پوسٹ تلاش کریں

USA & Israel planted Taliban & Al-Qaeda as a conspiracy against Muslim community. The Quran already revealed severity of conspiracies designed by Jewish and Christ that even rocks could get demolished.

USA & Israel planted Taliban & Al-Qaeda as a conspiracy against Muslim community. The Quran already revealed severity of conspiracies designed by Jewish and Christ that even rocks could get demolished. اخبار: نوشتہ دیوار

rustam shah mohmand
dr afia siddiqui
rauf klasra
asad toor journalist
osama bin laden
usman kakar
majeed achakzai

اللہ نے فرمایا : اے ایمان والو! کہو سیدھی بات ، تمہارے اعمال کی اصلاح اور گناہوں کی مغفر ت کردیگا۔ القرآن: آؤ سیدھی بات کریں

طالبان اور القاعدہ کے نام پر امریکہ اور اسرائیل نے اُمت مسلمہ کیخلاف سازش کی ۔قرآن میں یہودونصاریٰ کی اس سازش کا ذکر ہے کہ جس سے پہاڑ بھی ہل جائیں

تحریر : سید عتیق الرحمان گیلانی
وزیراعظم کی تقریر کو خوش آئند کہا گیامگر یہ جنگ کی کوئی نئی سازش نہ ہو۔ رؤف کلاسرا نے کہاکہ” القاعدہ و طالبان نے پولیس،فوج، عوامی مقامات، کھیل کے میدانوں، مساجد، گھروں ، بازاروں، ہوٹلوں اور کچہریوں کو نشانہ بنایا۔ دجالی لشکر کے ظلم کی انتہاء ہوگئی تو فوج نے انکا قلع قمع کیا۔ وزیراعظم کا ان کو مظلوم اور فوج کو ظالم کہنا قابلِ مذمت ہے۔ پرویزمشرف(parvaiz musharraf) نے امریکہ کو ہاں کی تو اسکے ریفرینڈم کی حمایت کیا ایوبیہ کے بندروں نے کی تھی؟۔ دھرنے سے پنجاب پولیس کے گلوبٹوں کو طالبان (taliban)کے سپرد کرنے کا اعلان کس نے کیا؟”۔ رؤف کلاسرا (rauf clasra)نے طالبان کے کرتوت کی تفصیل اور باقی بے گناہ افراد کی فہرست کا ذکر نہیں کیا مگر طالبان کے مظالم کوخالی فوج کی شہادت تک محدود کرنا غلط ہے۔
افغانستان کو خونریزی کا سامنا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ریاست، حکومت ،عوام کا ترجمان ہوتا ہے۔ کسی میں اشرف غنی اور اس کی حکومت سے ہمدردی ہے۔توزیادہ تر اشرف غنی(ashraf ghani) اور اس کی ٹیم کو کچلنے کے خواب دیکھتے ہیں۔کچھ طالبان کو کچلنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت ، ریاست اور عوام کو چاہیے کہ بڑھ چڑھ کر امریکی انخلاء سے پہلے اس خانہ جنگی کو روکنے میں اپنا کردارادا کرے۔ امریکہ نے پیسہ دیا تو ہم نے افغان وار لڑی۔ امریکہ نے مجبور کیا تو طالبان کی حکومت کو گرانے میں کردار ادا کیا اور اب کچھ نہیں مل رہاہے تو افغانیوں کی صلح کیلئے کلمات تک ادا کرنے سے قاصر ہیں؟۔ خونریزی کے عزائم بیان کرتے ہیں؟۔ اوریا مقبول جان() کو پیراشوٹ سے طالبان کے ہاں اتارا جائے تاکہ انسانی شکل میں شیطان کا پتہ چل جائے۔ کیا اوریامقبول جان اپنی اس آخری عمر میں بھی شوقِ شہادت نہیں رکھتا ہے؟۔
صحافی صا بر شاکر(sabir shakir) نے کہا ”امریکہ کے نکلنے کے بعد چھ ماہ میں اشرف غنی کی حکومت گرے گی (30)ہزار امریکن فوجیوں نے(9/11)کے بعد خود کشیاں کیں۔ اگر طالبان کابل پر قبضہ کریں تو امریکہ طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کریگا”۔

Rustam Shah Mohmand disclosed that he himself heard the cries of a girl being tortured sexually and physically at Bagram Air base, later, She was known as Dr. Aafia Siddiqui.


رستم شاہ مہمندنے بتایا کہ بگرام ائیر بیس پر ایک لڑکی پر جنسی اور جسمانی تشدد ہورہاتھا میں چیخوں کی آوازیں اپنے کانوں سے سن رہاتھا بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں۔

رستم شاہ مہمند(rustam shah mumand)نے افغان رفیوجز کے ڈٹ کر پیسے کھائے۔ پھر افغانستان کا سفیر بن گیا اور بعد میں میڈیا پر اپنی زبان سے داستان سنائی کہ” بگرام ائیر بیس پر ایک لڑکی پر جنسی اور جسمانی تشدد ہورہاتھا وہ چیخوں کی آوازیں اپنے کانوں سے سن رہاتھااور بتایا گیا کہ کوئی پاکستانی خاتون ہیں اور بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں”۔ ہم نے لکھا تھا کہ پرویزمشرف کے بعد یہ داستانیں سنانے کے بجائے اسی وقت چاہیے تھا کہ اپنی کرسی سے چمٹے رہنے کے بجائے رسم شاہ مہمنداستعفیٰ دیتا۔( 30ہزار) امریکن فوجیوں نے خود کشی کی یا نہیں لیکن ہمارے ہاں تو کوئی ایک بھی ایسا غیرتمند نہیں ہے جس نے خود کشی کی ہو۔
طالبان اپنی پیش قدمی جاری رکھ کر اپنی اور اپنے افغان (afghan)بھائیوں کی تباہی کا سامان نہ کریں۔ جو کسی ایک کی طرفداری کرکے ان کو آپس میں لڑارہے ہیں یہ شیاطین الانس ہیں۔ جن خناسوں کے وسوسوں سے آخری سورة الناس میں اللہ نے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔ عثمان کاکڑ پاکستان اور پشتون قوم کا بڑا سرمایہ تھا وہ کہتا تھا کہ ہم پاکستان میں آئینی حقوق مانگتے ہیں، افغانستان میں مداخلت نہیں چاہتے۔ عثمان کاکڑ کھل کر نظرئیے کی بات کرتاتھا، اپنے مفادات کیلئے بلیک میلنگ نہیں کرتا تھا۔( PDM)کے قائدین نے سیاست کو بلیک میلنگ بنایا ہے۔ عثمان کاکڑ(usman kakar) ان سے بالکل الگ تھلگ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ (establishment)پر پریشر ڈال کر سیاسی مفاد حاصل کرنا نظریاتی سیاست نہیں بلکہ بدترین قسم کی بلیک میلنگ ہے۔ عثمان کاکڑ اس وقت شہید کیا گیا کہ جب پاکستان، پشتون قوم اور انسانیت کو اس مردمجاہد کی سخت ضرورت تھی۔ گلبدین سے ملاقات پر مفاد پرستوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ۔ آج عثمان کاکڑ نے افغانستان میںعدم مداخلت سے زیادہ صلح پر زور ڈالنا تھا۔
جب (PDM)کے قائدین بکاؤ مال اور گمنام صحافی اسد طور کی پٹائی پر پہنچ سکتے تھے تو عثمان کاکڑ کیلئے ان کا متحدہوکر نہ پہنچنا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟۔ کیا عثمان کاکڑ شہید کی حیثیت اسد طور سے بھی کم درجہ کی تھی؟۔ مولانا عطاء الرحمن کا یہ کہنا کہ قاتل معلوم ہیں ان کو پکڑا نہیں جارہا ہے اور محمود خان اچکزئی کا یہ کہنا کہ اگر پاکستان میں کوئی ادارے ہیں تو میرے پاس آجائیں میں قاتلوں کے ثبوت دوں گا۔ عثمان کاکڑ کے بیٹے کا یہ کہنا کہ ہم نے قتل کا سیاسی انتقام لینا ہے اور اگر مجید اچکزئی(majeed achakzai) کو ہمارے ادارے سزا نہیں دے سکتے تھے تو عثمان کاکڑ کے قاتل کو کونسے ادارے سے سزا دلوانا چاہتے ہیں؟۔ محمود اچکزئی تو ان پشتونوں کو بڑا بے غیرت کہتا تھا جو اپنا بدلہ لینے کے بجائے درگزر پر گزارہ کررہا ہو؟۔
طالبان قرآن و سنت کے احکام پر سب کو متفق کردیں اور پھر افغانستان کے الیکشن میں حصہ لیکر اقتدار کی دہلیز تک پہنچیں۔ سیاسی ایجنڈے اور عوام کی تائیدسے طالبان کو افغانستان کا اقتدار مل جائے تو سب سے بڑا نقصان شیطان کا ہوگا۔ مسلمان اور افغان کی خونریزی طالبان کیلئے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ نبیۖ نے مکہ فتح کیا تو دشمن ابوسفیان کوعزت بخش دی۔ صدر نجیب کی شہادت کا قرض ابھی افغان طالبان کی گردن پر ہے۔ اگرافغان نہیں لڑیں تودنیا کی کوئی طاقت ان کو نہیں لڑاسکتی مگرانسانی شکل میں شیطان کی انگل کا خیال رکھنا ہوگا۔ اوریامقبول جان پاکستان میں سکون چاہتا ہے تو افغانستان میں کیوں نہیں؟۔
پرویزمشرف سے زیادہ بڑا ضمیر فروش اور مجرم ڈاکٹر نجیب اللہ بھی نہیں تھے لیکن پرویزمشرف کو جج نے قدرے سخت سزا سنادی تو میجر جنرل آصف غفور کا سخت ردِ عمل سامنے آیا لیکن ڈاکٹر نجیب اللہ(doctor najeebullah) کو پھانسی دیکر کابل کے چوک میں لٹکا کر ناک میں سگریٹ ٹھونسے گئے تو خوشیوں کے شادیانے بجتے تھے۔
افغانیوں کی قتل وغارتگری پر خوشی کا شادیانہ ؟، حامد میر کہتاہے کہ ”ا شرف غنی کے گاؤں سرخاب میں آبائی گھرپر طالبان نے جھنڈا لگادیا” تو خدا نخواستہ پاکستان کیساتھ ایسا نہ ہو۔ اگر افغانی افغانیوں کے نہیں تو پاکستانیوں کے ہیں؟۔ بھارت میں مودی بیٹھا ہے۔ عمران خان کہتا ہے کہ مودی نہ ہوتا تو بھارت سے دوستی ہوتی ،یہ بھی کہے کہ امریکہ میں ٹرمپ ہوتا تو دوستی ہوتی۔ ایران اور عرب سے بھی ہمارے اعتماد کے دوستانہ تعلقات نہیں ۔چین وہ واحد ملک ہے جس میں مسلمانوں کیساتھ اسرائیل سے زیادہ انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
گوگلی نیوز نے معاشی ایمپائر فوج کا بتایا کہ اسکے تجارتی اداروںنے کاروبار پر قبضہ کیا جو خسارے میں چلتے ہیں، ہر حکومت ریلیف دینے پر مجبور ہے، سودی قرضہ اسی میں کھپ جاتا ہے۔ گوگلی نیوز ن لیگ کے مشن پر ہے جبکہ نوازشریف، مریم اور شہباز شریف کہتے ہیں کہ حکومت نے دفاعی بجٹ میں خسارہ کردیا اور ہم پورا کرینگے۔ فوج نے معاشی خسارے کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ نہیں لیا تو ن لیگ دم اٹھاکر کہہ رہی ہے کہ ہم نوازیں گے جو فوج کو کھلم کھلا رشوت دینے کے زمرے میں ہی آتا ہے یہ ہمارے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاستدانوں کے سرغنوں کا وہ بیانیہ ہے، جس پر PDMکی مذہبی اور قوم پرست جماعتیں فخر کرتی ہیں؟۔
راشد مراد RMٹی وی لندن نے عثمان کاکڑ کی شہادت پر زہر اگل دیا مگر یہ نہ بتایا پھر نوازشریف، مریم نواز اور شہباز شریف ن لیگ کی سیاسی غیرت کہاں مرگئی ہے؟۔اور حضرت مولانا فضل الرحمن کہاں کھڑا ہے؟۔ صفحہ 3نمبر1بقیہ… اللہ نے فرمایا : اے ایمان والو! کہو سیدھی بات
پاکستان میں جمہوریت اور انصاف پیسوں کا کھیل ہے ۔ اگر اسلامی اقتدار کیلئے قریش کا ہونا ضروری تھا تو افغانستان پر حکومت کیلئے افغانی ہونا لازم ہونا چاہیے اور اس کی بڑی حکمت یہ ہے کہ بیرونی قوتوں کی سازش سے مقامی لوگ محفوظ ہونگے۔ جب رسول اللہ ۖ نے مکہ کو فتح کیا تو مدینہ کے مجاہدین کو واپس جانے کا حکم دیا اور مقامی شخص کو مکہ کا گورنر بنادیا، جو حضرت بلال کی آذان پر کہہ رہا تھا کہ ”ہم بے غیرت ہیں کہ خانہ کعبہ کی چھت پر یہ کالا گدھا ڈھینچو ڈھینچو کر رہا ہے اگر میرا باپ زندہ ہوتا تو اس کو قتل کردیتا”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ جن لوگوں کے گھروں پر قبضہ ہوچکا ہے وہ مسلمان اپنے گھر اہل مکہ سے واپس نہ لیں اسلئے کہ اللہ ان کو آخرت میں ان گھروں سے بہتر گھر عطاء فرمائے گا۔
جب پاکستان اور افغانستان کے اقتدار سے اپنے حامی اور مخالف سب عوام خوش ہوں تو پوری دنیا میں اسلامی جمہوری بنیادوں پر انقلاب کا آغاز ہوجائیگا۔ لڑنے مرنے، الزام تراشیوں، تہمتوں اور دشمنیوں کا بہت ہوگیا ہے اور اب امن وسکون کی زندگی اسلامی ممالک نے اپنی عوام کو دینی ہوگی۔ پشتون عوام بالخصوص اور باقی لوگ بالعموم جنگ وجدل اور لڑائی و جھگڑوں سے باہر نکل جائیں۔ میڈیا ان نکات کو اٹھائے جن سے طالبان اور اشرف غنی میں کوئی ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوجائے۔ بڑے پیمانے پر قتل وغارتگری کیلئے افغانوں کو مزید بھڑکانا ابلیس اور اس کی انسانی ذریت کا بہت بڑا دھندہ ہے۔ جو بھی جنگ برپا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے تو اس کو یہاں بک بک کرنے کے بجائے اپنا عملی کردار ادا کرنے کیلئے طالبان یا اشرف غنی کی حمایت میں پہنچ جانا چاہیے۔ یہ شیطان کا کردار ہے کہ دوسروں کو جنگ میں جھونک کر خود اپنی دُم دباکر بیٹھ جائے۔
سلیم صافی نے کہا کہ” امریکہ نے جان بوجھ کر قتل وغارتگری کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پرامن افغانستان ہے لیکن اس کا بس نہیں چلتا ہے کہ اس کیلئے کیا اقدامات اٹھائے اسلئے پاکستان کے حق میں بھی یہی ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی اور بڑے پیمانے پرجنگ نہ ہو اور اگر ایسا ہوا تو اس کے بہت برے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے”۔
رمضان میں بڑے بڑے شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی شیاطین الانس اور چھوٹے شیطان اپنی کارکردگی دکھاتے ہیں، اگر آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید(dgisi faiz hameed) اور بڑے کورکمانڈرز بھلائی کے فیصلے پر متفق ہوجائیں تو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے شیاطین انکے نام پر شرارتوں کا سلسلہ جاری رکھیںگے۔ پاک فوج کو چاہیے کہ ان کو شٹ اپ کی کال دیں۔
رؤف کلاسرا نے اپنے ویلاگ میں ایک مثبت خبر لانے میں اپنا تجزیہ مارکھپایا ہے کہ” جوبائیڈن ایک کال کا تکلف کیوں گوارا نہیں کررہاہے؟۔ اگر چہ ہم اس کیلئے مر نہیں رہے ہیں لیکن امریکی صدرنے یہ رویہ کیوں اختیار کیا ہوا ہے؟۔ کیا یہ وجہ ہے کہ طالبان کو ہم نے بات کیلئے راضی کیا توحسبِ معمول امریکہ کو ہماری ضرورت نہیں رہی؟۔کیا بھارت کو زیادہ اہمیت دینا چاہتاہے اسلئے ہمیں گھاس ڈالنا مناسب نہیں سمجھتا؟۔کیا اڈے دینے کیلئے دباؤ کو برقرار رکھنا چاہتا ہے؟۔ جب ہم اڈے دیں گے تو تھینک یو کی کال کرلے گا؟۔کوشش کے باوجود کسی نتیجے پر پہنچنے میں کا میابی نہیں ہوئی ہے لیکن عمران نے برابری کی سطح پر ان سے بات کرنے کا واضح اعلان کیا ہے اور یہ اعلان ملٹری اسٹیبلیشمنٹ ہی کے کہنے پر کیا ہے۔ ماضی میں جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویزمشرف نے امریکہ سے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کیلئے اڈے دئیے تھے اور ان کی خدمت کی تھی لیکن اس مرتبہ ہمارے رویے میں تبدیلی آئی ہے”۔
صابر شاکر نے کہا کہ” طالبان نے ضلعوں میں پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ صوبائی دارالحکومتوں کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ وائٹ ہاوس کے مہمان بن گئے ۔ اپنے مقاصد میں اسلئے کامیاب ہوگئے کہ امریکہ کیلئے اپنی خدمات انجام دی تھیں اسلئے امریکہ بھی ان کو جاسوسی کے بدلے نوازنے کا حقدار سمجھ رہاہے۔ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا ۔ اس مرتبہ ہم استعمال نہیں ہونگے۔ عمران خان نے طالبان کو واضح پیغام بھیج دیا ہے کہ میرا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا یہ مشترکہ فیصلہ ہے کہ نہ تو ہم افغان طالبان کی مدد کریں گے اور نہ افغان حکومت کی۔ اگر طالبان طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کرلیں تو ہم ان کی حکومت کو نہیں مانیں گے بلکہ افغانستان کیساتھ اپنی سرحد مکمل سیل کریں گے۔ ہم افغانستان میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کریں گے”۔
وزیرستان (waziristan)کی کہاوت ہے کہ زڑہ مے شئی سوڑہ مے شئی” میرا دل بھی کرتا ہے مگر سردی بھی لگ رہی ہے”۔ دل چائے پینے کو کرے، مہمان وہ بہانہ تراشے کہ میزبان بول دے کہ یہ تو بہانہ نہیں ہے۔ پاکستان کی بار بار اپنی اس بات کو دہرانے کی وجہ سمجھ میں آرہی ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہوگی لیکن ہم کوئی کردار ادا نہیں کرینگے تاکہ امریکہ بہادر کہہ دے کہ شاباش،آؤ ہم تمہارے کردار کے منتظر ہیں لیکن امریکہ گھاس نہیں ڈال رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان دوغلی پالیسی کی وجہ سے اپنے ملک میں بھی گرے لسٹ میں پڑا ہواہے۔ ہم آج تک اپنی قوم اور دنیا کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ” ہمیں امریکہ کا ساتھ دینے پر فخر ہے یا طالبان کی خدمت پر؟”۔ ظاہر ہے کہ دونوں کام کئے بھی ہیں۔ہماری اس میں مجبوری بھی تھی اور اس میں ہم نقصان اٹھانے کیساتھ ساتھ فائدے میں بھی رہے۔ عراق، لیبیا اور شام جتنا تباہ ہوا،ہم پڑوس میں رہ کر بچ گئے۔ بخاری کی حدیث ہے کہ الحرب خدعة ” جنگ دھوکے کا نام ہے”۔
حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ امریکہ کی طرف سے کچھ بولنے کی فکر کے بجائے بہت آگے بڑھ کر افغانستان کی خانہ جنگی روکنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ صرف خواہش رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا کہ ”دل تو چاہتا ہے مگر سردی لگ رہی ہے”۔ امریکی امداد، شاباشی اور کسی قسم کی کوئی لالچ کو بھول جاؤ۔ اگرطالبان اور اشرف غنی میں غیرجانبدار بنتے تو بھی اچھی بات ہے لیکن یہ کونسی دانشمندی ، غیرت ، ضمیر، ایمان، انسانیت، رسم وروایت اور اخلاقی قدر ہے کہ خود کہہ رہے ہو کہ ہم ٹشوپیپر کی طرح استعمال ہوئے ہیں اور پھر اشرف غنی کو طعنہ بھی دیتے ہو؟۔ اشرف غنی کو تو افغانستان کی بھلائی کیلئے بہت بعد میں عوام نے بلایا ہے اور تم نے طالبان کو تباہ کرنے کیلئے کس حد کو پار نہیں کیا ہے؟۔
عثمان کاکڑ نے سینٹ میں کہاتھا کہ” تمہاری کٹھ پتلی حکومت نے وہ کرناہے جس کا اس کو حکم مل جائے۔ میں کبھی پرسنل نہیں ہواہوں لیکن جب تم پرسنل اٹیک کروگے تو جواب دوں گا۔ محمود خان اچکزئی نے ٹھیک کہا کہ پشتون کی قومی زبان پشتو، پنجابیوں کی پنجابی، سرائیکیوں کی سرائیکی، بلوچوں کی بلوچی اور سندھیوں کی پانچ ہزار سال سے سندھی قومی زبان ہے۔ تمہارے مخدوم کے خاندان نے انگریزوں کی خدمت کی ہے اور ہمارے خان شہیدعبدالصمد اچکزئی نے انگریز کے خلاف قربانی دی، تیس سال جیل میں گزارے ہیں۔ ہماری پارٹی نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاؤں میں کوڑے کھائے ہیں اور پرویزمشرف کے خلاف قربانیاں دی ہیں۔ تمہارا وزیراعظم ایک کرنل کے حکم پر چلتا ہے اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے”۔
عثمان کاکڑ نے یہ بھی کہا تھاکہ” قومی ایکشن پلان پختونوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے ”۔مگر قومی ایکشن پلان پرصرف پیپلزپارٹی کے رضاربانی نے روتے ہوئے پارٹی کی امانت سمجھ کر دستخط کئے اور تمام جمہوری پارٹیوں بشمول ( pdm)کی موجودہ پارٹیوں کے سب نے نہ صرف دستخط کئے بلکہ مولانا فضل الرحمن، نوازشریف،سراج الحق، اسفندیار ولی اور تحریک انصاف سب اسکا کریڈٹ بھی لے رہے تھے۔ محمود خان اچکزئی (mehmood khan achakzai)کا توشروع سے مطالبہ تھا کہ ”ہماری ایجنسیا ں چاہیں تودہشت گردوں کو ختم کرسکتی ہیں اور امریکی (CIAدے ہماری ISI)زیادہ ہوشیار ہے۔ اس کھیل کو یہاں سے ختم کیا جائے”۔ جب وزیرستان کی عوام کو ایکشن پلان کی وجہ سے مہاجر کیمپوں میں ڈالا گیا تو مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی ، اسفندیار ولی وغیرہ نے اسلام آباد میں ایک جرگہ بلایا تھا ۔ کامران مرتضیٰ نے بادشاہی خان محسود کو 3منٹ کا ٹائم دیکر اپنی بات مکمل کرنے کا کہا تھا اور بادشاہی خان(badshahi khan) کی وہ تقریر سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ اس نے عبدالصمد خان اچکزئی، خان عبدالغفار خان اور مفتی محمود کے وارثوں سے گلہ کیا کہ” کراچی سے مہاجر ہماری مدد کرنے کو آگئے لیکن ہمیں کسی پشتون قوم پرست اور مذہبی قیادت نے پوچھا تک بھی نہیں”۔ لیکن اس کو اپنا مختصر وقت بھی پورا نہیں کرنے دیا گیا۔ بادشاہی خان برملا کہتا تھا کہ” حکومت ہمارے لوگوں کو بھکاری بنارہی ہے اور یہ تذلیل ہمیں برداشت نہیں”۔ لاہور ہائیکورٹ نے عوام کو حکومت کی طرف سے چینی دینے کیلئے برہمی کا اظہار کیا تھا لیکن پشتون قوم کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ البتہ اس میں پشتونوں کا اپنا بھی قصور تھا اسلئے کہ خود کش حملہ آوروں کے ذریعے مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد ، اسفندیار ولی اور آفتاب شیرپاؤ کسی کو نہیں چھوڑا گیا۔البتہ محمود خان اچکزئی پر کوئی حملہ نہیں ہوا ۔اگر ہوتا تو عثمان کاکڑ شہید قومی ایکشن پلان کی مخالفت بھی شاید پھر کبھی نہ کرتے۔ قومی ایکشن پلان سے ہی خیبر پختونخواہ کے لوگوں کی زندگی بحال ہوئی تھی۔ پختونوں کو اپنے صوبے میں مشکلات کا سامنا تھا اور دیگر صوبوں میں بھی ان کو دہشتگرد سمجھا جاتاتھا۔
پاک آرمی کو اگر کٹھ پتلی ، بھاڑے و کرائے پر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بجائے مقتدر طبقے نے صحیح استعمال کیا تو افغان خونریزی رُک جائیگی بلکہ اسلام، انسانیت اور پاکستان کی بچت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ پرویزمشرف اور جنرل محمود(genral mehmood) نے بھاڑہ لیا تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ جنرل قمر باجوہ اور فیض حمید نے اگر اپنا مثبت اور بہت مؤثر کردار ادا کیا تو رہتی دنیا تک کیلئے وہ امر ہونگے،پاک آرمی اور پاکستان کو بھی امر کردینگے۔انشاء اللہ العزیز الرحمن الرحیم۔ اچکزئی عثمان کاکڑ کی شہادت کا معمہ حل نہیں کرسکتا تو پشتونخواہ کا کیسے کریگا؟۔
ایک طرف اوریا مقبول جان جیسے طالبان کی قوتِ ایمانی پر رشک کریں اور دوسری طرف قوم پرست اپنا مسئلہ حل نہ کرسکیں اور پشتونوں کو آرمی و پنجابیوں سے لڑائیں تو پشتون قوم کا مستقبل کبھی نہیں سدھر سکتا ہے۔ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن فوج اور اسکے کٹھ پتلی پنجابی سیاسی لیڈر شپ کے کھیل میں پشتونوں اور مذہبی لوگوں کو فٹ بال نہ بنائیں۔ جب لاہور میں( PDM)کا جلسہ تھا تب بھی لاہوریوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹوں نے نکالنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ اگر پشتونوں کی قوم پرست اور مذہبی لیڈرشپ اپنے لوگوں کو چوکیداروں اور رینٹ کار وں کی طرح استعمال کریںگے تو پشتون قوم کبھی اچھا دن نہیں دیکھ سکے گی۔ عام پنجابی کی حالت پشتون اور بلوچ سے بدتر ہے۔ افغانستان و ایران سمگلنگ سے فائدہ اٹھانے والوں کی طرح پنجابی بھی فائدہ اٹھائیں تو انکے منہ بھی دُھلے ہوئے نظر آئیں۔ پسماندہ پنجابیوں کے خلاف نفرت کے بیج بونا اور اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنٹوں کی دلالی کرنا کونسی سیاست کا تقاضہ اور دانشمندی کی بات ہے؟۔
نفرتوں کے بیج بونے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تربت ، گوادر اور بلوچستان کے دُور دراز علاقوں سے محنت مزدوری اور بچوں کا پیٹ پالنے والے غریب پنجابیوں کی لاشیں آتی ہیں۔ پنجاب خوشحال ہوتا تویہ لوگ موت کے کنویں میں کودتے؟ یا یہ لکی ایرانی سرکس ہے؟۔ بلوچ پنجابیوں کو مارتے ہیں تو کوئی بلوچ پنجاب میں محنت مزدوری کرنے نہیں جاتا۔ اگر پشتون نے نسلی لڑائی شروع کردی تو پنجاب سے ایسی خونریزی کا آغاز ہوگا کہ لوگ پشتونوں کو دوزخی سمجھ کر قتل کرینگے اور دریائے سندھ کو انکے خون سے بھر دینگے۔ شاہ نعمت ولی کی پیش گوئیاں بھی ان پر فٹ کرینگے کہ پنجاب کے قلب سے دوزخی خارج اور دریائے اٹک انسانی خون سے بھر جائیگا۔ اگر احمد شاہ ابدالی اور شیرشاہ سوری نے ہندوستان فتح کیا ہے تو وہ مغل سلطنت کا دور تھا مگر راجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب اور تختِ لاہور کا اقتدار سنبھالا تو جب تک انگریز نے ہماری جان نہیں چھڑائی ،کسی مائی کے لعل پٹھان نے سکھ دھرم کے اس پنجاب کا مقابلہ نہیں کیا اور جب شاہ اسماعیل شہید اور سیداحمد بریلوی نے خلافت کا آغاز کرنا چاہاتھا تو پختون حکمران راجہ رنجیت سنگھ کے اتحادی تھے۔ آج افغانستان میں طالبان کی طاقت قوم پرست پشتونوں کے نہیں پنجابی اسٹیبلیشمنٹ کی حامی ہے۔ وہ وقت گیا جب ہندو کو زبردستی سے کلمہ پڑھایا جاتاتھا ۔اب تو محسود جیسی بہادر قوم نے پنجابی فوج سے دُم دبا رکھی ہے۔
اس معرکے میں پشتونوں کولے جاناغلط ہے جہاں طالبان حوروں کو بھول کر افغانستان میں پناہ لئے بیٹھ گئے۔ گلبدین کی ہارون الرشید جیسے صحافی امریکائی جہاد کے وقت تعریف کرتے تھے تو پوچھا گیا کہ اسکے دوست کون ہیں؟۔ جواب ملا کہ جماعت اسلامی !(jamat e islami) اس پر کہاگیا کہ دوسرے گاؤں کے بے غیرت کو پہچاننے کا یہ طریقہ ہے کہ اس کی آپ کے گاؤں کے بے غیرتوں سے دوستی ہو۔ میجر مست گل کی کہانیاں قوم کو سنانے والی جماعت اسلامی آج کہاں کھڑی ہے؟۔
یہاں طالبان کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد تھی تو یہ بہادر تھے اور فوج نے ایکشن لیا تو لمبے بالوں والے صابرشاہ(sabir shah) جیسی حوروں کو لیکر ایسے بھاگے کہ ہماری قوم نے برطانیہ کے سامنے بھی ایسا سرنڈر نہیں کیا جس کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور آج جن کو قوم کا چیف، خان اور ملک کہا جاتا ہے یہ سب برٹش سرکار کے جاسوس تھے۔ یہ دلیل ہے کہ نیٹو کی اشیر باد طالبان کو حاصل نہ ہوتی تو وہاں سے بھاگ کر یہاں آتے۔ پرویزمشرف دور میں جن کو امریکہ کے سپرد کیا جا رہا تھا تو وہ افغانستان میں امریکہ سے لڑنے کے بجائے پاکستان میں پناہ لینے سے بھی نہیں شرماتے تھے۔ غیرت بھی کوئی چیز ہے جہانِ تگ ودو میں۔ہم یہاں کی طالبان مافیا سے وہاں کی طالبان مافیا کے کردار اور بہادری کو سمجھ سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی مذہب اور قوم پرستی کے کارڈ پر اچھا کام کریں۔ طالبان اور اشرف غنی کو جنگ وجدل سے بچانے اور اسلامی جمہوری حکومت تشکیل دینے پر راغب کردیں۔ اگر افغانستان میں اسلام کا درست نظام نافذ ہوا تودنیا میں اسلامی انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا ۔ اگر نبیۖ نے کفارِمکہ سے دس سال کیلئے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا اور اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیا تو کیا طالبان مسلمان افغانی بھائیوں سے یہ صلح نہیں کرسکتے ہیں؟۔
وزیراعظم عمران خان ، آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف نے جب یہ واضح کردیا ہے کہ ” اگر طالبان نے طاقت کے زور سے افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کیا تو ہم ان کی حکومت نہیں مانیںگے اور اپنی سرحداتْ بھی سیل کردیںگے”۔ تواس کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن صلح کیلئے یہ ایک بہت بڑی بنیاد ہے۔ ایک پٹھان نے طالبان(taliban) کو دعوت دی کہ” آؤ ہم افغانی مل کر امریکہ اور اسکے ایجنٹ پاکستان کیخلاف متحد ہوکر ہتھیار اُٹھائیں ، پنجابیوں کیخلاف جہاد کریں۔ ملامنصور کو کس نے قتل کیا، ملابرادر کو کس نے پکڑا تھا؟…. وغیرہ”۔ مگریہ نہیں سوچا کہ طالبان اور اشرف غنی کے حامی دونوں ایکدوسرے پر امریکی ایجنٹ کا الزام لگاتے ہیں۔
صحافی عمران خان جیسے لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہے جس نے پہلے آرمی چیف پر کرپشن کا الزام لگایا پھر معافی مانگ لی۔ مولانا فضل الرحمن پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کھلے عام جھوٹا بہتان لگادیا۔ لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ اندورنِ خانہ آرمی چیف کو قادیانی اور اسرائیل کا ایجنٹ کہا جارہاہو ۔ اگر مولانا عبدالغفور حیدری کے بیان اور آرمی چیف کی کھلم کھلاتحقیقات ہوجائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آجائیگا۔ صحافی عمران خان نے اسرائیل میں پاکستانی قادیانی فوج پر ویلاگ کیا تھا ،اب یہودیوں کے داماد عمران خان کے دامادزلفی بخاری پر اسرائیل کے دورے میں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف باجوہ کی طرف سے اسرائیل کی حکومت اور موساد کو خفیہ پیغامات پہنچانے کی باتیں خاص طور پر ن لیگ کی میڈیا سیل سے چل رہی ہیں۔ پہلے بھی نوازشریف نے بینظیر بھٹو پر امریکہ کے اور بینظیر بھٹو نے نوازشریف پر اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگایاتھا۔ بینظیر بھٹو (benazir bhutto)نے طالبان بنائے تھے اور نوازشریف نے اسامہ بن لادن(usama bin ladin) سے پیسے لئے تھے۔ طالبان اور القاعدہ کے نام پر اگر امریکہ اور اسرائیل نے ہمارے ہاں اپنے کرتوت دکھائے ہوں تو یہ ممکن ہے اسلئے کہ قرآن میں یہودونصاریٰ کی اس سازش کا ذکر ہے کہ جس سے پہاڑ بھی ہل جائیں۔ مشتری ہوشیار باش؟۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟