پوسٹ تلاش کریں

جب حق آجائے تو شدت پسندوں کے باطل عقائد اور نظریات روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اُڑیں گے

جب حق آجائے تو شدت پسندوں کے باطل عقائد اور نظریات روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اُڑیں گے اخبار: نوشتہ دیوار

شدت پسند مذہبی طبقے اسلام سے دور ہیں۔ ایمان، صالح عمل ، حق کی تلقین اور صبر کی تلقین میں شدت پسند سب سے پیچھے ہیں اور جب حق آجائے تو ان کے باطل عقائد اور نظریات روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اُڑیںگے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مساجد ومدارس ، خانقاہیں وامام بارگاہیں شدت پسند طبقات کی آماجگاہیں ہیںمگر احادیث صحیحہ میں مذہبی طبقوںکی شدید الفاظ میں مذمت ہے۔ کیامذہبی طبقے حق کی طرف آئیں گے؟

شہید اسلام حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” مذہبی طبقے کے علاوہ حکام، تجاراور معاشرے کے ہرطبقے کو آئینہ دکھا دیا۔

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے ماہنامہ ” البینات ” رسالہ نکلتا تھا اور اب بھی شاید شائع ہورہاہو۔ حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوریاور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی گرانقدر تحریرات اس میں شائع ہوتی تھیں۔ جب مولانا یوسف بنوری نے اپنے مضمون کے عنوان ” عبر وبصائر ” پر آیت لکھنا شروع کردی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے عرض کیا کہ اس سے ایک اشتباہ ہوتا ہے کہ آپ کی تحریر میں قرآن کی طرح لوگوں میں بصائر ہیں۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری نے یہ نہیں سوچا کہ ایک چھوٹا عالم اور مدرسے کے رسالے کا ملازم مجھے یہ رائے اور رہنمائی دینے کا کیا حق رکھتا ہے بلکہ فوری طور پر بات قبول کرکے اپنے مضمون کا عنوان رہنے دیا اور اس آیت کو رسالے سے ہٹادیا ۔
جب مولانا سید محمدیوسف بنوری کی وفات ہوئی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے لکھ دیا کہ اسلاف کی آخری نشانی ہمارے درمیان سے اُٹھ گئی ، اب کوئی عالمِ حق کا آئینہ نہیں بچا ہے۔ پھر وہ وقت بھی جلد آگیا کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود ،موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے درمیان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں بینکوں کی سودی رقم سے زکوٰة کی کٹوتی پر بحث ہوئی اور اسی بحث کے دوران مفتی محمود پر موت کا دورہ پڑگیا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اس ملاقات کا حال مفتی تقی عثمانی نے بھی ماہنامہ البلاغ دارالعلوم کراچی میں لکھا ہے اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے بھی ماہنامہ البینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں لکھا ہے۔ پھر اقراء ڈائجسٹ میں یہ دونوں مضامین ”مولانا یوسف بنوری ومولانا مفتی محمودنمبر” میں شائع ہوئے ہیں۔ مفتی محمود نے وفات پائی تو میں لیہ پنجاب میں تھا اور جمعیت علماء اسلام کے کارکن فیض محمدشاہین نے عبدالخیل ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کے جنازے میں شرکت کے بعد آکربتایا کہ مفتی محمود کو زہر دے کر شہیدکیا گیا ہے۔ اس وقت مذہبی لوگوں کے دلوںمیں پیپلزپارٹی سے سخت نفرت تھی اور پاک فوج سے بڑی محبت تھی۔ جب بھٹو کوپھانسی دیدی گئی تو مساجد میں حلوئے بانٹے گئے تھے۔ میرے بڑے بھائی ایس ڈی او واپڈا اس وقت چیچہ وطنی میں تھے اور بھٹو کی موت پر شدید رنج اور غم وغصے کا اظہار کررہے تھے ۔ محلے میں مسجد کے امام نے ان سے قرضہ لیا تھا وہ بھی اسی غصے میں واپس مانگ لیا تھا۔
جب مفتی محمود کی وفات کے بعدعلامہ سیدعبدالمجید ندیم شاہ لیہ آئے تھے تولوگوں نے جمعیت علماء اسلام کی پیپلزپارٹی کیساتھ شمولیت کی باز گشت سنی تو جلسہ ختم ہونے کے بعد ندیم صاحب سے پوچھا کہ کیا جمعیت نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے؟۔ ندیم صاحب نے بھاگ کر جان چھڑائی تھی کہ ابھی نہیں۔ جب مولانا فضل الرحمن جمن شاہ لیہ آگئے تو پیپلزپارٹی اور جمہوری قوتوں کیساتھ مارشل لاء کے خلاف بہت مدلل انداز میں بات کی اور پاک فوج کو احترام کیساتھ اقتدار سے الگ کرنے کیلئے زبردست دلائل دئیے اور یہ طلسم توڑ دیا کہ چوکیداری کرنے والے ہی اقتدار پر قبضہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
جب میں کراچی گیا تو جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیرمحمدنے کہا کہ مفتی محمود کو زہر دیا گیا تھا۔ جب مجھے بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ ملا تو وہاں پرانے رسالے طلبہ کو اٹھانے کیلئے دئیے گئے تھے۔ ان میں البلاغ کا وہ رسالہ بھی تھا جس میں مفتی محمود کی وفات کا مفتی محمد تقی عثمانی نے تذکرہ کیا تھا۔ تحریر دیکھ کر مجھے اس مذہبی طبقے پر بڑا غصہ آگیا جنہوں نے مفتی محمد تقی عثمانی پر مفتی محمود کو پان میں زہر کھلانے کا الزام لگایا تھا، اسلئے کہ اس مفتی تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ” ہمیں چائے کی پیشکش کی گئی تو ہم دونوں بھائیوں نے کہا کہ ہم دن میںصبح ایک بار چائے پیتے ہیں اور پھر دن بھر نہیں پیتے”۔ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم کے کھانے کی دعوت قبول نہیں کی تو دل میں خوف آیا تھا کہ مہمان دشمن تو نہیںہیں؟۔ مگر مفتی محمود نے دونوں بھائیوں کے ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے کہا کہ ” میں خود چائے زیادہ پیتا ہوں لیکن اگر کوئی چائے نہیں پیتا ہے تو اس کو پسند کرتا ہوں”۔ حالانکہ مفتی محمود معمول کی زندگی میں فرماتے تھے کہ چائے میں دودھ ہے اور دودھ کی دعوت قبول نہ کرنے سے نبیۖ نے منع فرمایا ہے۔ مذہبی لوگوں کا سیاست سے تعلق ہو تو وہ بات کو پلٹانے کی بھی مہارت رکھتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ”میں نے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔(پان کا بٹوہ دکھاکر) ”۔ مفتی محمود نے فرمایا کہ ”یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے”۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے مفتی محمود پر دورہ پڑنے کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر کے آنے اور مفتی صاحب کی روح پرواز کرنے تک کا واقعہ لکھا ہے۔ اس تحریر کے بعد مفتی تقی عثمانی پر پان کھلانے کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر جب کافی سالوں کے بعد اقراء ڈائجسٹ میں بنوری ومحمود نمبر میں مولانا یوسف لدھیانوی کی تحریر دیکھ لی تو اس میں یہ اضافہ بھی تھا کہ پھر مفتی محمد تقی عثمانی نے اصرار کرکے مفتی محمود کو پان کھلادیا۔ جب تھوڑی دیر بعد مفتی محمود پر دورہ پڑگیا تو مفتی محمدرفیع عثمانی نے دل کے دورے کی خصوصی گولی مفتی صاحب کے حلق میں ڈال دی۔ اقراء ڈائجسٹ کی مجلس مشاورت میں حاجی محمدعثمان کا نام بھی لکھا تھا۔ بنوری ومحمود نمبر میںحاجی عثمان کے نام کی جگہ ستارے کے نشان لگادئیے ۔
جمعیت علماء اسلام کے قاری شیرافضل خان نے مفتی محمود کے جلسے میں مرزائی نواز جنرل ضیاء کے نعرے لگائے تو مفتی محمود نے کہا کہ مرزائی نواز نہیں مرزائی کہو۔ جنرل ضیاء کے بیٹے ڈاکٹرانوارالحق کی شادی مشہور قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی سے ہوئی اور اس کا نکاح پڑھانے کیلئے مفتی تقی عثمانی اپنے مرشد ڈاکٹر عبدالحی خلیفہ مجاز مولانا اشرف علی تھانوی کو لے گئے۔ جنگ کے میر شکیل الرحمن نے قادیانی لڑکی کو مولانا یوسف لدھیانوی کے ہاتھ پرمسلمان کرنے کے بعد نکاح کیا تھا۔ مولانا یوسف لدھیانوی نے بتایا تھا کہ جو فتویٰ اور خط کا جواب اقراء ڈائجسٹ میں ان کی طرف منسوب کرکے حاجی عثمان کیخلاف شائع کیا گیا ہے یہ مفتی محمد جمیل خان نے لکھا ہے اور یہ ساری خباثت مفتی رشید لدھیانوی کی ہے۔ آج جامعة الرشید اسی مفتی رشید کی طرف منسوب ہے اور اسکے مہتمم مفتی عبدالرحیم کی چشم کشا تحریرات ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ سارے حقائق کو عوام کے سامنے لایا جائے تو پھر مذہبی طبقات کے چہروں سے بہت سارے نقاب اُٹھ جائیںگے۔ جب ہم نے مولانا یوسف لدھیانوی کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی کی مفتی محمود کی وفات کے حوالے سے کہانی لکھ دی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے بتایا تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے بہت ڈانٹا کہ آپ نے ماجرا لکھ کر مجھے پھنسادیا ۔مولانا یوسف لدھیانوی نے اپنی طرف منسوب غلط فتوے سے بھی معذوری ظاہر کی لیکن حاجی عثمان کی قبر پر داماد کیساتھ گئے تھے۔
جب حضرت حسین پر مشکل وقت آیا تو کوفہ کے شیعہ، مدینہ ومکہ کے صحابہ سمیت کسی نے بھی یزید کے خلاف کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی تھی۔ جان کو خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے کلمہ ٔ کفر بھی معاف کردیا ہے لیکن عزیمت والے اور سازش میں شریک ہونے والے برابر نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب حاجی عثمان پر فتوے لگے تو خانقاہ میں بڑی تعداد میں مرید ہونیوالوں کا تقویٰ پوٹی پیشاب کی طرح بہت بری طرح بہہ گیا۔ پھر حاجی عثمان کی وفات کے بعد بھی مذہبی طبقے کا مسجد الٰہیہ اور خانقاہ چشتیہ میں کردار بہت قریب سے دیکھ لیا تھا۔ جب حقائق کو منظر عام پر لایا جائیگا تو لوگ حیران ہونگے کہ یہ مذہبی طبقے کا حال تھا؟۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی مقبول کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” مارکیٹ سے غائب کردی گئی جسکے لاکھوں نسخے تیزی سے فروخت ہونے کا دعویٰ بھی کتاب پر لکھ دیا گیا لیکن شائع نہیں ہورہی ہے۔ مولانا سید محمد بنوری کی شہادت نے ثابت کردیا تھا کہ خود کشی کا جھوٹا الزام لگانیوالے قتل میں ملوث تھے اور مولانا یوسف لدھیانوی ، مفتی نظام الدین شامزئی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار،مفتی عبد السمیع، مفتی سعیدا حمد جلالپوری اور مفتی عتیق الرحمن اور مفتی جمیل خان کے قتل کے پیچھے بھی اسی گینگ کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہے۔ ویسے شیعہ سنی نے بھی اپنے اپنے پالتو دہشتگرد رکھے تھے لیکن جب شرافت کے لبادوں میں چھپے ہوئے رستم میدان میں کھل کرسامنے آجائیںگے تو یوم تبلی سرائر ”اس دن بڑے بڑے رازوں سے پردہ اُٹھ جائیگا”۔ مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب عصر حاضر میں مساجد کے ائمہ کو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے اور ان میں نماز پڑھنے والوں کو ہدایت سے بالکل عاری گمراہ قرار دیا گیا ہے۔ مدارس کے رئیس دارالافتاء کو علماء حق کے اُٹھ جانیکی وجہ سے جاہل قرار دیا ہے جن سے فتوے پوچھے جائیں گے تو بغیر علم کے فتوے دیںگے اور خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریںگے۔ یہ بھی روایت میں لکھ دیا ہے کہ علماء حق سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن حق واضح ہونے کے بعد باطل پر ڈٹ جانے والا عالم نہیں بلکہ کھلم کھلا شیطان ہے۔ مذہبی لبادے اور مذہبی زبان میں لوگوں کو جہنم کی طرف بلانے والی روایت بھی لکھ دی ہے جس میں حکم ہے کہ مسلمانوں کی جماعت اور اسکے امام سے مل جاؤ لیکن اگر اس وقت نہ مسلمانوں کی جماعت اور نہ امام ہو تو ان سارے فرقوں سے الگ ہوجاؤ، چاہے درخت کی جڑ چوس کر گزارہ کرنا پڑجائے۔
قاری شیر افضل خان نے بتایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ”رسول اللہۖ قرآن کا درس دے رہے ہیں۔ مولانا یوسف بنوری اس درس قرآن میں موجود ہوتے ہیں اور کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن مفتی محمود کو اس درس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملتی ہے۔ میں نے مفتی محمود صاحب کو خواب بتایا تو مفتی صاحب نے کہا کہ مولانا بنوری کا بڑا مقام ہے اور مجھے اللہ نے اتنا اعزا ز نہیں بخشا ہے”۔ تبلیغی جماعت والے اپنے گناہوں کو اللہ سے بخشوانے کیلئے جماعت میں وقت لگاتے ہیں اور مفتی محمود صاحب سیاسی دغا بازی کی معافی مانگنے کیلئے حج پر جاتے تھے۔ جب مولانا احمد جان نے مفتی محمود سے کہا کہ میرے حلقے میں میرے لئے ووٹ مانگو۔ آپ نے کلثوم سیف اللہ سے ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کی سیٹ پر اپنے لئے گٹھ جوڑ کررکھاہے۔ جمعیت کے ہر امیدوار کیلئے ووٹ مانگنا آپ کا فرض ہے تو مفتی محمود نے عوام سے کہا کہ مولانا احمد جان کہتا ہے کہ مفتی محمود ڈیرہ اسماعیل خان کا نام لیتا ہے بنوں کا نام نہیں لیتا ہے۔ جب میرا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے تو میں ہر جگہ ڈیرہ اسماعیل خان ہی کے حوالے سے اپنا تعارف کراؤں گا۔ سیاسی دغہ بازی کا کھیل بہت تاریخی اور پرانا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ