پوسٹ تلاش کریں

یہاںکیاالٹی گنگا بہہ رہی ہے،جماعت اسلامی شگاگو کے شہیدو!سرخ سلام کہہ رہی ہے

یہاںکیاالٹی گنگا بہہ رہی ہے،جماعت اسلامی شگاگو کے شہیدو!سرخ سلام کہہ رہی ہے اخبار: نوشتہ دیوار

یہاںکیاالٹی گنگا بہہ رہی ہے،جماعت اسلامی شگاگو کے شہیدو!سرخ سلام کہہ رہی ہے

جماعت اسلامی کو سرمایہ دارانہ نظام ، امریکہ اور جنرل ضیاء الحق کا ٹاؤٹ سمجھا جاتا تھا۔ مولانا مودودی مزدوروں کے یوم یکم مئی کے مقابلے میں شہدائے بدر کا دن منانے کا کھیل کھیلتے تھے۔ جب سراج الحق نے پہلی مرتبہ سرخ ٹوپی پہن کر یومِ مزدور میں ریلوے کے ملازمین کے ساتھ شرکت کی تھی تو ہم نے ٹوپی ڈرامے کو علامات قیامت کی ایک نشانی قرار دیا تھا۔ آج جماعت اسلامی شکا گو کے شہیدو کو سلام پیش کررہی ہے۔
اب اشارہ مل جائے تو جماعت اسلامی سقوط افغانستان اور یوم فتح افغانستان منانا شروع کردے لیکن انجینئرگلبدین حکمت یاراپنے مشن میں کامیاب نہ ہوسکاتھا۔ جماعت اسلامی افغانستان میں بالکل دفن ہوگئی ہے۔ جہادِ کشمیر، جہاد افغانستان، جہاد فلسطین اور جہاد اسلام سب کچھ بھول بھال کر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اب قوم پرستی کی سیاست پر اتر آئے ہیں۔ محسن داوڑپر ایک مہمان کی حیثیت سے جوکرسیاں چلائی گئی تھیں ،اس پر پیپلزپارٹی کے اخونزادہ چٹان نے بہت شرمندگی سے معافی مانگی تھی اور ساری جماعتوں کی طرف سے جماعت اسلامی کے معافی مانگنے تک بائیکاٹ اور اپنے اتحاد سے خارج کرنے کا اعلان کیا تھا اور وہ صاحبزادہ ہارون الرشید آج بھی جماعت اسلامی کا اثاثہ ہیں جس نے یہ گھناؤنی حرکت کی تھی۔
جب پرویزمشرف کے دور میں وکلاء تحریک نے سپریم کورٹ کے ججوں کی بحالی کیلئے قربانی دینا شروع کی تھی تو سیاستدان بھی میدان میں نکلے تھے۔ عمران خان کو وکلاء تحریک کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ نے یرغمال بنایا تھا اور جماعت اسلامی لاہور کے امیرالعظیم کی طرف سے اپیلیں کرنے اور انتہائی شرمندگی کے اظہار کے باوجود بھی جمعیت کے طلبہ عمران خان کو نہیں چھوڑ رہے تھے، جماعت اسلامی کا سب سے بڑا کمال بھی یہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ سے ان کو قیادت مل رہی ہے لیکن سب سے بڑا زوال بھی یہ ہے کہ طلبہ تنظیم کے وقت سے جو تشدد ، فریب، ڈکٹیٹر شپ اور غیر جمہوری رویہ دل ودماغ میں بیٹھا ہوتا ہے تو وہ سیاست کے میدان میں بھی چل رہا ہوتا ہے۔ جاوید ہاشمی ایک اچھی طبیعت کی قابلِ قدر شخصیت ہیں مگر جن ڈرامہ بازیوںکو طلبہ کے وقت میں جماعت اسلامی سے سیکھا تھا وہ بڑھاپے میں ان میں لوٹ رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق نے جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف میں جانے سے بہت روکا تھا لیکن پھر بھی وہ گئے تھے۔ پھر تحریک انصاف سے یہ کہہ کر جاوید ہاشمی نکلا تھا کہ ” اسٹیبلشمنٹ اور عدالت کی توقع پر عمران خان کو نہیں رہنا چاہیے۔ مجھے ان کے مزاج کا پتہ ہے وہ کوئی مدد نہیں کریںگے۔ میں استعفیٰ دیتا ہوں لیکن کوئی دوسرا استعفیٰ نہیں دے گا۔ میری بات یاد رکھیں”۔ پھر جاوید ہاشمی کہتا تھا کہ جو میں نے کہا تھا ، عمران خان کے ساتھ آخر وہی ہوا ہے۔ آج جاوید ہاشمی کہتا ہے کہ ” عمران خان کو میں نے روکا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدالت کا سہارا مت لینا ، یہ بہت نقصان دہ ہے”۔ حالانکہ ہوا یہی تھا کہ جب عمران خان کو توقع تھی تو اسٹیبلشمنٹ نے مدد نہیں کی اور اس کی وجہ سے جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف چھوڑ دی۔ جب تحریک انصاف کو مقبولیت مل گئی تو اسٹیبلشمنٹ نے بھی ساتھ دیا لیکن پھر جاوید ہاشمی ساتھ نہیں رہے تھے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کی اصلاح کے بغیر جماعت اسلامی کے کسی قول ، فعل، جمہوریت، اسلام، جہاد اور قوم پرستی پر یقین کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں بہت باصلاحیت لوگ اپنی زندگی کا اصل مقصد جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھوں گنوا بیٹھے ہیں۔ ابن الوقتی ، بدمعاشی، منافقت اور درجن بھر ایسی صفات جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ذریعے پیدا ہوجاتی ہیں جن کو اسلام اور جمہوری سیاست کا نام دیا جاتا ہے لیکن وہ اسلام اور جمہوریت سے بالکل عاری ہوتی ہیں۔ مولانا مودودی نے تعلیم وتربیت کیلئے مدارس اور خانقاہوں کو ایک اضافی چیز قرار دیا تھا لیکن مدارس اور خانقاہیں اسلام کیلئے زبردست تربیت گاہیں تھیں اور اپنی جماعت اور اسلامی جمعیت طلبہ کی تربیت کو پھر بدعت نہیں سنت قرار دیا تھا لیکن ان میں علم وعمل ، اخلاص وتربیت اور ایمان واسلام کی جگہ دوسری چیزیں ڈالی جاتی ہیںجن میں ایک سیاسی قوت کا حاصل کرنا ہے۔ حالانکہ جب غلط طریقے سے قوت حاصل کی جائے تو اسلام وایمان کے علاوہ اس کو کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کی سرشست میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور قوم پرستوں کی سخت مخالفت ہے لیکن فضاؤں کا رُخ دیکھ کرجماعت اسلامی بھی اپنا مذہب تبدیل کررہی ہے۔
مدارس کے علماء کرام اور خانقاہوں کے مشائخ عظام نے ہمیشہ عوام و خواص کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا ہے۔ جو دیوبندی بریلوی مدارس میں بہت احترام کیساتھ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مسلک پڑھاتے ہیں اب ان میں فرقہ واریت میں مبتلاء جاہل طبقہ آپس کے معمولی معمولی اختلافات کو بھی پہاڑ بناکر پیش کرتا ہے۔ حالانکہ قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے درمیان جس طرح اختلافات سے دونوں میں تفریق ہوئی تھی تو اس سے زیادہ علماء ومشائخ میں بھی نہیں ہے اور دیوبندی بریلوی ایکدوسرے کو اعتدال پر لانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔دونوں اطراف میں جہالت کے باعث شدت پسندی بھی ہے اور دونوں اطراف میں اعتدال پسند بھی ہیں۔ اگر دونوں اسلام کی نشاة ثانیہ کی طرف متوجہ ہوں اور اہل حدیث واہل تشیع کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں تو بہت سارے معاملات میں ایک پرامن جمہوری انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ اختلافات اور اجتہادی غلطیاں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ جمعیت علماء اسلام و جمعیت علماء پاکستان نے اسلامی جمہوری محاذ کے نام سے اتحاد کیا تھا جس میں مولانا فضل الرحمن اور علامہ شاہ احمد نورانی کی قیادت میں خاطر خواہ نتائج اسلئے برآمد نہیں ہوسکے کہ ان کے پیچھے علمی اور عملی طاقت نہیں تھی۔
جماعت اسلامی کے بانی مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے ان اغلاط کو سلیس انداز میں ”تفہیم القرآن” کے ترجمہ وتفسیر میں پیش کیا ہے جو علماء ومشائخ سے اجتہادی غلطیاں ہوئی ہیں۔ علماء ومشائخ کیلئے اجتہادی غلطیوں سے اعلانیہ توبہ کرنے میں کوئی عار نہیں ہے لیکن جماعت اسلامی نے مولانا مودودی کی اجتہادی غلط تفسیر اور ترجمہ سے بھی توبہ نہیں کرنا ہے اسلئے کہ جماعت اسلامی کے علماء کی حیثیت ملازمین کی ہے اور باقی جماعت اسلامی مولانا مودودی کی پوجا کرتی ہے۔ جس شخصیت مولانا مودودی نے یہ سکھایا تھا کہ قرآن اور سنت کے مقابلے میں کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے اس کی اپنی جماعت کا اس طرح شخصیت پرستی کا شکار ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام پر1970میں فتوے لگے تھے تو اس میں جماعت اسلامی ، دارالعلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی ، جامعة الرشید کے بانی مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مسلم لیگی قیادت سرِ فہرست تھی۔ مولانا فضل الرحمن اپنے باپ مفتی محمود کی طرح ان قوتوںکے آلۂ کار بن گئے ہیں۔ مفتی محمود نے توبہ کرکے جنرل ضیاء الحق کی مخالفت شروع کردی تھی لیکن زکوٰة کے مسئلہ پر مفتی تقی عثمانی کے جبری پان اور مفتی رفیع عثمانی کی طرف سے لائی ہوئی دورۂ قلب کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ مفتی تقی عثمانی کے سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دینے والا مولانا فضل الرحمن اب اس کی سودی بینکاری کو بھی مشرف بہ اسلام قرار دے رہاہے۔ جب اسلام دین اکبری والا ہو اورنواز شریف کی مغل سلطنت کیلئے مولانا فضل الرحمن اپنا سیاسی کردار ادا کررہے ہوں تو انصار الاسلام کے نام سے جھنڈے اٹھانے والوں کو خبردار ہونا چاہیے۔ میں نے کبھی جمعیت علماء اسلام و طلباء اسلام کی رکن سازی کا فارم نہیں بھرا ہے مگر جب مولانا پر فتوے لگ رہے تھے تو انکا دفاع کیا ہے اور جمعیت کا زیبرائی جھنڈا لے کر ایک مرتبہ تمام انصار الاسلام کا کردار بھی ادا کیا ، جب مولانا لیبیا سے آئے تھے اور مدارس کے علماء و طلبہ نے استقبال کیا تھا۔ مولانا نے مجھے رات کو اپنے ہاں عبدالخیل میں رُکنے کا کہا تھا کہ ” ذکر اور مراقبہ کراؤ”۔ میں نے کہا تھا کہ ”صوفی نہیں سیاسی مراقبے کراؤں گا”۔ پیر ذوالفقار اچھا مگر کم عقل آدمی ہے اسلئے سیاست اور فرقہ واریت کی تبلیغ کرتا پھر رہاہے اور یہ تصوف کا بہت بڑازوال ہے جو روحانیت نہیں دولت کی چمک ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟