پوسٹ تلاش کریں

We cannot get out of the current predicament without bringing the true face of Islam to the world! There were a lot of deaths in Afghanistan

We cannot get out of the current predicament without bringing the true face of Islam to the world! There were a lot of deaths in Afghanistan اخبار: نوشتہ دیوار

اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لائے بغیر ہم موجودہ دور کی مشکل سے نہیں نکل سکتے ہیں ! افغانستان میں ہلاکتوں کا ڈھیر لگا

پاکستان اور دنیا بھر میں بدامنی، بدانتظامی، اخلاق کی تباہی ،جھوٹ اورلوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے ۔شیطانی قوتیں اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ قرار دیتی ہیں۔ حالانکہ اسلام اور مسلمانوں کا اس تباہی میں عشر عشیر کا بھی کردار نہیں ۔ دونوں جنگ عظیم میں لاکھوں افراد اور ایٹمی جنگ میں کافر قوتیں ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیںاور تیسری جنگ عظیم بھی برپا ہو تو امریکہ وروس اور چین وکوریا اس میں مرکزی کردار ہوںگے لیکن برصغیر پاک وہند کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی کہ ہندو اور مسلمانوں کو عالمی قوتیں لڑائیں۔ اس میں شک نہیں کہ علامہ اقبال نے ”ابلیس کی مجلس شوریٰ ”میں شیطان کیلئے آئندہ اصل خطرہ اسلام سے قرار دیا لیکن وہ کونسا اسلام ہے؟۔ صوفی، ملا ، مجاہد، سیاستدان، ڈکٹیٹر کا اسلام ؟ یا پھر اللہ کا اسلام؟۔ سب سے پہلے ہم نے اللہ کے اسلام کو دنیا کے سامنے واضح کرنا ہوگا تاکہ شیطان کی آلۂ کار قوتیں اپنے مشن اور انسانیت دشمنی سے باز آجائیں۔
کیا اسلام میں جہاد اوردوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام ہے؟۔
اذن للذین یقٰتلون بانھم ظُلموا وان اللہ علی نصرھم لقدیرO الذین اُخرجوا من دیارھم بغیر حقٍ الا ان یقولواربنا اللہ ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعضٍ لھدمت صوامع وبیع وصلوٰت و مساجدیذکر فیھااسم اللہ کثیرًاو لینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیزOالذین ان مکنٰھم فی الارض اقاموا الصلوٰة واٰتوا الزکوٰة وامروا بالمعروف ونھو عن المنکر وللہ عاقبة الامورOو ان یکذبوک فقد کذبت قبلھم قوم نوحٍ وعادو ثمودO وقوم ابرٰھیم وقوم لوطٍO واصحٰب مدین وکُذب موسٰی فاملیت للکٰفرین ثم اخذتُھم فکیف کان نکیرO
” اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کو قتال کی اسلئے کہ ان کیساتھ ظلم کیا گیا اور اللہ ان کی نصرت کرنے پر قادر ہے۔وہ لوگ جو نکالے گئے اپنے علاقے سے بغیر حق کے الا کہ وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔اور اگر اللہ بعض لوگوں میں بعض کے ذریعے قوتِ مدافعت نہ ڈالتا تو مجوسیوں کی عبادتگاہیں، یہودیوں کی عبادتگاہیں اور عیسائیوں کی عبادتگاہیں اور مسلمانوں کی مساجد گرادی جاتیں جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے۔ اور اس کی مدد ضرور کی جائے گی جو اللہ کی مدد کرتا ہے۔بیشک اللہ زبردست قوت والا ہے۔ وہ لوگ جن کو ہم زمین میں ٹھکانہ دیدیں تو نماز قائم کرینگے اور معروف کا حکم کرینگے اور منکر سے روکیں گے اور اللہ کیلئے تمام معاملات کا آخری انجام ہے۔ اور یہ قوم آپ کو جھٹلاتی ہے تو اس سے پہلے نوح کی قوم، عاد اور ثمود نے بھی جھٹلایا تھا اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے بھی۔اور اصحاب مدین نے بھی۔ اور موسیٰ کو بھی جھٹلایا گیا تو میںنے کافروں کو مہلت دی تو پھر کیسے آخر کار وہ عذاب کے انجام کو پہنچ گئے”۔( سورہ الحج)
جب تک کوئی ایسے حالات پیدا نہ کرے کہ وہ لوگ مظلوم بن جائیں تو ان کیلئے اللہ نے قتال کی اجازت نہیں دی ۔ مکی دور میں مسلمانوں کا قصور کیا تھا؟۔ کیا وہ دہشت گرد تھے؟۔غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے؟۔ قتل، اغواء برائے تاوان ، چوری اور ڈکیتی میں ملوث تھے؟۔ان کا صرف یہ کہنا تھا کہ ”ہمارا رب اللہ ہے ” ۔اور اسی وجہ سے ان کو اپنے علاقے سے نکال دیا گیا تھا۔ افغان طالبان سے اقلیتی برادری، دوسروں کی عبادتگاہیں اور زبردستی سے اپنی مرضی مسلط کرنے کے علاوہ یہ شکایت بھی تھی کہ انہوں نے دہشت گردوں کو پناہ دی۔ اسامہ نے اپنا ملک چھوڑ کر افغانستان میں پناہ لی اور امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان بھی کیا۔ آج افغان طالبان کہہ رہے ہیں کہ ہماری سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی لیکن پاکستان کو خدشہ ہے کہ بھارت نے دشمن دہشت گردوں کو افغانستان سے سپورٹ کرنے کا کھلم کھلا اعلان بھی کررکھا ہے۔
جب انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو مسلمان مجاہدین اور ہندوؤں نے پہلے مسلح اور پھر عدمِ تشدد سے سیاسی جنگ لڑی تھی۔انگریزکے جانے کے بعدہی پاکستان کے مسلمانوں اور بھارت کے ہندوؤں نے انگریز کی باقیات اپنی اپنی فوج، عدلیہ، پولیس، سول انتظامیہ اور پورے ریاستی ڈھانچے کو تقدس کا درجہ بھی دیدیاتھا۔ متحدہ ہندوستان کے داعی مولانا ابوالکلام آزاد، مہاتماگاندھی، جمعیت علماء ہند کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ، سرحدی گاندھی باچا خان، بلوچستان کے گاندھی شہید عبدالصمد خان اچکزئی وطن پرست اور قوم پرست تھے جس پر علامہ اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی کیلئے ابولہب کے نظرئیے پر اشعار بھی لکھ ڈالے تھے۔ جو تقسیم ہند اور پاکستان بنانے کے نظرئیے کی کھل کر مخالف اور مسلم لیگ آل انڈیا کو انگریز کا ایجنٹ ، کافراور وطن کا غدار کہتے تھے۔ پھر جب انگریز نے برصغیر پاک وہند کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا تومشرقی پاکستان بنگلہ دیش اور موجودہ پاکستان کی قیادت قائداعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان نے اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھالنے کا فیصلہ کیا اور متحدہ ہندوستان کی قیادت نے اپنے ملک کا اقتدار انگریز کے ہاتھوں میںوقتی طور پر رہنے دیا تھا۔ مہاتماگاندھی قوم پرست ہندو کے ہاتھوں قتل ہوا تھا اور قائداعظم پہلے سے ٹی بی کے مریض تھے اور لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی۔
بابائے قوم قائداعظم کی اکلوتی بیٹی بھارت میں اپنے پارسی کزن سے شادی کرکے باپ کے سایۂ عاطفت اور جانشینی کے منصب سے محروم تھی اسلئے آپ کی بہن فاطمہ جناح کو مادرملت قرار دیکر مسلم لیگیوں، جماعت اسلامی اور قوم پرست گاندھیوں نے اپنا قائد بنالیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان سے بھی مادر ملت کا اختلاف تھا۔ جنرل ایوب خان نے میرجعفر کے پوتے سکندر مرزاکو لات مار کر اقتدار پر قبضہ کیاتو اسکندر مرزا کے ذریعے سیاست میں آنے والا ذوالفقار علیبھٹو بھی ایوب خان کیساتھ تھا۔ا سکندر مرزا کی بیگم اور بیگم بھٹو آپس میں کزن تھیں اور جو حشرجنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کا کیا تھا تو اس سے بدتر حشر جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا کیا تھا۔ پاکستان میں سیاست میں بھٹو خاندان کا داخلہ بھی بیگم نصرت بھٹوکی وجہ سے تھا جو اصل میں بھٹو نہیں بلکہ ایرانی نژاد تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اگر اپنی کزن بھٹوبیوی سے اولاد ہوتی تو اس کا سیاست میں کوئی عمل دخل بھی نہ ہوتا۔ کیونکہ بھٹوکی سیاست نصرت بھٹو کی مرہون منت تھی۔
بینظیر بھٹو نے اپنی ماں نصرت بھٹو سے سیاست سیکھ لی تھی اور( MRD)میں اپنے مخالفین کیساتھ مل بیٹھ کر جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنا نصرت بھٹو کی سیاست تھی۔مولانا فضل الرحمن نے بھی مفتی محمود کی وفات کے بعد اپنے مخالفین کیساتھ مل کر (MRD)کے پلیٹ فارم سے جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا تو اپنے باپ کے قریبی دوستوں سے ناراضگی اور کفر کے روایتی فتوؤں کا بھی سامنا کیا تھا۔ جب بینظیر بھٹو نے سیاست میں اپنا قائدانہ کردار ادا کیا تو اس پر سندھ کی روایتی کلچر اور سندھی خواتین کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ بیگم نصرت بھٹوکی بیٹی تھیں۔ اس نے 1980ء میں وزیراعظم بننے کے بعد صدر مملکت کیلئے مسلم لیگ کیساتھ مل کر نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں بنوں کے غلام اسحاق کو ووٹ دیا جو ریاست اور سیاست میں جنرل ضیاء الحق کا جانشین تھا تو یہ بیگم نصرت بھٹوکی سیاست تھی ۔جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست مرتضیٰ بھٹو کررہا تھا جس کا بیٹا ذوالفقار جونئیر اپنے باپ پر نہیں اپنی ڈانسر ماں پر گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو اگر پیپلزپارٹی کے سیاسی اکابرین تاریخی حقائق بتائیں گے تو وہ اصل میں زرداری اور برائے نام بھٹو پر اسلئے شرمندہ نہیں ہوگا کہ نصرت بھٹو بھی اصل میں بھٹو نہیں تھی تو بلاول کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اور ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنی بیگم بھٹوکی وجہ سے سیاست میں آئے تھے تو آصف زرداری کو بھی فرق نہیں پڑتا کہ اپنی بیگم بینظیر بھٹو کی وجہ سے اس کی سیاست میں انٹری ہوئی ہے۔ ممتاز بھٹو، جماعت اسلامی کے مولانا بھٹو اور دعا بھٹو بالکل اصلی بھٹو ہیں ۔ البتہ ”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو ماروگے” کا پسِ منظر بالکل مختلف ہے۔
بینظیر بھٹو کے بارے میں یہ نیا انکشاف سامنے آیا ہے کہ اس کو امریکہ کے بلیک واٹر نے شہید کیا۔ بینظیر بھٹو نے لکھا کہ” وہ خود اور مرتضی بھٹو سنی ہیں اور شاہنواز اور صنم بھٹو شیعہ ہیں”۔ ذوالفقار علی بھٹو سنی تھے لیکن اس کو پھانسی کے پھندے پر چڑھانے کے بعد اس کی شلوار اتارکر ختنے کی تصاویر لی گئیں تاکہ اگر اس کا ختنہ نہ ہو تو یہ ثابت کیا جائے کہ اس کی ماں بھی ہندو تھی اور وہ بھی مسلمان نہیں تھا لیکن ختنے کو دیکھ جنرل ضیاء الحق کو بھٹو کے اسلام پر یقین آگیا۔ بھٹو نے مسلم دنیا کو اکٹھا کرنا تھااور قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا اور جنرل ضیاء الحق نے اپنے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق کی شادی مشہور قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی سے کروائی تھی جس کے نکاح کیلئے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اپنے مرشد ڈاکٹر عبدالحی خلیفۂ مجاز مولانا اشرف علی تھانوی کو لیکر گئے تھے۔ ہمارے استاذ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیرمحمد کاکڑ کو قادیانی رشتے کا پتہ نہیں تھا مگر پھر بھی ڈاکٹر عبدالحی کو شاہی دربار میں لے جانے پر بہت دکھی تھے۔ جب تحریک ختم نبوت ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور جمعیت علماء اسلام نے دباؤ ڈالا تو پھر جنرل ضیاء الحق نے امتناع قادیانیت آرڈنینس بھی جاری کردیا تھا۔
افغانستان اور خطے کے امن کے بغیر سکون کا سانس لینا ممکن نہیں۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن وسنت میں جس طرح کی رہنمائی موجود ہے تو اس سے مذہبی طبقہ اپنے اہداف حاصل کرسکتا ہے۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کو مسلمانوں سے خطرات ہیں۔ جنہوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی معاف نہیں کرناہو تو وہ کافروں سے کیا رعایت کرسکتے ہیں۔ قادیانی دنیا میں پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ”ہم نے جہاد کو منسوخ کیا ہے۔ پرامن اسلام کے علمبردار قادیانی اور باقی مسلمان فسادی ہیں”۔ لیکن غیرمسلم طاقتوں کو مسلمانوں کی طرف سے اس کا کوئی مؤثر جواب نہیں دیا جارہا ہے۔
اگرامریکہ نے افغان طالبان کو اسامہ بن لادن کی وجہ سے ختم کیاتو عراق و لیبیا کو پھرکس جرم کی سزا دی؟۔رسول اللہۖ کو اہل مکہ نے نبوت کا دعویٰ اور بت پرستی کیخلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے ہجرت پر مجبور کیا لیکن رسول اللہۖ نے نبوت کے دعویدار ابن صائد کو مدینہ کی گلیوں میں کھلا گھومنے کیلئے چھوڑ دیا۔ بریلوی، دیوبندی ، شیعہ اور اہلحدیث کا ایمان رسول اللہۖ اور صحابہ کرام سے زیادہ مضبوط نہیں۔ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو انکے اکابر بھارت میں تھے لیکن کسی نے ایمانی جوش وجذبے کا ثبوت دیتے ہوئے مرزے کو قتل نہیں کیا تھا۔ کیا تحریک لبیک، دیوبندی ،اہلحدیث اور شیعہ شدت پسند اپنے فرقوں کے بانیوں اور اکابرین سے زیادہ ایمانی جذبہ رکھتے ہیں؟۔
جب پشاور میں ایک قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو گیلے کا کیا گیلا ہونا تھا ؟ لیکن جمعیت علماء اسلام اور مذہبی طبقات ہی نہیں پیپلزپارٹی نے بھی پشاور سے دوبئی تک اپنے مذہبی جذبات کا اظہار کردیا۔ پورے افغانستان پر پچاس ہزار سے زیادہ حملے امریکہ نے پاکستانی ائیربیسوں سے کئے جس سے افغانستان مکمل کھنڈرات میں تبدیل ہوا مگر افغان عوام نے کوئی احتجاج تک بھی نہیں کیا۔ جب ایک افغانی کے عیسائی بننے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا تو سارے افغانی سراپااحتجاج بن گئے۔ حالانکہ نبیۖ نے منافقین کونہ صرف مدینہ میں بسنے کا حق دیا تھابلکہ شہر چھوڑ کرمکہ میں مرتد بننے کی بھی صلح حدیبیہ میں کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔
آج دنیا میں جومذہبی آزادی، رائے کی آزادی اور احترام انسانیت ہے یہ سب قرآن وسنت کا اس دنیا کو دیا ہوا تحفہ ہے۔ ہم نے بھی پہلے معروف ومنکرکا غلط تصور سمجھ کر اس کی تشہیر شروع کردی تھی اور پھر ہماری سمجھ کھل گئی اور اسی طرح طالبان میں بھی معروف ومنکر کا تصور بالکل ہماری طرح ہی غلط سمجھا جاتا تھا اور انہوں نے عملی طور پر اس کو نافذ بھی کردیا تھا، اگر ہم انکی جگہ ہوتے تو ہم بھی وہی کرتے جو انہوںنے کیا تھا اور انہی کی طرح آج اپنے اقدامات سے پیچھے بھی ہٹ جاتے۔ جن لوگوں نے امریکہ کے خلاف جہاد کیا وہ طالبان عظیم مجاہد ہیں اور جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد دہشت گردی کی، وہ خوارج دجال کا لشکر ہیں۔امریکہ، پاکستان اور اللہ کی بارگاہ میں طالبان اپنے اپنے حساب سے گڈ اور بیڈ ہیں۔ البتہ دوسروں کے نظام کو ٹھیک کرنے سے پہلے اپنے آپ کو درست کرنا ضروری ہے، اگر اپنی چوتڑ پر گند کی پپڑیاں جمی ہوں، استنجاء اور وضو کئے بغیر زبردستی دوسروں کو نماز پڑھائی جائے تو یہ بالکل ہی غلط ہوگا۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ” کاش میں انسان نہیں ایک چڑیا ہوتا اسلئے کہ جواب دہی کے بوجھ اور آخرت کی فکر سے آزاد اپنی زندگی گزارتا”۔یہ انسانی فطرت قرآن کا تقاضہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ اختیارات کی طلب رکھتا ہے مگر جب اس کو اختیارات مل جاتے ہیں تو پھر انسان کا ضمیر چیخ اُٹھتا ہے کہ اِنا عرضنا الامانتہ علی السمٰوتِ و الارضِ و الجِبالِ فابین ان یحمِلنہا و اشفقن مِنہا و حملہا الاِنسان اِنہ کان ظلومًا جہولًا ” بیشک جب ہم نے امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو سب نے انکار کردیا اور اس بارامانت کا بوجھ انسان نے اٹھالیا اور بیشک وہ بڑا ہی ظالم اور انتہائی جاہل تھا”۔ (القرآن)
اللہ نے فرمایا کہ ” انسان شر کو ایسا مانگتا ہے جیسے وہ خیر مانگ رہا ہو”۔ یہ شر طاقت، اقتدار اور اختیار میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی خواہش ہے۔ پہلے لوگ طاقت واختیار کیلئے قتل وقتال کا راستہ اختیار کرتے تھے اور اب جمہوریت کے نام پر اپنی دُم اُٹھائے اُٹھائے عوام سے ووٹ کی بھیک طلب کرتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ لایکلف اللہ نفسًا الا وسعھا لہا ماکسبت و علیھا مااکستبت ربنا لاتؤاخذنا ان نسینا او اخطأنا ربنا ولا تحملناعلینا اصرًا کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولاتحملنا مالا طاقة لنابہ ” اللہ کسی نفس کو نہیں پکڑتا مگر اس کی وسعت کے مطابق،جو اسکے فائدے کیلئے ہے جواس نے کمایا اور اس پر وبال ہے جو کچھ بھی اس نے حاصل کیا۔اے ہمارے رب ّ! ہمیں نہیں پکڑنا اگر ہم سے کوئی بھول یا غلطی ہوئی ہے۔ہمارے ربّ! ہم پر ایسا بوجھ نہیں لادنا جیسا کہ ہم سے پہلوں پر لاد دیا تھا ۔ اے ہمارے رب!ہمیں ایسا مت لدوادینا جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے ہیں”۔ جس انسان پر بوجھ پڑتا ہے اور اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے تو وہ الگ بات ہوتی ہے اور جب انسان ذمہ داری لیتاہے تو اس کو پوری کرنا بھی اس کیلئے وبال بن جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ”جو عہدہ طلب کرتا ہے تو اللہ اس کی مدد نہیں کرتا اور جو خواہش نہیں رکھتا تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے”۔مذہبی اور سیاسی طبقوں سے لیکر پوری دنیا کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ بقیہ صفحہ 3نمبر2

بقیہ…اسلام کا حقیقی چہرہ اور افغانستان میں ہلاکتوں کا ڈھیر
جب دنیا کو پتہ چلے کہ اسلام مسلمانوں اور انسانوں کو زیادہ سے زیادہ شخصی طاقت اور اختیارات کا بھوکا نہیں بناتا تو جو لوگ اپنی طاقت و اختیار کو بڑھانے کیلئے دوسرے کٹھ پتلی قسم کے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں ان کو نچلی سطح سے عالمی سطح تک کسی بھی گروہ اور فرد کا تعاون حاصل نہ ہوگا، لڑائی اور جھگڑوں کا اصل محور شخصیات کا اپنے لئے زیادہ سے زیادہ طاقت واختیار کا حاصل کرنا ہے۔ جب امریکہ میں ٹرمپ کو شکست ہوئی تو قریب تھا کہ امریکہ آپس کی خونریزی میں ہی دنیا کیلئے تماشہ بن جاتا۔ سعودی عرب سمیت دنیا کے تمام ممالک کو طاقت کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے خطرات اور امن وامان کے مسائل کا سامنا ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس طاقت تھی تو ننانوے بیگمات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے مجاہد اوریا کی بیگم پر نظر پڑگئی تو دل میں خواہش ابھرنے لگی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے رہنمائی فرمائی۔ وہ حیران اور پریشان ہوگئے کہ سب دروازوں پر تالے لگنے کے باجود یہ اجنبی افراد کیسے اند ر داخل ہوئے۔ ایک نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے۔ میرے پاس ایک دنبی ہے اور اس کے پاس 99 دنبیاں ہیں۔ یہ چاہتا ہے کہ مجھ سے یہ ایک بھی چھین لے۔ حضرت داؤد نے فرمایا کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر واقعی یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ پھر حضرت داؤد سمجھ گئے کہ اللہ نے مجھے تنبیہ کیلئے یہ افراد بھیجے ہیں اور اللہ سے معافی بھی مانگ لی اوراللہ نے معاف بھی کردیا۔ عفی اللہ اور عفی عنہ کے الفاظ مولوی اپنے کیساتھ قرآن کے ان الفاظ کی وجہ سے لکھتے ہیں جو حضرات داود کیلئے آئے تھے۔
حضرت داؤد ایک نبی اور بادشاہ تھے۔ نبوت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی دوسرے پر ظلم کرنے سے روک دیا لیکن قرآن نے بتادیا کہ جب انسان کے پاس اختیارات زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو اس کیلئے کمزوروں کیساتھ انصاف کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ جب ہد ہد حضرت سلیمان کے دربار سے غائب تھا تو حضرت سلیمان نے کسی معقول عذر پیش نہ کرنیکی صورت میں سخت سزا دینے کی بات فرمائی تھی۔ جب ملکہ سبا بلقیس کو پتہ چلا کہ حضرت سلیمان بہت طاقتور بادشاہ ہیں تو اس بات کا اظہار کیا تھا کہ جب بادشاہ کسی دوسرے کے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو عزتدار لوگوں کی تذلیل کرتے ہیںجو قرآن میں واضح ہے۔
رسول اللہ ۖ رحمت للعالمین تھے۔ قریشِ مکہ نے دعوت دی تھی کہ اگر کسی خوبصورت لڑکی سے شادی کرنی ہے تو عرب کی حسین ترین لڑکی سے نکاح قبول فرمائیں، مال ودولت چاہیے تو ہم اتنی دولت دیںگے کہ اچھے خاصے مالدار بن جائیںگے اور اگر بادشاہی اور حکومت چاہیے تو اہل عرب کا سب سے بڑا بادشاہ بنادیتے ہیں لیکن اپنی اس دعوت سے دستبردار ہوجائیں۔ نبیۖ نے ان تمام چیزوں کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” اگر میرے ایک ہاتھ پر چانداور دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں تو اپنی دعوت سے دستبردار نہیں ہوں گا”۔ ایک چچا کی پشت پناہی حاصل تھی اور خطرہ تھا کہ چچا ابوطالب بھی ساتھ نہ چھوڑ جائیں لیکن حضرت محمد ۖ نے ثابت کردیا کہ آپۖ توحید کے سہارے ایک فرض کی ادائیگی کیلئے اس دنیا میں کام کررہے تھے۔ قریش مکہ نے قرابتداری کا لحاظ بھی چھوڑ دیا لیکن آپۖ کے پایۂ استقلال میں بالکل بھی ذرا سا فرق بھی نہیں آیا تھا۔
ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کہ ایک انسان کے اندر اس سے زیادہ استقامت کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی تنبیہ کردی تھی کہ ” اگر آپ نے تھوڑا سا جھکاؤ بھی اختیار کیا تو اللہ کی طرف سے شدید عذاب ہوگا ”۔ اور پھر اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ” اگر اللہ نے سہارا نہ دیا ہوتا تو آپ تھوڑے جھکاؤ کا شکار ہوجاتے”۔ یہ سند ہے کہ رسول ۖ نے جن مشکلات کا سامنا کیا ،اسکا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔اور اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ اللہ نے بدرکے قیدیوں پر جمہور صحابہ کرام کی مشاورت اور نبیۖ کے فیصلے کو غیرمناسب قرار دیکر واضح کیا کہ کسی بہت بڑی شخصیت اور عظیم جماعت کی مشاورت کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ اپنے آپ کو رسول اللہۖ اور صحابہ کرام کے جم غفیر سے بڑھ کر خیال کرے۔ پھر جب غزوہ اُحد کے بعد رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ”اللہ کی قسم ! میں ان کے70 افراد کی لاشوں کیساتھ وحی سلوک کروں گا” اور صحابہ کرام انتقام کے جذبے میں اپنی آخری حد تک پہنچے ہوئے تھے تو اللہ نے فرمایا کہ ” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تم لوگوں کو یہاں تک نہ پہنچائے کہ اعتدال سے ہٹ جاؤ” ۔اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ”جتنا ان لوگوں نے تمہارے ساتھ کیا تھا ، تم بھی اتنا کرو۔ اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور معاف ہی کردو اور یہ معاف کرنا بھی تمہارے لئے اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے”۔ قرآن نے رسول اللہۖ اور صحابہ کرام کی وہ تربیت کی تھی کہ جب مکہ فتح ہوا تو دشمن کے سردار ابوسفیان کے گھر کی تذلیل نہیں فرمائی بلکہ بھرپور عزت بخش دی۔ چچا کو شہید کرنے والے وحشی اور اس کے کلیجے کو چبانے والی ابوسفیان کی بیگم ہند معاف کردئیے گئے۔
اسلام نے دنیا کی تاریخ بدل ڈالی تھی۔ قیصر وکسریٰ کے حکمران کمزور نہ تھے لیکن اسلام کے عادلانہ نظام کی وجہ سے ان کے پیروں سے زمین نکل گئی تھی اور دنیا کی مظلوم عوام نے ہر جگہ مسلمانوں کا استقبال کیا تھا۔ اسلام وحشت و دہشت کے ذریعے نہیں بلکہ عدل وانصاف، انسانیت اور دین ربانی ہونے کی وجہ سے دنیا میں پھیل گیا ہے اور شیطان اور اس کی آلۂ کار قوتوں کو اسی اسلام سے بہت خطرہ ہے۔ داعش اور طالبان اپنی دہشت اور وحشت کے ذریعے اسلام کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ امریکہ کی یہی چاہت تھی کہ داعش اور طالبان کو چھوڑ کر دنیا کو اسلام اور مسلمانوں کا وحشیانہ چہرہ دکھا دیں۔ امریکہ کے سامنے جذبہ جہاد سے ڈٹ جانا ہزار درجہ بہتر تھا اور بہترین جہاد تھا اور کسی کا امریکہ کے سامنا لیٹنا بہت بدترین درجے کی غلامی ہے لیکن اب جبکہ امریکہ افغانستان سے نکلاہے تو اقتدار کی خاطر مسلمانوں اور افغانوں کو قتل کرنا انتہائی درجے کی جہالت ہے۔
اگر لاشوں کو اسلام میں مثلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے تو زندہ انسانوں کو بھی تشدد کرکے مارنے کی قطعی اجازت نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر درختوں اور فصلوں کو اسلام میں نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے تو گھر،دفاتر، سڑکوں اور کسی بھی منافع بخش انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں ہوسکتی ہے۔ اسلام اپنے اختیارات کو درست استعمال کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ بدری قیدیوں کیساتھ کتنا اچھا سلوک روا رکھا گیاتھا؟۔ اگر پوری دنیا میں یہ ٹرینڈ چل گیا کہ دوسروں سے اختیارات اور طاقت چھیننے کے بجائے اپنے اختیارات اور طاقت کا بڑادرست استعمال کیا جائے تو دنیا کے سارے ممالک، ادارے ، پارٹیاں ، تنظیمیں اور لوگ اپنی اپنی جگہ پر بدل جائیں گے۔ رسول اللہۖ کو بھی مشاورت کا اللہ نے حکم دیا تھااور ایک اولی الامر اورمذہبی شخصیت اور آپ ۖ کے منصب کابڑا احترام ہونے کے باوجود آپۖ سے مذہبی معاملات اور اولی الامر کے معاملات میں صحابہ کرامنے بہت سارے مواقع پر زبردست اختلاف کیاتھا اور قرآن وسنت میں اس اختلاف کے حق کو ایک مثبت معاشرتی نظام کا اہم حصہ قرار دیا گیا۔
سورۂ مجادلہ میںخاتون کے اختلاف اور اس کی تائید ہے۔ بدری قیدیوں پر عمرو سعد کی رائے کو مناسب قرار دیا گیا اور اُحد پر انتقام میں زیادتی کا ماحول وحی نے بدل ڈالا اور صلح حدیبیہ کی شرائط اور عمرہ ادا کئے بغیر واپس جانا مشکل تھا۔ ذوالخویصرہ جیسے لوگوں کو نبیۖ نے قتل کی اجازت نہیں دی۔ فرمایا کہ یہ بیس مرتبہ سے زیادہ مختلف ادوار میں پیدا ہونگے حتیٰ کہ ان کا آخری گروہ دجال سے مل جائیگا، ان کی نماز ،روزوں کو دیکھ کر اپنی نماز، روزوں کو تم بھول جاؤگے،یہ قرآن پڑھیںگے لیکن قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اتریگا۔ یہودونصاریٰ اور منافقین کا کردار مخفی نہیں لیکن قرآن نے انسان کے قتل کوبغیر کسی قتل یا فساد کے انسانیت کا قتل قرار دیا تھا۔ یتیم کے احترام کا درس دیا کسی کو یتیم بنانے کاحکم نہیں!

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا
اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے