ٹیرین وائٹ عمران خان کی جائز بیٹی ہے ؟بالکل جائزہے
دسمبر 28, 2022
ٹیرین وائٹ عمران خان کی جائز بیٹی ہے ؟بالکل جائزہے
امریکہ، برطانیہ،اسرائیل ،آسٹریلیا کو فتح کیا جائے توجہاز میں لونڈیاں بھر لانا جائز ہوگا؟
نکاح کے نام پر عورتیں پسِ پردہ بیچ دو ؟،انہیں اجنبی اٹھالیجائیں؟ ۔ برطانیہ، فرانس، امریکہ نے سعودیہ، ایران پھر افغانستان میںانقلاب کے نام پراسلام کیخلاف سازش مسلط کی ہے؟
افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی اسلام اور افغانی غیرت کاتقاضہ ہے تو کیا حلالہ کی لعنت اسلام اور افغانی غیرت کا تقاضہ ہے؟،علماء کو اسلام کا پتہ نہیں توطالبان بالکل ہی معذورہیں
قرآن وسنت میں نکاح وطلاق ،وضوونمازکے لایعنی مسائل ، لغو اجتہادات کی گنجائش نہیں بلکہ تسخیرِ کائنات کیلئے جدید علوم پر زور ہے۔ ام عمارہکے پورے جسم پر تیروتلوار کے نشان تھے
افغان طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگائی، علماء ومفتیان اور اسلامی ممالک سمیت پوری دنیا سے سخت ردِ عمل آیا۔ اگر طالبان کو دینی علوم کے پیرائے میں نہ سمجھایا جائے تو وہ مجبور ہونگے ۔ عمران خان اور ٹیرن وائٹ کی کہانی کا پتہ تھا مگر اقتدار میں لایا گیا۔ گیلے کا کچھ گیلا نہیں ہوتا۔ دختر قائداعظم دینا جناح، بیگم راعناقائد ملت لیاقت اورجنرل رانی سے لیکر میڈم طاہرہ مولانا سمیع الحق ، رنگیلاوزیرِ اعظم نواز شریف اور صابر شاہ و مفتی عزیزالرحمن تک داستانیں ہیں۔ منفی پروپیگنڈے اور سیاست بہت ہوچکی ، قوم کو مثبت اقدام کی طرف لائیں۔ طالبان سے اپیل ہے کہ پہلے قوم امریکہ کے مقابلے میں ساتھ کھڑی تھی لیکن اب دنیا بدل چکی ۔ ہم نے آواز لگائی تھی کہ جاندارکی تصویر جائز نہیںجاندار کی تصویر کو مٹادو۔ پردہ کرنا فرض ہے، شریعت کے مطابق پردہ کرو۔ داڑھی منڈانا جائز نہیں ،شریعت کے مطابق داڑھی رکھو۔ اب ہم نے بھی قرآن وسنت اور علماء حق کی تحقیقات کے مطابق اپنی رائے بالکل بدل دی۔تصویر اور داڑھی پر تم نے بھی اپنی رائے بدلی ہے لیکن خواتین کی تعلیم سے جن مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے وہ بالکل حقیقت پر مبنی ہیں۔ حضرت آدم و حوا نے ممنوع ہونے کے باوجود شجر کا ذائقہ چکھ لیا جس سے بے لباس ہوگئے۔ بنی آدم کو قرآن نے اپنے ماں باپ کی طرح بے لباس ہونے سے بچنے کا حکم دیاہے۔ اسلام میں باجماعت نماز کی صفوں میں خواتین کا بھی حق ہے۔طواف، صفا ومروہ کی سعی میں شانہ بشانہ ہوتی ہیں۔ جدید تعلیم اسلام کا تقاضا اور عروج کا ذریعہ ہے۔ ان پڑھ معاشرے میں اسلامی لحاظ سے جتنی عورت مظالم کا شکار ہے ،پڑھی لکھی خواتین کو اسکے مقابلے میں بہت زیادہ تحفظ حاصل ہے،مدارس کا نصاب درست کرو۔
فقہ کی کتابوں میں ہے کہ ” باجماعت نماز کی صف میں پہلے مرد، بچے، پھر بچیاں اور عورتیں کھڑی ہوں گی”۔ جب لوگ پانچوں وقت گلی ،محلے، گاؤں دیہات اور شہروں میں مساجد کے اندر لوگ فیملی کیساتھ نماز باجماعت میں شرکت کریں ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” اپنی عورتوں کو نماز باجماعت اور مساجد میں آنے سے مت روکو”۔ یہ واضح ہے کہ اگر مسلمانوں کی بیگمات یہودونصاریٰ ہوں تو ان کو بھی اپنی عبادتگاہ میں جانے سے مت روکو۔ اگر افغان طالبان اپنی امارت اسلامی افغانستان میں ان اسلامی احکام پر عمل کریںگے تو پھر وہ خود بخود خواتین کو فیملی پارک، شاپنگ مال اور تعلیمی اداروں میں جانے سے نہیں روکیں گے۔ نماز کی طرح طواف اور صفا ومروہ کی سعی میں مردوں اور خواتین میں صفوں کی ترتیب بھی نہیں ۔ قرآن نے ہمیں ملت ابراہیم پر قرار دیا تو حضرت حاجر ہ اور چھوٹے بچے حضرت اسماعیل کو وادیٔ غیرآباد مکہ میں چھوڑنا کیسا تھا؟۔کوئی محرم مرد پاس تھا؟۔ پھر ان کی سنت صفا ومروہ کی سعی کا فریضہ کیوں ادا ہوتا ہے؟۔ اگر کسی کی بیوی ، بہن، بیٹی اور ماں گھر سے باہر جائے تو اس کو پولیس والے اُٹھاکر لے جائیں؟، یہ کونسی عربی، ایرانی اور افغانی غیرت کا تقاضا ہوسکتا ہے؟۔
طالبان جنگجو ہیں۔ حضرت نُسیبہ( ام عمارہ) بہادر انصاری صحابیہ وہ تھیں، جب بہت مرد احد میںبھاگ چکے تھے تو نبی ۖ نے فرمایا کہ ” جب میں دائیں دیکھتا تھا تو نُسیبہ ہے، بائیں دیکھتا تھا تو نسیبہ ہے، سامنے دیکھتا تھا تو نسیبہ ہے”۔پانی لانے کی خدمت پر مأمور تھیں۔ جب دشمن کے حملوں کا زور دیکھا تو نبیۖ کا ہر طرف سے دفاع کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں بھی بہت سی جنگوں میں حصہ لیا اور جب فوت ہوگئیں تو غسل دینے والی خاتون نے کہا کہ ”جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں پر تیر یاتلوارکے زخم کا نشان نہ ہو”۔
اگر افغان طالبان اپنی غیرت کو پسِ پشت ڈال کر ملاعمر کے دور میں بھی افغان لڑکیوں اور خواتین کو نہ صرف جدید تعلیم سے آراستہ کرتے بلکہ بہترین قسم کی جدید فوجی ٹریننگ بھی دیتے تو امریکہ اور نیٹو کے ناجائز حملوں کے بعدبہت ساری تعداد میں حضرت ام عمارہ کی جانشین خواتین نہ صرف شانہ بشانہ لڑنے کی پوزیشن میں ہوتیں بلکہ جن خواتین کی عصمت دری کی گئی اور جن جوانوں کو سزا کیلئے گوانتاناموبے کی ابوغریب جیل میں پہنچایا گیا تو اس کی بھی نوبت نہ آتی۔ اور مذاکرات کی بجائے امریکہ اور نیٹو افغانستان سے ایسے بھاگتے کہ عراق و لیبیا کا رخ بھی نہ کرتے۔ دنیا کے دل ودماغ میں یہ تھا کہ افغان خواتین کو یرغمال بنایا گیا اور اس میں امریکہ ، پیپلزپارٹی اورISIکا بھی عمل دخل ہے۔ کیونکہ نصیراللہ بابر کی کہانی منظر عام پر ہے۔ پاکستانیISIسے محبت رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کو ہم نے افغانستان میں لاکر شکست دی ۔ امریکیCIAسے خطرہ محسوس کرنیوالے اس کو پاکستان کے خلاف کامیاب سازش سمجھتے ہیں۔ طالبان کس جگہ کھڑے ہیں؟۔ کیا ان کو پھر سب مل کر قربانی کا بکرا بنائیں گے؟۔ ہم نے یہ لکھا تھا کہ ” تحریک طالبان پاکستان کو پرامن راستہ دیا جائے” ۔ نظام کی تبدیلی صرف جنگ سے نہیں بلکہ ایک صالح معاشرہ قائم کرنے سے ممکن ہے۔
جب روس آیا تو افغانستان سے آنے والے خاندانوں نے بڑے شہروں میں پاکستانیوں کا حال مزید خراب کردیا تھا۔ اب طالبان کے ہاتھوں جو افغانی خاندان دنیا میں دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں کیا یہ اسلام اور افغانی غیرت کا تقاضا ہے؟۔ روس افغانیوں کی وجہ سے خطے میں آیا اور امریکہ ونیٹو بھی افغانیوں کی وجہ سے خطے میں آئے۔ پاکستان کو کوئلے کی دلالی میں اپنا منہ کالا کرنے کے سواکچھ نہیں ملا۔ اگراب پھر دنیا نے افغانستان کے اہم مراکز پرB52طیاروں سے بمباری کرکے قلع قمع کیا توپاکستان خفیہ مدد کی ہمت نہ کریگا۔ افغان جانے اور طالبان جانے کی پالیسی اپنائے گا۔ ایران، ازبکستان اور تاجکستان بھی محتاط رہیںگے۔ قوم پرست افغانیوں کے ہاتھ میں بڑا زبردست موقع ہاتھ آئیگااور افغانی اپنے دشمنوں سے کیسا سلوک کرتے ہیں؟۔ وہ سب جانتے ہیں۔
مولانا منظور مینگل کی ویڈیو احمد رفاعی کے نام سے سوشل میڈیا پر ہے جس میں یہ بھی بتایاہے کہ مفتی نظام الدین شامزئی شہید اچھا مطالعہ رکھتے تھے اور اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ہدایہ سمیت فقہ کی معتبر کتابوں میں امام ابوحنیفہ وامام شافعی کی طرف منسوب باتیں بالکل بعد والوں نے فروعات گھڑ کر ان کی طرف منسوب کردی ہیں۔ جو اصولی طور پر غلط اور فروعات ہیں۔
فقہ حنفی میں نماز کے چودہ فرائض میں آخری فرض یہ ہے کہ ” اپنے ارادے کیساتھ نماز سے نکلنا”۔ بھلے اپنی ریح خارج کرکے نکلے۔ طالب علمی کے دور میں اساتذہ اور مفتی اعظم پاکستان تک سے مسائل پوچھے مگر کسی کے پاس جواب نہ تھا۔ سوال یہ تھا کہ سلام سے نماز کی تکمیل واجب اور ارادے سے تکمیل فرض ہے تو ریح خارج کرکے ایسے نماز کے فرض کی ضرورت کیوں آئی کہ جو واجب الاعادہ بن جائے؟۔ پھر علامہ ابن رشد کی کتاب میں دلیل دیکھی کہ عبداللہ مغربی نے کہا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ” جو نماز کے آخری قعدے میں ہو اور اس نے ریح خارج کردی تو اس کی نماز مکمل ہوگئی”۔ عربی الفاظ میں خارج ہونے کی جگہ خارج کرنے سے یہ مسئلہ اخذ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص انتقال کرگیا اور یہ بھی کہ فلا ں فوت ہوگیا یا اس کاانتقال ہوگیا۔ ریح خارج ہونا یا کرنا ایسی بات نہیں کہ اس کی بنیاد پر اتنا بڑا مسئلہ ایجاد کیا جاتا۔ آخری قاعدے تک محنت کی ہو اور پھر ریح خارج ہوجائے تو حدیث کی بنیاد پر ازسرِ نو مشقت اٹھانے سے بچنے کے علاوہ شرمندگی سے بھی بچا جاسکتا ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ کوئی جانتا ہو کہ کون پاس سے رفو چکر ہوا ہے۔ تربت میں میری گھر والی کے چچا نے بتایا کہ نماز میں مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ساتھ میں ایک خاتون کھڑی ہوگئی۔ جب سلام پھیرا تو پتہ چل گیا کہ کوئی مرد غلطی سے اپنی بیگم کی شلوار پہن کر آیا تھا۔
غسل اور وضو میں بھی بالکل لایعنی اور لغو فرائض پڑھائے جاتے ہیں۔ اگر قرآنی آیات کو دیکھا جائے تو جنابت سے غسل، نہانے کا حکم ہے اور وضو کے مقابلے میں نہانے میں مبالغہ ہے۔ اسلئے مبالغے پر فقہی مسالک کے اختلافات بالکل لغو اور لایعنی ہیں، اسی طرح وضو میں سر پر مسح کے حوالے سے جس بنیاد پر اختلاف ہے تو اللہ نے اختلافات والوں کا منہ کالا کرنے کیلئے تیمم میں بھی انہی الفاظ کیساتھ چہرے پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اس میں اختلافات ممکن نہیں تھے۔ اسلئے سر کے مسح میں فرائض کی طرح تیمم کے مسح میں اختلاف نہیں ۔
اجتہاد شریعت سازی نہیں بلکہ قاضی اور جج کا فیصلہ ہے۔ قرآن و حدیث میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے اجتہادات کی مثالیں موجود ہیں۔ فصل اور مویشی کا فیصلہ قرآن میں اور بچے کو بھیڑیا کے کھانے بعد دوسرے بچے پر دوعورتوں کے جھگڑنے کا فیصلہ حدیث میں ہے۔اجتہاد کی تقلید نہیں اسلئے کہ بچے کو ایک مرتبہ جس حکمت عملی سے اپنی حقیقی ماں کے حوالے کیا گیا تو دوسری مرتبہ لوگ اجتہاد کے حقائق سمجھ کر یہ فیصلہ نہ کراتے۔ حضرت سلیمان نے مویشی اور فصل میں دونوں کے معاشی صورتحال کا لحاظ رکھ کر فیصلہ دیا تھا مگر قرآن و حدیث کی حکمتوں اور معاشی ومعاشرتی معاملات سے ہمارے علماء بہت دور ہیں۔
نکاح وطلاق کے حوالے سے اتنے مضحکہ خیز مسائل گھڑے گئے کہ اگر ان کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو علماء کو شریف بھی سمجھنے سے قاصر ہونگے۔ اصول ِ فقہ کی کتاب ”نورالانوار” میں ساس کی شرمگاہ پر اندر سے شہوت کی نظر پڑنے کو نکاح قرار دیا گیااور باہر سے عذر قرار دیا گیا ۔ عدت میں عورت پر نظر پڑنے کو نیت کے بغیر بھی رجوع قرار دیا ۔ اگر ہاتھ کا لگنا اور شہوت کی نظر کا پڑنا واقعی نکاح ہے جس طرح کہ حنفی اصول فقہ میں ہے تو تعلیمی اداروں اور بازاروں کا واقعی جو فیصلہ طالبان نے خواتین کے بارے میں کیا وہ درست ہے اسلئے کہ ٹچ اور نظر کی شہوت سے تباہی کے مسائل پیدا ہونگے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے تصنیف شدہ کتاب ” تین طلاق کے مسائل ” میں بھی بکواسات کو شرعی مسائل کا نام دیا گیا۔ مدارس کے نصاب کے کفریات کا اندازہ عوام کیلئے مشکل ہے۔ قلعہ سیف اللہ کے ایک مولوی نے مجھ سے یہ مسئلہ پوچھا کہ ” ایک شخص نے اپنی بیٹی کے بدلے ایک بیوی خرید لی، عورت نے خدمت کی لیکن وہ بیمار تھا اور مباشرت نہیں کرسکااور فوت ہوگیا۔ اب اس کا بیٹا اپنی اس سوتیلی ماں سے نکاح کرسکتا ہے؟۔ ایک طرف قرآن میں اپنے آباء کی منکوحہ عورتوں سے نکاح کو منع کیا گیا ہے تو دوسری طرف یہ بھی ہے کہ اگر ان عورتوں میں دخول کیا ہے تو اس کا حکم جدا ہے اور اگر دخول نہیں کیا ہے تو اس کا حکم جدا ہے؟”۔
میں نے جواب دیا کہ ” عرب میں باپ کی منکوحہ کو وراثت کا مال سمجھ کر جو نکاح کیا جاتا تھا، یہ بھی وہی صورت ہے۔ اسلام تو دور کی بات ہے انسانیت کے بھی یہ منافی ہے کہ عورت کو جانور کی طرح خریدا اور بیچا جائے۔ اللہ نے باپ کی منکوحہ اور بہو کو حرام قرار دیا ہے اور ساس کو حرام قرار دیا ہے اور سوتیلی بیٹی سے بدکاری کے خدشے سے روکنے کیلئے سخت الفاظ استعمال کئے ۔یہ نہیں ہوتا کہ کوئی جوان بیٹی کو چھوڑ کر زیادہ عمر والی ساس سے نکاح کرے اسلئے کافی تھا کہ تمہاری بیگمات کی مائیں۔ حلائل ابناء کم تمہارے بیٹوں کی بیویاں۔ لیکن جن عورتوں سے شادی کی اور ان کی پہلے شوہر سے بیٹیاں ہوں تو کم بخت انسان ان لڑکیوں کو شکار کرسکتا تھا اسلئے اللہ نے واضح فرمایا کہ” جن سوتیلی بیٹیوں کو تم نے اپنے حجروں میں پالا ہے اور جن کی ماؤں میں تم نے ڈالا ہے ،اگر نہیں ڈالا تو پھر ٹھیک ہے”۔ قرآن کی اس وضاحت سے بدبختوں کو شرم دلائی گئی کہ یہ سوچ غلط ہے۔ قرآن نے جنسی تعلق کا ذکران الفاظ میں کیا ہے کہ ” جب اس نے ڈھانپ لیا اور پھر اس کو خفیف حمل ٹھہر گیا، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں نے اللہ سے صالح (سلامت) اولاد کی دعامانگی اور جب اللہ نے بیٹا دیا تو پھر اللہ سے شرک کرنے لگے”۔ قرآن نے سخت الفاظ سختی سے منع کرنے کیلئے ارشاد فرمائے۔
محرمات کی آیات سے جو چوتھے پارے کے آخر میں ہیں، جہاں پر محرمات اورحرمت مصاہرت کی بھرپوروضاحت ہے وہاں پر سخت الفاظ سے یہ بھی واضح کردیا گیاہے کہ فقہ حنفی میں حرمت مصاہرت کے نام پر جو گالیاں اوربکواسات لکھے گئے ہیں ان کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ جب ان بکواسات کو علماء اپنے نصاب سے خارج کرنے کا اعلان کریںگے تو ان کے شاگرد طالبان کی بھی اسلام کے حوالے سے آنکھیں کھل جائیں گی۔ کیونکہ مخلوط فضاء میں کس کا ہاتھ کس کا چھوا ہے اور کس کی نظر کس پر شہوت سے پڑی ہے، سب ایکدوسرے کیلئے حرمت مصاہرت کی وجہ سے محرمات اور عجوبہ روزگار بن جائیںگے۔
قرآن وحدیث اور فقہ حنفی کی اصولی تعلیم میں باہمی صلح سے رجوع کا دروازہ بند نہیں ہوتا اور حلالہ اسلامی اور افغانی غیرت کے منافی ہے لیکن اس کے خاتمے کا اعلان بھی پہلے علماء کو کرنا پڑے گا۔ یہ قرآن کے لعان کے قانون سے زیادہ سندھی، بلوچی، افغانی اور پنجابی غیرت کے منافی ہے لیکن افسوس کہ قرآن کے لعان والے قانون کو نہیں مانتے اور فقہ کی لعنت حلالے کے قانون کو اپنے کلچر کا حصہ بہت منافقت سے بنائے ہوئے ہیں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے بھی ماننے سے انکار کردیا تھالیکن منافقت نہیں کی تھی۔ اکبر بگٹی نے ماننے سے انکار کیا تھا لیکن منافقت نہیں کی تھی۔ علماء ومفتیان اور طالبان تو صحابہ کرام کی طرح نہیں ہیں بلکہ غیرت سے عاری منافقین کا کردار ادا کررہے ہیں۔
اگر داعش خراسان نے افغانستان پر قبضہ کرکے عالمی خلافت کا اعلان کردیا اور پھر امریکہ، روس، اسرائیل، فرانس ، برطانیہ، جرمنی ، آسٹریلیا اور چین وغیرہ کو فتح کرلیا تو کیا جہازوں میں لونڈیاں بھر بھر کر لانا جائز ہوگا کہ نہیں ہوگا؟۔ محرم کو ساتھ میں لایا جائے گا کہ نہیں؟۔ کیا اس طرح کا اسلام دنیا نافذ کرنے دے گی؟ یا پھر مسلمانوں کی خواتین کوبھی سہولت کاری فراہم کرکے لیجائیں گے؟۔ عثمانی خلیفہ نے ساڑھے چار ہزار لونڈیا ں اپنے پاس رکھی تھیں۔ کیا قرآن وسنت سے اس کی اجازت ہے؟۔ اللہ نے فرمایا کہ ” تم نکاح کرو، جن عورتوں کو تم چاہتے ہو دو دو، تین تین ، چار چاراور اگر تمہیں خوف ہو کہ انصاف نہ کرسکوتو پھر ایک یا جن کے مالک تمہارے معاہدے ہیں”۔ ان سے لونڈیاں مراد نہیں اسلئے کہ لونڈیوں کابھی نکاح کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ان سے مراد ایگریمنٹ والی ہیں جس کو شیعہ متعہ اور سعودی عرب والے مسیار اور اہل مغرب گرل فرینڈز، اہل مشرق رکھیل اور داشتہ کہتے ہیں۔قرآن وسنت میں متعہ کا تصور موجود ہے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ ” اگر اس پر پابندی نہ لگائی جائے تو قیامت تک کوئی زنا نہیں کریگا مگر بدبخت”۔ عبداللہ ابن مسعود نے قرآن کی تفسیر میں متعہ کو جائز قرار دیا تھا۔ ان پر اضافی قرآن کا بہتان قرآن اور ابن مسعود کے خلاف سازش ہے۔ جبکہ بخاری میں ابن مسعود سے حدیث منقول ہے۔افغانی اصطلاح میں آشنا رکھنا جائز نہیں ۔ قوم لوط پر عورتوں کی جگہ مردوں سے بدفعلی کرنے پر تباہی آئی تھی۔ یہ جو کچھ افغانستان میں تباہی ہورہی ہے یہ عذاب کی ایک زبردست شکل ہے۔
اگر عمران خان نے سیتاوائٹ کیساتھ ایگریمنٹ کیا تو باقی داستان اس کی اپنی ہے، قانونی جرائم کیا ہیں اور کیا نہیں ؟۔ اس سے ہماری کوئی غرض نہیں البتہ ٹیرن وائٹ بالکل جائز بیٹی ہے۔ اسلام نے لونڈی کیساتھ نکاح کا حکم دیا تھا تو ایگریمنٹ سے لونڈی مراد نہیں ہوسکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ لونڈی اور غلام کو بھی ایگریمنٹ کا درجہ دیا گیا۔ کیونکہ انسان کسی انسان کی ملکیت نہیں ہوسکتا اور نہ اسلام نے عبدیت کا جواز چھوڑا۔ صحابہ کہتے تھے کہ ہمارا کام بندوں کو بندوں کی بندگی (غلامی) سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی کی طرف لانا ہے۔ عبدیت اور غلامی ایک بات ہے ۔ اسلام غلام اور لونڈی بنانے کیلئے نہیں آیا بلکہ آزادی دلانے کیلئے آیا۔ اللہ نے فرمایا کہ ”اہل فرعون بنی اسرائیل کے بیٹوں کوقتل اور عورتوں کی حیاء (عصمت) لوٹتے تھے”۔ جنگی قیدی کو غلام نہیں بنایا جاسکتا ہے، کلبھوشن اور ابھی نندن سے گھر کی خدمت نہیں لی جاسکتی ۔ عزت کے درپے ہوجاتے۔ بدر میں70قیدی بنائے گئے ،کسی کو غلام نہیں بنایا گیا اور نہ ممکن تھا۔ غلام بنانے کا اصل ادارہ مزارعت کا نظام تھا۔ جاگیردارانہ نظام سے غلام اور لونڈیاں بن کربازاروں میں منڈیاں لگتی تھیں۔ نبیۖ نے سود کی آیات نازل ہونے کے بعد مزارعت کو بھی سود قرار دیا۔ معاشرے میں دو طبقات ہوتے تھے، ایک زمیندار ، وڈیرے، جاگیردار، خان، نواب اور دوسرے مزارعین۔ مزارعین کی حیثیت غلاموں کی طرح تھی۔ وہ اپنا پیٹ نہیں پال سکتے تھے مگر جاگیرداروں کو پورے خاندان سمیت زمین میں اپنی محنت کی آدھی کمائی دیتے تھے۔ ہمیشہ جاگیرداروں کے مقروض اور غمی شادی ، بیماری میں محتاج ہوتے تھے۔ جوانکے خوبصورت بچوں اور بچیوں کو خرید کر منڈیوں میں بیچ ڈالتے تھے۔ جوئے اور سود میں بھی لوگ اپنے بچے ، بچیاں اور بیویاں کسی کے حوالے کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔آج سودی نظام کی وجہ سے خاندان نہیں پورے ملک غلام بنائے جارہے ہیں۔پاکستان کوبھی بنادیا گیا۔غلامی کے اس نظام سے ادیان نجات دلانے کیلئے آتے تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو اہل فرعون سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ یوسف علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی یہی خدمات تھیں۔ قرآن میں اسلئے اللہ نے فرمایا کہ ” اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے” اسلام عوام کو آزادی دلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بت پرستی غلام رہنے اور بنانے میں مذہبی جذبے کے تحت تسکین دیتی تھی کہ جیسے وہ کررہے ہیں اور جیسے وہ ہیں اسی طرح سے رہنے میں عافیت ہے۔ دین کا کام اس جمود کو توڑنا ہوتا تھا۔ جب کوئی بھی نبی اپنے وقت میں اللہ مبعوث کردیتا تھا تو ملاء قوم یعنی قوم کے سردار انبیاء کرام کی سخت مخالفت کرتے تھے اسلئے کہ حالت بدلنے میں ان کو اپنی آسائشوں کی موت نظر آتی تھی، خوشحال لوگ جمود توڑنے کا ہمیشہ مخالف طبقہ ہوتا تھا۔ غریب غرباء حضرات انبیاء کرام کی حمایت کرتے تھے اور جن اچھے لوگوں کی فطرت سلامت ہوتی تھی تو وہ امیر اور سردار ہوکر بھی وقت کے نبی کی حمایت میں پیش پیش ہوتے تھے۔
معروف صحابی حضرت اسود بہت سخت کالے رنگت کے غلام تھے۔ دور دراز سے سفر طے کرکے نبیۖ کی آغوش میں اسلئے پہنچے کہ غلاموں کو عزت ملتی تھی۔ جیسا سنا تھا ویسا بلکہ اس سے بڑھ کر پایا۔ ایک دن نبی ۖ کی خدمت میں عرض کیا کہ ساری مرادیں اور خواہشات پوری ہوگئیں، ایک آرزو ہے کہ شادی بھی ہوجائے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” بنو کلب کے سردار کے پاس جاؤ، اور کہو کہ مجھے نبی نے آپ سے بیٹی کا رشتہ طلب کرنے کیلئے بھیجا ہے”۔ حضرت اسود نے اتنی ہمت صرف حکم کی تعمیل کیلئے کردی ۔ سردار نے اعزاز واکرام کیساتھ استقبال کیا کہ نبی ۖ نے اپنا نمائندہ بھیجا ہے ۔ پیغام سن لیا تو ہکا بکا ہوگئے اور تعمیل حکم سے معذرت کرلی۔ حضرت اسود جانے لگے تو سردار کی بیٹی نے نبیۖ کا پیغام سن لیا تھا اور اپنے باپ کو بلایا اور کہا کہ میرا رشتہ مانگا ہے، میں تیار ہوں۔ باپ نے بیٹی کی رضامندی کا سن کر حضرت اسود سے اپنی بیٹی کا رشتہ طے کرلیا۔ حضرت اسود نے تیاری کیلئے بازار کا رخ کیا تو جہاد کی منادی سنی۔ان پیسوں سے جہاد کا سامان خریدا ۔ قافلے سے تھوڑے فاصلے پر چلے تاکہ پہچان کر واپس نہ کیا جائے اور چہرے پر نقاب ڈال کرجہاد میں بہادری سے لڑکرشہید ہوئے تو نقاب اٹھانے کے بعد پتہ چلا کہ دولہا اسود ہیں اور نبیۖ کی آنکھیں آنسو ؤں سے ڈبڈبا گئیں۔ اشکبار آنکھوں سے صحابہ نے لحد میں بہت عزت سے اتارا تھا۔
نبیۖ نے اپنی کزن حضرت زینب حضرت زید سے بیاہ دی ۔ حضرت زید غلام نہیں تھے بلکہ بردہ فروشوں نے چوری کرکے بیچ ڈالا تھا۔ چچا وغیرہ آئے اور نبیۖ کو منہ مانگی قیمت کی پیشکش کی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ کوئی پیسہ نہ دو مگر زبردستی نہ لے جاؤ ۔ حضرت زید نے جانے سے انکار کردیا تو چچا نے طعنہ دیا کہ آزادی پر غلامی کو ترجیح دی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ یہ غلام نہیں میرا بیٹا ہے۔ منہ بولے بیٹے کی بیگم اپنے شوہر سے غلامی کے دھبے کی وجہ سے خوش نہ تھی تو حضرت زید نے اس کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا۔ نبیۖ نے بہت منع کیا کہ ایک طرف پہلے اس خاتون نے قربانی دی اور پھر طلاق دی جائے تو اس کی حیثیت مجروح ہوگی اسلئے کہ طلاق شدہ اور وہ بھی غلامی کا دھبہ والے شخص کی طرف سے؟۔اس لئے دل میں سوچا کہ یہ روگ کو ختم کرنے کیلئے خود شادی کرلیتے تو ازالہ ہوجاتا مگر خوف تھا کہ لوگ اس کو حقیقی بہو کی طرح نکاح حرام سمجھتے تھے۔ سورۂ احزاب میں بہت بہترین انداز میں پورا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اگر نبیۖ کسی آیت کو چھپاتے تو اس کو چھپاتے۔ (صحیح بخاری)
حضرت داتا گنج بخش عثمان علی ہجویری اور مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی اپنی کتابوں میں حنفی مسلک کے عین مطابق غلط فہمی کی بنیاد پر لکھ دیا ہے کہ جب نبی ۖ کی نظر حضرت زینب کے جسم پر کپڑے بدلتے ہوئے شہوت سے لگ گئی تو وہ حضرت زید کے نکاح سے نکل کر نبیۖ کے نکاح میں آگئیں۔ جیسے داؤد کی نظر مجاہد اوریا کی بیوی پر پڑگئی تو وہ اوریا پر حرام اور حضرت داؤد کی بیگم بن گئی۔ ان خرافات کیخلاف سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے علماء ومفتیان کی طرف سے مذمت میں کتاب ”اسلام کے مجرم” پر تائیدی تأثرات آئے ہیں۔
نبیۖ نے فرمایا تھا کہ ” اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہواہے اور یہ پھرعنقریب اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا۔ پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔
امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی سب متفق تھے کہ مزارعت سود اور ناجائز ہے۔ مدینہ منورہ کی معاشی ترقی کیلئے مزارعت کا خاتمہ بنیاد بن گیا۔ جب محنت کشوں میں قوت خرید کی صلاحیت پیدا ہوگئی تو بازاروں میں تاجر وں کو خاطر خواہ کامیابی مل گئی۔ عبدالرحمن بن عوف کہتے تھے کہ ”مٹی بھی سونا بن جاتا ہے”۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ، مولانا محمد یوسف بنوری اور دوسرے اکابر ین اپنی بیگمات کو ایکساتھ رکھ کر ان کی خدمت پر حاجی محمد عثمان کی ڈیوٹی لگاتے تھے کہ یہ بے نفس انسان اللہ والے ہیں۔ مولانا غلام اللہ خان حاجی عثمان کیلئے کہتے تھے کہ ”یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی طرح ہیں”۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی ، مفتی احمدالرحمن اور ختم نبوت نمائش کا دفتر اپنی اپنی گاڑیوں کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پھر حاجی محمد عثمان کے مریدوں نے الائنس موٹرز کے کاروبار سے سب کو گاڑیوں سے نواز دیا تھا۔ پھر تصوف کی الف ب سے ناواقف علماء ومفتیان نے بھی پیری مریدی کا لبادہ اُوڑھ لیا اور مذہب کے نام پر تجارت اور کاروبار پیشہ بن گیا۔
پاکستان ،افغانستان، ایران ، ہندوستان، روس ، امریکہ، چین اور دنیا بھر کی ترقی وعروج کا راز اس بات میں پنہاں ہے کہ مزارعت کیلئے لوگوں کو مفت میں اور باغات کیلئے آسان لیز پر زمینیں دی جائیں۔ انسانی بھوک وافلاس کا خاتمہ ہوگا اور چرندے، درندے اور پرندے بھی انسانوں سے محبت کرنے لگیں گے۔
اگر اسلام کی بنیاد پر مزارعت دنیا سے ختم ہوجاتی تو کارل مارکس کو نیانظام بنانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ علامہ اقبال نے کہا کہ ” کارل مارکس پیغمبر نہیں تھا مگر صاحبِ کتاب تھا”۔ ائمہ اربعہ کا تعلق عباسی دور سے تھا۔ بنی امیہ کے بعد بھی امام ابوحنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی کا مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دینا اہل حق کی نشانی تھی۔ ویسے تو شہید کربلا حضرت حسین کے دور میں خلافت ملوکیت میں بدل چکی تھی۔ بے گناہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے خون سے حکمرانوں کے ہاتھ رنگے ہوئے تھے۔ حجاج بن یوسف جیسے لوگوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرکے کئی دنوں تک اس کی لاش کو لٹکا دیا تھا۔ حضرت اسماء بنت حضرت ابوبکر صدیق کو پتہ چلا توسوسالہ نابینا ماںبیٹے کی لاش کے پاس آئی اور فرمایا کہ ”شہسوار ابھی تک سواری سے نہیں اترا ہے؟۔ حجاج نے اس حوصلے کو دیکھ کر بڑا غصہ کیا اور کہا کہ میں نے تیرے بیٹے کی زندگی تباہ کردی۔ حضرت اسماء نے فرمایا کہ ”سودا بہت سستا ہے۔ میرے بیٹے نے تمہاری آخرت تباہ کردی ہے”۔
عبداللہ بن زبیر نے کہا کہ متعہ زنا ہے تو حضرت علی نے کہا کہ ”آپ خود بھی متعہ کی پیدوار ہیں” (زادالمعاد۔ علامہ ابن قیم)۔ ابو طالب نے نبی ۖ کو ام ہانی کا رشتہ دینے سے منع کیا، فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی نے اپنی ہمشیرہ ام ہانی کے شوہر کو قتل کرنا چاہا، نبی ۖ نے اسکے شوہر کو پناہ دی۔ مگر وہ عیسائی بن کر نجران گیا۔ نبیۖ نے ام ہانی کورشتے کی پیشکش کردی تو امام ہانی نے منع کیا۔ اللہ نے فرمایا کہ ” تمہارے لئے وہ چچا کی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے ہجرت کی ہے آپکے ساتھ”۔ پھر آئندہ شادی سے قرآن میں ہمیشہ کیلئے روک دیا لیکن ایگریمنٹ کی اجازت دیدی۔ علامہ بدر الدین عینی نے ام ہانی کو ازواج مطہرات میں شمار کیا ہے حالانکہ ان سے نبی ۖکا نکاح نہیں متعہ ہوسکتا تھا۔
حضرت اسمائ73ھ میں فوت ہوگئیں جوحضرت عائشہ سے عمر میں15سال بڑی تھیں ۔ ناممکن تھا کہ21سالہ اسمائ کے ہوتے ہوئے نبیۖ6سالہ عائشہ حضرت ابوبکر سے مانگتے۔ اس وقت حضرت عائشہ کی عمر16سال تھی جبکہ حضرت اسماء کی عمر31سال تھی اور ایسی عمر تک پہنچنے کے بعدکسی عورت سے نکاح کی رغبت نہیں رہتی ۔نبی ۖ نے40سالہ حضرت خدیجہ سے بھی پچیس سال کی عمر میں نکاح کرلیا تھا اور جب تک وہ زندہ رہیں تو دوسرا نکاح نہیں کیا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ خواب میں حضرت عائشہ کی تصویر دکھائی گئی کہ یہ آپ کی بیگم ہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہو تو پورا ہوگا ۔ شیطان کی طرف سے ہو تو پورا نہیں ہوگا”۔( صحیح بخاری) چونکہ مسلمانوں کی سخت ترین مخالفت کا دور تھا اور حضرت عائشہ کی منگنی مشرک سے ہوچکی تھی جو مظالم کے پہاڑ بھی توڑسکتا تھا۔ اللہ نے اس سے حضرت عائشہ کی نجات کیلئے یہ خواب دکھایا ۔
16سال کی جگہ غلطی سے6سال کی روایت نقل کی گئی تو اس پر فقہ کے یہ مسائل گھڑلئے گئے کہ ” اگر باپ اپنی نابالغ بچی کو اس کی مرضی کے بغیر کسی کے نکاح میں دیدے تو یہ جائز ہے”۔ مثلاً حنفی طالب یا مفتی محمد تقی عثمانی اپنی بیٹی کا نکاح نابالغ ہونے کے باوجودبار بار کرتا ہے، دس بار طلاق ہو تو جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے۔ یہ سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے۔ جب بالغ ہوتو لڑکی جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرسکتی ہے جس میں ولی کی اجازت کا دخل نہ ہوگا۔ ایسے میں افغانستان میں نابالغ بچیوں کیلئے یہ قانون بنانا پڑے گا کہ انکے باپ ان کو کسی کے نکاح میں دیدیں اور بالغ لڑکیاں اپنی مرضی سے نکاح کرسکتی ہیں بلکہ شہوت سے ان کا کسی لڑکے سے بوس وکنار بھی حرمت مصاہرت کی وجہ سے حنفی نکاح ہوگا۔
علماء ومفتیان پہلے اپنے درسِ نظامی کے نصاب کو درست کرلیںاور اسلام کو نافذ کرنے کی بات بعد میں کریں۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرستی کا کوئی قانون نہیں بنا ہے لیکن جس سود کو علماء ومفتیان اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر گناہ قرار دیتے تھے اس کو اسلام اور حیلے کے نام سے جائز قرار دیا گیا ہے۔ جس میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، تنظیم اسلامی ، جمعیت علماء پاکستان اور اب وہ مدارس بھی شامل ہیں جنہوں نے مخالفت میں فتوے اور کتابیں لکھی تھیں۔ اسلام کو جس طرح پہلے چٹنی اور اچار بنایا گیا تھا اس کا خلاصہ اب پھر سامنے آیا۔ جب سود اور حیلے کی بنیاد پر اس کا جواز اور اپنی ماں سے زنا تک بات پہنچادی گئی ہے تو اس سے زیادہ کہاں تک اسلام ثریا کے پیچھے ان کم بختوں سے چھپے گا؟۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ علینے فرمایا کہ ” رسول اللہۖ نے دوجلد (دو گتوں)میں قرآن کے سوا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے”۔ (بخاری) وفاق المدارس کے صدرمولانا سلیم اللہ خان نے اس کی تشریح میں کہا ہے یا پھر مولانا نورالبشر برمی نے خود خیانت کرکے لکھ دیا کہ ” حضرت علی کے اس قول کو صحیح میں امام اسماعیل بخاری نے اسلئے نقل کیا ہے کہ شیعوں پر رد ہو کہ تم تحریف قرآن کے قائل ہو لیکن تمہارے علی اور ابن عباساس تحریف کے قائل نہ تھے۔ اصل میں قرآن کے اندر تحریف ہوئی اور امام بخاری قرآن کی تحریف کے قائل تھے ، جب حضرت عثمان نے قرآن کو جمع کیا تو عبداللہ بن مسعود کے پاس مصحف تھا لیکن ان کو حضرت عثمان نے جمع قرآن کے معاملے میں شرکت کی دعوت نہیں دی۔ جب عبداللہ ابن مسعود کیلئے حضرت عثمان نے ایک کنواری لڑکی سے شادی کی پیشکش کردی تو بھی اس نے ناراضگی کی وجہ سے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا ۔ (کشف الباری شرح صحیح البخاری مولانا سلیم اللہ خان مرتب : مولانا نورالبشر)
مولانا سلیم اللہ خان نے پہلے شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے نہیں لگایا۔ پھر مولانا سلیم اللہ خان نے شیعہ پر کفر کا فتوے سے رجوع کرلیا تھا۔ مولانا نورالبشر برمی کو چاہیے تھا کہ مولانا سلیم اللہ خان نے اگر بات کی تھی تو بھی اس کو لکھنا نہیں چاہیے تھا۔ جب دارالعلوم کراچی سے مولانا انورشاہ کشمیری کی فیض الباری شرح صحیح البخاری کی عبارت پر علامہ غلام رسول سعیدی نے حوالہ دئیے بغیر فتویٰ لیا ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے۔لفظی بھی ہوئی ہے یا تو انہوں نے مغالطے سے ایسا کیا ہے یا جان بوجھ کر ایسا کیا ہے”۔ تو اس پردارالعلوم کراچی کی طرف سے کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔فیض الباری کی اس عبارت کا قاضی عبدالکریم کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان نے مفتی فرید اکوڑہ خٹک کو خط لکھا تو یہ جواب دیا کہ ”یہ مولانا انور شاہ کشمیری کی تحریر نہیں ۔ کسی نے ان کی تقریر کو نوٹ کرکے اپنی طرف سے لکھ دیا ہے”۔ میں نے مفتی زرولی خان سے بھی پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مولانا انورشاہ کشمیری کی طرف اس عبارت کو منسوب کرنا غلط ہے۔ اب مولانا سلیم اللہ خان کی بات تو اس سے بھی بہت زیادہ خطرناک ہے۔ جب میں نے پشاور کی ایک مجلس میں اکابر علماء کے سامنے اس کا حوالہ دیا تو درویش مسجد کے خچر نے کہا کہ ” مولانا سلیم اللہ خان کی تحقیق کو یہاں پیش نہیں کرنا چاہیے تھا”۔ درسِ نظامی میں قرآن کی تعریف میں علماء ومفتیان تحریف قرآن کا عقیدہ پڑھاتے ہیں۔ المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلًا متواترًا بلاشبة ” جو لکھا ہوا ہے مصاحف میں ، جو آپ سے نقل کیا گیا ہے تواتر کیساتھ بلاشبہ”۔ تشریح میں لکھ دیا کہ ” لکھے سے مراد لکھا نہیں کیونکہ لکھا ہوا نقش کلام ہے اور یہ نہ لفظ ہے نہ معنی۔ قرآن لفظ اور معنی دونوں کا نام ہے۔ متواتر کی قید سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جیسے خبر احاد اور مشہور ۔ بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے مگر اس میں شک ہے ”۔
قرآن کی اس غلط تعریف کی وجہ سے فقہ کی بڑی کتابوں میں لکھا ہے کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز ہے۔ جب تحریر لفظ ہے اور نہ معنی ہے تو پھر کلام اللہ نہیں ہوا ۔ جب کلام اللہ نہیں ہے تو پھر اس کو پیشاب سے لکھنے کا جواز بھی بنتا ہے؟۔ پیشاب سے لکھنے کی زیادتی بھی اپنی جگہ ہے لیکن قرآن کی لکھی ہوئی شکل کا انکار کرنا اس کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ پھر اس میں مزید اضافی آیات کا عقیدہ رکھنا اور بسم اللہ کو مشکوک قرار دینا بہت بڑی بکواس ہے۔
افغان طالبان پہلے اس نصاب کو دیکھ لیں جس کو وہ پڑھ کر عالم بنتے ہیں اور جن علماء ومفتیان کی صلاحیت پر وہ بھروسہ کرتے ہیں ان کی حقیقت کو سمجھیں۔ پھر ان کا پہلا کام یہ ہوگا کہ اس کفریہ تعلیم پر پابندی لگائیں اور دوسرا کام یہ ہوگا کہ سکول ، کالج اور یونیورسٹی کے ادارے طلبہ وطالبات کیلئے کھول کر ان سے یہ مطالبہ بھی کردیں کہ ہمارے عقائد اور مسالک کو درست کرنے کیلئے آپ ہمارا ساتھ دیں۔ طالبان اسلامی نظام اور جہاد کیلئے جو قربانیاں دے رہے ہیں ان کی صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا تھا کہ ” قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ نبیۖ نے آیت میں جن پانچ چیزوں کو غیب کی چابیاں قرار دیا ہے اس کی تفسیر زمانے نے کردی ہے۔ الساعة سے مراد وقت ہے ۔ اللہ نے فرمایا کہ جب ملائکہ اور روح چڑھتے ہیں تو ان کے ایک دن کی مقدار50ہزار سال کے برابر ہے۔ نبیۖ نے معراج میں اس کا مشاہدہ کیا تھا اور آئن سٹائن نے ریاضی سے اس کا ثبوت دیا کہ نظریہ اضافیت میں وقت کی مقدار کا تعین تیز رفتاری کی بنیاد پر کافی مختلف ہوتا ہے مثلاً یہاں کے چند لمحات وہاں کے کئی سال بارش کے ذریعے سے بجلی کا مشاہدہ تھا اور اب بجلی کی تسخیر سے دنیا تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ علم غیب کی دوسری چابی تھی۔ تیسری جب ارحام کا علم ہے۔ جو ایٹم بم کو توڑنے، ایٹمی صلاحیت ، الیکٹرانک کی دنیا سے لیکر فارمی مرغیاں، پرندے اور جانوروں تک بہت ساری چیزوں کا اہم ذریعہ ہے۔ قرآن میں دین کی بھرپور وضاحت ہے۔ فقہ کے نام پر ناسمجھ طبقے کی فضولیات اور بکواسات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے میں اس کا اہم کردار ہے اور جدید سائنسی تعلیم تسخیرکائنات کے ذریعے سے ہی ہوسکتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قرآن کے ذریعے سے قوموں کو عروج اور اس کو چھوڑنے کی وجہ سے قوموں کو زوال ملے گا۔ مغرب نے قرآن کے نظریہ تسخیرکائنات پر عمل کر کے جو عروج حاصل کیا ،آج اس کا نتیجہ ہے کہ طالبان امریکہ سے معاہدہ کرکے اپنے ملک میں داخل ہوسکے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے اندر یہ غلط فہمی دور کرنی ہوگی کہ مدارس سے جو فضاء بن رہی ہے یہ دین کا تقاضا ہے۔ میرے سکول کا افتتاح مولانا فضل الرحمن نے کیا اور ٹانک کے تمام اکابر علماء نے تائید کی تھی۔ بیت اللہ محسود نے میری کتاب ”آتش فشاں ”دیکھ کر کہا کہ ” ہماری یہ علمی حیثیت نہیں کہ اس پر تبصرہ کریں”۔ کچھ عزیز وں نے طالبان کو ورغلایا کہ ” یہ ایسا گھرانہ ہے جو کسی کی بیوی بھگا کر کسی سے شادی کرائی۔ کسی کو بیوی بچے نہیں دیتے”۔ طالبان میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے بدکاری کروائی تھی اور ایسے لوگ اپنی پشت میں بارود بھر کر یامزید مظالم کرکے اپنے ان گناہوں کاازالہ چاہتے ہیں۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ