اسلام ہی مظلوم طبقات کو عروج بخشنے کا بہترین ذریعہ ہے
جولائی 13, 2020
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اسلام ہی مظلوم طبقات کو عروج بخشنے کا بہترین ذریعہ ہے
قرآن کے مقاصد کا بُرا حال؟
اللہ نے فرمایا : ونرید ان نمنّ علی الذین استضعفوا فی الارض ان نجعلھم الائمة وان نجعلھم الوارثین” اور ہمارا پروگرام ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنایا جارہاہے کہ ان پر احسان کریں اور ان کو امام بنائیں اور انہیں زمین کی وراثت سپرد کردیں”۔
جب کچھ افراد باطل نظام کیخلاف جدوجہد کرتے ہیں تو ان کیخلاف انواع واقسام کے پروپیگنڈے اور سازشیں ہوتی ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ ان کو سپورٹ کرتا ہے۔ ایک فرد نہیں بلکہ اس تمام طبقے کو ائمہ اور زمین کا وارث بناتا ہے۔
ہمارا عصمت شاہجہان سے رابطہ ہوا ،اس نے کہا کہ ہم اپنی تحریک کیلئے مذہب سے تعاون لینا نہیں چاہتے ہیں اور انکے خدشات اسلام اور دیگر مذاہب کے مسخ شدہ احکام کی وجہ سے بجا ہوسکتے ہیں۔ نغمانہ شیخ نے تعاون کیلئے یقین دلایا تھا۔ اب ہدی بھرگڑی کی طرف سے ہمہ گیر تحریک کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ 8عورت مارچ2020ء میں جس طرح خواتین کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور جس طرح کا ماحول بناکر خوف وہراس پھیلایا گیا اور جس بہادری اور ہمت سے اسلام آباد کی عورت مارچ والوں نے کام لیاتووہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ انہوں نے ایسی تاریخ رقم کردی کہ رہتی دنیا تک ان کا یہ اقدام یاد رکھا جائیگا۔ جس طرح مذہبی طبقہ چارج تھا۔روڈ پر کپڑا دیوار کے پیچھے اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کررہاتھا۔ دوسری طرف نہتی خواتین نشانہ بننے کے فاصلے پر ہمت سے کھڑی اپنا پروگرام کررہی تھیں اور پولیس کی معمولی سی نفری ڈنڈیاں لیکر کھڑی تھی۔ یہ خواتین کو موت کا منظر لگتا ہوگا مگر انہوں نے اپنے اعصاب پر قابو رکھاتھا۔
پاکستان اور امریکہ کی بہادر فوج بھی اس بہادری سے بڑے بڑے کنٹینروں کے پیچھے اس طرح نہتی کھڑی نہیں ہوسکتی ہیں۔8عورت آزادی مارچ میں خواتین کا مردوں سے مناسب فاصلہ تھا مگر مذہبی طبقات اسلام کے نام پر حج و عمرے میں اپنی خواتین کو جس طرح حجر اسود کیلئے غیر محرم مردوں کیساتھ رگڑ واتے ہیں وہ بڑی بے غیرتی کامظاہرہ ہوتا ہے مگروہاں انکا دین، ایمان ، اسلام ، غیرت، عزت، کلچر، ضمیر اور سب کچھ مذہب کا نشہ پی کر خوابِ غفلت کے مزے لیتے ہیں۔جب مفتی محمود سیاسی میدان میں بیگم نسیم ولی اور کلثوم سیف اللہ کیساتھ اتحاد کرتے ہیں ، مولانا فضل الرحمن بینظیر بھٹو اورمریم نوازکیساتھ سیاسی اتحاد کرتے ہیں تو مذہب اور پشتون کلچر بھول جاتے ہیں لیکن دوسروں پر ہی دورِ جاہلیت کے فتوے لگاتے ہیں۔ پولنگ اسٹیشن سے لیکر اسمبلی کے فلور اور میڈیا کی اسکرین تک اپنے خاندان سے خواتین کو لانے والے پشتون اور علماء نہیں ہیں؟۔ داڑھی پر اسلام کا انحصار ہوتو زیادہ دراز ریش طبقہ بھی ہے لیکن جب خیبر پختونخواہ اسمبلی بڑے پیمانے پر علماء سے بھری ہوئی تھی تو جماعت ِ اسلامی کے دباؤ پراکرم خان درانی کو مختصر داڑھی رکھواکر وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ نوابوں، سرمایہ داروں سے مقابلہ ہے مگرپارٹی میں آئیںتوپھرنوٹ لیکر ووٹ خریدیتے ہو۔
اسلام کے درست تصور کو پیش نہ کیا جائے تو اقتدار کی رسہ کشی ذاتی مفادات کا کھیل بن جاتا ہے۔ اسلام اقتدار کے ڈھانچے کے بغیر بھی معاشرتی طور پر کمزور طبقے کی ایسی مدد کرتا ہے جسکے اعلیٰ قانونی، اخلاقی اور شرعی معیارات کو دیکھ کر ظالم، جابراور شریعت کے نام پر براجمان جاہلوں کا قلع قمع ہوتاہے۔ جان کے بدلے جان، کان کے بدلے کان،آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت ،ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور زخموں کا بدلہ وہ عادلانہ نظام ہے جس کا کوئی مقابل نہیں۔ 500بڑے علماء نے مغل اورنگزیب بادشاہ کیلئے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کیا جس میں شاہ کیلئے جرم قتل، زنا، چوری اور تمام حدود معاف کئے گئے۔ اگر اسلام کا عادلانہ نظام ہوتا تو اقتدار کیلئے بھائی کے قاتل بادشاہ کو عدالت شریک مجرموں کیساتھ قتل کی سزا سنادیتی۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی ان500علماء میں شامل تھے۔ جب انگریز آیا تو انگریز کے عدالتی نظام نے فتاویٰ عالمگیریہ کو مدارس کی چار دیواری تک محدود کردیا ۔
مدارس کے علماء نے شیخ الاسلامی کے نام پر خدمات کا سلسلہ بنوعباس ، خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہوں کی سرپرستی میں جاری رکھا ہوا تھا تو انگریز کے دور میں بھی کب انہوں نے اپنی خدمت سے کنارہ کشی کی؟۔اقبال نے کہا
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
مدارس کے شیخ الاسلاموں سے اب بھی وہی کام لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے سود کی کٹوتی کو زکوة قرار دیا گیا۔ اب تو دنیا کے سودی نظام کو اسلام کا نام دیکر کمال کردیا ۔ یہ سلسلہ عرصہ سے جاری تھا۔ بہت سی احادیث میں مزارعت کو ناجائزاور سود قرار دیا گیا۔ جمہور ائمہ حضرت امام ابوحنیفہ حضرت امام مالک وامام شافعی متفقہ طور پر مزارعت کو سود اور ناجائز سمجھتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ نے جیل میں جان دی، امام مالک اور امام شافعی نے بدترین سزائیں کھائیں اور شیخ الاسلام بننے والے علماء حق کی گردن زدنی کے فیصلے کرتے تھے۔ حضرت عثمان و حضرت علی کے خلاف بغاوت والے خوارج کے دہشت گردوں نے ہر دور میں اپنا کام کیا ہے۔ ان کی پشت پناہی سیاسی منافق کرتے رہے ہیں۔
جب شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مولانا فضل الرحمن کی سیاسی حمایت نہ کریں تو ان کا فتویٰ زکوٰةکے نام سودی کٹوتی کو جلسے جلوسوں میں شراب کی بوتل پر آبِ زم زم کا لیبل قرار دیں اور ہم سے اس وقت کہا کہ جب کراچی کے معروف علماء ومفتیان کی تقدیر ہمارے ہاتھ میں تھی کہ چھرا ہاتھ میں ہے۔ قربانی کے بکرے کو لٹایا ہے،چھرا پھیر دو ۔ اگر ٹانگیں ہلائیں تو ہم پکڑ لیں گے۔ اب سارے علماء نے مفتی تقی عثمانی کے سودی نظام کے خلاف آواز اٹھائی لیکن جب مولانا فضل الرحمن کی سیاسی حمایت شروع کردی توپھر مولانا نے بھی اس کے فقہی خدمات کی مخالفت بند کردی۔
جب سودی نظام جائز ہو توپھر ہر چیز کو اسلامی اور جائز قرار دیاجائے۔ پھر تو عمران خان نے بھی مدینہ کی ریاست کا نام لیکر کوئی برائی نہیں کی۔ مولانا فضل الرحمن سے عرض ہے کہ واپس آجاؤ۔ اسلام کا آفاقی نظام معاشرے کو بنیاد سے ٹھیک کرتا ہے۔ جو علماء سو ہردور میں علماء حق پر فتوے لگاتے رہے ، اجارہ داری کا نظام ہردورمیں اسلام کی بیخ کنی کرتا رہا ،آج میں نے ان کو ذبح کردیا ہے۔ یہ مجھ سے بھاگ کرہی تیری پیٹھ کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ اب یہ زندہ رہنے کے قابل نہیں رہے۔آپ بسم اللہ اور تکبیر پڑھ کر ان کو مردار ہونے سے بچائیں۔ تاکہ یہ حلالہ نہیں بلکہ حلال کی موت مریں۔ اسلام کا حلیہ بگاڑتے بگاڑتے انہوں نے کہاں سے کہاں پہنچادیا ؟۔ شیخ الہند مالٹا میں قید ہوئے تو ان کی نظرمیںقرآن کی وہ اہمیت اجاگر ہوئی جو مدارس کے درسِ نظامی نے چھپا رکھی تھی۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے آخری وقت میں اعتراف کرلیا کہ اپنی زندگی ضائع کردی۔ قرآن وسنت کی خدمت نہیں کی مسلکوں کی وکالت کرتا رہا ۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے شیخ الہند کا مشن اپنا یا تو علماء نے سخت مخالفت کی مگر مولانا سندھی جو اصل میں پنجابی تھے کوبھول جاؤ۔ اب تمہارا واسطہ سید عتیق گیلانی کی ضربوں سے پڑا ہے جسکے مقاصد ذاتی، خاندانی، سیاسی، مدرساتی، خانقاہی، گروہی، جماعتی ،مسلکی اور نظریاتی نہیں ہیں بلکہ خالصتاً انسانوں کی ہمدردی کیلئے قرآن کے واضح احکام اور سنت کا نظام ہے۔ اب یہ کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ
منزل اسے ملی جو شریکِ سفر نہ تھا
سیاسی جماعتوں میں استعمال شدہ لوٹوں کی اہمیت اپنا گند صاف کرنے اور اقتدار تک پہنچنے کیلئے ہوتی ہے لیکن جب عظیم مقاصد کا عزم ہوتا ہے تو بادلوں کے دوش پر کوئی ہم آغوش ہونے کیلئے تیار نہیں ہوتاہے۔ البتہ جب بادل برس پڑتے ہیں تو مردہ ضمیر زمین کی روح میں زندگی کی شادابی کی لہریںدوڑتی اور لہلہاتی نظر آتی ہیں۔ پھر بجلی کی کڑکوں،بادل کی گرجوں ، اولوں کے ٹنڈوں پر برسوں کے سارے غم خواب کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت عکرمہ اپنے باپ ابوجہل کی جہالت پر شرمندہ ہوتا ہے۔ باپ کی گستاخانہ زبان کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔وقت کی نبض بتارہی ہے کہ ظالمانہ نظام قدرت کی لپیٹ میں جلد ہی آجائیگا اور دنیا کو اللہ ایسا خوشحالی والا نظام دیگا کہ روئے زمین پر کوئی مظلوم طبقہ بھی ناخوش نہ رہے گا۔مگر قرآن کے احکام کی طرف رجوع کئے بغیرانقلاب خام خیالی لگتا ہے۔
لوگوں کی راۓ