وائٹ کالر دہشت گرد سر امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر افغانستان، عراق، لیبیا، شام، پاکستان میں لاکھوں افراد کو قتل کیا
ستمبر 12, 2021
وائٹ کالر دہشتگرد امریکہ سر نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام ، پاکستان میں دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر لاکھوں کو لقمۂ اجل بنانے کے بعد وزیراعظم نیازی سے نیاز لینا ہے اور آرمی چیف جنرل باجوہ سے باجا بجوانا ہے، علتِ غلامی سے سرشارمیاں مٹھو شاہ محمود قریشی نے بتاناہے کہ ”یہ ہماری خدمات کا اعتراف ہے اسلئے امریکہ سلامی لینے ایک ماہ شرپسندوں کو رکھنا چاہتا ہے تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ انگریزکے ٹرینڈ وفادار غلام کتوں کی دُم ہلتی رہے گی!”
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
قرآن کی دھمکی اور ہماری زبوں حالی
قل ھو القادر علیٰ ان یبعث علیکم عذابًا من فوقکم او من تحت ارجلکم او یلبسکم شیعًا و یذیق بعضکم بأس بعض…
ترجمہ: ”کہہ دیجئے کہ وہ قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیجے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں بھڑادے مختلف گروہ کرکے اور چکھا دے لڑائی ایک دوسرے کی۔ دیکھ لو کہ ہم کیسے آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں شاید کہ وہ سمجھ جائیں۔ اور تیری قوم نے جھٹلایا جس کو ، اور وہ حق ہے ، کہہ دو کہ میں تمہارا داروغہ نہیں ہوں ۔ ہر ایک غیبی خبر کا ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تم جان لو گے اور جب آپ دیکھیں ان لوگوں کو کہ ہماری آیات میں موشگافیاں کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں۔ اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تویاد آنے پر مت بیٹھو اس ظالم قوم کیساتھ۔ اور ان لوگوں پر ان کے حساب میں سے کچھ بھی نہیں جو تقویٰ رکھتے ہیں۔ لیکن ان کو یاد دہانی کرانی ہے تاکہ وہ پرہیز کریں۔ اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے دین کو لہو ولعب بنایا ہوا ہے اور ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈالا ہے اور آپ نصیحت کریں قرآن کے ذریعے کہ کوئی اپنے کئے کی وجہ سے گرفتار نہ ہوجائے۔ نہ ہوگا ان کیلئے اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور سفارش کرنے والا۔ اگر بدلے میں دیں سارا کچھ تو بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گرفتار ہوئے اپنے کئے کے سبب ۔ ان کیلئے گرم پانی ہے اور دردناک عذاب جو وہ کفر کرتے تھے”۔
سورہ انعام :65سے70تک میں اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے لوگوں کیلئے بڑی سخت دھمکی لگائی ہے۔ خاص طور پر پیغمبروں اور نبی کریم ۖ کے دور والوں کیلئے۔ آج ہمیں بھی افغانستان ، عراق، شام، لیبیا اور دیگر ان ممالک کی طرح مشکلات کا سامنا نظر آرہا ہے کہ جب اپنے اندر استحکام سمجھنے والے مختلف طرح کے عذاب کا شکار ہوئے۔ تورا بورا پر خطرناک بم برسائے گئے اور عراق و لیبیا کا برا حال کیا گیا۔ آپس میں بھی گروہ در گروہ ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔
ان آیات میں قرآن کے مقابلے میں جن موشگافیوں کا ذکر ہے ہمارے علماء و مفتیان ، مدارس و مسالک اور فرقے اسی مرض کے بدترین شکار نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں نے دین کو کھیل تماشہ بنادیا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو دھوکے میں مبتلا کیا ہے۔ اہل کتاب کی طرح اللہ کے واضح احکام کے مقابلے میں بہت ساری فضول کی موشگافیوں میں مبتلا ہیں۔
اس شمارے میں قرآن کی واضح آیات کی زبردست نشاندہی کرنے کی اپنی سی کوشش کی گئی ہے۔ امید ہے کہ خطرناک حالات پیدا ہونے سے پہلے پہلے ہم قرآنی آیات اور احکام کے بارے میں فضول کی موشگافیاں چھوڑدیں گے اور حقائق کو دیکھ کر صراط مستقیم پر گامزن ہوجائیں گے۔ قرآن و احادیث میں ایک بڑے انقلاب کی زبردست خبر ہے ۔ جب ہم قرآن کی واضح آیات پر عمل پیرا ہوں گے تو نہ صرف ہماری مشکلات حل ہوں گی بلکہ قرآن کے ذریعے ہم مردہ قوم میں زندگی کی نئی روح دوڑجائے گی۔انشاء اللہ العزیز
_ طالبان کی جیت کابہت خیرمقدم_
طالبان کی افغانستان میں حکومت تھی اور پھر امریکہ نے حملہ کرکے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ امریکہ نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں بہت بڑا جانی نقصان دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر کیا۔ تیل کے ذخائر قبضہ کئے اور اپنا مشن مکمل کرنے کیلئے افغان حکومت اور طالبان کو لڑنے کیلئے چھوڑ دیا تھامگر بقول امریکہ کے اس کو یہ توقع نہیں تھی کہ افغان حکومت خون خرابہ کئے بغیر اتنی جلدی افغانستان کو طالبان کے حوالے کردے گی۔ اشرف غنی کا لڑائی کے بغیر حکومت چھوڑنا اور طالبان کا افغان حکومت کیلئے معافی عام کا اعلان خوش آئند اور بہت زیادہ مبارک بادی کے لائق ہے۔ افغانوں کا اپنا ملک چھوڑ کر بھاگنا طالبان کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ جو کچھ ہوچکاہے وہ ہوچکا ہے ،اب تعمیر نو کی فکر سب کو مل بیٹھ کر کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
طالبان نے پہلے کہا کہ جہاں حکومت کی فوج خود ہتھیار ڈال رہی ہے اس جگہ کا ہم کنٹرول حاصل کررہے ہیں۔ پھر صوبائی دارالحکومتوں کو چھوڑ کر علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا شروع کردیا تھا۔ پھر ایک دم سے صوبائی دارالحکومتوں کے قبضے سے گھبراکر اشرف غنی نے اقتدار چھوڑ دیا۔ قندھار ، مزارشریف پر مزاحمت کا بھی اشرف غنی نے حق ادا کیا تھا لیکن طالبان کے طوفان کے آگے افغانستان کی فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ پرائی تنخواہ پر پلنے والی فوج اور نظریاتی لشکر میں جو فرق وامتیاز ہونا چاہیے وہی افغان فوج اور طالبان میں تھا۔
قیاس آرائیوں کا سب کو حق ہے لیکن افواہیں اُڑانے سے ملک وقوم کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ امریکہ اپنی سرزمین پر ہمارے آرمی چیف، وزیراعظم ، صدر، وزیرخارجہ اور کسی بھی سیاسی رہنما کو ویزے کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور ہم نے مہربانی کرکے کراچی اور اسلام آباد کے ہوٹلوں کو انکے حوالے کیا ہے۔ البتہ اس بات میں بھی شک نہیں ہے کہ بڑی تعداد میں پاکستانی اور مسلمان امریکہ میں سچی اور جھوٹی سیاسی پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ایف سولہ طیارے امریکہ سے خریدے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بھارت کو زور آزمائی کا جواب دیا تھا۔
پہلے امریکہ 9/11کی وجہ سے پاگل ہوگیا تھا لیکن پھر بھی امریکہ میں بش کے بعد مسلمان حسین اوبامہ کا بیٹا بارک دومرتبہ امریکہ کا صدر بنا تھا۔ بڑابننے کیساتھ اللہ تعالیٰ دل بھی بڑا دیتا ہے۔ امریکہ نے انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے بارک حسین اوبامہ کو دومرتبہ صدر بنایا لیکن ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں کہ کسی پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان کے بیٹے کو قبول کرلیں۔ امریکہ نے بڑی بڑی وارداتیں کرکے دنیا میں اپنی امامت کا مقام کھو دیا ہے۔ پاکستان، ایران اور افغانستان کو بڑا مقام پانے کیلئے اپنا دل بھی بہت بڑا کرنا پڑے گا۔ قرآن میں عورتوں کو ستانے والوں اور افواہیں اڑانے والوں کو بہت بڑا مجرم قرار دیکر واضح کیا گیا ہے کہ پہلے بھی لوگوں کی سنت یہ رہی ہے کہ جہاں یہ پائے گئے بے دریغ قتل کئے گئے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر جھوٹ کی مشینوں اور عورتوں کو ستانے کا سلسلہ مکمل طور پر بند ہونا چاہیے۔
طالبان بھی اپنی غلطیاں تسلیم کریں
جب وحی کی رہنمائی کا سلسلہ موجود تھا تو اللہ نے نبیۖ اور صحابہ کرام کی لمحہ بہ لمحہ رہنمائی فرمائی۔ تائید اور تنبیہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ایک نابینا عبداللہ بن مکتوم کی آمد پر نبیۖ چیں بہ جبیں ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ عبس وتولیٰ نازل فرمائی۔ نبی ۖ فرماتے تھے کہ اس صحابی کی وجہ سے اللہ نے مجھے ڈانٹا ہے ۔ حضرت خولہ بنت ثعلبہ نے نبیۖ سے ظہار( طلاق )کے مسئلے پر مجادلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذیعے نبیۖ کے فتوے کے خلاف حضرت خولہ کی تائید فرمائی اور سورۂ مجادلہ میں مذہبی ذہنیت کے فتوے کی تردید فرمائی ۔ حضرت عمر حضرت خولہ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ غزوہ ٔبدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کا مشورہ حضرت عمر اور حضرت سعد کے علاوہ باقی سب اکابر صحابہ نے دیا تھا لیکن وحی اقلیت والوں کے حق میں نازل ہوئی تھی۔ پھر غزوۂ بدر میں سب نے انتقام لینے کی بات کی تھی تو اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیدیا تھا۔
جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا گیا تو صحابہ کرام اس معاہدے کے خلاف بھی برداشت کی حد سے نکل چکے تھے لیکن نبیۖ کے احترام میں مجبوراً قبول کیاتھا اور پھر اللہ نے اسی کو فتح مبین قرار دیدیا۔ پاکستان، افغانستان اور ایران کوئی بھی کسی گھمنڈ میں نہ رہے۔ قرآن کی تعلیمات کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنے نامۂ اعمال پر غرور وتکبر کی جگہ اپنی غلطیوں اور محاسبے کا خیال رکھیں۔ اللہ سے بہت اچھے کی اُمیدبھی رکھیں اور شامتِ اعمال کا خمیازہ بھگتنے کا خوف بھی رکھیں۔ حالات بہت نزاکت خیز بھی ہوسکتے ہیں اور بہت زیادہ اچھے دن بھی آسکتے ہیں۔ اُمید و خوف کے بیچ میں مؤمن کا ایمان رہتا ہے۔ طالبان کیلئے مذہبی طبقات اور پوری دنیا کو مطمئن کرنے کا چیلنج جوئے شیر لانے سے بھی بہت زیادہ مشکل کام ہے۔
جب طالبان نے داڑھی، تصویر، پردہ، نماز، موسیقی اور بہت ساری چیزوں پر اپنا انتہائی سخت مؤقف رکھا تھا تو وہ اپنے جذبے میں مخلص تھے لیکن آج جس طرح فکروشعور کی منزل پر پہنچے ہیں تو یہ زیادہ خوش آئند ہے۔ جب مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس کی جگہ بیت اللہ حرم کعبہ بن گیا تو بہت لوگوں کو اعتراض تھا مگر اللہ نے واضح کردیا کہ ” نیکی یہ نہیں ہے کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے”۔ جب طالبان نے پہلے شریعتِ اسلامی کو اس طرح سے سمجھا تھا تو ویسا عمل کیا اور آج جس طرح سے شریعت سمجھ میں آئی ہے تو اس پر عمل کررہے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح سے صلح حدیبیہ کے معاہدے کو مسلمانوں نے بادلِ نخواستہ قبول کیا تھا تو طالبان بھی مجبوری میں ساری دنیا کے طاقتور ممالک کو خوش کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
اگر اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہا جائے کہ طالبان اپنے اندر جو گلٹی محسوس کررہے ہیں وہ بھی در حقیقت کوئی گلٹی نہیں ۔ صحابہ نے پہلے سمجھا تھا کہ روزوں کی رات میں اپنی بیگمات سے جماع کرنا درست نہیں مگر اللہ نے واضح کیا کہ ” اللہ جانتا ہے کہ تم اپنی جانوں سے خیانت کرتے ہو ۔روزوں کی رات کو اپنی عورتوں کیساتھ بے حجاب ہونا تمہارے لئے حلال ہے”۔
اپنا حکمران طبقہ راہِ راست پرآئے!
ہماری سیاست، ہمارا مذہب اور ہمارے کلچر کا معیار نااہلوں کے ہاتھوں میں ذلت ورسوائی کی آخری منزل تک پہنچ گیا ہے۔ اشرف غنی کی حکومت بھی امریکہ کے سہارے کھڑی تھی لیکن خان عبدالغفار خان کے پڑپوتے ایمل ولی کو لمحہ بھر کیلئے بھی امریکہ کی شرارت اس میں دکھائی نہیں دی لیکن جونہی طالبان کی جیت سامنے آئی اور پاکستان نے ایک ماہ کیلئے امریکہ کو سہولتکاری فراہم کردی تو ایمل ولی کے پیٹ میں درد اُٹھ گیا۔ بیس سال سے امریکہ کو پاکستان نے اڈے فراہم کئے تھے اور افغان حکومتیں امریکہ کے سہارے چل رہی تھیں اور طالبان قطر میں اپنے معاملات امریکیوں سے طے کررہے تھے تو یہ سب یکساں طور پر ایک ہی طرح کی بات تھی اور کسی کو بھی خراج عقیدت پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
امریکہ ونیٹو نے اسلامی ممالک کا تیل چوری کرنے کیلئے افغانستان ، عراق، لیبیا اور شام کے لاکھوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنایا۔ پاکستان نے سہولت کاری فراہم کی اور طالبان نے دہشت گردی، اغواء برائے تاوان اور جو ممکن ہوسکا وہ خراب دھندہ کیا جس کی وجہ سے مسلمان اور اسلام مزید بدنام ہوگئے۔ امریکہ و نیٹو کے اقدامات کو تقویت پہنچی اور مسلمانوں کو خود بھی بہت تکلیف کا سامناکرنا پڑگیا۔ جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو پاکستان میں دہشت گردی کرنے والا طبقہ نظریاتی طور پر روس کا حامی ہوتا تھا۔ جو بھی اپنے استحکام کیلئے جس طرح کی پوزیشن لے سکتا ہے وہ اس سے دریغ نہیں کرتا ہے۔افغان حکومت اور بھارت ایک پیج پر تھے اسلئے پاکستان کا فطری جھکاؤ طالبان کی طرف تھا، پاکستان نے طالبان کیساتھ اپنی مجبوری میں زیادتی کی تھی ،طالبان سے حکومت چھن گئی تھی ، طالبان کی وجہ سے افغانستان میں خانہ جنگی کی فضاء ختم ہوسکتی تھی کیونکہ جب نیٹو کے ہوتے ہوئے طالبان کو ختم نہیں کیا جاسکا توافغان حکومت اکیلے صرف اور صرف بھارت کی مدد سے افغانستان امن کی جگہ بدامنی کی شرارت کرسکتا تھا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ مذہبی طبقے کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں۔ فوج کی مخالفت یا حمایت کی بنیاد پر اپنے پتے کھیلتے ہیں لیکن اپنے پلے کچھ بھی نہیں ہے۔ افغانستان میں کسی کی حمایت یا مخالفت کا تعلق محض طبقاتی بنیاد پر ہو تو اس سے افغانستان کے اپنے حالات کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک کی بھی درگت بنے گی۔ جب ہم اپنے حالات کو درست نہیں کرسکتے تو کسی اور کے بل بوتے پر آپس میں نظریات کی جنگ بھی نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کیلئے بھی ننگ وشرم کا مقام ہوناچاہیے لیکن ہم یہ مقام پار کرچکے ہیں۔ PDMنے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ چھیڑ دی مگر ن اورش لیگ نے کھلم کھلا دونوں طرف کھیلا ۔ ن فوج پر دباؤ اور ش مصالحت پر گامزن تھا۔ مرکزی اور پنجاب حکومت کو گرنے کا خطرہ تھا تو یہ ن لیگ نے اپنے مفاد میں پینترا بدل دیا۔ زرداری نے ٹھیک کہا کہ نوازشریف میدان میں آئے مگر ن لیگ نے بہت برا منالیا۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور افغانستان میں امارت اسلامیہ قائم ہوئی ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کا اصل نظریہ اور عمل پیش کردیں۔
طالبان پر شک وشبہ کی بڑی گنجائش
” میں جانتا ہوں انجام اس کا جس معرکے میں ملا ہوں غازی ”۔ علامہ اقبال کے اس شعر کی طرح اگر بہت سارے لوگ طالبان کی فتح کو بڑی سازش سمجھتے ہوں تو ان کی اس ذہنیت کا مذہبی طبقے کو بالکل بھی برا نہیں منانا چاہیے۔
ملا اور طالبان نے حقیقی اسلام کی جگہ اپنے روایتی اسلام پر عمل کیا تھا۔ ہیروئن کی کاشت، بھتہ خوری ، اغواء برائے تاوان ، غیرملکی ایجنسیوں سے رابطہ،گٹھ جوڑ ، دہشت گردی ، فرقہ واریت ، نسل پرستی اور دنیا کی وہ کونسی برائی ہے جس کا فقدان طالبان میںدکھائی دیتا ہو؟۔ لیکن یہ تمام خرابیاں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہی تھیں۔ اگر ان کو اچھا ماحول میسر آجائے تو پھر نہ صرف حقیقی اسلام کو نافذ کرینگے بلکہ عالمِ انسانیت بھی ان کو تہہ دل سے عقیدت وسلام پیش کرے گی۔
ایک تأثر یہ ہے کہ پہلے جو طالبان زبردستی سے نماز پڑھنے پر مجبور کرتے تھے تو اب اپنے مؤقف سے کیوں ہٹ گئے؟۔ کیا اسکے پیچھے امریکی ایجنڈا ہے؟۔
فقہاء نے لکھا، جس کا بریلوی مکتب کے مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن نے پچھلے سال کرونا کے مسئلے پر ذکر کیا کہ” عین لڑائی میں بھی نماز باجماعت فرض ہے۔ آدھے لوگ نماز پڑھیں گے اور آدھے لوگ اسلحہ لیکر دفاع کریںگے ”۔ عشرہ فاروق وشہیدحسینمنانے والے تقریر کرتے ہیں کہ حضرت عمر باجماعت نماز کی امامت کرتے وقت شہید کئے گئے اور اپنا دوسرا نائب بناکر نماز مکمل کی گئی اور حضرت عمر بہت زخمی حالت میں تڑپتے رہے۔ شیعہ عالم ایس ایم حیدر نے کہا تھا کہ ” حسین نماز میں نہ ہوتے تو دشمن شہید نہیں کرسکتے تھے”۔ اقبال نے کہا کہ
آیاجب عین لڑائی میں وقت نماز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودو ایاز
جب طالبان نے امریکہ کے خلاف جنگ لڑی تو نماز باجماعت چھوڑ دی اور عین لڑائی میں نماز پڑھنا بھی ممکن نہ تھا ۔مولانا طارق جمیل ، فقہاء اور شعراء کے مطابق نماز کی بہت زیادہ اہمیت کے باجود اس سے طالبان بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ کسی نے اقبال کو پڑھا تو سمجھا کہ ٹھیک کہا تھاکہ” نہ تونمازی نہ میں نمازی”۔
طالبان نے جہاد میں نماز اور باجماعت نماز کو چھوڑ دیا تو ان کا دوسروں کے بارے میں رویہ نرم پڑگیا۔ ملاعمر کے نظام سے انحراف کرنے پر طالبان کو اپنوں کی طرف سے خود کش حملوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ موسیقی کیخلاف ذبیح اللہ مجاہد کا بیان عکاسی کرتا ہے کہ طالبان کو اپنوںسے مزاحمت کا خطرہ ہے۔ اگر یہ آپس میں الجھ گئے تو اس کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔اگر آنکھیں بند کرکے اسلام کے بعض احکام پر عمل کیا گیا اور بعض کو نظر انداز کیا گیا تو پھر قرآن کی اس آیت کے مصداق ہوںگے أفتکفرون ببعض الکتٰب وتکفرون ببعض الکتٰب ” کیا تم کتاب کے بعض احکام کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟”۔
طالبان شوق سے تصاویر کھینچواتے ہیں اور اس کو اسلام کے خلاف بھی سمجھتے ہیں اور موسیقی نہیں سنتے ہیں اور پھر عوام پر بھی اس کی پابندی لگاتے ہیں؟۔ ان کا یہ رویہ قابلِ تعریف یا قابلِ تردید ہوگا؟۔ طالبان سے اتنی گزارش ہے کہ موسیقی پر صرف مغرب کی طرح پابندی لگائیں ۔ عوام کے گانے ہوں یا طالبان کے لیکن عوامی مقامات، پبلک ٹرانسپورٹ اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے دوسروں کو اذیت پہنچانے کے بجائے اپنے کانوں تک اس کو محدود رکھیں اور اس کو اسلام کا نام نہیں دیں بلکہ انسانیت کا دَم بھرنے کیلئے لوگوں کوایک پرسکون فضاء مہیا کریں۔
بہت بڑی غلط فہمی کا بہترین ازالہ
اللہ نے واضح فرمایا :وان خفتم فررجالًا او رکبانًا ”اور اگر تمہیں خوف ہو تو چلتے چلتے یا سوار ہوکر بھی نماز پڑھو”۔ ظاہر ہے کہ چلتے چلتے اور سوار ہوکر رکوع وسجود اور قیام پر عمل نہیں ہوسکتا۔پھر امن کی حالت آئے تو معمول کی نماز جس طرح سکھائی گئی ہے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نمازِ خوف کی وضاحت کے بعد سفر کی نماز کا حکم یہ ہے کہ” سفر میں نماز کے قصر کا حکم نہیں بلکہ اجازت ہے”۔ یعنی اگر پوری نماز پڑھ لیں تو حرج نہیں۔ مثلاً امام مسافر اور مقتدی مقیم ہیں تو مسافر امام پوری نماز پڑھ لے تو بھی حرج نہیں لیکن جب مقتدی مسافر امام کے پیچھے اپنی آدھی نماز پڑھیں تو فقہی مشکلات کا شکار ہوںگے۔ ایک طبقہ کہے گا کہ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی اور دوسرا طبقہ کہے گا کہ فاتحہ پڑھی جائے گی۔ اللہ کے احکام کو موشگافیوں کا شکار کرنے والے مجرموں کی قطار میں شامل ہونگے۔
سفر میںنمازِ قصر کے بعد فرمایا کہ ” اگر تمہیں خوف ہو کہ دشمن تم پر کسی وقت بھی انجانے میں حملہ کرسکتا ہے اور نبی ۖ تمہارے اندر موجود ہوں اور وہ باجماعت نماز پڑھانا چاہیں تو پھر تمہیں چاہیے کہ ایک گروہ پہرہ دے اور دوسرا گروہ نماز پڑھتے ہوئے اپنے اسلحے کو تھامے رکھے اور اپناہوش ٹھکانے رکھے۔ پھرجب یہ گروہ سجدہ کرلے تو پیچھے ہٹ جائے اور دوسرا گروہ نماز میں شامل ہوجائے اور اپنا اسلحہ تھامے رکھے ۔ایسا نہ ہو کہ دشمن تمہیں غفلت میں پاکر ایک دم حملہ کردیں اورکام تمام کردیں۔ جب بارش یا بیماری کی حالت میں تم اپنا اسلحہ رکھ دو تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور ایسی حالت میں کھڑے ہونے، بیٹھنے اور لیٹنے کی صورت میں اللہ کا ذکر کرو اور جب اطمینان کی کیفیت میں آجاؤ تو پھر نماز کومعمول کے مطابق قائم کرو اور بیشک اللہ نے اوقات کے مطابق تم پر نماز فرض کی ہے”۔
اس نماز کا جنگ سے تعلق نہیں بلکہ یہ سفر میں خوف کے وقت رہنمائی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اگر نبیۖ نماز باجماعت چاہیں تو یہ حکم ہے۔ ضروری نہیں کہ سفر میں باجماعت نماز ہو اور بارش و مرض میں بھی اسلحہ رکھنے کی گنجائش واضح ہے۔ اگر قرآن سمجھ لیا جاتا تو طالبان رہنماؤں کو خوف کی حالت میں نماز باجماعت نہ پڑھنے کی گنجائش نظر آتی اور جذبہ جہاد سے سرشار لوگ میدان جنگ میں نماز نہ پڑھتے تو اپنے آپ کو ملامت کے قابل نہ سمجھتے۔ جب ایک طرف وہ مجبوری میں نماز ترک کریں اور دوسری طرف مولانا طارق جمیل جیسے لوگوں کو اپنا پیشواء سمجھیں جنکے نزدیک قتل، زنا بالجبر، ڈکیتی، شرک اور ہرچیز سے نماز چھوڑنابرا ہو تو پھر اسکے مذہبی خمیر کے آٹے سے عجیب لوگوں کی پکی پکائی روٹی تیار ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے نشے کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے روکا ہے یہاں تک جب وہ سمجھیں جو کہہ رہے ہیں اور حالت جنابت میں بھی مگرکوئی مسافر ہو، یہاں تک کہ تم نہالو۔ آیت میں نماز پڑھنے سے جنابت میں روکا گیا ہے اور مسافر کیلئے غسل کئے بغیر بھی اجازت ہے یعنی تیمم سے۔ حضرت عمر نے سفر میں جنابت کی وجہ سے نماز کو ترک کیا اور حضرت عمار نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نمازیں پڑھ لیں۔ نبیۖ نے قرآن کے مطابق دونوں کی تائید فرمائی اسلئے کہ ایک نے گنجائش کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی۔ دوسرے نے گنجائش کی وجہ سے نماز پڑھ لی۔قرآن وسنت میں دونوں کیلئے گنجائش تھی لیکن بعد میں اس پر مسالک کی بنیاد رکھی گئی کہ کس کا مؤقف درست اور کس کا غلط ہے؟۔
طالبان کامیاب کیسے ہوسکتے ہیں؟
حنفی مسلک کا بالخصوص اور باقی مسالک کا بالعموم پہلا اصل اصول ہے کہ ”قرآن میں مسئلے کا حل موجود ہو تو قرآن سے حل کیا جائے ۔اگر حدیث قرآن سے ٹکرائے تو حدیث کو ترک کرکے قرآن پر عمل کیا جائے ”۔ پھر دوسرے نمبر پر حدیث ہے ، تیسرے نمبر پر اجماع اور چوتھے نمبر پر قیاس ہے۔ قیاس شریعت کی مستقل دلیل نہیں بلکہ کسی معاملے کو قرآن، حدیث یا اجماع پرقیا س کیا جائے تو یہ قابلِ قبول ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” میری اُمت کبھی گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوگی”۔
یہ جہالت ہے کہ ”بنیادی دلیل اجماع ہے، قرآن پر حضرت عثمان کے دور میں اجماع ہوا لیکن حضرت ابن مسعود نے اختلاف کیا تھا۔ جب تک قرآن پر اجماع نہ تھا تو کسی آیت یا سورة کا انکار کرنا کفر نہ تھا لیکن جب اُمت کا اجماع ہوگیا تو اب کسی سورة یا آیت کا انکار کفر ہے”۔(علامہ غلام رسول سعیدی)
صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس نے حضرت علی سے روایت نقل کی ہے کہ ” رسول اللہۖ نے ہمارے پاس دوگتوں کے درمیان (قرآن) کے علاوہ کچھ نہ چھوڑا تھا”۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا ہے کہ ”ابن عباس نے حضرت علی کا یہ قول محض شیعوں کو رد کرنے کیلئے نقل کیا تھا ،ورنہ اصل بات یہ تھی کہ قرآن کے نقل پر صحابہ کا اجماع نہیں تھا”۔(کشف الباری)
مسلک حنفی میں خبر واحد یا مشہور کی آیات قرآن ہیں جو اصولِ فقہ میں پڑھایا جاتا ہے تو پھراحادیث اور اجماع کی اپنی کونسی حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟۔ حنفی خبرواحد کی آیت سے دلیل لیتے ہیں لیکن شافعی اس کو نہیں مانتے اور جمہور حدیث کو دلیل بناتے ہیں مگر حنفی اس کو قرآن سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ اجماع کا اصولِ فقہ کی کتابوں میں لکھ دیا ہے کہ” اہل مدینہ، خلفاء راشدین اور ائمہ اہل بیت کا اپنا اپنا اجماع بھی حجت ہے”۔جس سے اجماع کی اپنی حیثیت بھی متنازع بنادی گئی ہے کیونکہ ان اجماعوں کا آپس میں بھی تصادم ہے۔
ہمارا بہت بڑا المیہ ہے کہ مسالک کی بنیاد پر پہلے نمبرپر قیاس کو رکھتے ہیں، دوسرے نمبر پر الٹے سیدھے اجماع کا تصور پیش کرتے ہیں ، تیسرے نمبر پر احادیث کو موضوع بحث بناتے ہیں اور قرآن کو آخری چوتھے نمبر پر رکھتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں آیات کا اضافہ نہیں تھا بلکہ جلالین کی طرح تفسیرلکھی۔ جب عرصہ بعد ابن مسعود کے مصحف کو کسی نے دیکھا تو اس کا پہلا اور آخری صفحہ پھٹ چکا تھا اسلئے راوی نے کہا کہ میں نے ابن مسعود کے مصحف کی زیارت کی لیکن اس میں سورة فاتحہ اور آخری دو سورتیں موجود نہیں تھیں۔ راوی کی بات کا بتنگڑ بنانے والوں نے قیاس آرائیوں سے ملمع سازی کا بازار گرم کردیا اور ابن مسعود کو قرآن کی آخری دوسورتوں کا منکر بنادیا۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے رحم کردیا اور واضح کیا کہ ابن مسعود کے وقت میں قرآن پر اجماع نہیں تھا اسلئے وہ کافر نہ تھے مگر اب اجماع ہوگیا ہے اسلئے کوئی اس کا انکار کردے تو کافر ہوگا۔مگریہ نہیں سوچا کہ اجماع کو قرآن اور صحابہ پر مقدم کردیا۔
جمہور اور اجماع میں فرق ہے۔ اجماع کا معنی یہ ہے کہ کوئی ایک فرد یا گروہ بھی اس کا مخالف نہ ہو۔ امت مسلمہ کا کمال یہی ہے کہ اختلافات ہی اختلافات ہیں لیکن گمراہی کی کسی بات پر بھی الحمدللہ آج تک کسی دورمیں اجماع نہیں ہوا۔
جاگیرداری وسودی نظام اصل مسئلہ
علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات ہٹ دھرمی اور بے ایمانی کو چھوڑ کر مدارس کا نصاب درست کریں۔ پاکستان ، افغانستان ، سعودیہ، ایران اور دنیا بھر سے علماء و مفتیان کو دعوت دی جائے تاکہ ایک سلیس نصاب کیلئے دین کو اجنبیت سے ہم باہر نکالنے میں اپنا زبردست کردار ادا کریں۔ جب سود کی حرمت کی آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دے دیا۔ کاشتکاروں کو کاشت کیلئے مفت میں زمین دینے کا حکم فرمایا۔ غلام ولونڈی کا نظام جاگیرداری کی وجہ سے ہی دنیا میں آیاتھا۔ جنگوں میں ابوسفیان اور اس کی بیگم ہند سے کلبھوشن یادیواور ابھی نندن تک کسی کو گھر کا غلام اور لونڈی بناکر خدمت لینا مشکل نہیں ناممکن بھی ہے۔ نبیۖ نے جاگیردارانہ نظام کو سود قرار دیا تو مزارعین کی غلامی کا دروازہ بند ہوگیا۔ فقہ کے چاروں امام نے احادیث کے مطابق مزارعت کو ناجائز قرار دیا تھا لیکن حیلہ سازوں نے پھر قرآن وسنت اور فقہ کے ائمہ کرام سے انحراف کیا اورجاگیرداری کو جواز بخش دیا۔ پہلے جاگیرداری نظام واحد وجہ تھی جس سے لوگ لونڈی اور غلام بنانے کے دھندے کو تقویت دیتے تھے اور آج بینکنگ کا نظام وہ ناسور ہے جس سے پورے کے پورے ملکوں کو عالمی طاقتیں اپنا غلام بنارہی ہیں اور اس کو بھی آج نہ صرف اسلامی قرار دیا گیا بلکہ پاکستان کے ائیرپورٹ اورموٹر وے کو بھی گروی رکھ دیا گیا ہے۔ جب ہمارے پاس سودی قرض اتارنے کیلئے کچھ نہیں ہوگا تو عالمی طاقتیں ائیرپورٹ اور موٹر وے پر قابض ہوجائیں گی اور جس طرح صدام حسین کو عراق کے ججوں نے پھانسی کے پھندے پر چڑھایا اور عراق کا ڈھانچہ امریکہ کیلئے استعمال ہوا ، اس سے بڑھ کر عالمی طاقتیں پاکستان کو ایٹمی قوت ہونے کے باجود اونٹ کی طرح ناک میں نکیل ڈال دیں گی۔ اور ہماری عدالتوں ، پولیس اور فوج کی طرف سے غلامی کو بصد خوشی قبول کیا جائیگا۔
طالبان افغانستان کو اپنی حکمت عملی سے امن وامان کا گہوارہ بنائیں اور سود کی لعنت سے حلالہ کی لعنت تک اپنی جان چھڑائیں۔ جب عورتوں کو اسلام کے مطابق آزادی اور تحفظ ملے گا تو دنیا بھر سے اتنے سیاح آئیں گے کہ ان کی اپنی معیشت بہت مضبوط ہوجائے گی۔ افغانستان اور وزیرستان میں غیرملکی سیاح اسلئے نہیں آتے تھے کہ خواتین اور فیملی والوں کے دلوں میں ایک خوف تھا جس کو اسلامی احکام کے ذریعے تحفظ دیکر دنیا بھر سے نکالا جاسکتا ہے۔
جس دن طالبان نے عورت کے اسلامی حقوق کا نمبر وار اعلان کرکے اپنے آئین کو دنیا کے سامنے پیش کردیا تو پاکستان کی خواتین بھی اپنا ووٹ اسلام کے حق میں استعمال کریں گی۔ بندوق اور بارود کی جگہ گھروں میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ شروع ہوجائے گا۔ اسلامی حدود کے اجراء کو دنیا بھر میں بہترین اور قابلِ عمل قرار دیا جائے گا ۔ افغانستان، پاکستان، عراق، شام ، لیبیا اور دنیا بھر کی عوام جنگ وجدل سے تنگ آچکے ہیں۔ دنیا کو امن وامان کا گہوارہ بنانے کیلئے افغانستان کے طالبان کا کردار سب سے اہم ہوسکتا ہے۔ حلالہ واحد سزا ہے جس کی لعنت کو علماء کرام نے زندہ کر رکھا ہے مگر یہ بھی قطعی طورپراسلام نہیں ہے۔
جب تک لعان کے حکم پر عمل، حلالہ کے بغیر رجوع کی آیات اور عورت کے جملہ حقوق کا معاملہ زندہ نہیں ہوتا تو اسلام کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچانا ممکن نہیں۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ