حضرت عائشہ صدیقہ کے مقابلے میں کم عقل سادہ مُلا جیون
جولائی 13, 2020
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
حضرت عائشہ صدیقہ کے مقابلے میں کم عقل سادہ مُلا جیون
اماں عائشہ کی تفسیر درست تھی
والمطلقٰت یتربصن بانسفھن ثلاثة قروء ولایحل لھن ان یکتمن…….. وبعولتھن احق بردھن ان ارادوا اصلاحًا………O( البقرہ)
ترجمہ :”اورطلاق والی عورتیں خوداپنی جانوں کو انتظار میں رکھیں تین ادوار تک اور ان کیلئے حلال نہیں کہ جو اللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا ہے کہ وہ اس کو چھپائیں اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔اور انکے شوہر اس عدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح کا پروگرام ہو۔ ……..O (البقرہ آیت228)
میرے ہم زبان کانیگرم شہروزیرستان کے ایک بچے احمد شاہ کی اس بات نے بڑی شہرت حاصل کی ہے کہ ”پیچھے دیکھو، پیچھے دیکھو۔ اوہ پیچھے تو دیکھو نا۔ پیچھے دیکھو”۔
مفتی منیب الرحمن چیئرمین ہلال کمیٹی اورمفتی اعظم کا لوگ مذاق اڑانے کیلئے احمد شاہ کی ویڈیو چاند کی تصویر کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ ایک مقبول نعرے کا بڑا اثر پڑتاہے۔
بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قرآنی آیات کیساتھ اس اُمت کے فقہاء نے جو ظلم اور زیادتی کی ہے ،اگر عوام کو بات سمجھ میں آگئی تو ہر طرف سے آیات کا ترجمہ وتفسیر اور فقہاء کے بکواسات پر باتوں کی بھرمار ہوگی اور علماء ومفتیان پر زبردست یلغار ہوگی کہ پیچھے دیکھو اور ساتھ ساتھ آگے تو دیکھونا۔ کا نعرہ بھی مقبول ہوگا۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
ہم نے علماء کی دہلیز پر دستک دیکر اخبار پہنچائے۔ سمجھا سمجھا کر تھک گئے۔ نرمی سے سمجھایا اورپھر گرمی سے سمجھایا۔ ہمارے استاذ مفتی محمد نعیم صاحب نے بات سمجھ لی تو بہت خوش ہوئے ۔ فرمایا کہ میں سوفیصد تائید کرتاہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ علماء میری تائید سے بھڑک اٹھیںگے۔ مفتی تقی عثمانی کو بھی میں نے آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں مانے۔ پھر انہوں نے ہمارے اخبار کے ذریعے علماء کرام کو ہماری بات پر غور کرنے کی دعوت دی کہ طلاق کے حوالے سے میرے شاگرد سید عتیق الرحمن گیلانی کی باتوں میں بڑا وزن ہے۔ ان پر غور کیا جائے۔ جس پر انہوں نے بتایا تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے بہت ناراضگی کا اظہار کیا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ بڑے مدارس کے بڑے علماء ومفتیان میں کئی طبقات ہیں۔ ایک طبقہ کھل کر تائید کرتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو تائید کو چھپاتا ہے لیکن اندر سے محبت رکھتا ہے ۔تیسرا طبقہ وہ ہے جو کھل کر سامنے نہیں آتا مگر مخالفت میں کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ یہی علماء سو کا طبقہ ہے جو ہردور میں رہاہے۔
حضرت اماںعائشہ کے آخری دور میں ایک عورت کی عدت پوری ہوئی تو حیض آتے ہی وہ شوہر سے الگ ہوگئی۔ خلع اور طلاق میں فرق یہ ہے کہ خلع عورت کی طرف سے بعض حقوق سے دستبرداری کی صورت میں ملتا ہے اوراس میں عورت کو شوہر کا دیا ہوا گھر اور تمام غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہوکر طلاق لینی پڑتی ہے۔ اس میں طلاق کی طرح عدت کے 3 مراحل میں3 مرتبہ طلاق کا تصور نہیں ہوتابلکہ ایک ہی مرحلے میں عورت فارغ ہوجاتی ہے اور صحیح حدیث ہے کہ خلع کی صورت میں عدت ایک حیض ہے۔ یعنی اگر طہر میں خلع دیا تو حیض آنے پر عدت ختم ہوجائے گی ، اگر حیض ہی میں خلع لیا تو پھر اسی حیض میں فارغ ہے۔
طلاق میں شوہر کی طرف سے علیحدگی ہوتی ہے ۔جس میں تین ادوار کا انتظار ہوتا ہے۔ شوہر نے طلاق دینی ہو تو حیض میں طلاق نہیں دیگا۔ بعض فقہاء ومحدثین کے نزدیک حیض میں طلاق نہیں ہوتی ہے جس طرح روزہ رات میں نہیں دن کو ہوتا ہے۔ حیض میں عورت سے جماع جائز نہیں ہے۔ جب شوہر طہر میں شریعت کے مطابق طلاق دیتاہے تو عورت ا س سے پہلے والا حیض اور جس طہر میں طلاق دی جائے ،انتظار میں گزارتی ہے۔درس نظامی کے نصاب کی ایک معروف کم عقل ہستی ملاجیون کی ہے جسکے لطیفے ہمارے استاذ قاری مفتاح اللہ صاحب جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں سنایا کرتے تھے۔ ایک بار اورنگزیب بادشاہ کے دربار سے گھر جارہاتھا، بچوں نے کہا کہ تمہارا گھر گرادیا۔ چار میل دورپل ایک شخص کاندھے پر اٹھاکر جا رہا تھا اور اسکا کونا لگا ہے۔اور نگزیب بادشاہ کے پاس غصے میں واپس پہنچ گیا کہ میرا گھر گرا دیا ۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ بچوں نے مذاق کیا ہوگا۔ پوچھ لیا تو اس نے ماجراء سنادیا۔ اورنگزیب نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اتنا بڑا پل کوئی کاندھے پر اٹھائے؟۔ اس نے کہا کہ ممکن تو نہیں مگر مسلمان بچے جھوٹ نہیں بول سکتے۔
ملاجیون نے اپنی کتاب ”نورالانوار” میں فقہاء کے مسالک جس طرح سے نقل کئے ہیں وہ کم عقلی میں اس سے بھی بڑا لطیفہ ہیں جوعوام کو سمجھ آگئے تو ”پیچھے تو دیکھو نا” کے الفاظ فقہاء کی کم عقلی پر قرآنی آیات لکھ کر متوجہ کریں گے۔
ملاجیون نے تو صرف مؤقف نقل کیا ہے اور وہ سیدھا بندہ تھا لیکن ہمارے دور کے عیار علماء ومفتیان بات سمجھ کر بھی اس کو قبول نہیں کررہے ہیں۔ درباری ملاؤں کو ہر دور میں معتبر سمجھا جاتا رہاہے۔ وقف شدہ مسجد ومدرسہ کی زمین میں اپنا ذاتی اور موروثی گھر بنانے کی اجازت شریعت نے نہیں دی۔ ریاست کے املاک پر ملازمین گھر کیلئے قبضہ نہیں کرسکتے۔ کوئی ادارہ بھی قبضہ کرتا ہے تو اس پر تنقید ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے اور بھائیوں کیلئے مدرسہ کے قریب مکانات بنائے تو ان پر جھوٹی تہمت لگی کہ اس نے مدرسہ کی زمین پر قبضہ کیا ہے اورجس نے زمین دی تھی وہ مخالف ہوگیا ہے لیکن پھر جس نے الزام لگایا تھا اسی شخص کے سامنے زمین دینے والا مولانا کی حمایت کررہاتھا کہ وہ بیچارے بہت مقروض ہیں۔ البتہ مفتی تقی عثمانی نے وقف مدرسہ میں اپنا مکان خریدا تھا اور اسکے خلاف فتویٰ دینے پر اپنے استاذ جامعة الرشید کے مفتی رشیداحمد لدھیانوی سے بھی سخت ریمانڈ لیا تھا۔ اب سودکے جواز سے عالمی شہرت حاصل کرلی ہے مگر ملاجیون کی طرح یہ سیدھے نہیں بہت چالاک اور عیار ہیں۔ کراچی وحیدر آباد کے کوئے کھانا اس نے حلال قراردئیے ۔ جنکا گوشت اپنا اثر بھی دکھاتاہے۔ سوسائٹی آفس کراچی کے قریب فرخ بھی کوئے کھاتا ہے۔ پہلے ماں مخالفت کرتی مگر کبوتر کے دھوکہ سے کھلایا تو وہ بھی مزے مزے سے کھانے لگی۔یہ مفتی رشید کا مرید ہے۔
حضرت اماں عائشہ کے خلاف درسِ نظامی کا مؤقف یہ ہے کہ ” قرآن میں تین مراحل کا ذکر ہے۔ قرآن میں 3 کا عدد خاص ہے اور اس پر جوں کے توں عمل ضروری ہے۔ جس طہر میں طلاق دی جاتی ہے تو وہ ادھورا ہوجاتا ہے اور باقی دو طہروں کو ملایا جائے تو عدت کے مراحل تین نہیں بلکہ ڈھائی بن جائیںگے۔ اسلئے طہر کو عدت میں شمار نہیں کرنا ہوگا بلکہ حیض ہی کو عدت میں شمار کرنا ہوگا تاکہ عدت پوری 3عدد کی بن جائے۔ (نورالانوار : ملاجیون)۔ میں جامعہ بنوری ٹاؤن(نیوٹاؤن) کراچی میں پڑھتا تھا توہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان تھے۔ میں نے عرض کیا کہ پھر طہر کا اضافہ ہوجائیگا،اسلئے کہ جس طہر میں طلاق دی ہے تو وہ بھی انتظار کی مدت کا حصہ ہے جس سے 3کے بجائے عدد ساڑھے تین بن جائیگا؟۔ استاذ نے میری بات میں وزن سمجھا اور معاملہ آئندہ آنے والے دلائل پر ٹال دیا لیکن وہ بیمار اور ضعیف العمر تھے اسلئے زیادہ بحث مناسب نہیں تھی۔ البتہ شرح الوقایہ میں قاری مفتاح اللہ سے پوچھ لیتا تھا تو وہ ملاجیون کی سادگی کا لطیفہ سنادیتے تھے۔ اور اس توقع کا اظہار فرماتے تھے کہ آئندہ میں نصاب کی غلطیوں کو درست کرلوں گا۔ مجھے اپنے اساتذہ کرام کی تعلیم وتربیت ، حوصلہ افزائی پر ناز ہے اور اب ایک بدمعاش مافیا کا راج ہے جس نے مولانا سید محمد بنوری کے قتل وشہادت پر خود کشی کا ڈرامہ رچایاجو جنگ اخبار کی خبر بن گیا۔ کوئی بھی زندگی کا اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا ۔ میرے پاس قرآن وسنت ، عقل وفہم کا ہتھیار ہے جسکا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا جیسے سورج کا مقابلہ اندھیرا نہیں کر سکتا ۔ ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشائ
عورت پر نعرہ مسلط کیا گیا کہ ” میرا جسم میری مرضی”۔ لیکن جب قرآن وسنت کے مقابلے میں مسخ شدہ اسلام کا تصور سامنے آئیگا تو پھر مدارس والے اپنے نصاب سے ہی شرمندہ ہونگے کہ عورت میدان میں ٹھیک نکل گئی ہے۔
لوگوں کی راۓ