عورت اپنے حقوق کیلئے قرآن کے احکام کو صرف دیکھ لے
جولائی 13, 2020
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
عورت اپنے حقوق کیلئے قرآن کے احکام کو صرف دیکھ لے
عورتیں اپنے حق کیلئے اُٹھیں!
اماں عائشہ نے قرآن وسنت کے مطابق اپنا درست فیصلہ بتایا تھا کہ” عدت کے تین قروء سے مراد اطہار ہیں”۔ لوگ اپنے ذوق سے اعتکاف میں بیٹھتے ہیں۔روزہ رات نہیں دن سے شروع ہوتا ہے لیکن اعتکاف رات سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ رات میں کھانا پینا جائز ہے اور صبح سے رات تک روزہ رکھنا پڑتا ہے۔ عید کے چاندکی خبر ملتی ہے تو جیل کے قیدیوں کی طرح اعتکاف والوں کو رہائی پانے کا احساس لگتا ہے۔ عید کی رات فضائل سے بھرپور ہوتی ہے مگر اعتکاف کرنے والے یہ مشقت بہت کافی سمجھتے ہیں۔
جب ایک عورت کو طلاق وعلیحدگی کی خبر سنائی جائے تو اسکے ساتھ حیض میں بھی مقاربت نہیں ہوسکتی ہے۔ پھر اس کا طہر میں طلاق کا پہلا روزہ شروع ہوجاتا ہے۔ اعتکاف کی رات اور پہلے دن کے روزے میں بھی مشقت ہوگی مگر عورت کیلئے عدت کا یہ پہلامرحلہ بہت مشکل کا ہوتا ہے ۔ اللہ کے حکم سے اس نے اپنے نفس پر قابو رکھ کربہت تکلف کیساتھ یہ مرحلہ طے کرنا ہے۔ پھر حیض آجائے تو مقاربت نہیں ہوسکتی۔ پھر دوسرے طہر میں انتظار کی گھڑیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ روزہ ایک دن کا ، اعتکاف دس دن کا ہوتا ہے لیکن یہ تو ایک مرحلہ مہینے تک ہوتا ہے۔ پھر حیض آتا ہے تو مقاربت نہیں ہوسکتی ہے ۔ پھر طہر کا زمانہ آتا ہے تو اُمید کی آخری سانسیں دم توڑ تی ہیں۔ عورت یہ عدت کس طرح سے گزار تی ہوگی جو شوہر سے جدا نہ ہونا چاہتی ہو؟۔ بچے تو برباد ہوں اور خوشی کے طلوعِ فجر کی جگہ غموں سے لتھڑا دل اندھیروں میں نامعلوم منزل کی جانب ڈوب رہا ہو۔ جس کو حدیث میں ابغض الحلال الطلاقنا پسندیدہ حلال کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت طلاق کا عمل ہے۔ یہ عورت کا جگر اور دل گردہ ہے کہ بار بار حمل ، زچگی اور بچے کو دودھ پلانے کیلئے بے خوابی کی مشقت برداشت کرلیتی ہے۔اسی طرح نہ صرف عدت کے مشکل ادوار گزارتی ہے بلکہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی بیٹھ کر رشتہ نباہنے کی خواہش پالتی ہے۔ یہاں تک کہ بیوہ عدت گزارنے کے بعد زندگی بھر اپنے وفات شدہ شوہر کی وفاداری میں گزارتی ہے۔ یہ عورتوں کی خاصیت ہے۔ اپنے شوہر کیساتھ عہد وفا داری عورت کی سرشست اور فطرت کا اہم حصہ ہوتی ہے۔
نغمانہ شیخ نے لکھا” عورت جو کہ پہاڑ سے ٹکرا سکتی ہے ۔ سمندری طوفانوں کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ آندھیوں کے مقابلے میں ڈٹ سکتی ہے۔ حتی کہ ساری دنیا سے لڑنے کا یارارکھتی ہے۔ مگر یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کی شریک ِ الفت اور کوئی عورت ہوجائے۔ وہ یہ دکھ نہیں جھیل سکتی”۔
دھوپ میں جلتے خواب صفحہ109: افسانے، نغمانہ شیخ
عورتیں سوکن کو ساہڑی(سندھی میںسہیلی) کہہ کر عملی طور پر برداشت کرکے دکھاتی ہیں۔ عربی میں ضرہ( ضرر سے) کہا جاتا ہے مگر ہرقوم میں عورت یہ مشکل بھی سہہ لیتی ہے۔ پروین شاکر کی مشہور غزل ” میں اس کی دلہن اپنے ہاتھوں سے سجاؤں گی” ۔ ”جہاں بھی گیا لوٹ کے میرے پاس آیا یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی”۔ عورت گاتی ہے۔
حضرت عائشہ نے مختلف ادوار دیکھے تھے۔ فرمایا کہ لبید کہتا ہے کہ وہ لوگ گئے جن کے سایوں میں زندگی بسر ہوتی تھی ،اب ہمیں بہت گرے پڑے لوگوں سے واسطہ ہے۔ اللہ لبید پر رحم فرمائے ،اگر ہمارا زمانہ دیکھ لیتا تو کیا کہتا ؟۔
حضرت عائشہ کے دور میں واقعہ ہوا۔ قرآن و سنت پر عمل ہوتاتھا۔ عدت کے دوران اور عدت کی تکمیل پر رجوع کا دروازہ کھلا تھا۔ ایک عورت نے پہلی مرتبہ اپنا حق استعمال کیا اور آخری طہر کے بعد حیض آیا تو شوہر سے جدا ہوگئی۔
جب آخری طہر کے بعد حیض آنے پر عدت ختم ہو تو بھی قرآن نے عدت کی تکمیل کے بعد بار بار معروف طریقے سے یعنی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے مگر ہمارے کم عقل فقہاء لکھتے ہیں کہ ” اگر آدھے سے زیادہ بچہ ماں کے پیٹ سے نکلا تو رجوع نہیں ہوسکتا اور اگر کم نکلا تو پھر رجوع ہوسکتا ہے”۔مفتی تقی عثمانی نے پہلی مرتبہ اپنے ”آسان ترجمۂ قرآن ” میں ترجمے کے الفاظ میں کھلم کھلا تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔ عدت کی تکمیل کے بعد آیات میں ایک ہی طرح کے الفاظ کے متضاد ترجمے کردئیے۔ اگر صحابہ کے ذہن میں یہی تھا کہ تیسرے طہر کے بعد عدت کی تکمیل ہوگئی ہے تو پھر بھی حیض کے اندر باہمی صلح و معروف طریقے سے رجوع کو قرآن وسنت کے مطابق سمجھتے تھے۔ جبکہ علماء نے دوسری طرف لکھا کہ اللہ نے عدت کی تکمیل پر بھی شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دیا ہے۔ حالانکہ معروف طریقے کا اتنا بڑا چاند ان کو نظر نہیں آتاہے، جبکہ عدت میں بھی اللہ نے صلح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے۔
بعض نے سمجھاتھا کہ آخری طہر کے بعد حیض میں عدت باقی رہتی ہے۔ عورت بیٹھنا چاہتی تو اس پر کوئی پابندی تو نہیں تھی لیکن تیسرے طہر کے بعد حیض آئے تو عدت ختم ہوجاتی ہے ۔پھرعورت کو عدت پرمجبور کرنا قرآن و فطرت کا حکم نہیں ہوسکتا ۔یہ کونسے عقل کی بات ہے کہ پہلا حیض و طہر انتظار کی مدت سے باہر کردیا جائے۔ پھر حیض کے بعد تیسرے حیض تک 3ماہ سے عدت بھی بہت کم بنتی ہے جبکہ جن کو حیض نہ آتا ہو ،ان کی عدت تین ماہ ہے۔ روزے کی نیت کچھ کھائے پیئے بغیر طلوع آفتاب کے بعد کی جائے تو بھی پورا روزہ شمار ہوگا۔ ادھورا نہیں۔
جب حضرت عائشہ نے قرآن کا حکم واضح کردیا تو اسکے بعد کسی معقول وجہ سے اس کا انکار درست ہوسکتا تھا مگر ایک بالکل غیرمعقول اور غیرفطری دلیل سے اس کو رد کرنا غلط تھا اور اس طرح کے معاملات ایک دو نہیں بلکہ بہت سارے ہیں اور معمولی نہیں بلکہ بہت بڑے بڑے ہیں ،اگر علماء اور عورت مارچ کا اہتمام کرنے والی خواتین کے درمیان اس پر مکالمہ شروع ہوگیا تو انقلابِ عظیم آجائے گا۔انشاء اللہ
قرآن میں بیوہ کی عدت 4ماہ 10 دن ہے۔جب کسی خاتوں کے شوہر کا انتقال ہوگیا اور 4ماہ 10دن سے پہلے بچے کی پیدائش ہوگئی تو اس نے عدت ختم کردی۔ نبیۖ نے اسکا فعل درست قرار دیا۔ احناف کا یہی مسلک ہے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ بچے کی پیدائش اور4ماہ10 دن میں سے جو زیادہ مدت ہو ،وہی عدت ہے۔ اگر عورت کے حمل کی مدت 4ماہ 10دن سے زیادہ ہو تو قرآن کے نص کے مطابق عورت اپنے لئے کم مدت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ عدت عورت گزارتی ہے اور سہولت اسکا حق ہے۔ اللہ نے عورت کو انتظار اور فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے۔
جس عورت کا شوہر گم ہوجائے ،احناف نے اس کیلئے 80سال کی عدت رکھی تھی۔ انگریز دور میں ایک عورت کو اتنی بڑی عدت سے چھٹکارا پانے کیلئے اسلام چھوڑنا پڑا۔ جس پر علماء نے امام مالک کے مذہب کے مطابق 4سال بعد عدت وفات4ماہ 10گزارنے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ اتنی بڑی عدت مقرر کرنے اور پھرکم کرنے کااختیار کیسے ملا تھا؟۔ اگر بچی کا پیدا ہوتے ہی نکاح ہوجائے پھراسکاشوہر گم ہوجائے تو کیا80سال بعد وہ نکاح کے لائق ہوگی؟۔ صدیوں جہالت پر کیسے فتویٰ دیا؟ اور حساب کون دیگا؟۔ بڑے لمبے عرصہ تک اسلاف کی طرف منسوب فتویٰ انتہائی گمراہانہ تھا تو کیادوسرے معاملات گمراہی کا شاخسانہ نہیں ہوسکتے؟۔ اس سلسلے میں علماء اور عورت آزادی والوں کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ قرآن وسنت کی طرف رجوع بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس اخبار میں بہت سارا مواد ملے گا۔
مولانا فضل الرحمن اس سلسلے میں علماء ومفتیان کی ایک کمیٹی تشکیل دیں۔ نصاب کے حوالہ سے غلطیوں کی بھرپور نشاندہی ہم کرتے رہے ہیں ۔ اسی طرح خواتین کے حقوق کے حوالہ سے فقہی مسائل کی ہم نے پہلے بھی دھجیاں بکھیری ہیں۔ بڑے مدارس کے بڑے مفتیان درون خانہ اپنی ان غلطیوں کا اعتراف کرچکے ہیں مگر ہمت نہیں رکھتے ہیں۔
ہم اس شمارے میں کچھ نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ قرآنی آیات کا واضح مفہوم کیا ہے اور مدارس کے نصاب اور قرآن کی تفاسیرنے کیا حشر نشر کیا ہے۔ جس پر رسولۖ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہٰذالقراٰن مھجورًا” اور رسولۖ فرما دینگے کہ اے میرے ربّ ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ (القرآن)
لوگوں کی راۓ