حضرت عائشہ کے خلاف بہتان میں کون لوگ ملوث تھے؟۔
فروری 27, 2021
حضرت عائشہ کے خلاف بہتان میں کون لوگ ملوث تھے؟۔ قرآن کی آیت میں تفاسیر کی وضاحت سے لوگوں کا قبلہ بالکل درست ہوجائیگا۔ شیعہ سنی فسادات کے بجائے علمی انداز میں پارلیمنٹ کے فلور پر مسائل حل کرینگے۔
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
بیشک جنہوں نے بہتان گھڑا،وہ تم میں سے گروہ ہے ، اس کو اپنے لئے شرنہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے خیر ہے، ہر ایک نے اپنا گناہ کمایااور جس نے بڑا حصہ اُٹھایا اس کیلئے بڑا عذاب ہے۔
بخاری، طبرانی اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُموی کا یہ قول منقول ہے کہ الذی تولّٰی کبرہ کے مصدق علی ابن ابی طالب ہیں( تفہیم القرآن ، جلد سوم :سیدا بوالاعلیٰ مودودی)
سورۂ نور میں اللہ نے فرمایا: ان الذین جآء و ا بالافکِ عصبة منکم لاتحسبوہ شرًالکم بل ھو خیرلکم لکل امریٔ منھم ما اکتسب من الاثم و الذی تولّٰی کبرہ منھم لہ عذاب عظیمO
” اور جو بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے اندر ہی کا ایک ٹولہ ہے۔ اس واقعہ کو اپنے لئے شر مت سمجھو بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔ ہر آدمی نے اس گروہ میں سے اپنے حصے کا گناہ کمالیا ہے۔ اور جو اس کاروائی کا سرغنہ تھا اس کیلئے بہت بڑا عذاب ہے”۔
بریلوی مکتبۂ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے کہ ” اصل کردار مسلمانوں کا تھا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے صرف بہتان کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا”۔ بہتان لگانے والے حضرتوں کو اسّی اسّی (80،80)کوڑوں کی سزا بھی دی گئی تھی۔ جن منافقوںکا اس واقعہ میں اہم کردار تھا نبیۖ نے ان کو سزا نہیں دی لیکن جن مؤمنوں نے یہ کردار ادا کیا تھا ،ان پر حدِ قذف کے کوڑے برسائے گئے۔ مولانا مودودی اور علامہ سعیدی کی تفاسیر میں تفصیلات سے زبردست نتائج اخذ کرکے ہم اپنے موجودہ معاشرتی نظام کو بدل سکتے ہیں۔ ہم کافروں اور منافقوں پر سزاؤں کے نفاذ اور اپنوں پر نرمی برتتے ہیں۔
حضرت ابوایوب انصاری سے جب آپ کی بیوی نے ان افواہوں کا تذکرہ کیا تو پھر اس نے بیوی سے پوچھ لیا کہ ”اگر آپ حضرت عائشہ کی جگہ ہوتیں تو اس جرم کا ارتکاب کرتیں؟۔ اس نے کہا کہ خدا کی قسم ہرگز اس کا ارتکاب نہ کرتی۔ حضرت ابوایوب نے کہا : توحضرت عائشہ بدرجہا آپ سے بہتر ہیں۔ اگر میں صفوان کی جگہ پر ہوتا تو میں ہرگز یہ حرکت نہیں کرسکتا تھا، صفوان مجھ سے بہتر مسلمان ہیں۔ بہتان میں ازواج مطہرات نے کوئی حصہ نہیں لیا۔ حضرت زینب کی سگی بہن حمنہ بنت جحش محض ان کی خاطر ان کی سوکن کو بدنام کررہی تھیںمگر خود انہوں نے سوکن کے حق میں کلمہ خیر کہہ دیا۔ حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ازواجِ رسول اللہ میں سب سے زیادہ زینب سے ہی میرا مقابلہ رہتا تھا مگر واقعہ افک کے سلسلے میں جب رسول اللہ ۖ نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو؟۔ انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ! میں اس کے اندر بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتی ہوں۔ حضرت عائشہ کی اپنی شرافتِ نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابت نے آپ کو بدنام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا مگر وہ اس سے ہمیشہ عزت وتواضع سے پیش آتی رہیں۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ وہ شخص ہیں جس نے آپ کو بدنام کیا تھا۔ تو یہ جواب دیکر ان کا منہ بند کردیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دشمنان اسلام شعراء کو رسول اللہۖ اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا۔
حضرت ابوبکر نے اپنے رشتہ دار حضرت مسطح کے سارے گھرکی کفالت لے رکھی تھی اور حضرت حسان ، حمنہ بنت جیش اور حضرت مسطح پر حدقذف لگائی گئی تھی۔ حضرت ابوبکر نے عہد کیا کہ آئندہ میں ان کی مالی مدد نہیں کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ مالدارمؤمنوں کیلئے مناسب نہیں کہ ضرورت رکھنے والے مؤمنوں کی مدد سے دست کش ہوجائیں۔ پھر حضرت ابوبکر نے مدد بھی بحال کردی۔ ایلاء بھی یمین یعنی عہدوپیمان ہے اور یہ حلف نہیں ہے اسلئے حضرت ابوبکر نے اس کو توڑنے کا کفارہ بھی ادا نہیں کیا تھا۔
عربی میں لاتعلقی کے معاہدے کو ایلاء کہتے ہیں۔ ایلاء وہ یمین ہے جس میں حلف نہیں اٹھایا جاتا ہے۔ سورۂ مائدہ میں یہ واضح ہے کہ یمین پر کفارہ اس وقت ضروری ہے کہ جب حلف اٹھایا جائے۔ سورۂ بقرہ اور سورۂ نور میں ایلاء سے مراد حلف نہیں ہے۔ مولانا مودودی نے بھی فقہ واصولِ فقہ کی کتابوں میں علماء کی وجہ سے مغالطے سے نقل کردیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ کی آیت میں ایک طرف بہتان طرازی میں ملوث گروہ کی بھرپور وضاحت کردی کہ یہ تم میں سے ایک گروہ ہے۔ ہر ایک نے حصہ بقدر جثہ نہیں بلکہ گناہ بقدر حصہ اس میں کمالیا ہے۔ پھر اس شخص کا ذکر کیا ہے کہ جس نے افواہ سازی میں اپنا بڑا کردار ادا کیا تھا۔ وہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تھا ،اس کیلئے آخرت کے حوالے سے عذاب عظیم کا ذکر ہے۔ صحابہ کرام اگر زنا میں ملوث ہوتے تب بھی اپنے اوپر حد نافذ کرواتے اور بہتان طرازی میں حصہ لیتے تب بھی اپنی سزا دنیا میں بھگت لیتے تھے۔
پاکستان کی حکومت و ریاست ایک عظیم الشان اسلامی کانفرنس کا انعقاد کرکے دنیا بھر سے علماء ومفتیان اور اسلامی اسکالروں کو طلب کرے تو بہت سارے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ بخاری میں ہے کہ سورۂ نور کی آیات نازل ہونے کے بعد کسی پر سنگساری کی سزا کا مجھے یاد نہیں ہے کہ کسی پر نافذ کی گئی ہو۔ رسول اللہۖ نے پہلے کافر ومسلم اور مردو عورت پر یکساں سنگساری کا حکم نافذ کیا تھا لیکن سورۂ نور میں اتنی بڑی وضاحت کے بعد سنگساری کا حکم کیسے نافذ کیا جاسکتا تھا؟۔ ایک ایک واقعہ کو سینکڑوں دفعہ نقل کرنے سے واقعات کی تعداد نہیں بڑھ سکتی ہے۔ المیہ یہی رہاہے کہ ایک واقعہ مختلف انداز اور الفاظ میں نقل کرکے اصل واقعے پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کا مسلک یہ ہے کہ مرد جب تک چار مرتبہ اپنی ذات پر زنا کی گواہی نہیں دے گا تو اس پر حد نافذ نہیں ہوگی لیکن عورت ایک مرتبہ بھی گواہی دے گی تو اس پرحدنافذ کردی جائے گی اور اس کی وجہ ان مسالک کا روایت پرست ہونا ہے جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک واقعہ کی تفصیل تمام روایات کو مدنظر رکھ کر مسئلہ استنباط کیا جاسکتا ہے۔ مختلف روایات میں واقعہ کی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ نبیۖ نے عورت کو بار بار لوٹانے اور مختلف مدتوں میں اپنے اوپر اقرار جرم کے بعد آخر کار حد نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اگر حقائق کی طرف درست توجہ کی گئی تو عالم اسلام اور دنیا میں اسلامی نظام قابلِ قبول بلکہ ضروری قرار دیا جائے گا۔
قرآن وسنت میں زنابالجبر کی سزا قتل اور سنگساری ہے۔ اگر دنیا میں اس پر عمل ہوا تو پھر دنیا بھر سے جبری جنسی زیادتیوں اور قتل کے واقعات کا قلع قمع ہوسکے گا۔ زنا کی گواہی اور پاکدامن عورت پر بہتان لگانے کی گواہی میں بہت واضح فرق ہے۔ اگر پاکدامن پر کسی نے بہتان لگایا تو معاشرے میں ان کو سپورٹ نہیں مل سکتی ہے اور اگربدکار کیخلاف چار افراد نے گواہی دی تو معاشرے میں کافی لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔ جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو ایک ماہ تک وحی نازل نہیں ہوئی۔ حضرت یعقوب سے حضرت یوسف کے فراق کی آزمائش اور پھر آپ پر بہتان لگاکر قیدخانے کی سزا کو بہت عرصہ گزر گیا۔ انبیاء کرام اور اچھے لوگوں کی آزمائشیں معاشرے کیلئے بہترین نمونہ بنتی ہیں اورپھر عرصہ تک لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرکے اپنی اصلاح کرتے ہیں۔
جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو لوگوں نے اپنی اپنی بات کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے موقع پر مؤمنوں اور مؤمنات کیلئے مناسب ہوتا کہ اگر وہ یہ کہتے کہ یہ بہتان عظیم ہے۔ قرآن نے معاشرے کی تعلیم وتربیت کیلئے نبیۖ اور حضرت عائشہ اور آپ کے والدین حضرت ابوبکر اور حضرت ام رمان کو اتنی بڑی آزمائش میں ڈال دیا۔ نبیۖ نے پھر پوچھ لیا کہ آپ کیا کہتی ہیں؟۔ اگر کوئی جرم نہیں کیا ہے تب بھی بتادیں اور جرم کیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں۔ حضرت عائشہ نے یہ سن کر اپنے والدین کی طرف دیکھ لیا کہ وہ جواب دیں۔ لیکن انہوں نے بھی خاموشی اختیار کرلی تو حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ اگر میں جھوٹ بول کر کہوں گی کہ میں نے جرم کیا ہے تو لوگ اس پر یقین کرلیںگے اور سچ بولوں گی کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے تو میری بات کا یقین نہیں کیا جائے گا۔
اس دوران وحی نازل ہونا شروع ہوئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں آپ کے برأت کی بھرپور آیات نازل کیں۔ جس پر والدین نے حضرت عائشہ سے کہا کہ رسول اللہۖ کا شکریہ ادا کرلو۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ میں نہ تمہارا شکریہ ادا کروں گی اور نہ رسول اللہ ۖ کا بلکہ صرف اللہ کا شکر ادا کروں گی۔ کیونکہ صرف اللہ نے میرا ساتھ دیا۔یہ توقع مجھے اللہ سے تھی کہ کسی طرح نبیۖ کو مطلع کرد یگا کہ میں بے قصور ہوں لیکن خود کو اس قابل نہیں سمجھ رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل کردیگا ۔
جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں رسول اللہ ۖ کی عزت وتوقیر کرنے کا مؤمنوں کو حکم دیا ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ وحی میں اس طرح کی آزمائش کے بعد توقیر نہ کرتے؟۔اہل تشیع کے علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی نے کہا کہ جب حضرت عائشہ نے حضرت علی سے جنگ کی تو شکست کے بعد حضرت علی نے نقاب پوشوں کا ایک بڑا لشکر ساتھ روانہ کیا تھا۔ (حضرت عائشہ کے بھائی حضرت محمد بن ابی بکر ساتھ تھے) حضرت عائشہ نے اعتراض کیا کہ مجھے اتنے مردوں کے لشکر میں بھیج دیا۔ یہ میری عزت وتوقیر کے خلاف تھا۔ پھر اس لشکر کو حکم دیا گیا کہ اپنے نقاب اٹھالوں۔ جب نقاب اٹھائے تو وہ سب خواتین تھیں۔
شیعہ سنی اختلافات کو بھڑکانے کے بجائے افہام وتفہیم کی طرف لیجانے کی کوشش ہی دونوں کیلئے فائدہ مند ہے۔ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی نے بارہ ائمہ اہل بیت کے بارے میں جو کچھ اپنے مکتوبات میں لکھ دیا ہے اس سے زیادہ کے اہل تشیع بھی قائل نہیں ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اہل ولایت کے لئے بارہ ائمہ اہل بیت کو اصل اور تصوف کے سلسلوں کو ان کی فروعات قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی یہی باتیں لکھ دی ہیں۔ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل تشیع اپنے ائمہ کو خلفاء راشدین کے مقابلے میں معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں اور انبیاء کرام سے بھی اونچا مقام دیتے ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ولایت کا مقام واقعی ایسا ہی ہے جو معصومیت کا تقاضہ کرتا ہے ۔ حنفی مسلک میں یہ مشہور مسئلہ ہے کہ ایک بات میں سو احتمال ہوں اور ان میں ننانوے(99)احتمال کفر اور ایک احتمال اسلام کا ہو تو اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائیگا۔ سنی لکھتے ہیں کہ” حضرت علی نے نبیۖ کو مشورہ دیا کہ جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا ہے تو طلاق دیدیں”۔ حضرت عمر نے کہا کہ” اللہ کے حکم سے نکاح کیا تھاتو برائی کا امکان نہیں ہوسکتا،وحی کا انتظار کریں”۔
حضرت عمر کی رائے کے مطابق وحی نازل ہوئی جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کی اس رائے کو رد کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ مؤمنوں نے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ بہتان عظیم ہے۔
سنی علماء ومفتیان اور عوام کی رائے یہ ہے کہ منشاء خداوندی کا ادراک جس طرح سے حضرت عمر کو متعدد مواقع پر ہوا تھا ۔ جس میں حضرت عائشہ کی عصمت کے علاوہ بدر کے قیدیوں پر فدیہ نہ لینے کا مشورہ بھی شامل تھا تو کس طرح حضرت علی کیلئے معصومیت کا عقیدہ اس طرح سے درست ہوسکتا ہے کہ انبیاء کرام کیلئے اللہ نے فرمایا ہے کہ ماکان لنبی ان یکون لہ اسریٰ حتی یثخن فی الارض ”نبی کیلئے مناسب نہیں کہ جب آپ کے پاس قیدی ہوں ، یہاں تک کہ زمین پر ان کا اچھی طرح خون بہادے”۔ جب حضرت موسیٰ نے غلطی سے ایک شخص کو قتل کیا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو معجزات سے نواز دیا تھا،تب بھی حضرت موسیٰ خوف کھارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا : رسولوں میں سے کوئی ایسا نہیں گزرا ہے جو معجزات کے باجود خوف کھارہاہو مگر جس نے ظلم کیا۔ آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف ظلم کی نسبت کی گئی ۔ اب اگر کوئی یہ منطق بھی بنالے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے”۔ حضرت آدم ، حضرت یونس اور حضرت موسیٰ کی طرف ظلم کی نسبت قرآن نے کی ہے تو ہدایت کیسے ملی؟۔
اہل تشیع کو چاہیے کہ صحابہ کرام کے بارے میں الٹی سیدھی منطق سے اپنی عوام کے ذہنوں کو نہ بھریں۔ اگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے بارے میں دو فرقے ہوتے تو پھر بات سر اور داڑھی کے بالوں سے پکڑنے تک محدود رکھنے کے بجائے نعوذ باللہ کپڑے اتارنے کی حد تک بھی پہنچادیتے۔ اللہ نے حضرت عائشہ کی برأت اس وقت کر دی جب وحی نازل ہونے کا سلسلہ جاری تھا ورنہ معاندین کہاں تک بات پہنچادیتے؟۔
تاہم اگراہل تشیع اپنے ائمہ کو پیغمبروں سے بڑھ کر بھی معصوم سمجھتے ہیں تو اس میں پھر بھی اسلام کا احتمال اسلئے موجود ہے کہ حضرت موسیٰ نے غلطی سے قتل کردیا تو معافی مانگنے کی ضرورت پڑ گئی ۔ حالانکہ قتل خطاء بڑا گناہ نہیں ہے اور حضرت خضر علیہ السلام نے جب معصوم بچے کو جان بوجھ کر بھی قتل کیا تو آپ کی معصومیت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ ہمارے نزدیک وہ پیغمبر نہیں بلکہ ولی ہیں اور ان کا علم اور تجربہ حضرت موسیٰ سے زیادہ بھی تھا۔
اگرچہ ڈھیر سارے اولیاء کرام کے قصوں میں حضرت خضر کی داستان ملتی ہے ۔ قرآن میں انکے قتل عمد کو بھی معصومیت بلکہ فرض قرار دیا گیا ہے تو اہل تشیع کے امام زمانہ پر یقین رکھنا بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ہاں اہل سنت کے نزدیک امام ہر دور میں نہیں ہوتا ہے۔ پیغمبروں کے درمیان بھی فترت کا زمانہ ہوتا ہے۔ اگر امام حضرت خضر کی طرح ہی غائب رہے۔ بچے کے قتل کیلئے حاضر ہو اور بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل سے اور عورتوں کو عزت دری سے بچانے کیلئے حضرت موسیٰ کی بعثت ہو تو فی الحال دنیا کو حضرت خضر کے کردار کی نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کردار کی ضرورت ہے جس سے غلطی کی بنیاد پر کوئی قبطی قتل بھی ہوجائے تو کم ازکم بنی اسرائیل کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔
کوئی بات ناگوار لگی ہو تو معذرت چاہتا ہوں ۔ مقصد شعور کی فضاء کو عام کرنا ہے اور جب تک کوئی اچھے دن نہیں آئیں اس وقت تک اپنی کوشش جاری رہے گی ۔ انشاء اللہ
NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat
لوگوں کی راۓ