وزیرستان کو ڈویژن بنادو اور کانیگرم جنوبی وزیرستان کو اس کا مرکز
جنوری 26, 2024
وزیرستان کو ڈویژن بنادو اور کانیگرم جنوبی وزیرستان کو اس کا مرکز
ملک ربنواز نے چھڑی لہرا کر کہا کہ ہم اسکے ساتھ لڑ نہیں سکتے ہیں خود کو قتل کیلئے پیش کریں گے،30ہزار مریں تو ختم نہیں ہونگے!
بیٹے کو20لاکھ میں خودکش کیلئے بیچ دینا اتنی بڑی بے غیرتی نہیں جتنی اپنی بیٹی پر نکاح کے نام پر لینا مگر عرب اور پشتون نہیں سمجھتے
ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ کو امید ہے کہ دنیا اُٹھے گی اور بلوچ پر ہونے والے مظالم کو روکنے کا اقدام اٹھائے گی لیکن ہمارے حکام انہی کے تو پروردہ ہیں۔ شمالی وزیرستان اتمانزئی وزیر کے قبائلی ملک حاجی ربنواز نے جو گفتگو کی ہے وہ بھی جان پر کھیلنے کی مجبوری کی یہ بات کررہے ہیں کہ ”ہمارے ساتھ دھوکہ مت کرو، ہم نے تمہاری بادشاہی مان لی ، تمہیں مسلمان سمجھا ، ہم تمہیں برا بھی نہیں کہتے لیکن ہمارے ساتھ مسلمان بن کر چلو، دھوکہ نہ دو، جتنے وعدے تم نے کئے کوئی پورا نہیں کیا۔ لاٹھی کے سوا لڑنے کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں لیکن ہم جانوں کو قربانی کیلئے پیش کرسکتے ہیں۔30ہزار مرینگے تو کم نہیں ہوں گے”۔طالبا ن ایک حقیقت ہیں تو علاج کیا ہے؟۔
وزیرستان کا امن اتنا مثالی تھا کہ پاکستان کے عام علاقے اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ بدامنی آئی جس کی مثال بلوچستان سمیت کہیں پر نہیں۔ وزیرستان کا مسئلہ طالبان اور فوج حل نہیں کرسکتے۔ کانیگرم کی سب سے قیمتی زمین کچھ لوگوں سے دستخط کرا کر پاک فوج کو دی۔ اب فوج نے مقامی باشندوں کو عارضی نقل مکانی کراکے اپنے قلعے تعمیر کرنا شروع کردئیے ہیں ۔ اگر پاک فوج مہربانی کرے اور دی ہوئی زمین بھی واپس کردے اور اس پر ایک زبردست ائیر پورٹ بنایا جائے ۔ پھر کانیگرم سے لدھا تک کی زمین سرکاری عمارات کمشنر آفس،گھر اور دیگر اداروں کے افسروں کے دفاتراور گھر تعمیرکئے جائیں تو کلاس فور کی نوکریوں سے بھی بے روزگار طالبان باروزگار بن جائیں گے۔ میرانشاہ کے گیس کو بھی عوام اور سرکاری لوگوں کی خوشحالی کیلئے انگور اڈہ تک پہنچایا جائے۔ امریکہ اور نیٹو کو شکست دینے سے لیکر اپنے علاقے اور خاندانوں تک کوتباہ کرنے میں لوگوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ وزیرستان کو ڈویژن کا درجہ دلائیں ۔شرعی مسائل کو معاشرتی سطح پر اجاگر کریں۔اپنے بیٹے کو20لاکھ میں خود کش کیلئے بیچنے سے زیادہ بڑی بے غیرتی اپنی بیٹی کو نکاح کے نام پر بیچنا ہے مگرافسوس ہے کہ عرب اور پشتون نہیں سمجھتے ہیں۔حقائق کی طرف لوگوں کو توجہ دلائیں۔
گوادر و تربت میں ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ملک نے قبضہ کیا ہو، ہودبائی
فوج ہی فوج ،چیک پوسٹ ہی چیک پوسٹ،ہر پہاڑی پر مشین گنیں لگائی ہیں، مورچے بنائے ہیں!
گوادر میں جو میں نے دیکھا تربت میں دیکھا ۔ فوج ہی فوج چیک پوسٹ ہی چیک پوسٹ۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ملک نے آکر قبضہ کیا ہوا ہے اس پر۔ تو ہر پہاڑی کے اوپر مشین گنیں لگائی ہیں ، مورچے اور قلعے بنائے ہیں اور ہر سڑک پر آپ ادھر سے اُدھر جائیں پوچھ کر روکتے ہیں کون ہیں آپ؟، کہاں سے ہیں ؟۔ ٹھیک ہے، وہ مجھے نہیں روکتے کیونکہ میں باہر کا ہوں ناں۔ باہر کے لوگوں کیلئے ٹھیک ہے لیکن ادھر کے جو مقامی لوگ ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان پر قبضہ ہوا ہے کسی باہر کی …۔ گوادر کے اطراف میں دیکھیں ، زمینوں پر جو قبضہ کیا ہے یہاں فوج، یہاں کسٹمز ، یہاں نیوی، یہاں کوسٹ گارڈ، یہاں پیراملٹری، سب نے اتنی زمین وہاں پر گھیری ہوئی ہے اور اُدھر یہ بنائیں گےDHAاور اسی طرح کی چیز۔ آخر لینڈ مافیا تو ہر طرف ہے۔ اب جو اُدھر کے گوادری ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو اِدھر سے دھکیلا جارہا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ وہاں مچھیرے ہیں ۔ صدیوں سے یہی کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب ادھر جو انہوں نے بندرگاہ بنائی ہے اس بندرگاہ سے تو ان کو ایک طرف کردیا۔ ادھر جو سڑک جاتی ہے تو سڑک کے ایک طرف یہ کشتیاں بناتے ہیں اب اس سڑک کو وہ استعمال کرنے نہیں دیتے اور دھمکی دی ہے کہ یہاں سے ہم ایک اور سڑک نکالیں گے جو ٹھیک بندرگاہ کی طرف جائے گی تو اب آپ لوگ یہ استعمال نہیں کرسکیں گے۔ تو وہ پھر کہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی کشتیاں کیسے بنائیں؟۔ یعنی ادھر جو ہم صدیوں سے کرتے آئے ہیں۔ کہتے ہیں جاؤ تمہیں جدھر بھی جانا ہے جاؤ۔ یہ بے حسی جو ہے ناں یہ مارڈالتی ہے۔ اب یہ کیسا پاکستان ہے جو صرف پنجاب کیلئے بنا ہے؟۔ یہ نہیں چلے گا، نہیں چلے گا۔
ٹیپو سلطان لتا حیائ
ہمارے جو ہیرو ہیں چونکہ وہ مسلمان تھے اسلئے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نام بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بڑے دم خم کے ساتھ جب یہ فیشن چلا ہوا ہے کہ ٹیپو سلطان کو بدنام کیا جائے تو لتا حیاء اسٹیج سے ٹیپو سلطان پر نظم کہتی ہے آپ سب کے سامنے سنئے گا۔ کہنے کی کوشش کی ہے سنئے۔ جب میں میسور گئی اور ٹیپو سلطان کے مزار پر گئی تو مجھ پر یہ نظم ہوئی اجازت ہے سنئے گا اور آخری مصرعے پر غور کیجئے گا۔
جس کا ہے اتحاس سنہرا یہ وہ ہندوستان ہے
سمے سے کب ہے کوئی جیتا سمے بڑا بلوان ہے
لیکن جس کے نام سے سہمے بڑے بڑے بلوان کئی
تھرائیں بندوقیں جس سے سہمے تیرکمان کئی
کرناٹک کی دھرتی پر ایک شیر دہاڑا کرتا تھا
دشمن کے سینوں کو اپنی تیغ سے پھاڑا کرتا تھا
جس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے بندوقیں تھراتی تھیں
اس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پربت تک ہل جاتے تھے
دانتوں تلے فرنگی اپنی انگلی سنا چباتے تھے
کوئی کچھ بھی بولے سچ کہنا میری پہچان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے
صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اک ٹیپو جیسا راجہ
جو نہ کیول ہمت والے تھے عالم فاضل بھی تھے
جس نے کرناٹک کی شیروں کی طرح رکھوالی کی
پر اس کے لوگوں نے اس کے ساتھ حیاء غداری کی
اس کی یوں بے خوف شہادت تاریخی بلدان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے
ٹیپو کی درگاہ پہ آکر آج عجب احساس ہوا
مرے رونگٹے کھڑے ہوگئے دل میں بھی کچھ خاص ہوا
دفن نہیں ہے فقط یہاں پر جسم کسی سلطان کا
دفن ہے اک اتحاس یہاں پر پورے ہندوستان کا
جس کی دو تلوار دیکھ کے دشمن کی جان نکلتی تھی
جس کی لاش بھی چھونے سے انگریزی سینا ڈرتی تھی
راکٹ سے لے کر ماڈرن کلینڈر کے موجد ٹیپو
کم پڑ جائے گا ان کے بارے میں جتنا بھی لکھو
نظم ہے میری بالکل چھوٹی ٹیپو بڑا مہان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ