پاکستان کا مستقبل روشن ہے یا تاریک یہ وقت کا فیصلہ ہے۔ لیکن ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔
دسمبر 27, 2021
نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ دسمبر2021۔ سوشل میڈیا پوسٹ
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)
آج ہندوستان کے شہروں سے کوہ ہندوکش تک اور بھارت کی ہندی زباں سے پختونخواہ کے شہر ٹانک ،اس کے مضافات اور پشاور تک ہندکو زباںوالے ایک تہذیب وتمدن ، ایک وطن اور ایک جیسے ملتے جلتے لوگ تھے۔مسلمان اور ہندوکے درمیان سکھ مذہب اور رنجیت سنگھ کی پنجابی حکومت تاریخ کا روشن یا سیاہ باب ہے؟، روشن مستقبل یاتاریک سے تاریک تر حالات ہونگے؟،یہ فیصلہ وقت نے کرنا ہے لیکن ہم نے اپنا فرض منصبی ضروراداکرنا ہے !
یہاں انگریز آیا، تقسیم بنگال ، تقسیم ہند،مسئلہ کشمیر، ڈیورنڈ لائن اور انگریزکی سیاسی، انتظامی، انتقامی، تعلیمی، نوابی، فوجی اور عدالتی باقیات اس قوم کی اندھیر نگری میں ایک مؤثر کردار کا سبب آج تک ہیں اور اندھیرنگری ہے میرے آگے
انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی سے مضبوط تجارتی مراکز بناکر ہندوستان کے طول وعرض پر قبضہ کیااور پھر اپنی باقیات کے ذریعے یہاں کی عوام کو مکمل غلامانہ نظام کے سپرد کردیا۔ مزاحمت کرنے والوں کو آپس میں اُلجھا دیا۔ہندو اور مسلم کے درمیان تفریق ڈالنے کیلئے بنگال کو بنیادبنا دیا۔ ہندوؤں نے انتظامی بنیاد پر مشرقی بنگال کو علیحدہ صوبہ بنانے کی مخالفت کی تو مسلمان اس کی حمایت میں کمربستہ ہوگئے۔ یوں انگریز کی یہ چال کامیاب ہوگئی کہ ہندو اور مسلمان کو آپس میں دشمن بنادیا۔ انگریز مخالف ہندو اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ تحریک آل انڈیا کانگریس کی بنیاد پڑگئی اور اس کے مقابلے میں انگریز سے راز ونیاز رکھنے والے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ نواب وقار الملک ، سر آغا خان اور دیگر اسلام ناآشنا لوگوں نے ایک مسلم قومیت اور دوسری ہندو قومیت کی بنیاد پر ایک تحریک کا آغاز کردیا۔ ایک قومی نظریہ اور دو قومی نظریہ کے میدانِ جنگ کیلئے زمین ہموار ہوئی۔ کانگریس کے قائداور رہنما ہندوستان کے ایک قومی نظریے اور مسلم لیگ کے قائدین اور رہنما دوقومی نظریے پر زور دیتے تھے۔قائداعظم محمد علی جناح کی ابتداء کانگریس سے ہوئی اور وہ وکیل کی حیثیت سے چاہتے تھے کہ ہندوستان کی غلام عوام کوبھی ویسے شہری حقوق مل جائیں جو برطانیہ اور یورپ کے آزاد شہریوں کو اپنے وطن میں حاصل ہیں۔یورپ کا مذہب عیسائی تھا لیکن انتظامی اعتبار سے وہ مختلف ممالک برطانیہ، جرمنی، فرانس ، اٹلی، سوئٹزر لینڈ، اسپین، ناروے ، سویڈن اور دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم تھا۔مذہب کی بنیاد پر ملکوں کی تقسیم کاکوئی ماحول دنیا میں موجود نہ تھا۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں”سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ” بہترین نظم بھی لکھی لیکن جب ہند و مسلم کے درمیان نفرت کی فضاء بن گئی تو تقسیم ہند کی ناگزیری پر شاعرِ مشرق اقبال اور قائداعظم بھی مفکر پاکستان اور بانی پاکستان بن گئے۔ دونوں کی قابلیت، خلوص اور انسانیت پر شک نہ تھا لیکن اپنی یوٹرن سے اپنی اپنی پوزیشن کو ایسا بدل ڈالا کہ اس سے اس خطے کی تاریخ میں بھی نمایاں تبدیلی آگئی۔
ہندو،مسلم، سکھ، بدھ مت اور عیسائی سے تعلق رکھنے والے سب ہندوستانی لوگ ایک طرح کی ملتی جلتی صوفیت کے نظام سے وابستہ تھے۔عیسائیت نے بھی رہبانیت کی بدعت خود ایجاد کرکے اس کی ابتداء کی لیکن پھر وہ اس کی پاسداری نہ کرسکے۔ ہندو اور بدھ مت بھی بہت قدیم مذاہب تھے اور انکا تاریخی پسِ منظر صوفیت کی یاد گار تھا۔ اسلام اور مسلمانوں پر بھی ہندوستان میں تصوف کی چھاپ تھی۔ سکھ مذہب نے بھی صوفیت کے دامن سے جنم لیا۔اس مزاج کی وجہ سے تاریخ کے اندر تمام خونخواروں نے جب بھی برصغیرپاک وہندکا رُخ کیا تویہاں کے پُر امن صوفی مذہب لوگوں نے کوئی مزاحمت نہیںکی۔ جس طرح نیم حکیم خطرۂ جان نیم ملا خطرۂ ایمان مشہور ہے اسی طرح نیم صوفی خطرہ ٔ امن اور امان بھی ہوتاہے۔ انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی سے ہندوستان پر قبضے کی جو ابتداء کی تھی تو وہ جاتے جاتے ہندوستان کو بہت سے مسائل کی آماجگاہ بناکر چھوڑ گیا تھا اور اب باتIMFکی غلامی تک پہنچ گئی ہے۔ علماء کی اکثریت نے پاکستان کی مخالفت کی تھی اور صوفیوں کی اکثریت نے حمایت کی تھی لیکن پنجاب کے پانچ دریاؤں کے علاوہ تقسیم ِ ہند کے وقت ایک چھٹا دریا انسا نیت کے خون سے بھی بہہ گیا تھا، جس کا مولانا ابوالکلام آزاد کہتے تھے کہ ” آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے لیکن اتنا خون بہنے کی قیمت پر آزادی بھی قبول نہیں ہے”۔
دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان اور پاکستان ایک ہی تاریخ، وقت اور لمحے میں ایک ہی اعلان کیساتھ آزاد اور دولخت ہوگئے لیکن مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر یہ دونوں ممالک دو جڑواں بہنوں کی جگہ دو سوکن بن گئیں۔ مقبوضہ کشمیر سے قبضہ تو نہیں چھڑایا جاسکا ،البتہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش سے ہم نے ضرورہاتھ دھو لئے اور 74سال بعد بھی اپنے غلامانہ نظام سے جان چھڑانے کا رونا رو رہے ہیں۔ انڈوں پر بیٹھنے کی وجہ سے کڑک مرغی کا سینہ پروں سے گنجا ہوجاتا ہے لیکن آخری عمرتک دیسی مرغیوں کے سرکے بال نہیں گرتے ۔جبکہ فارمی مرغیوں کے سر بھی آخر میں گنجے ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں برسراقتدار آنے والے سیاسی حکمران فارمی مرغیوں کی طرح مصنوعی طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف اپنے اپنے وقت کی زندہ مثالیں ہیں۔PPP،PMLNاورPTIایک دوسرے سے اس بات پر اُلجھ رہی ہیںکہ کس پارٹی کو کس کس جنرل نے جنم دیا ہے۔جب تقسیم ہند کے وقت ہندو پاکستان سے ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے تو ان کی جگہ بھارت سے آنے والے مسلمانوں نے لے لی۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں تمام کے تمام پوش علاقوں، تجارتی مراکز اور بڑی بڑی زمینوں کے مالک ہندو تھے ، جب وہ یہاں سے رخصت ہوئے تو جائز اور ناجائز کی تمیز کئے بغیر ان املاک کے مالک ہندوستان سے آنے والے مہاجر بن گئے۔ علاقائی اور مقامی مسلمان اسلئے خوش تھے کہ انگریزوں اور ہندوؤں کی جگہ مقامی حکمرانوں اور مہاجر مسلمانوں نے لی ، جو خوش آئند تھی لیکن جب خوشحال طبقہ مفاد پرست بن جائے تو علاقے کی عوام کبھی خوشحالی نہیں پاسکتے ہیں۔سول وملٹری بیوروکریسی میں میٹرک کرنے والے جن کی حیثیت متحدہ ہندوستان میں کلاس فور کی نوکری سے زیادہ نہیں تھی وہ یہاں آکر بڑے بڑے افسر بن گئے۔ جو درمیانے درجے کا طبقہ تھا اس نے میرٹ کی بنیاد پر ملک وقوم کی باگ دوڑ سنبھال لی۔ جو جنرل اور سیکٹری لیول کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے تو وہ بڑے بن گئے۔ فوج اور سول اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا تو گورنر جنرل قائداعظم اوروزیراعظم لیاقت علی خان کی لڑائی کا شاخسانہ یہ تھا کہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کی نہیں بنتی تھی اور قائد اعظم اسلئے لیاقت علی خان سے ناراض تھے کہ بھوپالی مہاجرین کو کراچی میں آباد کرکے اپنا حلقہ انتخاب بنانا چاہتے تھے۔ جب نووارد جمہوری لیڈروں کے پاس انتخابی حلقے تک بھی نہیں تھے تو وہاں سے اس میں جمہوریت کی بحالی کیلئے کوئی کام کرسکتے تھے اسلئے ہمارے ہاں جمہوریت کے بانی جنرل ایوب خان بن گئے ۔ جس کی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو قائدعوام نے جنم لیا تھا۔
انورمقصود نے بہت اچھا نقشہ کھینچاہے کہ مہاجر کو پتہ چل گیا کہ سندھ ، پنجاب ، بلوچستان اور پختونخواہ کے لوگ سید سے محبت کرتے ہیں تو انہوں نے اپنے شجرے بھی تبدیل کر ڈالے۔ جب لوگ نسلوں کی تبدیلی پر آگئے تو قصائی سید کا درجہ نہیں حاصل کرسکتے تھے لیکن قریشی بننے تک پہنچ گئے۔ جولاہے انصاری، تیلی عثمانی بن گئے۔ کوئی صدیقی،فاروقی اور علوی بن گیا۔ معروف اسلامی اسکالر جاویداحمد غامدی نے اسی روش میں غامدی کہلانے کا شوق پال لیا لیکن جب اس کو توجہ دلائی گئی کہ جب ایک صحابیہ غامدیہ پر سنگسار کرنے کا حکم جاری کیا گیا تو اس کا بچہ دودھ روٹی کھانے کے لائق بن گیا تھا اور اس بچے کی نسل سے غامدی کی نسبت ہوسکتی ہے تو جاوید احمدغامدی نے واضح کردیا کہ ”میرا عرب قبیلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں نے محض شوق کیلئے غامدی نسبت اختیار کرلی ہے”۔
جاوید احمد غامدی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ”عرب میں داماد کو اہل بیت قرار نہیں دیا جاتا ہے اور حضرت علی نبیۖ کے داماد تھے”۔ نبیۖ ابوسفیان کے بھی داماد تھے اور حضرت ابوبکر وعمر کے بھی داماد تھے۔ سسرالی رشتے کا کسی قوم کی تاریخ میں بھی اہل بیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ یہودونصاریٰ کی خواتین کی بھی مسلمانوں میں شادیاں ہوئی ہیں اور نبیۖ کی چھ ازواج مطہرات کا تعلق قریش سے تھا اور چار کا دیگر قوموں سے تھا اور ایک کنیز ماریہ قبطیہ کا تعلق عرب سے بھی نہیں تھا۔ عرب نہیں عجم میں بھی داماد اور سسر ایک دوسرے کے اہل بیت نہیں ہوتے ہیں۔حضرت علی نبیۖ کے چچازاد بھائی تھے، جب بنی امیہ سے خلافت کی مسند چھڑائی گئی تو بنوعباس نے خلافت پر اسلئے قبضہ کیا کہ وہ نبیۖ کے چچا کی اولاد ہیں۔ بنو امیہ کا طاقت اوربنوعباس کا نبیۖ سے قرابتداری کی بنیاد پر مسندِ خلافت کرنے کی تاریخ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے اور ان ادوار میں نبیۖ کے اہل بیت حسنی اور حسینی سادات پر مظالم کے پہاڑ ڈھانے کی وجہ بھی صرف یہی تھی کہ یہ لوگ اقتدار تک نہ پہنچ پائیں۔ بنی فاطمہ نے بھی اقتدار کا قبضہ سنبھالا تھا جو آغاخانی اور بوہری کی شکل میں آج موجود ہیں۔ امامیہ شیعہ نے پہلی مرتبہ ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اقتدار حاصل کیا ہے اور اس سے پہلے ان کے ائمہ کہتے تھے کہ ”ہم میں سے جو خروج کریگا وہ ایسے طائر کا بچہ ہوگا جس کو اغیار نے پالا ہوگا”۔ امام حسن نے خون کے دریا کو روکنے کیلئے امیر معاویہ کی امارت کو تسلیم کرلیا لیکن پھر اقتدار ظالم بادشاہت میں تبدیل ہوگیا۔ اسلام اور پاکستان کی کہانی بھی ایک دوسرے سے بالکل ملتی جلتی ہے۔اللہ خیر کرے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ