآن میں جس طرح باشراور لامستم کا لفظ جنسی تعلق کیلئے استعمال ہوا ہے جو براہ راست اور چھولینے کوبھی کہتے ہیں۔اسی طرح اکل کے معنی جنسی تعلق کیلئے ہی استعمال ہوا ہے۔ اللہ نے بنی آدم کو مخاطب کیا کہ” شیطان تمہیں ننگا نہ کردے جس طرح تمہارے والدین کو ننگا کرکے جنت سے نکلوادیا تھا”۔(القرآن)
دنیا کو یہ خوف ہے کہ اگر مسلمانوں نے دوبارہ خلافت قائم کرلی تو لوگوں کے ماں ، بہن ، بیٹیوں اور بیگمات کو لونڈیاں بنادیںگے ۔اسلئے پاکستان ، افغانستان اورکشمیر کونشان عبرت بنانے کے چکر میں ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” سندھ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر، فرنٹئیر اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے پر لائیں تو بھی اس سے دستبردار نہیں ہونگے، اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز یہی ہے”۔ افغانستان وکشمیر کے درمیان پاکستان کو کچلنے کی تیاری ہے اور اگر ہم نے بر وقت ہوش کے ناخن نہیں لئے تو نہ صرف پختون بلکہ دوسری قومیں بھی تباہ وبرباد کردی جائیں گی۔ اسلام مردہ ضمیرقوموں کو زندہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اگر پختونوں نے اپنی ضرورت سے زیادہ زمینیں کاشت کیلئے غریب مزارعین (formers)کو مفت میں دینا شروع کیں تو اس سے پختون بھائی چارے کی بنیاد پڑے گی اورمسلمانوں کی سربلندی میں دیر نہیں لگے گی اور ملحدوں کے تلخ لہجے کا بھی علاج ہوگا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو اسلامی سوشلزم (socialism)کا اپنا نظریہ خیبر پختونخواہ کی جگہ سندھ میں نافذ کرتا بلکہ سندھ پر اسلام نافذ کرتا تو اسلام کی نشاة ثانیہ کا خواب پورا ہوجاتا!
سودی نظام کے ثمرات یہ ہیں کہ لوگ بھوک وافلاس سے آخری حد کو پہنچیں گے تو عزت نفس سے لیکر ہر چیز بیچنے پر مجبور ہوجائیںگے۔ اگر ہم نے پہاڑوں اور میدانوں میں محنت کشوں کو باغات اُگانے کی اجازت دیدی تو بھی ہمارے پہاڑی اور میدانی علاقے جنت نظیر بن جائیں گے اورغریب امیر اور امیر امیر تر بن جائیں گے۔ فقہ کی کتابوں میں کتاب الطہارت سے لیکر آخری کتابوں تک سادہ فہم اسلام کو جس طرح فقہاء نے غلط انداز میں گنجلک بنادیا ہے اگر ہم نے معاملہ فہم انداز میں ان کو پیش کردیا تو دنیا بھر سے طلب علم کیلئے لوگ ہمارے ہی پاس تشریف لائیںگے۔ غسل کے تین فرائض اور تین مرتبہ طلاق کی حقیقت سمجھ میں آگئی تو مذہبی طبقات کے ہوش ٹھکانے آجائیںگے کہ علم کے نام پر کس طرح کی بدترین جہالتوں کا شکار ہیں؟۔ جب علمی بنیادوں پر شکست کا اعتراف ہوگا تو معاملات کو آسانی کیساتھ سمجھنے اور سمجھانے پر بھی آمادہ ہوجائیں گے۔
ہم وثوق کیساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عوام وخواص ، مذہبی و کامریڈ طبقہ ،جدید اور قدیم تعلیم یافتہ طبقہ سب کے سب ایک پلیٹ فارم پر د ل وجان سے اکٹھے ہونگے اور استحصالی طبقات کو نچلی سطح سے عالمی سطح تک زبردست شکست کا سامنا کرنے کے بعد ہماری امامت بھی دنیا بھر میں قبول کرنی ہوگی۔ اسلام نے دورِ جاہلیت کو شکست دی تھی تو موجودہ باشعور دور میں اس کی طاقت بہت بڑھ گئی ہے لیکن ہم نے اسلام کو خود فطرت کیخلاف بنانے میں اپناکردار ادا کیا ہے۔
جانی خیل (jani khail)بنوں (bannu)میں ایک ماہ سے زیادہ وقت ہوا کہ ملک نصیب خان کی میت کا دھرنا جاری ہے۔ حکومت کا کام ریاست اور اپوزیشن کے درمیان پل کا کام ہوتا ہے لیکن موجودہ حکومت اپوزیشن کو ریاست سے لڑائی کی فکر میں رہتی ہے۔ سلیم صافی (saleem safi)نے سوشل میڈیا پر اپنا دردمندانہ فکر اور تجزیہ پیش کردیا ہے۔صحافیوں کا کام اپنی تشہیر نہیں بلکہ قوم، ملک ، سلطنت ، علاقائی اورخطے کے مسائل کا حل ہو
معروف صحافی سلیم صافی نے جانی خیل بنوں وزیرقبائل کے دھرنے کی بھی شکایت کردی ہے کہ انہوں نے ایک مہینے سے ایک ملک نصیب خان(malik naseeb khan) کی لاش کو رکھا ہوا ہے اور وہ پہلے دھرنے میں دفن کرنے والے بچوں کی لاشوں کو بھی قبروں سے نکالنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایمل ولی خان(aimel wali khan)، منظور پشتین(manzoor pashteen)، محسن داوڑ (mohsin dawar)جانی خیل دھرنے میں اظہارِ یکجہتی کیلئے پہنچ چکے ہیں لیکن حکومت کا کوئی نمائندہ وہاں نہیں جاسکا ہے۔ حکومت ریاست اور اپوزیشن کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہے لیکن عمران خا ن کی حکومت اپوزیشن کو فوج سے لڑانے میں اپنی عافیت سمجھ رہی ہے۔ پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بٹھائے ہوئے ہیں۔اپوزیشن درست کہتی ہے کہ جعلی حکومت عوام کی نمائندہ نہیں ہے۔
سلیم صافی نے افغانستان کی داخلی صورتحال اور امریکہ کے کردارپر خوب روشنی ڈالی ہے اور افغانستان کی بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کے اثرات پاکستان(pakistan) پر بھی پڑنے کا نہ صرف اپنی طرف سے اظہار کیا ہے بلکہ ملٹری لیڈرشپ (militry leadership)کو بھی اس میں سنجیدہ مگر بے بس قرار دیا ہے۔ باجوڑ (bajaur)سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی (jamateislami)کے رکن قومی اسمبلی کی طرف سے بھی گڈ و بیڈ طالبان پر رونے کاحوالہ دیا ہے۔
جب سندھی زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا تو سندھیوں نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ سندھ کے حریت پسندوں نے انگریز کے خلاف بھی لڑائی لڑی اور پاکستان کے حق میں بھی سب سے پہلے قرارداد منظور کی تھی۔ پورے سندھ میں سندھی زبان کو بولنے اور لکھنے پڑھنے کو بہت لوگ سمجھ رہے ہیں۔ سرکاری اور لازمی زبان سندھی بھی ہے۔ اگر پختونوں نے قرآن کے موٹے موٹے احکام کو آیات کی مدد سے سیکھ اور سمجھ لیا تو پختونوں کی تقدیر بدلنے میں بالکل بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔ بڑے بڑے معتبر علماء کرام نے فرمایا ہے کہ پختونوں کو عورتوں کا حق نہ دینے کی دنیا میں سزا مل رہی ہے۔ مدارس کی تعلیم میں عورتوں کے حقوق کا دور تک بھی کوئی تصور نہیں۔ معروف ٹک ٹاک پرسن حریم شاہ کی ویڈیوز نے بڑا تہلکہ مچادیا تھا۔ اس نے کسی مولوی مثلاًمولانا طارق جمیل سے شادی کی خواہش ظاہر کردی ہے۔ وہ بھی مدرسے کی تعلیم وتربیت یافتہ ہے۔ صابرشاہ اور اس جیسے بہت زیادہ بدکردار اور بگڑے ہوئے طلباء کی مدارس میں کوئی کمی نہیں ہے۔مولانا صاحبان میں بھی بگڑے ہوئے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہوسکتی ہے۔
جب شاہ ولی اللہ (shah waliullah)نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو ان کو دوسال تک روپوش رہنا پڑا تھا اسلئے کہ ان پر قرآن کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے کفر اور واجب القتل کا فتویٰ لگادیا گیا تھا۔ پھر جب ساری زبانوں میں قرآن کے تراجم ہوگئے تو آخر میں غرشتو سے کسی عالم دین نے پشتو میں بھی قرآن کا ترجمہ کردیا جس پر پختون علماء نے اس پر کفر کے فتوے لگادئیے تھے۔ مدارس میں زیادہ تعداد پہلے پختون طلبہ کی ہوتی تھی مگراب مدارس ایک منافع بخش کاروبار بھی بن گیا ہے اسلئے سب طرح کے لوگ بڑے پیمانے پر مدارس کے نام سے بڑی بڑی بلڈنگیں کھڑی کی جاری ہیں۔ جس میں دین کی خدمت سے زیادہ دنیاوی مفادات اور کاروبار کے معاملات کارفرما ہیں۔ پختون گھبرائے اور شرمائے نہیں بلکہ اپنانصاب درست کرکے دنیا بھر کے لوگوں کیلئے ادارے کھول کر دین اوردنیا کی دولت کمائیں۔ (syed atiq ur rehman gillani)

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟