خواتین کے حقوق کا قرآنی آیات سے ٹھوس لائحہ عمل…. اداریہ نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ معراج اپریل 2018
اپریل 18, 2018
خلع
بعض اوقات شوہر بیوی سے علیحدگی چاہتا ہے جسے طلاق کہتے ہیں، قرآن میں سورۂ طلاق بھی ہے اور طلاق کے حوالے سے سورۂ بقرہ اور دیگر سورتوں میں تفصیل سے احکام بھی ہیں۔ عورت علیحدگی چاہتی ہو تو اسے خلع کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں پہلے عورت کو خلع کا حق دینے کی وضاحت فرمائی ہے اور پھر بعد میں شوہر کیلئے طلاق دینے میں بھی عورت کے حقوق کو واضح فرمایا ہے۔ اگر دنیا نے قرآنی آیات کو سمجھ کر دستور العمل بنایا تو انقلاب آجائیگا۔
فرمایا: اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ اپنی عورتوں کے زبردستی مالک بن بیٹھواور ان کو اس لئے مت روکو کہ تم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ ان سے لے لو۔ مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ اور انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر وہ تمہیں بری لگیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر رکھ دے۔ (سورہ نساء : آیت 19)۔
اللہ تعالیٰ نے نساء کا لفظ قرآن کے مختلف مقامات پر بیگمات کیلئے استعمال کیا ہے۔ اردو، پشتو وغیرہ میں بھی عورت کا لفظ بیوی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ جب بیوی سے نکاح ہوتا ہے تو شوہر معاشرے میں مالکانہ حقوق کی طرح طرز عمل رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح کیا کہ زبردستی سے شوہروں کیلئے حلال نہیں کہ ان کے مالک بن بیٹھیں۔ اگر وہ خلع لے کر جانا چاہیں تو ان کو اسلئے نہ روکیں کہ حق مہر کے علاوہ جو کچھ ان کو دیا ہے ان سے وہ واپس لے لیں، مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ ایسی صورت میں دی ہوئی بعض اشیاء سے محروم کرنا درست ہے۔ جب عورت خلع لے کر علیحدہ ہورہی ہو تو مرد کی طرف سے بدسلوکی کے خدشے کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ پھر بھی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر اس اقدام کی وجہ سے وہ تمہیں بری لگیں تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر رکھ دے۔
دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ اور ملک و قوم قرآن کے اس حکم سے انکار اور کفر کا روادار نہیں ہے۔ جب عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہو تو اس شوہر سے بڑا بے غیرت کوئی نہیں ہوسکتا ہے کہ پھر بھی عورت کو خوامخواہ مجبور کرے کہ وہ اسکے ساتھ رہے گی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ شوہر طیش میں آکر چپل اور کپڑے اتارنے تک کی بات کرے اور بعض دی ہوئی قیمتی اشیاء واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالے لیکن قرآن نے اس آیت کے واضح حکم میں شوہر کو ایسا کرنے سے روکا ہے۔ البتہ اگر کھلی ہوئی فحاشی کی عورت مرتکب ہو توپھر بعض چیزوں کی گنجائش ہے۔ علیحدگی کی اس صورتحال پر اللہ نے حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور یقیناًاس میں اللہ نے بہت سارا خیر رکھا ہے۔ عورت کو زبردستی سے رُکنے پر مجبور کیا جائے تو وہ شوہر کو زہر کھلا سکتی ہے ، گلا دبا سکتی ہے ، اپنا خاتمہ کرسکتی ہے اوربچوں کی زندگی بھی ختم کرسکتی ہے، معاشقہ کرکے شوہر کی عزت کو داغدار کرسکتی ہے۔ سکون تباہ رہے گا ۔ عورت کا مقصد ہی سکون ہوتاہے اور متبادل میں کوئی دوسری عورت خیر کثیر بن سکتی ہے۔
عورت کمزور ہوتی ہے اور شوہر طاقتور ہوتا ہے ۔ خان ، نواب، سردار، بادشاہ اور طاقتور مردوں کے سامنے ایک کمزور مذہبی رہنما اور پیشوا کمزور عورت کے حق کی بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتا ۔ گلی،محلہ ، گاؤں، شہر اور ملک سے طاقتور طبقہ ان کو بھگادے گا اور زکوٰۃ خیرات سے بھی محروم کردے گا۔ امام اعظم امام ابو حنیفہؒ کی سیرت میں لکھا ہے کہ عباسی خلیفہ نے اپنی بیوی کے سامنے ان سے پوچھ لیا کہ دوسری بیوی کی گنجائش اسلام میں ہے یا نہیں؟۔ امام ابو حنیفہؒ نے آیت پڑھی جس میں پہلے دو دو ، تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کرنے کی گنجائش ہے لیکن پھر عدل قائم نہ کرنے کی صورت میں ایک ہی کی وضاحت ہے ، جس پر پہلے بادشاہ خوش ہوا اور ملکہ ناراض ہوگئی مگر پھر ملکہ خوش ہوئی اور بادشاہ سے کہا کہ آپ عدل نہیں کرسکتے ، اسلئے تیرے لئے دوسری کی گنجائش نہیں۔ اس واقعہ ہی کی بنیاد پر بادشاہ نے دل میں بغض رکھا اور امام ابو حنیفہؒ کو جیل میں ڈالا۔
رسول اللہ ﷺ سے زیادہ بڑی شخصیت کا تصور بھی نہیں ہوسکتاہے لیکن قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرات اُمہات المؤمنین ازواج مطہراتؓ کیلئے بھی واضح فرمایا تھا کہ ’’ان کو علیحدہ ہونے کا اختیار دے دیں‘‘۔ جب حضرت علیؓ نے ابو جہل کی لڑکی سے شادی کرنا چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’پھر میری بیٹی کو طلاق دو اسلئے کہ اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں‘‘۔ پاکستان میں یہ قانون قرآن و سنت کے منافی ہے کہ دوسری شادی کیلئے پہلی سے اجازت لی جائے، لوگ پہلی کو مجبور بھی کرلیتے ہیں اور قتل بھی کردیتے ہیں البتہ یہ وضاحت ہونی چاہیے کہ دوسری شادی پر پہلی کو طلاق کا مکمل اختیار ہوگا۔ پاکستان میں بیوی خلع لینا چاہتی ہے اور شوہر طلاق نہیں دینا چاہتا ہے تو عورت عدالت سے رجوع کرتی ہے۔ عدالت سے خلع کاحکم جاری ہوتا ہے تب بھی حنفی مکتبہ فکر کے بہت سے علماء یہ فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی، نکاح بدستور قائم ہے جب تک شوہر خود طلاق نہیں دے۔ حالانکہ حنفی مکتب کے بڑے مدارس جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دار العلوم نعیمیہ کے علماء و مفتیان نے بھی عدالت کی طرف سے خلع پر طلاق کا فتویٰ جاری کردیا ہے۔ حنفی مکتب کی طرف سے خلع واقع ہونے کیلئے شاید دوسرے مسالک سے استفادہ ہوا ہے جبکہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کا بھی یہی بنیادی تقاضہ ہے کہ عدالت کے بغیر بھی طلاق ہو۔
قرآن کی آیت و ان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم Oاور اگر ان کا عزم طلاق کا ہو تو اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔(البقرہ: 227)۔ قرآن کی اس آیت میں پہلی بات طلاق کا ذکر ہے ۔ اس سے پہلے والی آیت میں چار ماہ تک انتظار کا حکم ہے۔ امام ابو حنیفہؒ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے چار ماہ تک اس انتظار کے باوجود رجوع نہ کرنے کو طلاق قرار دیا ہے جبکہ جمہور کے نزدیک جب تک شوہر طلاق کا اظہار نہ کرے تب تک عورت زندگی بھر انتظار کرے گی۔ اس کا تقاضہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ امام ابو حنیفہؒ کا مسلک کم از کم عدالتی خلع پر واضح ہوتا۔
ترقی یافتہ دنیا نے بہت بعد میں عورت کو خلع کا حق قانون قرار دیاجبکہ اسلام نے 14سو سال پہلے قرآن کی واضح آیات اور احادیث صحیحہ میں عورت کے اس حق کو بہت اچھی طرح سے واضح کیا۔ افسوس ہے کہ سورہ بقرہ آیت 229میں خلع کا تصور نہیں بلکہ عدت کے تین مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں رجوع کا فیصلہ کرنے کے بجائے علیحدگی کا فیصلہ کیا جائے اور پھر دونوں آئندہ رابطہ نہ رکھنے پر متفق ہوں۔ معاشرہ بھی یہی فیصلہ کرے تو مرد کی طرف سے دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز واپس لینا گوکہ حلال نہیں لیکن جب وہ رابطے کا ذریعہ بنے اور دونوں کی طرف سے اس خدشے کا احتمال ہو کہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی گناہ نہیں،یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز پراللہ نے ظالم قرار دیا ہے ۔یہ آیات محکمات ہیں مگرخلع میں مضحکہ خیز طریقے پر بلیک میلنگ کو بھی جائز کہا گیا۔
عدت
اللہ نے مختلف آیات میں خواتین کے حقوق کیلئے ہی عدت کے احکام واضح کئے ۔ جب شوہر طلاق کا اظہار نہ کرے اور زندگی بھر اس کو لٹکانا چاہے تو اللہ نے سب سے پہلے عدت کی اس صورت کو ہی واضح فرمایا ۔ عربی میں اس صورتحال کو ایلاء سے تعبیر کیا گیا، امام مالکؒ نے واضح کیا کہ ایلاء صرف شوہر کی ناراضگی ہے، حلف نہیں۔ اللہ نے واضح کیا کہ لغو قسم یا عہد پر اللہ نہیں پکڑتا مگر دل کے گناہ پر پکڑتا ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھاتے ہیں ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے۔ پھر اگر وہ راضی ہوئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے۔ طلاق والی عورتوں کیلئے تین مراحل (طہر و حیض ) کا انتظار ہے۔ (البقرہ: آیت 228-227-226-225)
انتظار کیلئے تربص کا لفظ یکساں ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ آیت 226میں تربص سے کوئی چیز مراد لی جائے اور 228میں کوئی چیز مراد لی جائے، دونوں جگہ عدت ہی مراد ہے۔ اگر عورت کو حیض نہ آتا ہو تو پھر طلاق کی صورت میں انتظار یا عدت تین ماہ ہے۔ ناراضگی کی صورت میں شوہر کا پہلے سے عزم طلاق کا تھا تو اس دل کے گناہ پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ انتظار ایک ماہ اسکی وجہ سے بڑھ جاتا ہے اور یہ عورت کی حق تلفی ہے۔ چنانچہ طلاق کی عدت تین ماہ اور ناراضگی کی عدت چار ماہ ہے، معاشرتی تعلق بحال رکھنے کیلئے یہ انتظار خواتین کے مفاد میں ہے۔ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ انسان سوچ سکتا ہے کہ بیوہ چار ماہ دس دن انتظار کی پابند ہو تو طلاق کا عزم رکھنے کے باوجود چار ماہ انتظار پر پکڑ نہ ہونی چاہیے، لیکن ناراضگی و طلاق کی صورتیں مختلف نہیں اسلئے ایک ماہ کی مدت پر بھی پکڑ ہوگی۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد کو زیادہ شادی کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کیلئے عدت کا کوئی تصور نہیں۔ عورت کا رشتہ ایک ہی شوہر سے ہوتا ہے اور پھر بھی عدت چار ماہ ، تین ماہ اور چار ماہ دس دن تک عورت ہی کو گزارنی پڑتی ہے۔ کمزور کے حق کا اس میں تحفظ ہے یا پھر یہ عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی اور حق تلفی ہے؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ان تمام صورتوں میں خواتین کی فطرت ہی کا تحفظ ہے اور صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی ہے کہ ’’خلع کی صورت میں عورت کی عدت ایک حیض ہے‘‘۔ طلاق کی صورت میں شوہر علیحدگی چاہتا ہے اور خلع کی صورت میں بیوی علیحدگی چاہتی ہے۔ عورت خلع چاہتی ہو تو ایک حیض کی عدت بھی خواتین ہی کے مفاد میں ہے کیونکہ حیض کے بعد دوسری جگہ نکاح ہو تو پھر دوسرے شوہر کو اپنی اولاد کا یقین ہوگا۔ حمل کی صورت میں عورت کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔ آیت میں طلاق سے رجوع کیلئے بالکل واضح ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحا (اور انکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں اصلاح کی شرط پر ) ۔ عورت کی رضا کے بغیر طلاق کے بعد عدت میں بھی شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ وان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما (اگر ان دونوں کا پروگرام اصلاح کا ہو تو اللہ تعالیٰ دونوں میں موافقت پیدا کردے گا)۔ یہ تونہیں ہوسکتا کہ عدت میں بھی اصلاح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا حق ہو اور پھر عدت کی تکمیل پر بار بار اللہ نے غیر مشروط رجوع کا حکم دیا ہو۔ بڑی بات یہ ہے کہ اللہ نے صلح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا بلکہ اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دیا ہے۔ طلاق کی وجہ یہ بنتی ہے کہ شوہر یا بیوی کو کسی معاملے میں اس کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔
مثلاً عورت زبان چلاتی ہے اور شوہر مارتا پیٹتا ہے اور اس بگاڑ کی وجہ سے نوبت طلاق اور علیحدگی تک پہنچتی ہے۔ پھر عدت کے آخری مرحلے میں میاں بیوی کے درمیان صلح ہوجاتی ہے۔ دو مہینے گزرنے کے بعد جب صلح ہوجائے اور پھر عورت زبان چلائے اور مرد پیٹنا شروع کردے تو یہ دو ماہ کی عدت رائیگاں جائیگی۔ اسلئے قرآن نے اصلاح کے الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔ اگر صلح ہوگئی مگر اصلاح نہیں ہوئی تو یہ صلح معتبر نہ ہوگی۔ دو ماہ کی عدت معتبر قرار دی جائے گی اور اصلاح نہ ہونے کی صورت میں ایک ماہ اور یعنی وہی تین ماہ کا انتظار ہوگا۔
حدیث ہے کہ تین چیزیں سنجیدگی اور مذاق میں معتبر ہیں طلاق، عتاق اور رجوع۔ عتاق غلام یا لونڈی آزاد کرنے کو کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ آزاد کردیا اور پھر کہہ دیا کہ مذاق کررہا تھا تو مذاق میں بھی آزادی ملے گی۔ اگر نہ ملے تو یہ اس غلام یا لونڈی کی حق تلفی ہوگی۔ یہ بات سب کو آسانی سے سمجھ میں آتی ہے مگر مذاق میں طلاق اور رجوع کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر شوہر طلا ق دے اور پھر کہے کہ میں مذاق کررہا تھا اور عورت اس کو سنجیدگی سے نہ لے تو اس طلاق کی کوئی حیثیت نہیں البتہ اگر عورت نے سنجیدہ لیا اور ڈٹ گئی کہ اب شوہر کیساتھ نہیں رہنا ہے تو پھر یہ طلاق مذاق میں معتبر ہے۔ خلع و طلاق میں فرق معاملات کا ہے۔ خلع میں عورت کو اپنا گھر بار چھوڑ کر نکلنا پڑتا ہے اور طلاق میں ہر چیز سے شوہرہی کو دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت 21-20میں طلاق کی وضاحت ہے۔
حقوق پر خلع اور طلاق کی صورتوں میں بہت بڑا اور واضح فرق پڑتا ہے۔ جیسے لونڈی اور غلام کو آزاد کرنے میں حق کا معاملہ ہوتاہے اسی طرح سے طلاق کی صورت میں بھی اصل مسئلہ عورت کے حق کا ہوتا ہے۔ یہ قرآن و سنت اور فطرت کے ساتھ بڑا مذاق ہوگا کہ کوئی شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے طلاق دی اور عورت ڈٹ جائے لیکن مرد کہے کہ یہ ایک مرتبہ کی طلاق کا مذاق ہے جبکہ دو مرتبہ کیلئے میرے پاس گنجائش ہے۔ طلاق مرد کا فعل ہے لیکن رجوع بیوی کے راضی ہونے سے مشروط ہے۔ اگر شوہرنے رجوع کرلیا اور عورت اس کیلئے راضی نہ ہو تو مذاق کیا سنجیدگی میں بھی رجوع معتبر نہیں ہے۔ اگر شوہر نے رجوع کرلیا، بیوی نے رضامندی ظاہر کردی تو پھر اگر شوہر کہے کہ میں نے مذاق کیا تھا تو رجوع کو معتبر سمجھا جائے گا۔ اس رجوع کی وجہ سے شوہر کو بیوی کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ اس بات سے اس کو چھٹکارا نہیں مل سکتا ہے کہ میں نے مذاق کیا تھا۔
اگر شوہر کو یہ حق دیا جائے کہ ایک بار طلاق کے بعد رجوع کرسکے اور دوبارہ طلاق کے بعد پھر رجوع کرسکے اور پھر طلاق دے تو یہ عورت کیلئے ایک نہیں کئی عدتوں کا قانونی حق شوہر کو دینا ہے جو قرآن اور فطرت کے سراسر منافی ہے۔ نکاح و طلاق اور معاہدہ (متعہ،ایگریمنٹ) کے درست احکام کو واضح کیا جائے تو پوری دنیا اپنے غیر فطری اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو چھوڑ کر قرآن وسنت اور اسلام کی طرف بہت خوشی اور رغبت کیساتھ رجوع کریگی۔ مدارس کے ارباب علم و فتویٰ کو بڑے پیمانے پر اس نصاب کا جائزہ لینا ہوگا جو اسلام کے اجنبی بن جانے کے بعد بتدریج مختلف ادوار میں تشکیل دیا گیا ۔ بہت خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے کہ بڑے مدارس کے بڑے علماء کرام و مفتیان عظام نے ہماری تحریک کو دل سے پسند کرنا شروع کیا ہے۔اُمید ہے کہ اعلان کردینگے۔
خواتین معاشرے کا پسا ہواکمزور ، مجبوراور مظلوم طبقہ ہے، جن پر حق حکمرانی کادرست تصور پیش کیا جائے اور بدترین جابرانہ غلامی اور ظلم سے نکالا جائے تویہ اسلامی انقلاب اور دنیا کو جبرو ظلم کے نظام سے نکالنے کا بہترین آغاز ہوگا۔
طلاق
شوہر نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے تو نصف حق مہر دینا اللہ کا قانون ہے اور عورت پر عدت بھی نہیں ۔ مکان ، دکان، پلاٹ وغیرہ لیا جاتا ہے تو پانچ دس فیصد سے بھی کم بیانہ ہوتا ہے۔ اللہ نے نصف حق مہر کا بیانہ مقرر کرکے خواتین کے حقوق اور عزت کی کتنی پاسداری کی ؟ ۔ اگر نکاح پر آدھا حق مہر ہو تو ہمبستری پر پورے حق مہر سے انکارکون بدفطرت کرسکتا ہے؟۔ مردوں کیلئے عورتوں پر اس سے بڑا درجہ کیاہے کہ نکاح یا ملاپ پر جدائی کے اثر کا خمیازہ عورت کو بھگتنا پڑتا ہے اسلئے مردوں پر اس کی وجہ سے حق مہر کا جرمانہ عائد ہے اور صنف نازک نے اگر مغالطہ کھایا ہو تو اس کا معاوضہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔
ترقی یافتہ مغربی ممالک میں یہ قانون ہے کہ باقاعدہ نکاح کے بعد عورت کو بھی طلاق کا حق حاصل ہے اور طلاق کے بعد مرد کو آدھی جائیداد سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہ رسک لینے کے بجائے گرل و بوائے فرینڈز کی صورت میں معاشرہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا ہے۔ ایک پاکستانی نے امریکہ میں نکاح کے بعد لڑکی کی طرف سے طلاق کا سامنا کیا اور آدھی جائیداد گنوادی تو پھر دوسری لڑکی سے باقاعدہ نکاح کے بجائے ایگریمنٹ کرلیا۔ جس سے اس کے کئی بچے بھی ہیں۔ ایگریمنٹ میں مرد اور عورت کے علاوہ بچوں کیلئے بھی اطمینان بخش ماحول نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہو تو معاشرے کی حالت اتنی بہتر نہیں ہوسکتی ہے۔ مغربی معاشرہ بے اطمینانی کی اس کیفیت سے دوچار ہوا ہے۔
اگر قرآن و سنت کے مطابق حق مہر کی ایک معین مقدار ہو اور خلع و طلاق کی صورت میں اس رقم کومحور قرار دیا جائے تو ایگریمنٹ کے بجائے اعتماد کیساتھ نکاح کا ماحول قائم ہوگا۔ قرآن میں یہ وضاحت ہے کہ’’ شوہر کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہوتا ہے‘‘۔ اس کا مفہوم بالکل غلط لیا گیا ہے کہ عورت کو خلع کا حق حاصل نہیں ۔ اس آیت کا سیاق و سباق اور لب لباب یہ ہے کہ علیحدگی کی صورت کا ذمہ دار شوہر ہوتا ہے۔ عورت خلع لے یا مرد طلاق دے دونوں صورتوں میں اس کی ذمہ داری مرد ہی پر پڑتی ہے۔ عورتیں اپنی خفیہ رازداری،عزت ونفس کو شوہر کے حوالے کردیتی ہیں تو ان کی طرف و اخذن منکم میثاقا غلیظا (اور انہوں نے تم سے پختہ عہد و پیمان لیا ہے)اس مضبوط نکاح کی نسبت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہتے ہو اوران میں سے کسی ایک کو ڈھیر سارا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔ کیا تم بہتان لگا کر اور کھلا گناہ کرکے واپس لو گے ؟ ۔اور آخر تم کیسے واپس لے سکتے ہو جبکہ تم ایکدوسرے سے قربت اختیار کر چکے ہواور ان عورتوں نے تم سے پکا عہد و پیمان لیا ہے۔ (سورہ نساء: آیت21-20)
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے سودی بینکاری سے بد حواس ہونے کا دنیا میں بھی مظاہرہ کیا ہے اور اپنے ترجمہ میں ’’بہت سارا حق مہر‘‘ لکھ کر بد بختی کی ہے۔ طلاق کی صورت میں عورت کو صرف حق مہر نہیں دینا پڑتا بلکہ جو چیز بھی دی ہو ، چاہے خزانے دئیے ہوں تب بھی کوئی چیز واپس نہیں لی جاسکتی ہے۔ عورت سے کئی بچے جنوانے کے بعد اسکا سیٹ اپ خراب کرنے کی اجازت نہیں ۔ گھر اصل میں عورت ہی کا ہوتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے حجرات کی نسبت اُمہات المؤمنینؓ کی طرف تھی۔ گنبد خضرا ء حضرت عائشہ صدیقہؓ کا حجرہ تھا۔ حضرت عمرؓ بھی ان کی اجازت سے وہاں مدفون ہیں۔ مغرب میں جائیداد کا آدھا تصور غلط ہے لیکن اسلام نے یہ تصور دیا ہے کہ اگر پوری جائیداد بھی بیوی کو دی ہو تو طلاق کے بعد اس سے آدھی بھی نہیں لی جاسکتی ہے۔ البتہ خلع کی صورت میں عورت کو اپنا سیٹ اپ بدلنا پڑتا ہے ، گھر اور جائیداد لے جانے کی چیز نہیں ۔ ہاں لے جانے والی چیزیں لے جانے میں اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ فحاشی کی صورت میں خلع و طلاق کی صورتحال بدل جاتی ہے مگر ان کو حق سے محروم کرنے کیلئے جھوٹا الزام لگانا بہت بڑی زیادتی اور بے غیرتی ہے جس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
سورہ بقرہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی ہے کہ طلاق کی صورت میں ان سے کوئی چیز واپس لینا جائز نہیں جو کچھ بھی ان کو دیا ہے۔ (آیت 229) اور سورہ طلاق میں بھی گھر کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے ۔لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینتۃ (ان کو ان کے گھروں سے مت نکالواور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی میں مبتلا ہوں)۔ یہ کونسا اسلام ہے کہ دس بچے جنوا کر بڈھی کو اسوقت اسکے باپ کے گھر بھیجا جائے جب اس کے والدین بھی انتقال کرچکے ہوں۔ شریف لوگ ایسا کرتے نہیں ہیں لیکن جب رذیلوں کو بھی اسلامی قوانین کا پتہ چل جائے تو اخلاقیات کا وہ نظام قائم ہوگا جسکی طرف پوری دنیا میں سب کے سب لوگ راغب ہونگے۔
مرد اپنی طاقت کے زعم میں بڑا نامراد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب بیوی کو خلع کا حق دیا ہے تو یہ قرآنی آیت پورے معاشرے پر اچھی طرح سے واضح کرنا چاہیے۔ چونکہ مرد اپنی طاقت کی بنیاد پر ماحول ، شریعت اور قانون کو بھی اپنے حق کیلئے استعمال کرتا ہے اسلئے عوام کی نظروں سے قرآن کی آیت اجنبی بنادی گئی ہے۔ طاقتور مرد ایسی صورت میں جب وہ کبھی رجوع بھی نہیں کرنا چاہتا ہو تو پھر بھی اپنی طلاق شدہ عورت کو دوسرے شوہر سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں اس صورتحال کو بیان کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا ہے کہ اس طلاق کے بعد پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔( البقرہ : آیت 230)۔ لیکن اس سے پہلے کی آیات میں اور متصل دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے بار بار وضاحت کی ہے کہ عدت کے اندر بھی اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے ، عدت کی تین مراحل سے تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے بالکل کھلا رکھا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیات 224سے 232 اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں کوئی تضاد نہیں۔ احادیث صحیحہ سے بھی قرآن کا کوئی تضاد نہیں، بخاری کی حدیث میں ذائقہ چکھنے کی روایت صرف اس صورت میں ہے کہ جب عورت کی عدت ختم ہوچکی ہو، نکاح منقطع ہوچکا ہو، عورت نے دوسرے شوہر سے شادی کرلی ہو۔ اس کیساتھ خلوت صحیحہ اختیار کی ہو۔یہ ضروری نہیں کہ عورت پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہو تو وہ بھی قبول کرلے۔ سب امور کو مدِ نظر رکھ حدیث کی تشریح کرنی چاہیے ۔ صحابہؓ روزوں میں رات کوبیوی سے مباشرت کو ناجائز سمجھ کر بعض خود سے خیانت کرتے تھے۔ اللہ نے واضح کردیا کہ روزے کی رات کو مباشرت جائز ہے، البتہ مساجد میں معتکف ہوتو مباشرت جائز نہیں۔پہلے لوگوں نے حقائق سے تجاوز کیا۔ پہلے آخری عشرے میں معتکف کیلئے مباشرت جائز نہ تھی پھر آخری عشرے میں مباشرت کو ناجائز کہا پھر بات یہانتک پہنچی کہ پورے رمضان کو بھی اس میں شامل کرلیا۔ اللہ نے مساجد میں اعتکاف کی طرح طلاق پر حلال نہ ہونے کو واضح کیا۔ سورۂ طلاق کے حوالہ سے اُم رکانہؓ سے تین طلاق کے باجود بھی ابورکانہؓ کو نبیﷺ نے رجوع کا حکم دیا تھا۔
نکاح ومتعہ
نکاح مرد کی طرح عورت کی بھی ضرورت ہے۔ محرمات کی فہرست کے بعد پانچویں پارہ میں ہے و احل لکم ما وراء ذالکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسٰفحین فما استمتعتم بہ منھن فاٰتوھن اُجورھن فریضۃ ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضۃ ان اللہ کان علیمًا حکیمًاO’’حلال ہیں تمہارے لئے انکے علاوہ باقی خواتین کہ تلاش کرواپنے اموال کے ذریعے نکاح کی قید میں لاتے ہوئے نہ کہ خرمستی کرتے ہوئے اور جنہوں نے تم میں سے متعہ کیا تو ان کا مقرر کردہ معاوضہ دواور تم پر گناہ نہیں کہ طے شدہ معاوضہ کے بعد آپس میں جس پر تم راضی ہوجاؤ، بیشک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘(النساء:24) ا بن مسعودؓ نے یہ اضافہ لکھ دیا کہ فمااستمتعتم بہ الی اجل مسمیٰ’’جس نے ایک مقرر مدت تک متعہ کیا‘‘۔ جلالین میں اضافی تفسیر کی طرح ابن مسعودؓ نے بھی لکھی تھی۔ صحیح مسلم میں بھی ابن مسعودؓ نے متعہ کو حلال قرار دینے کیلئے آیت کا حوالہ دیا ہے جبکہ میں نبیﷺ نے ہی آیت کا حوالہ دیا ۔(بخاری) والٰتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم فاستشہدواعلیھن اربعۃ منکم فان شہدوا فامسکوھن فی بیوت حتٰی یتوفٰھن الموت او یجعل اللہ لھن سبیلًاO ’’اور جو فحاشی کی مرتکب ہوں تمہاری عورتوں میں سے توان پر چار افراد اپنے میں سے گواہ طلب کرو، اگر گواہی دیں تو ان کو گھروں میں بند کرو۔ یہانتک کہ وہ مریں موت سے یا ان کیلئے اللہ کوئی راہ نکال دے‘‘( النساء: 15) ۔تفسیر عثمانی میں ہے کہ ’’پہلے زنا کیلئے کوئی حد نہیں تھی اسلئے عورت کو گھر میں محصور کرنے کا حکم آیا۔ پھر سورۂ نور میں زنا کی حد نازل ہوئی ۔ شادی شدہ کیلئے سنگساری، غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑے‘‘۔ حالانکہ حقائق اسکے منافی ہیں، ایک طرف جب اللہ نے متعہ کی اجازت دیدی اور اس متعہ کو ملکت ایمانکم کا نام دیدیا۔ تفسیر عثمانی میں ہے کہ’’ لوگ شادی شدہ بیگمات سے شادی کرنے کو پسند کرتے تھے‘‘ غلط تفاسیر کیوجہ سے عوام وخواص، علماء اور مشائخ قرآن مجیدسے دور ہوگئے۔
قرآن کی تفسیر کیلئے عربی، قرآن کے الفاظ اور احادیث صحیحہ کی رہنمائی بہت ضروری ہے۔ یہ بات بالکل غیر فطری ہے کہ غیر شادی شدہ جوان لڑکیوں کو چھوڑ کر بیگمات کی طرف کسی کا رحجان ہو۔ محصنات بیگمات اور فتیات جوان لڑکیوں کو کہتے ہیں۔ وہ جوان لڑکیاں جو لونڈیاں ہوں یا جن کی متعہ کرنے کی عادت رہی ہو۔ ان کے مقابلے میں طلاق شدہ وبیوہ بیگمات کو بھی ترجیح دی جاتی ہے۔ فرمایا :ومن لم یستطع منکم طولًاان ینکح المحصنٰت المؤمنٰت فمن ما ملکت ایمانکم من فتےٰتکم المؤمنٰت واللہ اعلم بایمانکم بعضکم من بعض فانکحوھن باذن اہلھن واٰتوھن اجورھن بالمعروف محصنٰت غیر مسٰفحٰت ولامتخذان اخدان فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلھین نصف ما علی المصحنٰت من العذاب ذلک لمن خشی العنت منکم وان تصبروا خیر لکم واللہ غفور رحیمO
نکاح کیلئے طلاق شدہ وبیوہ بھی جوان لونڈی یا متعہ والی سے بہتر ہے لیکن جب میسر نہ آئے تو لونڈی و متعہ کرنے والی سے بھی مستقل نکاح کیا جاسکتا ہے۔ بعض بعض سے ہیں۔اللہ ایسے لوگوں کا ایمان جانتا ہے۔ نکاح اسکے سرپرست یا مالک کی اجازت سے ہو۔ مقصد نکاح ہو ، نہ کہ خرمستی اور نہ چھپی یاری۔ جب وہ نکاح کی قید میں لائی جائے تو اگروہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں تو ان کو نصف سزا دی جائے جو عام شادی شدہ خواتین کیلئے مقرر ہے۔ یہ سزا اس لئے ہے کہ جس کو مشکل میں پڑنے کا اندیشہ ہو۔ سزا کے بغیر آوارہ بن سکتی ہو لیکن اگر تم صبر کرو، یعنی سزا نہ دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اللہ غفور رحیم ہے۔( النساء:25)
زنا کی سزا یہود کے ہاں شادی شدہ کیلئے سنگساری تھی مگر عمل نہ کرتے تھے۔ پیسہ کے لین دین سے سزا کو معاف کردیتے تھے۔ جس طرح قبلہ اول کی طرف پہلے نماز پڑھی جاتی تھی اسی طرح جو احکام نازل نہیں ہوئے تھے ان کی رہنمائی یہود کی کتاب سے لی جاتی تھی۔ شروع میں نبیﷺ نے اس پر مسلم و غیر مسلم اور مرد وعورت سب پر یہ سزا نافذ کردی ۔غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑوں کے علاوہ ایک سال جلاوطنی کی سزا بھی تھی لیکن سورۂ نور نے ان خرافات کا قلع قمع کردیا۔ البتہ زنا بالجبر کیلئے رسول اللہ ﷺ نے سنگساری کی سزا رکھی تھی۔ قرآن کا بھی حکم نہ صرف قتل کا ہے بلکہ سابقہ امتوں کے حوالہ سے بھی یہی وضاحت ہے۔
سورۂ النساء کی اگلی آیات میں بھی بھرپور وضاحت ہے کہ یہ احکام واضح طور پر اسلئے بیان کئے جاتے ہیں تاکہ پہلے لوگوں کی راہ بھی تمہیں معلوم ہوجائے اور ہدایت مل جائے اور اللہ تمہاری توبہ کو قبول کرلے، انسان کو ضعیف پیدا کیا گیاہے اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا ہوجائے۔ پھر اگلے نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ ’’ اگر اہل کتاب پر ہم اپنی جانوں کا قتل اور جلاوطنی لکھ چکے ہوتے تو اس پر وہ عمل نہ کرتے مگر ان میں سے کم لوگ‘‘۔ یعنی اللہ نے زنا پر قتل اور جلاوطنی کی سزا لکھی نہیں تھی اگر لکھ بھی دیتے تو بہت کم لوگ اس پر عمل کرتے۔ صحابہ کرامؓ نے خود کو حدود جاری کرنے کیلئے پیش کیا تھامگراللہ نے سخت احکام نازل نہیں کئے۔
شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا فارسی اور آپکے صاحبزادوں نے اردو ترجمہ کرکے ہم سب پر احسان کیا لیکن ان کی ہربات کو درست اور معیار قرار دینا فکر ولی اللٰہی والوں کی بہت بڑی حماقت ہے۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے زیادہ تر حماقتوں میں اضافہ ہی کیا ہے لیکن اس کی وجہ سے ان کے مقام ومرتبہ پر اثر نہیں پڑتاہے۔ شاہ ولی اللہؒ کا خاندان علماء دیوبندؒ کی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے مگر قرآن وسنت کے داعی ہونا الگ بات ہے اور اسکے تقاضوں پر عمل الگ ہے۔
شاہ ولی اللہؒ نے لکھ دیا کہ ’’ اللہ نے صحابہؓ سے خلافت کا وعدہ کیا تھا جو صرف تین ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ سے پورا ہوا۔ عربی میں جمع کا اطلاق تین پر ہوتاہے ۔ علیؓ سے اللہ کا وعدہ پورا نہ ہوا جو خلافت اور خوف سے امن کیلئے ہوا تھا‘‘ حالانکہ جب حضرت عثمانؓ کا بھی 40دن تک محاصرہ کرکے شہید کیا گیا ، حضرت علیؓ تو پھر بھی مسجد میں جاتے ہوئے دہشت گردی سے شہید کئے گئے تو یہ لکھنا بڑی حماقت تھی اوراللہ نے افراد نہیں قوم کیساتھ وعدہ کیا تھا۔ مسلمان صدیوں تک سپر طاقت ہی رہے تو اللہ نے صحابہؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ ، بنی امیہ، بنوعباس اور عثمانی خلافت کی حد تک اپنا وعدہ پورا کیا، البتہ مسلمانوں نے قرآن سے انحراف کیااور پستی وذلت ان کا مقدر بن گئی۔ آج بھی افغانستان اور شام میں اپنوں کے ہاتھوں خوار ہیں۔
امریکہ غیر ملکی بچوں کو شہری حقوق دیتا ہے ، روس سے خواتین اسلئے بچے جننے کیلئے امریکہ پہنچتی ہیں۔ امریکہ نے ڈیلیوری کے اخراجات کو اپنا اثاثہ بنایا ہے ۔ مسلمان ممالک میں دوسرے مسلمان غلاموں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور مولانا سندھیؒ نے بھی نا سمجھی سے اسکی تائید کی ہے۔ انسانی حقوق کی وجہ سے اب مغرب انسانیت کی امامت اور مسلم ممالک ان کی غلامی کررہے ہیں۔ معاشرتی اقدار اور احکام جو قرآن نے دئیے ہیں اسی سے انسانیت کو آزادی ملے گی۔ عتیق
لوگوں کی راۓ